• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تاریخ بہائیت پر ایک محققانہ نظر

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
تاریخ بہائیت پر ایک محققانہ نظر


اس مضمون میں د یے جانے والے زیادہ تر حوالے خود بہائی کتابوں سے اخذکئے گئے ہیں۔ اور ا ب انکا تقاضہ یہ ہے کہ علماء کرام مخصوصاً اور اسکے بعد ہم میں سے ہر محب نبی کریم صلی ا للّہ علیہ و سلم اسے ایک اصلحہ سمجھیں اور اپنی ذمہ داری سمجھے کہ انہیں یاد کرے اور وقتاً فوقتاً اسے استعمال کرے۔ مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ کئی بہائی حضرات بھی میرے اس مضمون کو پڑھکر حیرت کا مظاہر کریں گے کیونکہ یہ چیز انکے علم میں نہ ہوگی۔ لیکن وہ یہ جان لیں کہ میں اپنی قلم سے انہیں ا سی وقت قارئین کے سپرد کر رہا ہوں جب لفظ بہ لفظ پڑھ چکا ہوں۔ اور بحرحال یہ انکے لئے اتمام حجت ہوگی اوروہ قیامت میں اسکے انکار کے خود ذمہ دار ہوں گے۔


بہائیت کے بیج بانی ”بابیت“ مرزا علی محمد باب نے ایران میں بوئے تھے۔ مرزا علی محمد باب مرزا رضا کے صاحبزادے تھے۔ یہ ۱۲۳۵ھ (۱۸۱۹ء) میں پیدا ہوئے اور سات برس کی عمر سے ہی شیخ عابد سے کچھ فارسی، عربی، مشق خط وغیرہ اور مقدمات صرف ونحو کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ اور اپنی ایک لوح میں فرمایا ”یا محمد یا معلمی لاتضر بنی فوق حد معین“ (اے میرے معلم محمد مجھے معین حد سے زیادہ نہ مار) یہ لوح جوانی میں لکھی جس سے معلوم ہوا کہ عابد کے بعد یہ محمد سے تعلیم پاتے رہے اور مجلس و لیعہد میں جب نظام العلماء نے باب سے صرف و نحو کے قواعد کے متعلق سوال کیا تو مرزاعلی محمد باب نے جواب دیا ” در کود کی آمو ختم حال فراموش کر دم“(میں نے لڑکپن میں انہیں سیکھا تھا اب بھول گیا ہوں) اسکے علاوہ سید کاظم رشتی سے درس پڑھتے تھے۔(ہدیةالمہدویہ۲۱۲) اور فرماتے ہیں۔ ”انی احد من تلامذةسید المقدس“ (کہ میں سیدمقدس کاظم رشتی کے شاگردوں میں سے ایک ہوں) (صحیفہء رابع شرح دعا مرزا علی محمد باب) قارئین ملاحظہ فرمائیں اتنےمعلموں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اب بہائی کتاب ہی کا حوالہ
”نبیوں کیلئے ضروری ھے کہ وہ علم غیب سے ہی علم حاصل کریں نہ کہ کسی شخص سے ذاتی طور پر اور یہی تمام نبیوں کا طریقہ کار تھا۔ مثلاً حضرت ابراہیم۔ ۔ ۔ ۔ حضرت محمد صلی ا للّہ علیہ وسلم، حضرت باب اور حضرت بہاء جنہوں نے کسی مدد سے علم حاصل نہیں کیا کیونکہ جو دوسروں سے علم حاصل کرے وہ الہی نمائندہ نہیں ھو سکتا۔“(خطابات بذرگ عباس آفندی فرزند بہائاللّہ) دیکھا آپ نے کس خوبصورتی سے نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللّہ علیہ وسلم کی صف میں لاکر کھڑا کردیا۔یہی نہیں بلکہ خاتم النبین کا انکار بھی کر بیٹھے۔ اس کے علاوہ باب کے خود کے دعوے ملاحظہ فرمائیے سب سے پہلے مرزا علی محمد نے ”بابیت“ کا دعویٰ کیا چونکہ ایران میں شیعہ حضرات اس بات کے معتقد تھے کہ حضرت سید نا مہدی علیہ السلام پیدا ہوگئے ہیں اور اس زمانے میں روس و ایران کے درمیان خونی جنگیں ہوئیں جسمیں ایران کو شکست ہوئی تو لوگ ایک مصلح کا انتظار کرنے لگے۔ مرزا علی محمد نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روس کے سفیر کنیاز دالگورگی کی مدد حاصل کرکے بابیت کا دعویٰ کیا۔ اس کے بعد مئی ۱۹۴۴ء میں بقول شیخ عیسی لنگرانی (جو ایک روسی جاسوس تھا ) کہ جونہی مرزا علی محمد باب کربلا سے واپس گئے مہدی ہونے کا خود ہی دعویٰ کیا۔
پانچ مہینوں میں زریں تاج قرة العین کے علاوہ محمد علی بار فروشی اور پندرہ اور اشخاص اس جال میں آگئے۔ یہ اٹھارہ اشخاص اور باب حروف ’حی‘ کہلاتے ہیں جنمیں مرزا حسین علی بہاء اللّہ نہیں تھے۔ باب کی یہ تمام اچھل کو ددیکھ کر ایک مجلس علماء تشکیل دی گئی اور مرزا علی محمد باب کو صدر میں بیٹھایا گیا۔ اور علی محمد باب نے یہ جملے ادا کئے کہ
”اے علماء جو کچھ تم نے قرآن میں دیکھاہے اسے بیان(باب کی خود کی کتاب جسے وہ آسمانی کتاب کہا کرتے تھے) میں دیکھو۔ اور جوکچھ تمہیں قرآن میں نہیں ملتا اسے بیان میں ڈھونڈو میرے بیان نے قرآن و اسلام کو منسوخ کردیا ہے۔(نعوذ باللّہ من ذالک) بیشتر اسکے کہ شمشیر میان سے باہر آجائے میری اطاعت کر لو۔“
حاکم نے مجلس کی برہمی کو قابو میں رکھ کر مرزا کو کہا کہ جو کچھ آپ نے فرمایا ہے کہ اسے قید تحریر میں لے آئیں تاکہ خواص و عام پر حجت تمام ہو جائے مرزا نے جلدہی چند سطریں قلم برداشتہ اپنی عادت کے مطابق مناجات کے طریق پر لکھ دیں۔ علماء نے ان بے معنی کلمات کو دیکھ کر اسکے دماغ اور مبلغ کے علم کا اندازہ لگایا اور اسکی غلطیاں بتائیں اسنے کہا
”میں کسی استاد سے نہیں پڑھاھوں میرے کلمات وحی الٰہی ہیں ۔ ۔ ۔“ناسخ التواریخ
مرزا علی محمد باب ایران میں چونکہ روس کی حکومت قائم کرنا چاہتا تھا لہٰذا سفیر روس کی ہدایت پر اسنے ”بیان“ میں یہ کلمات لکھے۔
” ان ا للّہ کتب علیکم القتال فلیستسخر و البلاد واھلہاالدین اللّہ الخاص ولاتقبلو امن الکفار جز یة(بابیوا خدا نے تم پر لڑائی فرض کی ہے سو تم شہروں اور لوگوں کو بابی دین کیلئے فتح کرو اور بابیت کے منکروں سے جزیہ قبول نہ کرو۔(یعنی صلح نہ کرو) بیان باب
فی ان ا للّہ قد فرض علی کل ملک یبعث فی دین البیان ان لایجعل احداعلی الارض ممن لم یدین بذالک الدین۔
)مذہب باپ کو تمام بادشاہوں پر اللّہ نے فرض کردیا ہے کہ جو دین بیان یعنی بابی بہائی مذہب کو نہ مانتا ہو اسے زمین پر زندہ نہ رہنے دیں(بیان عربی باب ۱۶(
فی بیان اخذاموال الذین لایو منون بالبیان“ ( جو بیان پر ایمان نہیں لاتے ہیں انکے مال انسے چھین لو) بیان عربی باب ۵
” فی حکم الکتاب کلھاالاماانشات اور ینشافی ھذا الامر“ (سوائے ان کتابوں کے جو اس امر یعنی باب (بہاء) کی صداقت کے بارے میں لکھی گئی ہیں۔ باقی تمام کتابوں کو دنیا سے محو کر ڈالو) بیان عربی باب۶
ای مخالفین اگر یومی ہزار مرتبہ دربحرداخل شوید حکم طہارت نمی شوید ” باب کے منکرو اگر تم دن میں ہزار مرتبہ بھی سمندرمیں غوطہ لگاؤ تب بھی پاک نہ ہوگے بیان فارسی باب ۲
غیر بابیوں کی جو چیزیں بابیوں کے قبضے میں آجائے تبدیل قبضے سے وہ پاک ہوجاتی ہیںبیان باب ۱۴
ان اقوال کا ردعمل یہ ہوا کہ شاہی اقدام سے پہلے ہی بابیوں نے آس پاس کے گاوٴں میں لوٹ مار شروع کردی۔ اور جہاں دیہاتی ان کی ضروریات کو مہیا کرنے میں تامل یا انکار کرتے یہ انکے گھروں کو جلادیتے (براوٴن کی میٹر یالز ۲۴۱) ایک گاوٴں کو جہاں انہیں شبہ ہواکہ ایک گروہ نے پناہ لی ، ملاحسین اور بابیوں نے رات کے وقت بھوکے بھیڑیوں کیطرح ان پر حملہ کیا اور ایک سو تیس لوگوں کو قتل کیا۔ اور مسلمان ہزیمت کھا گئے ملا حسین اور اسکے باغی بابی فوج نے تعاقب کیا اور مارکر فنا کر دیاانکی بستیوں میں داخل ہوکر شیر خوار بچوں کو ذبح کرڈالا۔ عورتوں کے پیٹ چاک کردیے اور کمزوروں اور بوڑھوں پر بھی رحم نہ کیا، تمام جانداروں کے ٹکڑے ٹکڑے کئے پھر بستیوں کو آگ لگا کر جلا دیا اور مال و دولت لوٹ کر لے گئے (نقطة اللکاف صفحہ ۱۶۱، کشف الظلمہ صفحہ ۱۲۵) مرزا جانی بابی مورخ ان بیچارے دیہاتیوں کی غلطی کو یوں بیان کرتا ہے۔” ان دیہاتیوں نے پہلے باب کو مان لیا تھا پھر جب انہوں نے اسے جھٹلایا تو قانون بیان کے مطابق انپر سزا لازم ہوئی نقطة الکاف صفحہ۱۶۳
ملاحظہ فرمایا آپ نے یہ ہے سیاہ تاریخ صاف و شفاف کپڑا پہن کردنیا بھر میں عدل و انصاف پھیلا نے کا عزم رکھنے والوں کی آپ بتائیے کیا ایسے لوگ عدل وانصاف قائم کرسکتے ہیں اور اب ملاحظہ فرمائیے۔ بہائیوں کی تاریخ پر ایک بدنما داغ۔ باب صاحب کی عمر کے آخری چھ ماہ میں انہیں چہریق کے تبادلہ کا حکم ہوا تب ارکان بابیہ نے باب کو قید سے چھڑانے، تبلیغ کو تیز کرنے اور شریعت اسلامیہ کو علانیہ منسوخ کرنے پر کمر باندھی۔ اور اس دور میں قضیہ بدشت واقع ہوا۔
فرنیس موسیو نکو لانے اپنی تاریخ ”بابیوں سے سنا ہوا بیان“ میں لکھا ہے کہ ” بدشت میں ایک دن قرة العین (یہ خاتون عالم بزرگ ملا صالح قذوبنی برقانی کی بیٹی تھی یہ ملامحمد تقی مذکورکے بیٹے ملا۔ محمد جمعہ کی بیوی تھی اور اسکے تینوں بیٹے اخباری عالم تھے) نے پوری آرائش کی۔ سفید ریشم کا لباس پہنا۔ اسکی گفتگو عشق و جذب سے ہمکنار تھی۔ بکمال زیبائش ورعنائی پردہ کے پیچھے بے نقاب کھڑی تقریرکررھی تھی اور اپنی خادمہ کو ایک قینچی دی تھی کہ اسکی تقریر کے دوران پردہ کی رسی کاٹ دے اصحاب سماعت بیان میں محو تھے کہ ایک دم پردہ گرگیا اور قرة العین زیور، ریشمی لباس، خال، سرمہ، مہندی اور کمال زیبائش سے آراستہ انکے سامنے نمودار ہوئی یہ اپنی خادمہ پر برہم ہوئی اور فوراً اصحاب کیطرف رخ پھیر کر فرمایا ” کچھ فکر نہیں ، کیا میں تمہاری بہن نہیں ہوں۔ کیا تم احکام اسلام کے بدلنے کے معتقد نہیں ہو میں تمہاری بہن ہوں اور مجھ پر نظر ڈالنا تمہارے لئے حلال ہے۔“ حق المبین صفحہ ۲۳۱ پر ہے کہ ”لوگ قرةالعین کے ہاتھ پاوٴں چومتے تھے تو وہ کہتی تھی ”من مس جلدی لایمسہ نار جہنم“ کہ (جو میرے بدن کو چھوئے گا جہنم کی آگ اسے نہ چھوئے گی۔) اور منہاج الطالبین میں ہے کہ قرةالعین نے کہا کہ ” جب تک باب سات اقلیموں کا بادشاہ نہ ہوجائے اور نئی شریعت نہ لائے تم پر کوئی حساب کتاب نہیں۔“ مرزا جانی (صاحب حروف حی) اپنی کتاب نقطةالکاف ۱۵۴۔۱۵۳ پر واقعہ بدشت نقل کرتے کرتے قرةالعین کے یہ جملے نقل کرتے ہیں۔” تمام مرد باب کے غلام اور عورتیں اسکی کنیز ہیں۔ اسے اختیار ہے کہ کسی کی عورت کسی کو دے اسکے بعد حاجی ملا محمد علی بار فروش اور قرةالعین ملے اور سورج اور چاند کے جمع ہونے کا مضمون پورا ہوگیا۔“
آخر کار چونکہ (۱) جناب باب کی تعلیمات کی وجہ سے ملک کا امن تباہ ہوا جگہ جگہ فسادات ہوئے اور لوٹ مار ہوئی(۲) لوگوں کی حرمتیں ضائع ہوئیں مثلاً قرةالعین اپنے خاوند کے گھر نہ رہی قدوس اور بہاء کے ساتھ پھرتی رہی اپنے خاوند کو ذلیل کروایا اور۱خر کار جدائی لی(۳) اس قرةالعین نے یہ کہا کہ ”جو میرے بدن کو ہاتھ لگائے وہ نجات پائے۔“ (۴) باب نے باغی جماعت پیدا کی جس نے حکومت کی فوجوں کا مقابلہ کیا وحشیانہ مظالم کئے۔ بچوں اور عورتوں کو بے رحمی سے مارا۔ شاہی جوانوں کو بھی تہ تیغ کیا غرض انکی وجہ سے ہر جگہ سر کشی اور بغاوت پھیل گئی۔ اسلئے حکوت ایران نے باب کو قتل کروا دیا۔
مذہب باب و بہاء روسی پیداوار تھا۔ اسلئے سب سے پہلے اسکا مشرق الاذکار روس کی مالی و مادی مدد سے عشق آباد روس میں بنا (مرزا حیدر علی اصفہانی کی کتاب بہجةالصدور مطبوعہ بمبئی صفحہ ۲۷۱ ) مگر زار کی تباہی کے بعد موجودہ بالشویک حکومت کو انکی ضرورت نہ رہی اس لئے زار کی طرف انکے مشرق الاذکار کا سورج تاریک ہوگیا۔ اور بابیوں کی حالت زار ہوگئی۔ اسکے بعد انہوں نے اسرائیل کی پناہ لی ۔ عکا میں پہلے ایران کی مخالفت پھر ترکی سے بھی دشمنی کی اور فلسطین کو ترکی حکومت سے نکلوا نے میں انکی مدد کی اسمیں جناب عبدالبہا نے ”سر“ کا خطاب آیا۔
'Bahaullah and the New Era' (page 80) by Essle Mount, an American Baha'iآخری غداری کر کے وہاں اسرائیلی حکومت قائم کرائی اور مسلمان عربوں کو وہاں سے جلا وطن کرایا۔ جو آج بھی پناہ گزینوں کی صورت میں ادھر اُدھر پھرتے ہیں اور بہائی وہاں اسرائیلوئیوں کے قوت بازو بنے ہوئے ہیں اور انڈونیشیا سے نکالے جانے کے بعد اب بہائیوں کی نظریں پاکستان اور ہندوستان کیطرف مذکور ہیں۔ ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ نبی کریم کی ختم نبوت کے دشمنوں کو اپنا دشمن سمجھیں اور انکو انکی سازشوں میں کامیاب نہ ہونے دیں ۔ اور اسکا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم علم حاصل کرکے اپنے آپ میں مضبوطی لائیں اور پھر دشمن کی سازشوں کو نا کام کرنے کیلئے خلوص دل سے نا اتفاقی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کوئی مستحکم قدم اٹھائیں۔ اور اس سلسلے میں علمائے کرام جوانان امت کو ساتھ لیکر تحریک کی بنیاد رکھیں۔
 
Top