(تفسیر اصولی باتوں کے نام پر مرزا ناصرکی طویل گفتگو)
مرزا ناصر احمد: ہاں، اُصولی باتیں میں کہہ دیتا ہوں۔ میں یہ اُصولی باتیں تحریفِ معنوی کا جو ہے مضمون اس کے متعلق کہنا چاہتا ہوں۔ ’’تحریف‘‘ کا مطلب ہے رَدّوبدل کرنا اور تحریفِ معنوی کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کریم کی یا تو تفسیر ساری تعیّن کردی جائے تبھی رَدّ وبدل ہوسکتا ہے ناں۔ اگر تعیّن ہی نہ ہو تفسیر کی تو رَدّوبدل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور یا یہ کہ اُصول تفسیر قرآنی ہمارے سامنے ہوں اور پھر ہم دیکھیں کہ کن اُصولوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ بہرحال میں اپنی رائے بتاؤں گا، باقی تو آپ نے کرنا ہے فیصلہ۔
میرے نزدیک تفسیر صحیح قرآن عظیم کی، اس کے لئے سات معیار ہیں۔
پہلا معیار! ہے خود قرآن کریم۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور یہ Universe ہے، عالمین عربی میں کہتے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی خلق ہے، اس کا فعل ہے اور سورۃملک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فعل میں تمہیں تضاد کہیں نظر نہیں آئے گا۔ خداتعالیٰ کے کلام میں بھی کہیں تضاد ممکن نہیں۔ یعنی ایک ہی منج سے ہو اور ایک قرآن کریم کی آیت کچھ کہہ رہی ہو اور دُوسری کچھ کہہ رہی ہو، یہ ممکن نہیں ہے۔ اس لئے پہلا معیار قرآن کریم کی صحیح تفسیر کا یہ ہے کہ جو تفسیر ہو اس کو Contradict (تردید) کوئی اور تفسیر نہ کررہی ہو۔ الف، اور دُوسرے یہ کہ اس کے لئے شواہد، خود اس تفسیر کے، قرآن کریم کی دُوسری آیات میں پائے جائیں نمبرایک۔ میں بڑا مختصر کروں گا تاکہ وقت نہ لگے۔
دُوسرا معیار! ہے حضرت خاتم الانبیاء محمدﷺ کی وہ تفسیر جو اس رنگ میں پہنچی ہمارے پاس کہ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ دُرست ہے۔ یہ میں اس لئے فقرے کہہ رہا ہوں کہ وہ راویوں 1429کے راستے سے ہمارے تک پہنچی ہے۔ قرآن کریم کے اپنے شواہد کے بعد یہ روایتیں ہیں جو تفسیر قرآنی کو آنحضرتﷺ تک لے جاتی ہیں۔ تو وہ تفسیرجو آنحضرتﷺ کی ہم تک پہنچتی ہے روایتوں کے ذریعے، ہر مسلمان اس کو قبول کرے گا اور اس کو صحیح سمجھے گا۔ یہ معیار نمبر۲ ہے۔
تیسرا معیار! ہے صحابہ کی تفسیر۔ ہمارے لٹریچر میں قرآن کریم کی وہ تفسیر بھی ہے جو صحابہ کرامؓ کی طرف سے ہمیں پہنچی ہے، اور اس کو Preference (ترجیح) اس وجہ سے ہمیں دینا پڑتی ہے کہ آپ میں سے بہتوں نے کافی بڑا زمانہ، لمبا زمانہ آنحضرتﷺ کی صحبت میں رہا اور قرآن کریم سیکھنے میں رہا۔ بعضوں کو کم رہا، بعضوں کی اپنی ذہانت اور سیرت اور سارا کچھ تھا۔ لیکن اصل چیز یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کی باتیں انہوں نے سنیں، آپ کی تربیت انہوں حاصل کی، اس لئے وہ تفسیر قرآنی جو صحیح روایتوں کے ذریعے ہم سے صحابہ کرام کی پہنچتی ہے، وہ تیسرا معیار ہے قرآن کریم کی صحیح تفسیر کا۔
چوتھا معیار! ہے اولیاء اور صلحائے اُمت کی تفسیر کا۔ قرآن کریم نے، جیسا کہ میں نے ایک موقع پر آیاتِ قرآنی کی مختصر تفسیر یہاں بیان کی تھی: (عربی)
شروع دن سے اُمتِ محمدیہ میں اولیاء اور صلحاء پیدا ہوتے رہے ہیں کہ جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کرکے قرآن کریم کا، اور تفسیر اپنے اپنے زمانے کے مسائل کو سلجھانے کے لئے بیان کی۔ تو ایک یہ ہے معیار۔ جو پائے کے صلحاء ہمارے گزرے ہیں ان کی تفسیر کو بھی ہم قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ یہ ہے ہمارا چوتھا معیار۔
پانچواں معیار! ہے، وہ ٹیکنیکل ہے۔ قرآن کریم کی کوئی ایسی تفسیر دُرست نہیں ہوسکتی جس کی تفسیر میں قرآن کریم کے کسی لفظ کے ایسے معنی کئے جائیں جو عربی لغت وہ معنی نہیں کررہی۔ عربی لغت میں بڑی وسعت ہے، اس میں شک نہیں، اور بعض دفعہ ایک لفظ کے پانچ معنی ہوتے ہیں، بعض دفعہ دس معنی ہوتے ہیں، چودہ تک بھی کئے ہیں، شاید اس سے زیادہ بھی ہوں۔ اس وقت 1430میرے ذہن میں چودہ ہی آئے ہیں۔ تو کوئی ایسی تفسیر کرنا جو لفظی معنی وہ ہوں جو لغت اس کو قبول ہی نہیں کرتی کہ عربی کا لفظ اس معنی میں کبھی اِستعمال بھی ہوا ہے، وہ رَدّ کرنے کے قابل ہے۔ تو یہ ٹیکنیکل ہے اور جس کو عربی لغت قبول کرلیتی ہے، یہ نہیں کہ ضرور اس کو قبول کرلینا ہے، بلکہ دُوسرے جو ہیں ہمارے معیار، اس کے مطابق ان کو پرکھا جائے گا۔ اگر پوری اُترے تو پھر قبول کرلیا جائے گا۔ لیکن اگر لغت نہیں اجازت دیتی تو ہمیں اس کو رَدّ کرنا پڑے گا۔
چھٹا معیار! ہے اللہ تعالیٰ کے قول اور فعل کا مقابلہ، یعنی جو سائنس والی سائیڈ ہے ناں کہلاتی۔ یہ اِعتراض ہوا تھا کہ مذہب سائنس کے خلاف ہے یا سائنس مذہب کے خلاف ہے۔ ہمارا یہ اِیمان نہیں۔ ہمارا یہ اِیمان ہے مسلمان کا، سب کا، کہ یہ Universe ہے، یہ خلق عالمین اللہ تعالیٰ کا فعل ہے۔ تو کوئی ایسی تفسیر قرآنی نہیں کی جاسکتی جو اللہ تعالیٰ کا قول ہے اس کے فعل کے متضاد ہو۔ مثلاً: قرآن کریم سے اگر کوئی شخص یہ نکالے کہ ۔۔۔۔۔۔ ویسے میں مثال دے رہا ہوں، مثال میں نے ایسی لی ہے جو ظاہراً غلط ہے، تاکہ سمجھ آجائے بات۔۔۔۔۔۔ اور اگر کوئی یہ تفسیر قرآن کی آیت سے کرے کہ چاند زمین سے دس ارب میل دُور ہے، قرآن کریم کی آیت سے کرے، Theoretical Side (اُصولی طور پر) اور سائنس کہہ رہی ہے کہ نہیں اس کا یہ فاصلہ ہے۔ تو جو خداتعالیٰ کا فعل ثابت ہوگیا، اس کے خلاف اگر کوئی قرآن کریم کی تفسیر کرتا ہے تو وہ رَدّ کرنے کے قابل ہے۔ فعل اور قول میں مطابقت ضروری ہے تفسیر قرآنی کرنے کے لئے۔
یہ سات۱؎ میں نے کئے ہیں۔ یہ ویسے میں نے آخر میں لکھا ہوا تھا، وہ میں نے شروع میں کرلیا، یعنی معنوی کا۔ یعنی جب ہم تحریفِ معنوی کی بات کریں تو معنی کا تعین ضروری ہے اور وہ تعین ویسے ہو نہیں سکتی اس لئے کہ قیامت تک نئے سے نئے مضامین انسان کے سامنے آئیں گے، بدلے ہوئے حالات میں بدلے ہوئے مسائل پیدا ہوں گے، اور اس وقت قرآن کریم جو ہے، وہ انسان کی مدد کے لئے… ہمارا بڑا پکا عقیدہ ہے…وہ آتا ہے اور ان مسائل کو حل کرتا ہے۔ تو اس
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ ۶ کو ۷ کردیا، جیسے پانچ کو پچاس۔۔۔!
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
واسطے کہیں محدود کردینا کسی زمانہ میں کہ بس جو قرآن کریم کے تفسیری معنی تھے وہ آ1431گئے انسان کے سامنے، یہ دُرست نہیں ہے، عقلاً تو قرآن کریم کی آیت کے مطابق ہی۔ تو، لیکن یہ حدود ہیں کچھ، اور معیار ہیں کچھ، کہ جن کو مدنظر رکھنا پڑے گا تحریفِ معنوی کے مسئلہ کے متعلق تبادلہ خیال کرتے ہوئے۔ میں نے یہ کہنا تھا اور اَب یہ مولوی صاحب، ان سے حلف لے لیں۔
Mr. Chairman: The question may be put, then we will see who replies, whether it is the witness who replies or it is delegated to any member of the Delegation.
(جناب چیئرمین: سوال پوچھا جائے، اس کے بعد ہم دیکھیں گے کہ کون جواب دے گا، کیا اس کا جواب گواہ دے گا، وہ اس کا اِختیار وفد کے کسی رکن کو دیں گے)