(بقاء وحی)
بقاء وحی کے سلسلہ میں باقی ماندہ جن دو آیات سورۂ مومن اور پارہ ۱۴، رکوع۷ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان سے بھی وحی کا جاری رہنا ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ آیات مدعا علیہ کی اپنی تقسیم کے مطابق وحی تشریعی ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔ کیونکہ ان میں یہ مذکور ہے کہ جس شخص کو وحی کی جاتی ہے۔ اس کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو قیامت کے دن سے ڈرائے۔ اس لئے اس قسم کی وحی کو مدعا علیہ کی اپنی تعریف کے مطابق وحی تشریعی ہی سمجھا جائے گا اور یہ سلسلہ مدعیہ کے ادعا کے 2208مطابق اﷲتعالیٰ نے رسول اﷲﷺ پر آکر ختم فرمادیا، اور مدعا علیہ کے نزدیک بھی اب تشریعی نبی نہیں آسکتا۔ اس لئے ان آیات سے وحی مطلق کے اجراء کا استدلال نہیں کیاجاسکتا۔ باقی رہی مدعا علیہ کی یہ حجت کہ اﷲتعالیٰ نے جب ہمیں یہ دعا سکھلائی ہے کہ اے اﷲ ہمیں راہ مستقیم پر چلا اور ان لوگوں کی راہ پر چلا جن پر تو نے اپنے انعام کئے ہیں اور پھر دوسری سورت میں اس کی تشریح فرمائی کہ وہ کون لوگ ہیں جن پر خدا کا انعام ہوا۔ اس کے متعلق فرمایا کہ وہ نبی، صدیق، شہید اور صالح ہیں۔ اس سے یہ تلقین کی گئی کہ اﷲاور اس کے رسول محمد مصطفیٰﷺ کی پیروی سے یہ چاروں مراتب تم کو حسب حیثیت مل سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ نہیں ہوسکتا کہ امت محمدیہ تین مراتب کا تو انعام پائے اور چوتھے مرتبہ یعنی نبوت کا حصول اس کے لئے ناممکن ہو۔ حالانکہ اس سے پہلی امتوں نے اس انعام کو باربار حاصل کیا۔ پھر یہ خیرالامم کس طرح ہوئی؟ اور نہیں کہا جاسکتا کہ امت مرحومہ پر وحی الٰہی کا دروازہ بند ہے اور آنحضرتﷺ کے بعد جو تمام عالم کے لئے رحمت ہوکر آئے۔ اس انعام کو لوگوں سے چھین لیاگیا۔
اس کا جواب مدعیہ کی طرف سے یہ دیا گیا ہے کہ آیت ’’ من یطع اﷲ والرسول… والصالحین ‘‘ میں الفاظ ’’مع الذین‘‘ سے مراد رفاقت سے ہے نہ کہ عطائے درجہ۔ مدعا علیہ کے اعتراض کا مطلب یہ ہے کہ جب نبی کے علاوہ دیگر مدارج جو اس آیت میں مذکور ہیں۔ رسول اﷲﷺ کی پیروی سے مل سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ نبوت کا درجہ نہ مل سکے۔ اگر اس بحث کو بفرض محال صحیح تسلیم کر لیا جاوے تو پھر اس سے یہ لازم آئے گا کہ نبوت ایک کسبی چیز ہے جو اتباع سنت اور ریاضت سے حاصل ہوسکتی ہے۔ حالانکہ قرآن شریف کی نصوص سے یہ ثابت ہے کہ نبوت کسبی نہیں اور مرزاصاحب (کے مرید اعظم) نے بھی اسے مانا ہے۔ چنانچہ وہ (محمد علی لاہوری) اپنی کتاب (ضمیمہ النبوۃ فی الاسلام ص۷،۸) پر لکھتے ہیں کہ: ’’نبوت موہبت اکتساب سے نہیں ملتی… پس نبوت کا اکتساب یا کسی کی پیروی سے حاصل ہونا تمام آیات قرآنی اور احادیث کے صاف مفہوم کے خلاف ہے۔‘‘
اگر نبوت حضور علیہ السلام کے اتباع سے حاصل ہو سکتی تھی تو کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ آج تک جس قدر اولیاء ابدال، اقطاب گزرے ہیں۔ ان 2209میں سے کسی کو بھی یہ مرتبہ حاصل نہ ہوتا۔ علاوہ ازیں اگر یہ سمجھا جاوے کہ حضور کے کمال اتباع اور فیض سے یہ مرتبہ حاصل ہو سکتا ہے اور حضور بھی اسے جائز سمجھتے تھے تو ضرور ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جہاں کئی دیگر مراتب اور مدارج کے حصول کے لئے اپنی امت کو ادعیات اور اوراد کی تلقین فرمائی ہے اور وہاں اس مرتبہ کے لئے بھی کوئی دعا وغیرہ بھی تلقین فرماتے۔ تاکہ امت کے افراد کو اس کے حاصل کرنے میں کوئی آسانی میسر آتی۔ کیونکہ حضورﷺ کی شفقت سے یہ بعید تھا کہ وہ امت کو اس قدر پریشانی اور محنت شاقہ میں ڈالتے کہ مدت مدید کا انتظار اور عبادات کے بعد صرف ایک ہی فرد کو جاکر یہ نعمت عطاء ہوتی۔ اگر کوئی دعا وغیرہ تلقین کرنا آپa کے نزدیک مناسب نہ تھا تو کم ازکم اس کی صراحت تو فرمادیتے کہ تم کو یہ درجہ مل سکتا ہے۔ تمہیں اس کے حصول کے متعلق کوشاں رہنا چاہئے۔ آپ نے نہ اس قسم کی کوئی صراحت فرمائی۔ نہ ہی اس کے لئے کوئی راستہ بتلایا بلکہ یہی فرماتے رہے ہیں کہ ’’لا نبی بعدی وانا اٰخر الانبیائ‘‘ وغیرہ گویا کہ امت کو نعوذ باﷲ از دست دھوکے میں رکھتے رہے۔ تاکہ وہ کہیں یہ درجہ حاصل کر کے آپ کے مقابلہ میں نہ کھڑے ہو جاویں۔
بلکہ آپ کا رحمتہ اللعالمین ہونا اس بات کا متقاضی تھا کہ آپ سابقہ انبیاء کے مقابلہ میں اپنی امت میں سے زیادہ انبیاء پیدا کر کے اپنے افضل الانبیاء ہونے کا ایک اعلیٰ اور بین ثبوت بہم پہنچاتے۔ لہٰذا قرآن شریف کی دیگر تصریحات کو مدنظر رکھتے ہوئے آیت محولہ بالا کا مفہوم یہی لیا جائے گا کہ وہ لوگ انبیاء کی رفاقت میں ہوں گے اور چونکہ مدعا علیہ کو دنیاوی امثال کا بہت شوق ہے۔ اس لئے اس کی مثال یہ ہوسکتی ہے کہ جیسے حکومت کسی شخص کو اس کی ذاتی وجاہت اور مرتبہ کے لحاظ سے اپنے دربار میں اپنے کسی ممتاز عہدہ دار کے ساتھ جگہ دے دے۔ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس شخص نے اس عہدہ دار کا رتبہ حاصل کر لیا ہے یا یہ کہ وہ اس کا رتبہ حاصل کرنے کا اہل بنادیا گیا ہے۔ اس طرح اﷲتعالیٰ نے یہ فرمایا کہ وہ لوگ جن کی آیات ماسبق میں فضیلت بیان کی گئی ہے۔ انبیاء شہداء صدیقین اور صلحاء کے ہمراہ ہوں گے۔ اس لئے مدعا علیہ کا یہ استدلال کوئی 2210وقعت نہیں رکھتا کہ اگر امت محمدیہ کو نبوت کا درجہ نہ ملے تو وہ خیرالامم نہیں رہتی۔ اس کے خیرالامم ہونے کے لئے خدا نے اسے اور کئی مدارج عطاء فرمائے ہیں۔ قرآن مجید نے اسے اس بات کا محتاج نہیں رہنے دیا کہ وہ نبوت کو حضور علیہ الصلوٰۃ السلام کی غلامی پر ترجیح دے بلکہ بڑے بڑے جلیل القدر انبیاء آپ کی امت میں داخل ہونے کے متمنی رہے ہیں۔ افسوس کہ قرآن کی تعلیم کو پوری طرح مدنظر نہیں رکھاگیا۔ ورنہ یہ اعتراض نہ کیا جاتا۔
قرآن حکیم میں حیات انسانی کی پوری انتہاء واضح نہیں فرمائی گئی اور جیسا کہ چوہدری غلام احمد صاحب پرویز مضمون محولہ بالا میں لکھتے ہیں۔جنت بھی جو بالعموم منزل مقصود سمجھی جاتی ہے۔ درحقیت اصل منزل مقصود نہیں بلکہ راستہ کا ایک خوشنما منظر ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں جنتیوں کی اس دعا سے ظاہر ہوتا ہے۔ ’’یقولون ربنا اتمم لنا نورنا‘‘ اس منتہٰی کو ایک راز رکھا گیا۔ نہ معلوم کے حضور کے فیض سے امت کو کیا کچھ عطاء فرمایا جائے گا۔ لہٰذا مدعا علیہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب نہیں رہا کہ جو وحی انبیاء علیہم السلام کو ہوتی ہے وہ اس وقت تک جاری ہے۔ بلکہ صرف الہام اور کشف وغیرہ باقی ہیں۔ جیسا کہ مدعیہ کا ادعا ہے اور ان کو لغوی طور وحی کہا جاسکتا ہے۔ اس مقدمہ کے فیصلہ کادارومدار زیادہ تر رسول اﷲﷺ کے خاتم النّبیین بمعنی آخری نبی ماننے کے عقیدہ پر ہی ہے۔ مدعیہ کی طرف سے جیسا کہ اوپر درج کیاگیا۔ بحوالہ آیات قرآنی واحادیث واجماع امت یہ دکھلایا گیا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد اور کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ بجز اس کے کہ اس کی استثناء حضورﷺ نے خود کر دی۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور کہ مرزاصاحب کے دعویٰ سے قبل اور اب بھی سوائے مرزاصاحب کے پیروؤں کے دیگر جملہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام انبیاء کی تعداد اور بعثت کے لحاظ سے آخری نبی ہیں اور آپﷺ کے بعد اور کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی مسلمان کسی اور کو نبی مانے تو وہ کافر اور مرتد ہوجاتا ہے۔