(بغداد پر انگریز کے قبضے کی خوشی میں قادیان میں چراغاں)
جناب یحییٰ بختیار: اور ایک اور سوال ہے کہ: ’’کیا یہ دُرست ہے کہ جس وقت بغداد پر انگریز کا قبضہ ہوا، عراق مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلا، اس وقت قادیان کی جماعت نے چراغاں کیا تھا؟‘‘
مرزا ناصر احمد: یہ میں جواب دے چکا ہوں کہ اس وقت۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! دیکھیں، سارے مسلمان اگر ایک وقت کریں کوئی چیز، جیسے کہ آپ نے کہا، آپ کے جواب سے یہ Impression (تأثر) پڑتا تھا کہ اس موقع پر سب مسلمانوں نے چراغاں کیا۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: اس کی تاریخ کیا ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: تاریخ یہاں نہیں لکھی، یہ ایک Historical Fact (تاریخی حقیقت) ہے، جب بغداد پر انگریزوں کا قبضہ ہوا۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: Historical Fact (تاریخی حقیقت) یہ ہے کہ وہ جنگ کا خاتمہ ہوگیا تھا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، ایک جنگ کا خاتمہ تھا، وہ تو Poppy Day سب دُنیا میں ہوتا رہا، ۱۸؍نومبر۱۹۱۹ء میں، ۱۱؍نومبر کے بعد، وہ چراغاں سب ملک میں ہوگیا تھا۔
مرزا ناصر احمد: نومبر انیس سو۔۔۔۔۔۔؟
جناب یحییٰ بختیار: نومبر ۱۹۱۷ء یا ۱۹۱۸ئ۔
مرزا ناصر احمد: نومبر ۱۸ئ، یا ۱۷ء یا ۱۸ئ، ٹھیک ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ۱۱؍نومبر۱۹۱۸ء تھا وہ تو۔
مرزا ناصر احمد: اسی واسطے میں نے پوچھا تھا کہ اس کی تاریخ اگر پتا ہو۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ علیحدہ ڈیٹ پر اس دوران میں ہوئی ہے، Not on the same date (اسی تاریخ کو نہیں)، اگر اس میں ہو تو پھر میں وہ سوال ہی واپس لیتا ہوں۔ اگر اس ڈیٹ پر۔۔۔۔۔۔
1412مرزا ناصر احمد: یہ پھر اگر آیا ہے تو میں معذرت چاہتا ہوں، یہ چیک نہیں کیا۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، یہ آپ چیک کرلیں۔ میں نے پہلے پوچھا بھی نہیں تھا کل آپ نے جو اس کا ذِکر کیا ناں، چراغاں کا، تو مجھے بتایا گیا۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: یہ Submit (پیش) میں کردوں گا۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔۔ وہ چراغاں۔ تو سب مسلمان۔۔۔۔۔۔ لڑائی تو سب ملک میں تھی ختم ہوگئی۔
مرزا ناصر احمد: یہ لڑائی پر In writing (تحریر میں) دو تین صفحے Submit (پیش) کردوں؟
جناب یحییٰ بختیار: جتنا مختصر ہو۔ جتنے بھی Annexure (منسلکہ دستاویز) آرہے ہیں وہ پرنٹ ہو رہے ہیں۔ پھر وہ اسمبلی کے ممبران کو دے رہے ہیں۔ اس لئے جتنا مختصر ہوگا وہ پڑھیں گے اور اُس کو دیکھیں گے۔
مرزا ناصر احمد: صرف ہمیں اندھیرے میں رکھ رہے ہیں۔ ہمیں تو بھی ایک کاپی ملنی چاہئے۱؎۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، آپ تو یہاں بیٹھے ہیں، آپ کے سامنے سب کچھ ہوا۔
مرزا ناصر احمد: یہ نہیں بیٹھے یہاں؟
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ کمیٹی کا آرڈر ہے، میں تو…
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ ماشاء اللہ! خود کو قومی اسمبلی کے ممبران جیسے استحقاق کا حق دار سمجھنے لگ گئے۔۔۔! چھیچھڑے کے خواب والی بات ہوئی ناں؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مرزا ناصر احمد: آں؟ نہیں، میں تو ویسے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ سیکریٹ ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ پبلک۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، کمیٹی کی خدمت میں درخواست کر رہا ہوں، بڑی عاجزانہ، بڑے مؤدّب ہوکر۱؎۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ تو کمیٹی Consider (غور) ضرور کرے گی۔ بات یہ تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ یہ چیز جو ہے۔۔۔۔۔۔
1413مرزا ناصر احمد: ہاں ٹھیک ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ ان حالات میں باہر نہ جائے۔
مرزا ناصر احمد: خیر، یہ تو بحث ہی نہیں۔ میں دے دُوں گا، بڑا مختصر، جتنا ہوسکے۔
جناب یحییٰ بختیار: کیونکہ اگر وہ Celebration (خوشی کا موقع) ہے کہ عراق کے مسلمانوں کی حکومت چلی گئی۔
مرزا ناصر احمد: چیک کریں گے کہ سن کونسا ہے، ایک چیز یہ چیک کرنے والی ہے۔ دُوسری یہ چیک کرنے والی ہے کہ مسلمانانِ ہند کا اس وقت رَدِّعمل کیا تھا، ممکن ہے انہوں نے غصّے کا اِظہار کیا ہو اور ہم نے چراغاں کی ہو۔ تو یہ Clash آجاتا ہے ناں۔
جناب یحییٰ بختیار: میں یہ بتانا چاہتا ہوں، جہاں جنگ ختم ہوئی تو ہندو، مسلمان، پارسی، جو بھی برطانیہ کی رعایا یہاں تھی، سب نے چراغاں کیا تو قادیان میں بھی ہوگیا ہوگا؟
مرزا ناصر احمد: یہ پوائنٹ میں نے نوٹ کرلیا ہے ذہن میں۔ اس کے مطابق مختصراً…
جناب یحییٰ بختیار: اس کے علاوہ اسی موقع پر عراق کا کسی مسلمان نے چراغاں نہیں کیا، آپ نے کیا، یہ کہتے ہیں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، عراق کا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: تو یہ میں کہتا ہوں کہ آپ Verify (تصدیق) کریں۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، آپ کہتے ہیں کہ ایسا ہوا، یا آپ یہ فرماتے ہیں کہ میں Verify (تصدیق) کروں؟
جناب یحییٰ بختیار: نہیںجی، میں یہ کہتا ہوں کہ یہ Allegation (اِلزام) ہے، آپ Verify (تصدیق) کریں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ دے جا سخیاراہ خدا۔ تیرا اﷲ ہی بوٹا لاوے گا۔ اسی کو کہتے ہیں شاید؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، Verify (تصدیق) کریں۔
جناب یحییٰ بختیار: صرف آپ نے کیا اور باقیوں نے نہیں کیا؟
1414مرزا ناصر احمد: باقیوں نے نہیں کیا؟ ہاں ٹھیک ہے، یہ بھی Verify (تصدیق) کرنے والی بات ہے ضرور۔
جناب یحییٰ بختیار: بیگم صاحبہ کہتی ہیں کہ پونے دو ہوگئے ہیں۔ تو پھر ایڈجرن کریں شام کے لئے۔
مرزا ناصر احمد: شام کو Meet (اجلاس) کرنا ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: شام کو جی، پہلے میں نے کہا، مولانا صاحب پوچھیں گے۔۔۔۔۔۔
Mr. Chairman: Yes, we are meeting in the evening. (جناب چیئرمین: جی ہاں! ہم شام کو اِجلاس کریں گے)
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ تحریفِ قرآن کے بارے میں دو تین سوال پوچھ رہے ہیں آپ سے شام کو۔۔۔۔۔۔
Mr. Chairman: The Delegation is premitted to leave for the present.
(جناب چیئرمین: اس وقت وفد کو جانے کی اجازت ہے)
مرزا ناصر احمد: اچھا۔
Mr. Yahya Bakhtiar: ...... This is not my subject.
(جناب یحییٰ بختیار: یہ میرا موضوع نہیں ہے)
اور اس کے علاوہ دوچار سوال اور بھی ہیں، وہ کہتے تھے، میں نے کہا، پھر بھی پوچھ لیں گے۔
Thank you, Sir. (جنابِ والا آپ کا شکریہ)
Mr. Chairman: The honourable members may keep sitting. (جناب چیئرمین: معزز اراکین تشریف رکھیں)
مرزا ناصر احمد: جناب چیئرمین، سر! اگر مجھے اجازت ہو تو بعض سوالوں کے جواب میرے پاس اس ڈیلی گیشن کے کوئی اور صاحب بھی دے سکیں۔
Mr. Yahya Bakhtiar: Anybody you like, Sir. I do not have any objection.
(جناب یحییٰ بختیار: جنابِ والا! جو شخص آپ چاہیں، کوئی اِعتراض نہیں)
----------
1415(The Delegation left the Chamber)
(وفد ہال سے باہر چلا گیا)
----------
Mr. Chairman: Yes, I think, by this evening, we will be able to dicuss so many things with others.
----------
The reporters can go alse. They are also free.
----------
The honourable members may keep sitting.
(جی ہاں، آج شام ہم نے بہت سی باتوں پر غور کرنا ہے۔ رپورٹرز بھی جاسکتے ہیں۔ انہیں اجازت ہے۔ معزز اراکین تشریف رکھیں)
----------
The Special Committee is adjourned to meet at 6: 00, and by that time, the honourable members may come prepared for any question which may be left over.
(خصوصی کمیٹی کا اِجلاس چھ بجے تک ملتوی ہوا)
----------
Thank you very muck. (آپ کا بہت بہت شکریہ)
----------
[The Special Committee adjourned for lunch break to re-assemble at 6: 00 p.m]
(خصوصی کمیٹی کا اِجلاس دوپہر کے کھانے کے وقفے کے لئے ملتوی ہوا۔ چھ بجے شام دوبارہ ہوگا)
----------
[The Special Committee re-assembled after lunch break, Mr. Chairman (Sahibzadaz Farooq Ali), in the chair.]
(خصوصی کمیٹی کا اِجلاس دوپہر کے کھانے کے وقفے کے بعد دوبارہ ہوا۔ چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) نے صدارت کی)
----------
جناب چیئرمین: ان کو بلالیں۔ ہاں، باہر بٹھادیں۔ Attorney-General may also be called. بلالیں ان کو، اٹارنی جنرل صاحب باہر بیٹھے ہیں۔ آج ہوجائے گا، اِن شاء اللہ۔ اُمید ہے جی، اب کافی دن ہوگئے ہیں۔ Today is the eleventh day. آج ختم کرلیں گے تو پھر کل نہیں ہوگا۔ کل اسی واسطے رکھا تھا کہ اگر آج کوئی چیز ختم نہیں ہوگی تو پھر کل، Tomorrow۔
Sahibzada Ahmad Raza Khan Qasuri: Mr. Chairman, before you call the witness, I would like to address the chair.
(صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: جناب چیئرمین! پیشتر اس کے کہ آپ گواہ کو بلالیں، میں کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں)
جناب چیئرمین: ان کو ذرا روک دیں جی۔ ان کو ابھی روک دیں ذراجی۔
1416ہاں، Yes۔
----------
ATTACK ON M.N.A
Sahibzada Ahmad Raza Khan Qasuri: Mr. Chairman, I have to disclose with great pain that this afternoon, at half past three, when I was retruning from the Hostel, on may way back home to a place wherer I am staying at chaman and when my car came near the National Assembly of Pakistan, a jeep was coming from the direction of the State Bank building. The jeep overtook me and it then started going ahead of me, as if they knew which side I live. First, the jeep was coming faster because I normally drive my car faster. I started driving slow, the the jeep also became slow. Then, when you cross those diplomatic houses, there is a crossing of Ata-Turk Road with Fazal-i-Haq Road, and there is a very depth like this and there is a very blind corner and there are bushes all around. The jeep turned towards left and there was a rapid sten-gun fire on me and I have escaped with the grace of God Almighty and it is the God's blessing that I am speaking to you in one piece. It is just God's blessing, it is a blessing of the people of Qasur who pray for me, it is the blessings of my bazurg (بزرگ), it is the blessings of my friends that I am intact. And this was a murderous attack and this is very serious. I don't impute motive to anybody because that will be going beyond my scope, but I am just giving this information to you. Sir, and it should be on record.
The case has alredy been filed with the Police Station, Islamabad. Islamabad Plice is investigating. But, Sir, the matter is very serious and it needs your consideration. Sir, if you will not protect us, because you are the symbol of democracy, you are the symbol of rule of law in this country, if you will not defend us, Sir who will defend us? And if we have to defend ourselves in this country, if everybody starts holding guns, then, Sir, this country will not find anything, there will be no society and there will be no law. There will be absolutely chaos, there will be bloodsehd. And Sir, we have already and we don't want blood-bath in this country.
(صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: جناب چیئرمین! بڑے دُکھ کے ساتھ بتانا چاہتا ہوں کہ آج بعد دوپہر ساڑھے تین بجے جب میں ہوسٹل سے واپس چمن جہاں میں قیام پذیر ہوں، جارہا تھا، اس وقت ایک جیپ اسٹیٹ بینک بلڈنگ کی طرف سے نیشنل اسمبلی کے قریب آئی، جیپ نے مجھے پیچھے چھوڑا اور پھر میرے آگے آگے چلنے لگی۔ اس طرح جیسا کہ جیپ والوں کو میری رہائش گاہ کا علم ہو۔ شروع میں جیپ کی رفتار تیز تھی، کیونکہ عام طور پر میں گاڑی تیز چلاتا ہوں۔ میں نے کار کی رفتار سست کردی تو جیپ کی رفتار بھی سست ہوگئی۔ سفیروں کے مکانوں سے گزر کر اتاترک اور فضل حق پر ایک گہری اور اندھادھند موڑ ہے، جن کے اِردگرد جھاڑیاں ہیں، جیپ بائیں طرف مڑی اور جیپ سے مجھ پر اسٹین گن کا لگاتار فائر کیا گیا، لیکن میں محض اللہ کے کرم سے محفوظ رہا، اور یہ اس کی رحمت ہے کہ میں صحیح سالم حالت میں آپ سے خطاب کر رہا ہوں، یہ اللہ کا کرم اور قصور کے لوگوں کی دُعائیں، میرے بزرگوں کی دُعائیں، اور دوستوں کی دُعائیں ہیں کہ میں زندہ ہوں۔ یہ ایک قاتلانہ حملہ تھا جو کہ بہت ہی سنگین بات ہے۔ جنابِ والا! ریکارڈ کے لئے یہ اطلاع بہم پہنچا رہا ہوں۔ میں اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں مقدمہ پہلے درج کراچکا ہوں، جو تفتیش کر رہی ہے۔ لیکن جنابِ والا! یہ معاملہ سنگین نوعیت کا ہے اور آپ کی توجہ کا متقاضی ہے۔ جنابِ والا! اگر آپ ہمارا تحفظ نہیں کریں گے، کیونکہ آپ جمہوریت کی علامت ہیں، آپ اس ملک میں قانون کی حکمرانی کی علامت ہیں، جنابِ والا! اگر آپ ہمیں تحفظ نہیں دیں گے تو اور کون دے گا؟ اور اگر اس ملک میں ہم نے اپنا تحفط خود ہم نے اپنا تحفظ خود ہی کرنا ہے تو پھر جنابِ والا! ہر شخص کے ہاتھ میں بندوق ہوگی اور ملک میں کچھ بھی نہیں رہے گا، نہ کوئی معاشرہ ہوگا اور نہ ہی قانون۔ بس افراتفری اور خون خرابہ ہوگا۔ جنابِ والا! پہلے ہی کافی کشت وخون ہوچکا ہے، ہم جانتے ہیں خون خرابہ کیا ہوتا ہے؟ اور ہم ملک میں کشت وخون نہیں چاہتے)
1417Sir, if this type of incident takes place and if we feel that we are not protected by the rule of law; by the Administraion, then we will have to protect ourselves. And when everybody started protecting himself, Sir, you know, it will result in total chaos, it will result in disintegration of the country. And, Sir, for God's sake, let us save this country. This country is lying in shambles. We are already finished totally. Let us emerge together as a respectable country. Let us emerge together as a country which should have respect in the comity of nations. And, Sir, great responsiblity lies on your shoulders, because you are the symbol of democracy in this country.
I have brought this matter before you and before my august colleagues. I have not put any motive. I have not given any directions that so and so body was involved in this attack, but I am leaving everything open, everything open, because I am a very fair man, I am a very judicious person. I am leaving everything open, but, Sir, nevertheless, particularly the protection of each member of this House is your responsibility. And if we are not protectd in Islamabad, in the metropolis, in the capital of Islamic Republic of Pakistan, a member of Parliment is not protected, Sir, then, Sir, you can well imagine the fate of a commoner in some far-flung area of Tobe Tek Singh, who is not all that important, who is not in Islamabad, Sir.
So, Sir, I am bringing all these matters with all the humility at my command. I am really, Sir, pained. I am not pained because this attack is on me. If today this attack is on me, tomorrow this attack can be on anybody else. So, I am worried from that angle, Sir. Sir, I am a peaceful citizen. I might not take gun in my hand, but the possibility is that if this attack is on some person who is mor aggressive, he might hold a gun in his hand and, Sir, if the gun battle will have to start in this country, then let us wind up this House, let us wind up these institutions. Then what is the need for having these institutionss, these traditions? These traditions and institutions are for the protection of an individual, for the protection of rule of law, Sir. And, Sir, this is a great responsibility on your shoulders. Sir, and I know, Sir, you must be worried about it.
(جنابِ والا! اگر ایسے واقعات ہوتے رہے اور یہ اِحساس ہو کہ قانون ہماری حفاظت نہیں کرسکتا تو پھر ہمیں اپنی حفاظت خود کرنا پڑے گی اور جنابِ والا! جب ہر کوئی اپنی حفاظت خود کرنے لگے تو پھر آپ جان لیں کہ سوائے افراتفری کے کچھ نہ ہوگا، اور اس کا نتیجہ ملک کا خاتمہ ہوگا۔ خدا کے لئے ہم اس ملک کو بچالیں، ہم پہلے ہی ختم ہوچکے ہیں، آئیے ہم ایک معزز ملک کی طرح ہوں، ایک ایسے ملک کی طرح جس کی قوموں کی برادری میں عزت ہو۔ جنابِ والا! چونکہ آپ جمہوریت کی علامت ہیں، اس لئے آپ کے کاندھوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یہ معاملہ میں آپ کے اور اپنے معزز ساتھیوں کے رُوبرو پیش کر رہا ہوں، میں نے کوئی اِلزام تراشی نہیں کی۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ فلاںفلاں اس معاملے میں ملوث ہیں۔ لیکن میں ہر بات کھلی رکھ رہا ہوں۔ کیونکہ میں ایک راست باز اِنسان ہوں، انصاف پسند آدمی ہوں، میں ہر چیز کھلی چھوڑ رہا ہوں۔ لیکن جنابِ والا! اس ایوان کے ہر رکن کا تحفظ آپ کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بھی محفوظ نہ ہوں، تو پھر آپ ٹوبہ ٹیک سنگھ جیسے دُوردراز علاقے کے رہنے والے عام پاکستانی کی حالت کا اندازہ لگاسکتے ہیں، جس کی نہ تو اتنی اہمیت ہے اور نہ وہ اسلام آباد میں ہے۔ میں نہایت عاجزی کے ساتھ یہ تمام حالات پیش کر رہا ہوں۔ جنابِ والا! مجھے اس بات کا بہت دُکھ ہے۔ اس لئے نہیں کہ مجھ پر حملہ ہوا ہے، یہ حملہ کل کسی اور پر بھی ہوسکتا ہے، بس اسی وجہ سے ہی میں پریشان ہوں۔ جنابِ والا! میں ایک امن پسند شہری ہوں، ممکن ہے میں بندوق ہاتھ میں نہ لوں، مگر یہ حملہ کسی اور پر ہو، تو ہوسکتا ہے کہ وہ بندوق اُٹھالے، اور ملک میدانِ کارزار بن جائے۔ تو پھر نہ اس ایوان کی ضرورت ہے، اور نہ اس اِدارے کی، اس اِدارے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ اِدارے ذاتی تحفظ اور قانون کی حکمرانی کے لئے ہیں۔ جنابِ والا! آپ پر بہت بڑی ذمہ داری ہے، میں جانتا ہوں کہ آپ اس وجہ سے بہت پریشان ہیں)
1418You know, I can feel, Sir, that you are feeling upset because this thing can happen to anybody.
Sir, I need your protection, I need the protection of this House, otherwise, Sir, if the House will not protect us, then, Sir, we know how to protect ourselves and that will be going too far.
With these words, I thank you very much.
(آپ جانتے ہیں جنابِ والا! نہ صرف آپ بلکہ ہم سب پریشان ہیں، کیونکہ ایسا معاملہ کسی کے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے۔ جنابِ والا! مجھے آپ کا تحفظ چاہئے، مجھے اس ایوان کا تحفظ چاہئے، اگر یہ ایوان ہمیں تحفظ نہیں دے گا تو پھر جنابِ والا! ہم اپنا تحفظ کرنا جانتے ہیں، اور یہ بہت ہی آخری راستہ ہوگا، ان الفاظ کے ساتھ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں)
Mr. Chairman: Thank you very much, Mr. Ahmad Raza Qasuri.
(جناب چیئرمین: احمد رضا قصوری صاحب! آپ کا بہت بہت شکریہ)
Sardar Moula Bakhsh Soomro: May I say a few words? (سردار مولابخش سومرو: کیا میں کچھ کہہ سکتا ہوں؟)
Mr. Chairman: Just a minute you have to tell us what protection the House can give you. And definitely every member is entiled to any protection. Since you have gone to the police, you have registered the case the matter is sub judice, because they will investigate the matter. As for the protection which the House can afford, it is out only available to you, it is available to all the members inside the House, and whatever means or to whatever extent our juridiction extends. Whatever Mr. Qasuri has said, it is on the record. The rest is for him to tell us. And definitely whatever is within our powers or whatever we can do .........
Yes, now they may be called.
The case is registered. Now it is for the Police to investigate.
(جناب چیئرمیں: صرف ایک منٹ۔ آپ ہمیں بتائیں کہ یہ ایوان آپ کو کیا تحفظ مہیا کرسکتا ہے؟ اور یقینا ہر رُکن تحفظ حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے۔ آپ پولیس کے پاس جاچکے ہیں مقدمہ درج کرادیا ہے، معاملہ زیر تفتیش ہے، جہاں تک اس ایوان کی طرف سے تحفظ دینے کا تعلق ہے، اس ایوان کے دائرۂ اِختیار کے اندر یہ تحفظ ایوان کی حدود میں تمام اراکین کو حاصل ہے۔ قصوری صاحب نے جو کچھ کہا ہے، وہ ریکارڈ پر آچکا ہے۔ اس کے علاوہ وہ جو بھی کہنا چاہیں، ہمارے اِختیار میں جو بھی ہوگا، ہم کریں گے۔ ہاں اب انہیں بلالیں، مقدمہ درج ہوچکا ہے، پولیس تفتیش کرے گی)
----------
(The Delegation entered the Chamber)
(وفد ہال میں داخل ہوا)
----------
Mr. Chairman: Yes, Mr. Attorney-General.
(جناب چیئرمین: جی اٹارنی جنرل صاحب!)
----------
1419CROSS-EXEAMINATION OF THE QADIANI
GROUP DELEGATION
(قادیانی وفد پر جرح)