• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تحفظ ختم نبوت کا پہلا دور

ثناء قادری

رکن ختم نبوت فورم
تحفظ ختم نبوت کا پہلا دور

مرزا کا ترک ملازمت

انگریزوں کے ایماء پر کلرکی کی ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی (ولادت ١٨٤٠ء وفات ١٩٠٨ء ) نے اپنے اصل فتنے ''دعوائے نبوت'' کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے مسلمانوں کی اصلاح اور اسلام کی تبلیغ کے نام پر اپنے ناپاک کام کا آغاز کیا ١٨٧٩ ء میں تصنیفی سلسلہ شروع کیا اور پہلے مجدد بنا اور ''براہین احمدیہ'' لکھی۔ ١٨٨٢ ؁ء میں کثرتِ الہام کا دعویٰ کیا، پھر ١٨٨٨ ء میں اور جرأت کرکے مہدی بنا، پھر جسارت میں اور ترقی ہوئی تو ١٨٩٠ ؁ء میں حضرت عیسیٰ (علیٰ نبینا و علیہ السلام) کی حیات کا انکا کر بیٹھا اور دعویٰ کیا کہ وہ مر چکے ہیں اور ان کی قبر سرینگر کشمیر میں ہے۔ جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ یہ ہے کہ وہ زندہ ہیں اور آسمان پر اٹھالیے گئے ہیں، نہ یہ کہ وہ مر گئے یا قتل کر دیئے گئے، یا انہیں سولی دی گئی،
قرآن مجید میں ہے وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـكِن شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُواْ فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًاOالنساء 157
اور ان کے اس کہنے (یعنی فخریہ دعوٰی) کی وجہ سے (بھی) کہ ہم نے اﷲ کے رسول، مریم کے بیٹے عیسٰی مسیح کو قتل کر ڈالا ہے، حالانکہ انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ انہیں سولی چڑھایا مگر (ہوا یہ کہ) ان کے لئے (کسی کو عیسٰی علیہ السلام کا) ہم شکل بنا دیا گیا، اور بیشک جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں وہ یقیناً اس (قتل کے حوالے) سے شک میں پڑے ہوئے ہیں، انہیں (حقیقتِ حال کا) کچھ بھی علم نہیں مگر یہ کہ گمان کی پیروی (کر رہے ہیں)، اور انہوں نے عیسٰی (علیہ السلام) کو یقیناً قتل نہیں کیا

کچھ اندھے معتقد اور پیروکار جو پہلے ہی سے اس کے گرویدہ چلے آرہے تھے اور ان کا ہر دعویٰ اور ہر بات بلا چون و چرا تسلیم کر لیتے تھے، انہوں نے اس دعوے کو بھی مان لیا، پھر کچھ نئے نئے خوش آمدی و لالچی اور ایمان فروش بھی دنیاوی مفاد کے لیے شریک کارواںہوتے گئے۔ ان کی ہمنوائی اور انگریز حکومت کی پشت پناہی سے حوصلہ پاکر ١٨٩١ ؁ء میں مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا، یعنی جس عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ دنیا میں آنے کا ذکر حدیثوں میں ہے، وہ میں ہی ہوں، اور میں اصل عیسیٰ علیہ السلام (جو کہ اب زندہ نہیں رہے) (معاذ اللہ) کا مثیل یعنی مظہر و پیکر ہوں۔

علماء و مشائخ اور ردِ قادیانیت کا آغاز

جب مرزا کے یہ کفریات و لغویات اس کے لٹریچر کے ذریعے منظر عام پر آنے لگے اور اس کے غلط اثرات بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئے تو برصغیر کے علمائے ربانین کے اٹھ کھڑے ہوئے اور مرزا قادیانی کی مخالفت اور رد و ابطال کی طرف متوجہ ہوئے، برصغیر کی مسلم اکثریتی آبادی جو ان علماء و مشائخ شریعت اور طریقت کے زیر اثر تھی اور صحیح اسلامی نظریات و عقائد کی حامل و عامل اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور عظمت و احترام نبوت کے پاکیزہ جذبے سے سرشار تھی اور ان کے اشارہ ابرو پر اسلام و ایمان کی خاطر اپنی جان و مال اور عزت و آبرو قربان کرنے کے لیے ہمہ دم تیار رہتی تھی، وہ بھی اس فتنے سے آگاہ اور چوکنا ہونے لگی۔

ان علماء و مشائخ نے مرزا قادیانی کے نظریہ انکارِ حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام اور دعوائے مثلیت مسیح کو دلائل قرآن و حدیث کی روشنی میں، تحریر و تقریر، بحث و مناظرہ اور خصوصی مجلسی ارشادات کے ذریعہ غیر اسلامی ثابت کیا اور بتایا کہ یہ دونوں چیزیں کفر ہیں اور مرزا قادیانی ان دونوں کی وجہ سے کافر و مرتد ہوچکا ہے، لہٰذا اس سے اور اس کے ماننے والوں سے مسلمانوں کو دور رہنا چاہیے۔ نیز یہ بھی ثابت کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھا لیے گئے ہیں اور زندہ ہیں، ان سب محنتوں کا اچھا خاصا اثر ہوا اور عام مسلمان مرزا کی حقیقت سے آگاہ ہوکر اس سے دور اور اس کے مخالف ہوگئے۔

اس طرح انیسویں صدی عیسوی کی آخری دہائی کے آغاز سے ناموسِ رسالت اور ختم نبوت کے تحفظ کی تحریک کا آغاز ہوا۔

پیر سید مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کا جہادِ قادیانیت

شروع میں مرزا کی خرافات پر علماء و مشائخ نے کم توجہ دی، مہدی ہونے اور انکارِ حیاتِ عیسیٰ و مثیل مسیح ہونے جیسے خطرناک دعووں کے سامنے آنے پر سب سے پہلے جس ذاتِ بابرکات نے توجہ فرماکر ردِ مرزائیت کی مہم کا آغاز کیا اور تحریک تحفظ ختم نبوت کی کمان سنبھال کر سب سے نمایاں و ممتاز اور مؤثر و اہم کردار اداکیا وہ فاتح قادیان سلسلہ چشتیہ قادریہ کے بزرگ عالم دین حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی (متوفیٰ ١٣٥٦ ؁ھ/ ١٩٢٧ ؁ء) کی ذات گرامی ہے (ختم نبوت ص ٢١/ از علامہ احمد نثار بیگ قادری)

قدرت کا انتخاب

آپ کا انتخاب قدرت کے اشارے پر ہوا۔ ہوا یوں کہ پیر صاحب١٣٠٧ ١٨٩٠؁ء میں حرمین شریفین کی زیارت کے لیے گئے تو وہاں مقیم سلسلہ صابریہ کے مشہور صاحب کشف و کرامت بزرگ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضر ہوئے، حاجی صاحب حضرت سے بہت متاثر ہوئے اور سلسلے کی اجازت سے نوازا۔ حضرت پیر صاحب چاہتے تھے کہ حرمین شریفین میں قیام کیا جائے لیکن حضرت حاجی صاحب نے بتاکید وطن واپسی کا حکم دیا اور فرمایا ''ہندوستان میں عنقریب فتنہ برپا ہونے والا ہے، لہٰذا تم ضرور اپنے ملک ہندوستان واپس جاؤ، بالفرض اگر آپ ہند میں خاموش ہوکر بھی بیٹھ جاؤ گے تو پھر بھی وہ فتنہ ترقی نہ کر سکے گا''

اس واقعہ کے راوی لکھتے ہیں کہ ''پس ہم حضرت حاجی صاحب کے اس کشف کو اپنے یقین کی رو سے مرزا قادیانی کے فتنے سے تعبیر کرتے ہیں'' (مقالاتِ مرضیہ ص ١٧٢)

حضرت پیر صاحب گولڑوی حاجی صاحب کے ارشاد کے مطابق وطن پاس تشریف لائے تو مرزا کا دعوائے مثیل مسیح ١٨٩١ ؁ء میں سامنے آیا اور آپ نے اس جھوٹے کا گریبان پکڑا اور سرکوبی شروع کی۔ اس کے خلاف رائے عامہ ہموار کی اور خود دیگر علماء کے ساتھ شہر شہر اس کا پیچھا کیا اور تقریروں میں اس کی پول کھولی۔ دھیرے دھیرے اسے تحریک کی شکل دی۔

مرزا آپ کی تحریک سے بوکھلا اٹھا اور آپ کے خلاف بدتمیزی اور گالی گلوچ پر اتر آیا۔

مرزائی شرافت کا نمونہ دیکھنا ہو تو آپ بھی پیر صاحب گولڑوی پر مرزا کی گالیوں کی صرف بوچھار ملاحظہ فرمائیے ''کذاب، خبیث، مزوّر، بچھو کی طرح نیش زن، اے گولڑہ کی سرزمین! تجھ پر خدا کی لعنت ہو، تو ملعون ہوگئی'' (نزول المسیح ص ٧٥)

اتنی گندی گالیاں سن کر بھی تحفظ ناموسِ رسالت کا یہ بے باک قائد اور حق گو مجاہد کفر سے برابر سے لڑتا رہا اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبے نے بدمزگی محسوس نہیں ہونے دی، نہ ہی اسے تحریک سے باز رکھ سکی۔

بالآخر حضرت امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی پیش گوئی کے مطابق آپ کی مساعی جمیلہ نے فتنہ قادیانیت کی سازشوں پر پانی پھیردیا (تذکرہ اکابر اہلسنّت پاکستان، ص ٥٣٩)

(اپنی تحریک جاری رکھتے ہوئے) ١٣١٧ ؁ھ/ ١٨٩٩ ؁ء میں آپ نے ''شمس الہدایہ'' لکھ کر حیاتِ مسیح علیہ السلام پر زبردست دلائل قائم کیے۔

مناظرہ کا چیلنج

جب مرزا نے قادیانیت کی بنیادیں ہلتی دیکھیں تو مناظرہ کا چیلنج دیا۔ یہ چیلنج ٣٠/ جولائی کو سامنے آیا اور ٢٥/ اگست ١٩٠٠ ؁ء بمقام شاہی مسجد لاہور مناظرہ ہونا طے پایا۔ پیر صاحب علماء و مشائخ کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ مقررہ وقت پر مقام مناظرہ پر پہنچ گئے، مگر مرزا قادیانی سامنے آنے کی جرأت نہ کرسکا ؎

تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے پر یہ تماشہ نہ ہوا

اس مناظرہ کو دیکھنے اور سننے کے لیے تمام مکاتب فکر کے علماء و عوام کا بڑا اجتماع ہوا تھا۔ اس موقع پر ایک مشہور اہل حدیث عالم بھی موجود تھے، انہوں نے کیا دیکھا؟ کیسا پایا؟ خود ان کی زبانی ملاحظہ فرمائیے۔۔۔۔۔۔

ایک وقت مرزا صاحب کی توجہ پیر مہر علی شاہ صاحب کی طرف ہوگئی، فریقین نے اس مضمون پر کتابیں لکھیں، آخر کار مرزا نے بذریعہ اشتہار ان کو للکارا کہ ''میرے مقابل سات گھنٹہ زانو بزانو بیٹھ کر چالیس آیات قرآن کی عربی تفسیر لکھئے، جو تقطیع کلاں بیس ورق سے کم نہ ہو، پھر جس کی تفسیر عمدہ ہوگی وہ مؤید من اللہ سمجھا جائے گا۔ لیکن اس مقابلے کے لیے پیر (مہر علی شاہ) صاحب کی شمولیت یا ان کی طرف سے چالیس علماء کا پیش کردہ مجمع ضروری ہے، اس سے کم ہوں گے تو مقابلہ نہ ہوگا'' ٣٠/ جولائی ١٩٠٠ ؁ء (مندرجہ در تبلیغ رسالت، ص ٧٣)

مرزا نہیں آیا

اس دعوت کے مطابق پیر صاحب گولڑہ شریف بغرضِ مقابلہ ٢٤/ اگست ١٩٠٠ ؁ء بمقام لاہور پہنچ گئے، لیکن پیر صاحب نے چالیس علماء کی شرط کو فضول سمجھا اور مقابلہ نویسی کے لیے بذاتِ خود پیش ہوئے۔ مگر مرزا صاحب تشریف نہ لائے بلکہ قادیان سے ایک اشتہار بھیج دیا کہ گولڑہ والے پیر صاحب مقابلہ سے بھاگ گئے۔

جس روز پیر صاحب لاہور آئے، بغرضِ امداد اردگرد سے علماء اور غیر علماء بھی واردِ لاہور ہوئے تھے۔ مولوی عبد الجبار غزنوی اور مولانا ثناء اللہ امرتسری بھی شریک تھے۔ قرار پایا کہ جامع مسجد میں صبح کے وقت جلسہ ہوگا۔ پیر صاحب مع شائقین مسجد کو جا رہے تھے، راستے میں بڑے بڑے موٹے حرفوں میں لکھے ہوئے اشتہار دیوار پر چسپاں تھے جن کی سرخی یوں تھی ''پیر مہر علی کا فرار'' جو لوگ پیر صاحب کو لاہور میں دیکھ کر یہ اشتہار پڑھتے وہ بزبانِ حال سے کہتے ''ایں چہ می بینم بہ بیداری'' (تاریخ مرزا، ص ٤٩/٥٠/ بحوالہ آئینہ صداقت، ص ٣٢)

جشن و جلوسِ فتح

مرزا ڈر کے مارے خود چیلنج دینے کے باوجود جب لاہور نہیں آیا تو یہ اجتماع مناظرہ جلسہ فتح میں تبدیل ہوگیا اور اس موقع پر پیر صاحب کی صدارت میں اپنے پر جوش خطاب کے ذریعے امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری (متوفیٰ ١٣٧٠ ؁ھ/ ١٩٥١ ؁ء) نے قادیانی کو للکارا اور شرم دلائی۔ دوسرے دن لاہور میں مسلمانوں نے حضرت پیر مہر علی کی قیادت میں ایک شاندار و بے مثال جلوس نکالا (ختم نبوت، ص ٢٢)
اس واقعہ کے بعد بہت سے قادیانی مرزا کے دجل و فریب اور کذب و فرار سے آگاہ ہوکر قادیانیت سے تائب ہوگئے۔

سیف چشتیائی

دسمبر ١٩٠٠ ؁ء کو مرزا نے بزعم خویش ایک الہامی تفسیر ''اعجاز المسیح'' بزبانِ عربی شائع کی۔ پیر صاحب نے ١٩٠٢ ؁ء میں اسی کے جواب میں اپنی دوسری مشہور کتاب ''سیف چشتیائی'' لکھ کر شائع فرمائی۔ جس میں مرزا کی عربی دانی کی قلعی کھول دی اور اس کے دعووں کی دھجیاں بکھیر دیں۔

اس کتاب نے برصغیر کے علمی حلقوں میں پیر صاحب کی علمی و روحانی بالادستی کا سکہ بٹھادیا۔ اور تو اور دیوبندی جماعت کے اکابر مولوی اشرف علی تھانوی اور مولوی انور شاہ کشمیری نے ان الفاظ میں داد و تحسین دی اور اعترافِ عظمت کیا کہ اس موضوع پر ''سیف چشتیائی'' کے بعد کسی اور کتاب کی ضرورت ہی باقی نہ رہی (ختم نبوت، ص ٢٢)

''سیف چشتیائی'' میں حضرت قبلہ عالم سیدنا پیر مہر علی شاہ صاحب نے پیش گوئی کی تھی کہ مدینہ منورہ زاد اللہ شرفاً میں حاضر ہوکر سلام عرض کرنے اور جوابِ سلام سے مشرف ہونے کی نعمت قادیانی کو کبھی نصیب نہ ہوگی۔ چنانچہ یہ پیش گوئی پوری ہوئی اور مرزا صاحب کو نہ تو حج نصیب ہوا اور نہ ہی مدینہ منورہ کی حاضری (مہر منیر، ص ٢٥١)

١٩٠٧ء میں مرزا صاحب نے پیش گوئی داغی کہ جیٹھ کے مہینہ میں پیر صاحب کا انتقال ہوجائے گا۔ قابلہ عالم کے محب صادق نواب محمد حیات قریشی نے آپ سے مناسب حفاظت کا انتظام کرنے کی استدعا کی کہ مبادا ترغیب مرزا پر کوئی حملہ کردے۔ آپ نے فرمایا ''میاں صاحب موت بر حق ہے اس سے مفر نہیں، مگر تسلی رکھو انشاء اللہ اس جیٹھ میں تو میں نہیں مرتا'' بلکہ دوسرے سال آپ نے سیال شریف کے عرس کے موقع پر میاں صاحب سے فرمایا ''الجیٹھ بالجیٹھ یعنی جیٹھ جیٹھ سے بدل گیا، یعنی جیٹھ میں ہماری موت کی پیش گوئی کرنے والا خود ہی موت کا شکار ہوگیا'' (مہر منیر، ص ٢٥٧)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
تحفظ ختم نبوت کا پہلا دور

مرزا کا ترک ملازمت

انگریزوں کے ایماء پر کلرکی کی ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی (ولادت ١٨٤٠ء وفات ١٩٠٨ء ) نے اپنے اصل فتنے ''دعوائے نبوت'' کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے مسلمانوں کی اصلاح اور اسلام کی تبلیغ کے نام پر اپنے ناپاک کام کا آغاز کیا ١٨٧٩ ء میں تصنیفی سلسلہ شروع کیا اور پہلے مجدد بنا اور ''براہین احمدیہ'' لکھی۔ ١٨٨٢ ؁ء میں کثرتِ الہام کا دعویٰ کیا، پھر ١٨٨٨ ء میں اور جرأت کرکے مہدی بنا، پھر جسارت میں اور ترقی ہوئی تو ١٨٩٠ ؁ء میں حضرت عیسیٰ (علیٰ نبینا و علیہ السلام) کی حیات کا انکا کر بیٹھا اور دعویٰ کیا کہ وہ مر چکے ہیں اور ان کی قبر سرینگر کشمیر میں ہے۔ جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ یہ ہے کہ وہ زندہ ہیں اور آسمان پر اٹھالیے گئے ہیں، نہ یہ کہ وہ مر گئے یا قتل کر دیئے گئے، یا انہیں سولی دی گئی،
قرآن مجید میں ہے وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـكِن شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُواْ فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًاOالنساء 157
اور ان کے اس کہنے (یعنی فخریہ دعوٰی) کی وجہ سے (بھی) کہ ہم نے اﷲ کے رسول، مریم کے بیٹے عیسٰی مسیح کو قتل کر ڈالا ہے، حالانکہ انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ انہیں سولی چڑھایا مگر (ہوا یہ کہ) ان کے لئے (کسی کو عیسٰی علیہ السلام کا) ہم شکل بنا دیا گیا، اور بیشک جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں وہ یقیناً اس (قتل کے حوالے) سے شک میں پڑے ہوئے ہیں، انہیں (حقیقتِ حال کا) کچھ بھی علم نہیں مگر یہ کہ گمان کی پیروی (کر رہے ہیں)، اور انہوں نے عیسٰی (علیہ السلام) کو یقیناً قتل نہیں کیا

کچھ اندھے معتقد اور پیروکار جو پہلے ہی سے اس کے گرویدہ چلے آرہے تھے اور ان کا ہر دعویٰ اور ہر بات بلا چون و چرا تسلیم کر لیتے تھے، انہوں نے اس دعوے کو بھی مان لیا، پھر کچھ نئے نئے خوش آمدی و لالچی اور ایمان فروش بھی دنیاوی مفاد کے لیے شریک کارواںہوتے گئے۔ ان کی ہمنوائی اور انگریز حکومت کی پشت پناہی سے حوصلہ پاکر ١٨٩١ ؁ء میں مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا، یعنی جس عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ دنیا میں آنے کا ذکر حدیثوں میں ہے، وہ میں ہی ہوں، اور میں اصل عیسیٰ علیہ السلام (جو کہ اب زندہ نہیں رہے) (معاذ اللہ) کا مثیل یعنی مظہر و پیکر ہوں۔

علماء و مشائخ اور ردِ قادیانیت کا آغاز

جب مرزا کے یہ کفریات و لغویات اس کے لٹریچر کے ذریعے منظر عام پر آنے لگے اور اس کے غلط اثرات بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئے تو برصغیر کے علمائے ربانین کے اٹھ کھڑے ہوئے اور مرزا قادیانی کی مخالفت اور رد و ابطال کی طرف متوجہ ہوئے، برصغیر کی مسلم اکثریتی آبادی جو ان علماء و مشائخ شریعت اور طریقت کے زیر اثر تھی اور صحیح اسلامی نظریات و عقائد کی حامل و عامل اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور عظمت و احترام نبوت کے پاکیزہ جذبے سے سرشار تھی اور ان کے اشارہ ابرو پر اسلام و ایمان کی خاطر اپنی جان و مال اور عزت و آبرو قربان کرنے کے لیے ہمہ دم تیار رہتی تھی، وہ بھی اس فتنے سے آگاہ اور چوکنا ہونے لگی۔

ان علماء و مشائخ نے مرزا قادیانی کے نظریہ انکارِ حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام اور دعوائے مثلیت مسیح کو دلائل قرآن و حدیث کی روشنی میں، تحریر و تقریر، بحث و مناظرہ اور خصوصی مجلسی ارشادات کے ذریعہ غیر اسلامی ثابت کیا اور بتایا کہ یہ دونوں چیزیں کفر ہیں اور مرزا قادیانی ان دونوں کی وجہ سے کافر و مرتد ہوچکا ہے، لہٰذا اس سے اور اس کے ماننے والوں سے مسلمانوں کو دور رہنا چاہیے۔ نیز یہ بھی ثابت کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھا لیے گئے ہیں اور زندہ ہیں، ان سب محنتوں کا اچھا خاصا اثر ہوا اور عام مسلمان مرزا کی حقیقت سے آگاہ ہوکر اس سے دور اور اس کے مخالف ہوگئے۔

اس طرح انیسویں صدی عیسوی کی آخری دہائی کے آغاز سے ناموسِ رسالت اور ختم نبوت کے تحفظ کی تحریک کا آغاز ہوا۔

پیر سید مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کا جہادِ قادیانیت

شروع میں مرزا کی خرافات پر علماء و مشائخ نے کم توجہ دی، مہدی ہونے اور انکارِ حیاتِ عیسیٰ و مثیل مسیح ہونے جیسے خطرناک دعووں کے سامنے آنے پر سب سے پہلے جس ذاتِ بابرکات نے توجہ فرماکر ردِ مرزائیت کی مہم کا آغاز کیا اور تحریک تحفظ ختم نبوت کی کمان سنبھال کر سب سے نمایاں و ممتاز اور مؤثر و اہم کردار اداکیا وہ فاتح قادیان سلسلہ چشتیہ قادریہ کے بزرگ عالم دین حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی (متوفیٰ ١٣٥٦ ؁ھ/ ١٩٢٧ ؁ء) کی ذات گرامی ہے (ختم نبوت ص ٢١/ از علامہ احمد نثار بیگ قادری)

قدرت کا انتخاب

آپ کا انتخاب قدرت کے اشارے پر ہوا۔ ہوا یوں کہ پیر صاحب١٣٠٧ ١٨٩٠؁ء میں حرمین شریفین کی زیارت کے لیے گئے تو وہاں مقیم سلسلہ صابریہ کے مشہور صاحب کشف و کرامت بزرگ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضر ہوئے، حاجی صاحب حضرت سے بہت متاثر ہوئے اور سلسلے کی اجازت سے نوازا۔ حضرت پیر صاحب چاہتے تھے کہ حرمین شریفین میں قیام کیا جائے لیکن حضرت حاجی صاحب نے بتاکید وطن واپسی کا حکم دیا اور فرمایا ''ہندوستان میں عنقریب فتنہ برپا ہونے والا ہے، لہٰذا تم ضرور اپنے ملک ہندوستان واپس جاؤ، بالفرض اگر آپ ہند میں خاموش ہوکر بھی بیٹھ جاؤ گے تو پھر بھی وہ فتنہ ترقی نہ کر سکے گا''

اس واقعہ کے راوی لکھتے ہیں کہ ''پس ہم حضرت حاجی صاحب کے اس کشف کو اپنے یقین کی رو سے مرزا قادیانی کے فتنے سے تعبیر کرتے ہیں'' (مقالاتِ مرضیہ ص ١٧٢)

حضرت پیر صاحب گولڑوی حاجی صاحب کے ارشاد کے مطابق وطن پاس تشریف لائے تو مرزا کا دعوائے مثیل مسیح ١٨٩١ ؁ء میں سامنے آیا اور آپ نے اس جھوٹے کا گریبان پکڑا اور سرکوبی شروع کی۔ اس کے خلاف رائے عامہ ہموار کی اور خود دیگر علماء کے ساتھ شہر شہر اس کا پیچھا کیا اور تقریروں میں اس کی پول کھولی۔ دھیرے دھیرے اسے تحریک کی شکل دی۔

مرزا آپ کی تحریک سے بوکھلا اٹھا اور آپ کے خلاف بدتمیزی اور گالی گلوچ پر اتر آیا۔

مرزائی شرافت کا نمونہ دیکھنا ہو تو آپ بھی پیر صاحب گولڑوی پر مرزا کی گالیوں کی صرف بوچھار ملاحظہ فرمائیے ''کذاب، خبیث، مزوّر، بچھو کی طرح نیش زن، اے گولڑہ کی سرزمین! تجھ پر خدا کی لعنت ہو، تو ملعون ہوگئی'' (نزول المسیح ص ٧٥)

اتنی گندی گالیاں سن کر بھی تحفظ ناموسِ رسالت کا یہ بے باک قائد اور حق گو مجاہد کفر سے برابر سے لڑتا رہا اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبے نے بدمزگی محسوس نہیں ہونے دی، نہ ہی اسے تحریک سے باز رکھ سکی۔

بالآخر حضرت امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی پیش گوئی کے مطابق آپ کی مساعی جمیلہ نے فتنہ قادیانیت کی سازشوں پر پانی پھیردیا (تذکرہ اکابر اہلسنّت پاکستان، ص ٥٣٩)

(اپنی تحریک جاری رکھتے ہوئے) ١٣١٧ ؁ھ/ ١٨٩٩ ؁ء میں آپ نے ''شمس الہدایہ'' لکھ کر حیاتِ مسیح علیہ السلام پر زبردست دلائل قائم کیے۔

مناظرہ کا چیلنج

جب مرزا نے قادیانیت کی بنیادیں ہلتی دیکھیں تو مناظرہ کا چیلنج دیا۔ یہ چیلنج ٣٠/ جولائی کو سامنے آیا اور ٢٥/ اگست ١٩٠٠ ؁ء بمقام شاہی مسجد لاہور مناظرہ ہونا طے پایا۔ پیر صاحب علماء و مشائخ کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ مقررہ وقت پر مقام مناظرہ پر پہنچ گئے، مگر مرزا قادیانی سامنے آنے کی جرأت نہ کرسکا ؎

تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے پر یہ تماشہ نہ ہوا

اس مناظرہ کو دیکھنے اور سننے کے لیے تمام مکاتب فکر کے علماء و عوام کا بڑا اجتماع ہوا تھا۔ اس موقع پر ایک مشہور اہل حدیث عالم بھی موجود تھے، انہوں نے کیا دیکھا؟ کیسا پایا؟ خود ان کی زبانی ملاحظہ فرمائیے۔۔۔۔۔۔

ایک وقت مرزا صاحب کی توجہ پیر مہر علی شاہ صاحب کی طرف ہوگئی، فریقین نے اس مضمون پر کتابیں لکھیں، آخر کار مرزا نے بذریعہ اشتہار ان کو للکارا کہ ''میرے مقابل سات گھنٹہ زانو بزانو بیٹھ کر چالیس آیات قرآن کی عربی تفسیر لکھئے، جو تقطیع کلاں بیس ورق سے کم نہ ہو، پھر جس کی تفسیر عمدہ ہوگی وہ مؤید من اللہ سمجھا جائے گا۔ لیکن اس مقابلے کے لیے پیر (مہر علی شاہ) صاحب کی شمولیت یا ان کی طرف سے چالیس علماء کا پیش کردہ مجمع ضروری ہے، اس سے کم ہوں گے تو مقابلہ نہ ہوگا'' ٣٠/ جولائی ١٩٠٠ ؁ء (مندرجہ در تبلیغ رسالت، ص ٧٣)

مرزا نہیں آیا

اس دعوت کے مطابق پیر صاحب گولڑہ شریف بغرضِ مقابلہ ٢٤/ اگست ١٩٠٠ ؁ء بمقام لاہور پہنچ گئے، لیکن پیر صاحب نے چالیس علماء کی شرط کو فضول سمجھا اور مقابلہ نویسی کے لیے بذاتِ خود پیش ہوئے۔ مگر مرزا صاحب تشریف نہ لائے بلکہ قادیان سے ایک اشتہار بھیج دیا کہ گولڑہ والے پیر صاحب مقابلہ سے بھاگ گئے۔

جس روز پیر صاحب لاہور آئے، بغرضِ امداد اردگرد سے علماء اور غیر علماء بھی واردِ لاہور ہوئے تھے۔ مولوی عبد الجبار غزنوی اور مولانا ثناء اللہ امرتسری بھی شریک تھے۔ قرار پایا کہ جامع مسجد میں صبح کے وقت جلسہ ہوگا۔ پیر صاحب مع شائقین مسجد کو جا رہے تھے، راستے میں بڑے بڑے موٹے حرفوں میں لکھے ہوئے اشتہار دیوار پر چسپاں تھے جن کی سرخی یوں تھی ''پیر مہر علی کا فرار'' جو لوگ پیر صاحب کو لاہور میں دیکھ کر یہ اشتہار پڑھتے وہ بزبانِ حال سے کہتے ''ایں چہ می بینم بہ بیداری'' (تاریخ مرزا، ص ٤٩/٥٠/ بحوالہ آئینہ صداقت، ص ٣٢)

جشن و جلوسِ فتح

مرزا ڈر کے مارے خود چیلنج دینے کے باوجود جب لاہور نہیں آیا تو یہ اجتماع مناظرہ جلسہ فتح میں تبدیل ہوگیا اور اس موقع پر پیر صاحب کی صدارت میں اپنے پر جوش خطاب کے ذریعے امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری (متوفیٰ ١٣٧٠ ؁ھ/ ١٩٥١ ؁ء) نے قادیانی کو للکارا اور شرم دلائی۔ دوسرے دن لاہور میں مسلمانوں نے حضرت پیر مہر علی کی قیادت میں ایک شاندار و بے مثال جلوس نکالا (ختم نبوت، ص ٢٢)
اس واقعہ کے بعد بہت سے قادیانی مرزا کے دجل و فریب اور کذب و فرار سے آگاہ ہوکر قادیانیت سے تائب ہوگئے۔

سیف چشتیائی

دسمبر ١٩٠٠ ؁ء کو مرزا نے بزعم خویش ایک الہامی تفسیر ''اعجاز المسیح'' بزبانِ عربی شائع کی۔ پیر صاحب نے ١٩٠٢ ؁ء میں اسی کے جواب میں اپنی دوسری مشہور کتاب ''سیف چشتیائی'' لکھ کر شائع فرمائی۔ جس میں مرزا کی عربی دانی کی قلعی کھول دی اور اس کے دعووں کی دھجیاں بکھیر دیں۔

اس کتاب نے برصغیر کے علمی حلقوں میں پیر صاحب کی علمی و روحانی بالادستی کا سکہ بٹھادیا۔ اور تو اور دیوبندی جماعت کے اکابر مولوی اشرف علی تھانوی اور مولوی انور شاہ کشمیری نے ان الفاظ میں داد و تحسین دی اور اعترافِ عظمت کیا کہ اس موضوع پر ''سیف چشتیائی'' کے بعد کسی اور کتاب کی ضرورت ہی باقی نہ رہی (ختم نبوت، ص ٢٢)

''سیف چشتیائی'' میں حضرت قبلہ عالم سیدنا پیر مہر علی شاہ صاحب نے پیش گوئی کی تھی کہ مدینہ منورہ زاد اللہ شرفاً میں حاضر ہوکر سلام عرض کرنے اور جوابِ سلام سے مشرف ہونے کی نعمت قادیانی کو کبھی نصیب نہ ہوگی۔ چنانچہ یہ پیش گوئی پوری ہوئی اور مرزا صاحب کو نہ تو حج نصیب ہوا اور نہ ہی مدینہ منورہ کی حاضری (مہر منیر، ص ٢٥١)

١٩٠٧ء میں مرزا صاحب نے پیش گوئی داغی کہ جیٹھ کے مہینہ میں پیر صاحب کا انتقال ہوجائے گا۔ قابلہ عالم کے محب صادق نواب محمد حیات قریشی نے آپ سے مناسب حفاظت کا انتظام کرنے کی استدعا کی کہ مبادا ترغیب مرزا پر کوئی حملہ کردے۔ آپ نے فرمایا ''میاں صاحب موت بر حق ہے اس سے مفر نہیں، مگر تسلی رکھو انشاء اللہ اس جیٹھ میں تو میں نہیں مرتا'' بلکہ دوسرے سال آپ نے سیال شریف کے عرس کے موقع پر میاں صاحب سے فرمایا ''الجیٹھ بالجیٹھ یعنی جیٹھ جیٹھ سے بدل گیا، یعنی جیٹھ میں ہماری موت کی پیش گوئی کرنے والا خود ہی موت کا شکار ہوگیا'' (مہر منیر، ص ٢٥٧)


ماشااللہ بہت خوب ثناء
 
Top