بہتر اورتہتر فرقے
نہ یہ تہترواں فرقہ تمام بہتر فرقوں کو کافرکہتا ہے۔ نہ بہتر فرقے اس تہترویں فرقے کو کافر کہتے ہیں۔ یہ اوربات ہے کہ ان فرقوں میں سے کوئی آدمی حد سے گزر کر صاف کفریہ عقیدے رکھے تو وہ مسلمان نہیں رہ سکتا مگر یہ ان بہتر فرقوں کے ساتھ خاص نہیں۔ تہترویں فرقہ اہل سنت و الجماعت کا کوئی فرد بھی اگر کسی بدیہی اور قطعی عقیدے کا انکار کرے تو وہ بھی مسلمان نہیں رہ سکتا۔
مثلاً ختم نبوت کا انکار کردے یا زنا اور شراب کو حلال کہے۔ بہرحال اس حدیث کا کفر و اسلام کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں اورمرزائیوں کا مسئلہ اس کے بالکل برعکس ہے کہ وہ غیر مسلم اقلیت ہیں۔ وہ قطعی کافر ہیں۔ انہو ں نے مرزا جی کو نبی مان رکھا ہے۔ یہ حیات مسیح علیہ السلام کا انکار کرتے ہیں۔ معراج جسمانی کے منکر ہیں۔ مرزا جی کی وحی کو قطعی کہتے اور اس پر قرآن کی طرح ایمان 2359رکھتے ہیں اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام اورتمام پیغمبروں کی توہین کرنے والے کو مجدد اور مسیح کہتے ہیں۔ ان کو کون ان بہتر فرقوں میں داخل کرتا ہے؟ بلکہ یہ ان سب سے خارج اور قطعی کافر ہیں۔ ہم نے یہ جو لکھا ہے کہ مرزا جی نے مودودی صاحب کی تحریر سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے کہ مودودی صاحب نے بقول مرزا ناصر احمد کے یہ لکھا ہے کہ ناجی فرقہ کی علامت یہ ہے کہ وہ نہایت اقلیت میں ہوگا۔ حالانکہ سرور عالم ﷺ کا ارشاد ہے: ’’اتبعو السواد الاعظم فانہ من شذ شذ فی النار (مشکوٰۃ ص۳۰ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)‘‘
{بڑی جماعت کے ساتھ رہو۔اس لئے کہ جو علیحدہ ہوا وہ جہنم میں گیا۔}(او کما قال)
پھراپنے اس فریب کو ان الفاظ میں چھپایا اور ’’اس معمورۂ دنیا میں اس کی حیثیت اجنبی اوربیگانہ لوگوںکی ہوگی۔‘‘
معمورئہ دنیا میں تو کافر بھی ہیں جو زیادہ ہیں اور حدیث جو بڑے گروہ کے ساتھ رہنے کا حکم دیتی ہے۔ تو کیا وہ کفار کیساتھ بھی رہنے کا یہی حکم دیتی ہے؟ یہ ہیں چودھویں صدی کے مجتہد، مجدد اور خود ساختہ خلفائ۔ درحقیقت مسلمانوں کاذکر ہے او رمسلمانوں ہی میں بڑی جماعت اور سواد اعظم کے اتباع کاحکم ہے۔
تو معلوم ہوا کہ بڑی جماعت ہمیشہ حق پر رہے گی۔ چنانچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ چودہ سو سال گزرنے پر بھی دنیا بھر کے مسلمانوں میںصحابہ کرامؓ کا اتباع کرنے والوں کی کثرت ہے۔ یہی اہل سنت والجماعت ہیں۔ مگر اس حدیث میں باقی بہتر فرقوں کو کافر نہیں کہاگیا۔
مرزائیوں سے نزاع کفر و اسلام کا ہے۔ اس لئے ناصراحمد صاحب کا یہ نکتۂ استحقاق بالکل غلط ہے۔ انہوں نے صرف مودودی صاحب کی عبارت سے اپنی اقلیت کو اشارۃً حق پر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ یا غلط امید رکھی ہے۔ مرزا ناصرا حمد کو معلوم ہوناچاہئے کہ مودودی صاحب نے بھی صحابہؓ کو معیار حق نہ مان کر اس حدیث کے معنی سے بغاوت کی ہے اور اقلیت کی بات اپنی طرف سے گھسیڑ کر اپنی مٹھی بھر جماعت کو مرزائیوں کی طرح بر حق ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کی ہے۔
2360کہ غیر جانبدار دنیا میں پاکستان جو ہے یہ ہوجائے گا۔ وہ ہو جائے گا۔وہاں جدوجہد کی عبارت ان کے محضر نامے میں نہیں ہے۱؎۔