(تمام امت کی تکفیر)
چھٹی وجہ تکفیر بیان کردہ گواہان مدعیہ کا مدعا علیہ کی طرف سے یہ جواب دیا گیا ہے کہ مرزاصاحب نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ تمام امت محمدیہ مشرک ہے۔ بلکہ جس عبارت کا حوالہ گواہان مدعیہ کی طرف سے دیا جاکر یہ نتیجہ نکالا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مرزاصاحب نے لکھا ہے کہ پہلے مسلمانوں سے یہ قول غلطی سے صادر ہوا ہے اور وہ لوگ خدا کے نزدیک معذور ہیں۔ کیونکہ انہوں نے عملاً غلطی نہیں کی اور انہوں نے حیات مسیح کے عقیدہ کو مبداء شرک یامنجز الی الشرک قرار دیا ہے اور اس کو شرک عظیم کہنا باعتبار مایؤل الیہ کے ہے اور اس امر کو حق بلاغت میں مجاز مرسل سے شمار کیاگیا ہے۔ اس ضمن میں زیادہ بحث کی ضرورت نہیں۔ صرف یہ درج کیا جاتا ہے کہ حیات عیسیٰ کے مسئلہ پر فریقین کو بحث کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ کیونکہ ان کی جس قسم کی حیات کے تمام مسلمان قائل ہیں وہ ادراک انسانی سے باہر ہے۔ اس لئے اسے امر واقع کے 2238طور پر ثابت کرنا ایک لاحاصل سعی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ قرآن مجید کی رو سے اس ظاہر زندگی کے علاوہ ایک اور قسم کی زندگی بھی ہے جس کو انسانی فہم اور عقل احاطہ نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ شہداء کے متعلق بیان کیاگیا ہے کہ وہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں اور اس کے ہاں انہیں رزق ملتا ہے۔ ملاحظہ ہو آیت ’’لا تحسبن الذین قتلوا… من فضلہ‘‘ پارہ۴ رکوع۷، سورۂ آل عمران مدعیہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ مرزاصاحب نے ایک لفظ ’’ذریۃ البغایا‘‘ استعمال کر کے تمام مسلمانوں کو ولد الزنا قرار دیا ہے اس کا جواب مدعا علیہ کی طرف سے یہ دیا گیا ہے کہ ذریۃ البغایا کے معنی وہ نہیں جو فریق مخالف نے لئے ہیں۔ کیونکہ ان معنوں کے لئے کوئی قرینہ موجود نہیں۔ ظاہر میں اس کے معنی ایک تو یہ ہیں کہ ہدایت سے دور اور ناشائستہ آدمی جن کی حالت یہ ہے کہ ان کے دلوں پر مہریں ہیں وہ انہیں قبول نہ کریں گے یا یہ کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو لوگوں کا پیشوا اور امام سمجھتے ہیں یعنی مولوی لوگ جو کفر کے فتویٰ لے کر شہر بشہر پھرتے ہیں۔ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ بغایا کے معنی ہر اول کے بھی ہوتے ہیں۔ نیز بغایا مطلق عورتوں کو بھی کہتے ہیں۔ چاہے وہ فاجرہ ہوں یا نہ ہوں۔ لیکن اس پر بھی زیادہ بحث کی ضرورت نہیں۔ اس لفظ کے استعمال اور طرز خطاب سے سمجھا جا سکتا ہے کہ وہاں اس لفظ سے کیا مراد ہے۔
مرزاصاحب اپنے مکذبین اور منکرین کو کافر کہنے سے مدعیہ کی طرف سے جو انہیں کافر کہا گیا ہے اس کے متعلق مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ مرزاصاحب اپنے نہ ماننے والوں کو اس لئے کافر کہتے ہیں کہ جو شخص انہیں نہیں مانتا وہ انہیں مفتری قرار دے کر نہیں مانتا۔ اس لئے ان کی تکفیر کی وجہ سے وہ خود کافر بنتا ہے۔ لیکن یہ کوئی معقول جواب نہیں۔ کیونکہ ایک شخص اگر واقعہ میں کافر ہو تو اسے کیوں کافر نہ کہا جاوے۔ اس طرح تو کسی پر بھی کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جاسکتا۔ کیونکہ اسے کافر کہنے والا خود کافر ہو جائے گا۔ مرزاصاحب کے سچے یا جھوٹے نبی ہونے کے متعلق اوپر بحث کی جاچکی ہے۔ لہٰذا ان دلائل کی رو سے اگر کوئی شخص ان کو کافر کہتا ہے تو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ خود پھر کیونکر کافر ہو جائے گا اور اگر بالفرض محال یہ رائے درست بھی ہو تو 2239پھر صرف ان لوگوں کوکافر کہنا چاہئے جو مرزاصاحب کو کاذب یا کافر کہیں۔ جو ان کی نہ تکذیب کرتے ہیں اور نہ تکفیر۔ انہیں کیوں کافر کہا جاتا ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ انہیں کافر کہنے کی یہ وجہ نہیں کہ وہ مرزاصاحب کو مفتری جان کر کافر کہتے ہیں۔ بلکہ اس کی وجہ خود مرزاصاحب نے اپنی کتاب (فتاویٰ احمدیہ ج۱ ص۲۶۹) پر یہ بیان کی ہے کہ: ’’کسی کا کوئی عمل میرے دعویٰ اور دلیلوں اور میرے پہچاننے کے بغیر مفید نہیں ہوسکتا۔‘‘
پھر آگے اس کتاب (فتاویٰ احمدیہ ج۱ ص۳۰۸) پر لکھتے ہیں کہ: ’’بہرحال حکم خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخض کو جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں اور خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہے۔‘‘
ان عبارات سے صاف اخذ ہوتا ہے کہ جو شخص مرزاصاحب کو نہیں مانتا خواہ ان کو کافر کہے یا نہ کہے وہ مسلمان نہیں اور اس کا کوئی عمل بارگاہ الٰہی میں قبول نہیں ہے۔ مدعا علیہ کے گواہان نے ریاست ہذا کے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے اور یہ دکھلانے کے لئے کہ گواہان مدعیہ نے مرزاصاحب اور ان کے متبعین کے خلاف فتویٰ تکفیر محض اپنے بغض اور عناد کی بناء پر اور اپنے بزرگان کے اقتداء کا خوگر ہونے کی وجہ سے دیا ہے۔ ورنہ دراصل مرزاصاحب ضروریات دین میں سے کسی چیز کے منکر نہیں ہیں۔ حضرت خواجہ غلام فرید صاحبؒ کہ جن کا نہ صرف ریاست بہاول پور کا ایک حصہ معتقد اور مرید ہے بلکہ جن کے سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں بھی بکثرت مرید پائے جاتے ہیں کی ایک کتاب ’’اشارات فریدی‘‘ سے یہ دکھلایا ہے کہ ان کے نزدیک مرزاصاحب کسی عقیدہ اہل سنت والجماعت اور ضروریات دین میں سے کسی چیز کے منکر نہیں پائے جاتے۔ بلکہ آپ ان کے متعلق یہ لکھتے ہیں کہ وہ اپنے تمام اوقات خداتعالیٰ کی عبادت میں گزارتے ہیں اور حمایت دین پر کمربستہ ہیں اور کہ علمائے وقت تمام مذاہب باطلہ کو چھوڑ اس نیک آدمی کے پیچھے پڑ گئے ہیں جو اہل سنت والجماعت میں سے ہے اور صراط مستقیم پر قائم ہے۔
اور خواجہ صاحب کی اس تحریر پر بڑی شرح اور بسط سے بحث کی جاکر یہ دکھلایا گیا ہے کہ یہ الفاظ خواجہ صاحبؒ کے اپنے ہی ہیں اور انہوں نے مرزاصاحب کی کتابیں دیکھنے کے بعد یہ 2240رائے قائم کی تھی۔ مدعیہ کی طرف سے بھی اس کا مفصل جواب دیا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ مرزاصاحب کی جو کتابیں خواجہ صاحب نے اس وقت تک دیکھیں تھیں۔ ان میں مرزاصاحب کا دعویٰ نبوت درج نہ تھا۔ چنانچہ مرزاصاحب کی ایک تحریر سے جو آپ کی کتاب (انجام آتھم ص۶۹، خزائن ج۱۱ ص ایضاً) پر درج ہے پایا جاتا ہے کہ حضرت خواجہ صاحبؒ بھی بعد میں مرزاصاحب کے مکفر اور مکذب ہو گئے تھے مرزاصاحب اس تحریر میں لکھتے ہیں کہ: ’’اب ہم ان مولوی صاحبان کے نام ذیل میں لکھتے ہیں کہ جن میں سے بعض تو اس عاجز کو کافر بھی کہتے ہیں اور مفتری بھی اور بعض کافر کہنے سے تو سکوت اختیار کرتے ہیں۔ مگر مفتری اور کذاب اور دجال نام رکھتے ہیں۔ بہرحال یہ تمام مکفرین اور مکذبین مباہلہ کے لئے بلائے گئے ہیں اور ان کے ساتھ وہ سجادہ نشین بھی ہیں جو مکفر اور مکذب ہیں۔‘‘
اور اس کے ساتھ مرزاصاحب نے ہر دو گروہوں کی فہرستیں دی ہیں۔ اس فہرست میں میاں غلام فرید صاحب چشتی چاچڑاں علاقہ بہاول پور کا نام بھی درج ہے۔
فریقین کی ان بحث ہائے کو مدنظر رکھتے ہوئے حسب ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے ایک مقدس اور نیک لوگوں کے گروہ کا نام صوفیائے ہے۔ ان صوفیائے کرام کو ذکر الٰہی، عبادت اور ریاضت سے جو ذوق اور حظ حاصل ہوتا ہے اس میں ان پر تجلیات الٰہی وارد ہوتی ہیں، اور ان کے قلب کی کچھ اس قسم کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ جس سے وہ کچھ غیب کی خبروں پر مطلع ہو جاتے ہیں۔ اس کو وہ الہام یا کشف کہتے ہیں اور بعض صوفیائے کرام نے اسے مجازی طور پر وحی سے بھی تعبیر کیا ہے۔ یہ لوگ اپنے نبی کی تعلیم کے تحت عمل پیرا ہوتے ہیں۔ نبی مامور من اﷲ ہوتا ہے اور اسے اﷲتعالیٰ کی جانب سے براہ راست غیب کی خبروں کی اطلاع دی جاتی رہتی ہے اور اسے حکم ہوتا ہے کہ وہ اﷲتعالیٰ کے احکام لوگوں تک پہنچائے۔ انہیں قیامت کے دن سے ڈرائے اور آئندہ زندگی کے حالات سے مطلع کرے اور جس ذریعہ سے انہیں یہ اطلاع ہوتی ہے۔ اسے وحی کہا جاتا ہے اور وحی کی یہ اصطلاح انبیاء کے لئے ہی مختص ہے۔ دوسری جگہ اگر یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مجازی یا لغوی معنی لئے جاتے ہیں۔ 2241انبیاء کو یہ وحی تین طریق پر ہوتی ہے۔ یا تو اﷲتعالیٰ کوئی بات کسی نبی کے دل میں ڈال دیتا ہے یا فرشتوں میں سے کوئی قاصد بھیج کر اس کے ذریعہ سے مطلع فرماتا ہے۔ یا پس پردہ خود کلام فرماتا ہے۔ یہ وحی چونکہ دخل شیطانی سے منزہ ہوتی ہے۔ اس لئے اسے قطعی سمجھا جاتا ہے اور اس کا نہ ماننا کفر ہے۔ اولیاء کا الہام یا کشف گو دخل شیطانی سے پاک بھی ہو،تا ہم نہ وہ قطعی ہوتا ہے اور نہ ہی دوسروں پر کوئی حجت ہوتا ہے۔ بلکہ الہام اور کشف کے ذریعہ قرآن مجید کے معارف اور اسرار سمجھائے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں بعض اکابر صوفیائے کرام پر آیات قرآنی کا نزول بھی ہوتا ہے۔ ان آیات کو وہ اپنے اوپر چسپاں نہیں کرتے۔ بلکہ جیسے کسی سیاح کو دوران سیاحت میں اعلیٰ مقامات دکھلائے جاویں۔ اس طرح ان کو اعلیٰ مراتب روحانی کی سیر کرائی جاتی ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ مرزاصاحب جب اس میدان میں گامزن ہوئے اور ان پر مکاشفات کا سلسلہ جاری ہونے لگا تو وہ اپنے آپ کو نہ سنبھال سکے اور صوفیائے کرام کی کتابوں میں وحی اور نبوت کے الفاظ موجود پاکر انہوں نے سابقہ اولیاء اﷲ سے اپنا مرتبہ بلند دکھلانے کی خاطر اپنے لئے نبوت کی ایک اصطلاح تجویز فرمائی۔ جب لوگ یہ لفظ سن کر چونکنے لگے تو انہوں نے یہ کہہ کر انہیں خاموش کرنا چاہا کہ تم گھبراتے کیوں ہو۔ آنحضرت ﷺ کے اتباع سے جس مکالمہ اور مخاطبہ کے تم لوگ قائل ہو۔ میں اس کی کثرت کا نام بموجب حکم الٰہی نبوت رکھتا ہوں۔ یہ صرف لفظی نزاع ہے۔ سو ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ کوئی اصطلاح مقرر کرے۔ گویا انہوں نے نبی کے لفظ کو برعکس اس کی اصل اور عام فہم مراد کے یہاں اصطلاحی طور پر کثرت مکالمہ اور مخاطبہ پر حاوی کیا اور یہ اصطلاح بھی اﷲتعالیٰ کے حکم سے قائم کی۔ اس کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ اس لفظ کا استعمال کثرت سے اپنے متعلق کرنے لگے تو لوگ پھر چونکے۔ اس پر انہوں نے پھر یہ کہہ کر انہیں خاموش کیا کہ میں کوئی اصلی نبی تو نہیں بلکہ اس معنی میں کہ میں نے تمام کمال آنحضرت ﷺ کے اتباع اور فیض سے حاصل کیا ہے۔ ظلی اور بروزی نبی ہوں اور اس کے بعد انہوں نے ان آیات قرآنی کو جو شاید کسی اچھے وقت میں ان پر نازل ہوئی تھیں۔ اپنے اوپر چسپاں کرنا شروع کر دیا اور شدہ شدہ تشریعی نبوت کے دعویٰ کا اظہار کر دیا۔ لیکن صریح آیات قرآنی 2242اور احادیث اور اقوال بزرگان سے جب انہیں اس میں کامیابی نظر نہ آئی تو انہوں نے اس دعویٰ کو ترک کر کے اپنا مفر نزول عیسیٰ علیہ السلام کی احادیث میں جا تلاش کیا اور عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کو بذریعہ وحی ثابت کر کے یہ دکھلایا کہ ان احادیث کا اصل مفہوم یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت میں کسی شخص کو نبو ت کا درجہ عطاء کیا جائے گا، نہ یہ کہ حضرت مسیح ناصری واپس آئیں گے۔ مدعا علیہ کے ایک گواہ کے بیان سے یہ اخذ ہوتا ہے اور نامعلوم اس نے بطور خود یا مرزاصاحب کی کسی تحریر کی رو سے یہ بیان دیا ہے کہ احادیث میں جو عیسیٰ ابن مریم کے نزول کی خبر آئی ہے اس میں رسول اﷲ ﷺ سے ایک اجتہادی غلطی ہوگئی ہے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے کہ بعض پیش گوئیاں ایسی ہوتی ہیں جو آئندہ زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ لیکن حقیقت ان کے ظہور کے وقت نمایاں ہوتی ہے اور اجتہادی غلطی پیش گوئیوں کے سمجھنے میں یعنی کیفیت تحقیق وقوع کے لحاظ سے ہر نبی سے ممکن ہے۔ حتیٰ کہ رسول اﷲ ﷺ سے بھی اس کی مثال اس نے بخاری کی ایک حدیث کا حوالہ دے کر یہ دی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ایک رؤیا کی بناء پر یہ سمجھا کہ وہ حجر یمامہ کی طرف ہجرت فرمائیں گے۔ لیکن آپ جس وقت مدینہ کی طرف ہجرت کر کے تشریف لے گئے تو اس وقت آپ پر اس پیش گوئی کی حقیقت کھلی کہ اس سے مراد مدینہ تھا اور کہ جب نبی سے اجتہادی غلطی ممکن ہوئی تو پیش گوئی کے پورا ہونے کے وقت اصل حقیقت پیش گوئی کی منکشف ہو جائے گی اور کہ امتی کو پیش گوئی کے تحقق وقوع کے وقت وقوع کا علم ہو جاتا ہے۔ غرض مرزاصاحب نے سابقہ مراحل سے گزرنے کے بعد بڑھ چڑھ کر اپنے مسیح موعود ہونے کے دعویٰ کا اظہار شروع کر دیا اور نبوت کو پھر ایک ایسا گورکھ دھندہ بنا دیا کہ جو نہ تو لوگوں کی سمجھ میں آسکا ہے اور نہ ہی ان کے اپنے متبعین جیسا کہ اوپر دکھلایا جاچکا ہے۔ ان کے مرتبہ کو بخوبی سمجھ سکے ہیں۔ بلکہ خود خدا کو بھی نعوذ باﷲ ان کے نبی بنانے میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ جب خداوند تعالیٰ نے یہ محسوس فرمایا کہ نعوذ باﷲ اس کے حبیب سے ایک اجتہادی غلطی ہوگئی ہے۔ اب ان کی آن رکھنے کے لئے اورمرزاصاحب کو نبوت کا مرتبہ عطاء فرمانے کے لئے اﷲتعالیٰ نے بقول مرزاصاحب پہلے تو ان تمام پیش گوئیوں کو جوقرآن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق 2243تھیں۔ مرزاصاحب کی طرف پھیر دیا اور پھر انہیں کبھی مریم بنایا اور کبھی عیسیٰ اور اس کے بعد بارش کی طرح وحی کر کے یہ جتلایا کہ عیسیٰ ابن مریم فوت ہوچکے ہیں۔ اب تم بلاخوف وخطر نبی ہونے کا دعویٰ کر دو اور جہاں پہلے وہ ’’فاستمع لمایوحی‘‘ اور ’’یا ایہا المدثر قم فانذر‘‘ کی تحکمانہ وحی کے ذریعہ سے نبیوں کو چوکنا کر کے اپنی طرف سے مامور فرمایا کرتا تھا۔ وہاں مرزاصاحب کے لئے اسے نعوذ باﷲ مختلف حیل اختیار کرنے پڑے۔ مرزاصاحب کے اس طرز عمل سے نبی بننے سے یہ بات خود واضح ہو جاتی ہے کہ اﷲتعالیٰ کے ہاں نبوت کے عہدے ختم ہوچکے تھے۔ کیونکہ اس نے پہلے تو مرزاصاحب کے لئے نبوت کی اصطلاح تجویز فرمائی۔ پھر وہ جب اس سے خوش نہ ہوئے تو ان کو نبی کا خطاب عطاء فرمادیا۔ جیسا کہ نواب اور راجہ کے خطابات گورنمنٹ سے ان لوگوں کو بھی عطاء فرمائے جاتے ہیں۔ جو صاحب ریاست نہ ہوں۔ لیکن جب مرزاصاحب کی اس سے بھی تسلی نہ ہوئی باوجودیکہ اﷲتعالیٰ انہیں ’’یا ولدی‘‘ بھی فرماچکا تھا اور اس خیال سے کہ رسول اﷲ ﷺ کو چونکہ اﷲتعالیٰ قرآن مجید میں خاتم النّبیین کہہ چکا تھا۔ وہ بھی کسی دوسرے نبی کے بننے سے خفا نہ ہوں۔ مرزا صاحب کو آپؐ کا ظل بنادیا گیا اور آخر کار جب ان کی خوشی نبی بننے میں ہی دیکھی اور یہ بھی خیال آیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آخر زمانہ میں بھجوانے کا وعدہ ہوچکا ہے تو انہیں مار کر مرزاصاحب کو نبی بنادیا گیا۔ استغفراﷲ!
گواہ مدعا علیہ نے یہ بیان کیا ہے کہ نبی سے بھی اجتہادی غلطی ہوسکتی ہے تو پھر اس کا کیا اعتبار ہے کہ مرزاصاحب سے یہ غلطی نہ ہوئی ہوگی۔ خصوصاً جب کہ مرزاصاحب رسول اﷲ ﷺ کے ظل بھی ہیں۔ غیراغلب ہے کہ اصل کی فطرت ظل کی فطرت پر اثر انداز نہ ہوئی ہو اور علاوہ ازیں مرزاصاحب اپنے اقرار کے مطابق آنحضرت ﷺ سے زیادہ ذکی بھی نہیں پائے جاتے۔ کیونکہ خداوند تعالیٰ کی کئی سال سے متواتر وحی کے بعد انہوں نے یہ جا کر سمجھا کہ وہ نبی ہوچکے۔ اس لئے ممکن ہے کہ انہوں نے وحی الٰہی کا مفہوم غلط سمجھ کر دعویٰ نبوت کر دیا ہو۔ مرزاصاحب کی اپنی تصریحات سے یہ پایا جاتا ہے کہ انہیں امتی ہونے کے وقت نزول مسیح کے متعلق وقوع کا علم نہیں ہوا۔ بلکہ جب ان کو نبوت کا خطاب مل چکا۔ اس کے بعد انہیں یہ جتلایا گیا کہ مسیح ناصری 2244فوت چکے ہیں۔ اس لئے مدعا علیہ کے گواہ کا یہ کہنا کہ امتی کو وقوع کے وقت تحقیق وقوع کا علم ہو جاتا ہے۔ مرزا صاحب کی اپنی تصریحات سے باطل ہوجاتا ہے۔ گواہ مذکور نے رسول اﷲ ﷺ کی جس حدیث کا حوالہ دے کر یہ کہا ہے کہ آپ سے اجتہادی غلطی کا وقوع ممکن ہے۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے ہجرت کے وقت کوئی غلطی فرمائی۔ گواہ مذکور کی یہ حجت اس وقت صحیح ہوتی کہ جب آپ بجاے مدینہ کے حجر یمامہ کی طرف تشریف لے جاتے اور پھر وہاں سے مدینہ عالیہ کی طرف لوٹتے۔ وہاں جانے کے متعلق آپ کا صرف ایک خیال تھا جو وقوع میں نہ آیا اور اس رؤیا پر عمل اس طرح ہوا جس طرح مشیت ایزدی میں مقدر تھا۔ خود اس مثال سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ اگر نبی کو کسی طرح غلط فہمی ہو بھی جائے تو اﷲتعالیٰ کی طرف سے اسے فوراً رفع کر دیا جاتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ صدیوں تک وہ غلطی چلی جائے اور نہ خود نبی پر اور نہ اس کے کامل متبعین پر اس کا افشاء ہو۔ اس لئے یہ کہنا بڑی دیدہ دلیری ہے کہ رسول اﷲ سے نزول عیسیٰ علیہ السلام کی پیش گوئی بیان کرنے میں اجتہادی غلطی ہوئی ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ مرزاصاحب نے پھر اخیر عمر میں جاکر اپنے دعویٰ کی غلطی کو محسوس کیا اور پھر اصطلاحی نبوت کو ہی جاکر قائم کیا۔ جس سے انہوں نے اپنے دعویٰ کی ابتداء شروع کی تھی۔ جیسا کہ ان کے اس خط سے جو انہوں نے وفات سے دو تین یوم قبل اخبار عام کے ایڈیٹر کے نام لکھا تھا۔ ظاہر ہوتا ہے اس میں درج ہے کہ سو میں صرف اس وجہ سے نبی کہلاتا ہوں کہ عربی اور عبرانی زبان میں نبی کے یہ معنی ہیں کہ خدا سے الہام پاکر بکثرت پیش گوئی کرنے والا ان تمام واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے سید انور شاہ صاحبؒ گواہ مدعیہ نے بجا طور یہ کہا ہے کہ مرزاصاحب کی کتابیں دیکھنے سے یہ بات پوری طرح روشن ہو جاتی ہے کہ ان کی ساری تصانیف میں صرف چند ہی مسائل کا تکرار اور دور ہے ایک ہی مسئلہ اور ایک ہی مضمون کو بیسیوں کتابوں میں مختلف عنوانوں سے ذکر کیا ہے اور پھر سب اقوال میں اس قدر تہافت اور تعارض پایا جاتا ہے اور خود مرزاصاحب کی ایسی پریشان خیالی ہے اور بالقصد ایسی روش اختیار کی ہے کہ جس سے نتیجہ گڑبڑ ہے اور 2245ان کو بوقت ضرورت مخلصی اور مفرباقی رہے۔ چنانچہ کہیں وہ تو ختم نبوت کے عقیدہ کو اپنے مشہور اور اجماعی معنی کے ساتھ قطعی اور اجماعی عقیدہ کہتے ہیں اور کہیں ایسے عقیدہ بتلانے والے مذہب کو لعنتی اور شیطانی مذہب قرار دیتے ہیں۔ کہیں عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کو تمام امت محمدیہ کے عقیدہ کے موافق متواترات دین میں داخل کرتے ہیں اور اس پر اجماع ہونا نقل کرتے ہیں اور کہیں اس عقیدہ کو مشرکانہ عقیدہ بتلاتے ہیں۔
ختم نبوت کا عقیدہ جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے۔ اسلام کے اہم اور بنیادی مسائل میں سے ہے اور خاتم النّبیین کے جو معنی مدعا علیہ کی طرف سے بیان کئے گئے ہیں۔ آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کے صحیح معنی وہی ہیں جو گواہان مدعیہ نے بیان کئے ہیں مدعا علیہ کی طرف سے اس ضمن میں یہ کہاگیا ہے کہ یہ حدیث ہے کہ قرآن شریف کی ہر آیت کے ایک ظاہری معنی ہیں اور ایک باطنی اور کہ تاویل کرنے والے کو کافر نہیں سمجھا گیا۔ اس کا جواب سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے یہ دیا ہے کہ یہ حدیث قوی نہیں اور باوجود قوی نہ ہونے کے اس کی مراد میرے نزدیک صحیح ہے۔ اس حدیث میں لفظ بطن سے تو جو کچھ رسول اﷲ ﷺ کے دل میں تھا وہ سب منکشف نہیں ہے۔ مجملاً ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن کی مراد وہ ہے کہ قواعد لغت اور عربیت سے اور ادلہ شریعت سے علماء شریعت سمجھ لیں اور اس کے تحت میں قسمیں ہیں اور بطن سے یہ مراد ہے کہ حق تعالیٰ اپنے ممتاز بندوں کو ان حقائق سے سرفراز کر دے اور بہتوں سے وہ خفی رہ جائیں۔ لیکن ایسا کوئی بطن جو مخالف ظاہر ہو اور قواعد شریعت رد کرتے ہوں۔ مقبول نہ ہوگا اور رد کیا جائے گا اور بعض اوقات باطنیت اور الحاد کی حد تک پہنچا دے گا۔ حاصل یہ ہے کہ ہم مکلف فرمانبردار بندے اپنے مقدور کے موافق ظاہر کی خدمت کریں اور بطن کو سپرد کر دیں خدا کے۔ تاویل کے متعلق ان کا یہ جواب ہے کہ اخبار احاد کی تاویل اگر کوئی شخص قواعد کے مطابق کرے تو اس کے قائل کو بدعتی نہیں کہیں گے۔ اگر قواعد کی رو سے صحیح نہیں تو وہ خاطی ہے۔ آیات قرآنی متواتر ہیں اور قرآن وحدیث جو نبی کریم سے ہم تک پہنچا اس کی دو جانبیں ہیں۔ 2246ایک ثبوت کی، دوسری دلالت کی۔ ثبوت قرآن کا متواتر ہے۔ اس تواتر کا اگر کوئی انکار کرے تو پھر قرآن کے ثبوت کی اس کے پاس کوئی صورت نہیں اور ایسا ہی جو شخص تواتر کی صحت کا انکار کرے اس نے دین ڈھادیا۔ دوسری جانب دلالت ہے جس کا معنی یہ ہے کہ مطلب پر رہنمائی کرنا۔ دلالت قرآن کی کبھی قطعی ہوتی ہے اور کبھی ظنی۔ اگر اجماع ہو جائے صحابہ کا اس کی دلالت پر یا کوئی اور دلیل عقلی یا نقلی قائم ہو جائے کہ مدلول یہی ہے تو پھر وہ دلالت بھی قطعی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ قرآن سارا بسم اﷲ سے لے کر والناس تک قطعی الثبوت ہے۔ دلالت میں کہیں ظنیت ہے اور کہیں قطعیت، لیکن قرآن کے معنی سے دلالت بھی قطعی ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں تاویل اوامر ونواہی میں ہوسکتی ہے۔ اخبار میں نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ مدعیہ کے گواہ مولوی نجم الدین صاحب نے بیان کیا ہے۔ اس بحث سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ آیت خاتم النّبیین قطعی الدلالت ہے اور اس کے بطن کے معنی ایسے نہیں ہوسکتے کہ جو رسول اﷲ ﷺ کے خاتم النّبیین معنی آخری نبی سمجھنے کے منافی ہوں اور چونکہ یہ اجماعی عقیدہ ہے۔ اس لئے مذکورہ بالا معنی سے انکار کفر ہے۔ مدعا علیہ کی طرف سے جو یہ کہاگیا ہے کہ تاویل کرنے والے کو کافر نہیں سمجھا گیا اور جن مسائل کی بناء پر اس نے ایسا کہا ہے۔ وہ اس قبیل کے نہیں۔ جیسا کہ مسئلہ ختم نبوت، لہٰذا یہ قرار دیاجاتا ہے کہ خاتم النّبیین کے جو معنی مدعیہ کی طرف سے کئے گئے ہیں اور اس معنی کے تحت جو عقیدہ ظاہر کیاگیا ہے اس عقیدہ سے انحراف وارتداد کی حد تک پہنچتا ہے اور کہ آنحضرت ﷺ کے بعد عہدہ نبوت اور وحی نبوت منقطع ہوچکے ہیں۔ مرزاصاحب صحیح اسلامی عقائد کی رو سے نبی نہیں ہوسکتے اور ان کے نبی نہ ہونے کی تائید میں ایک یہ امر بھی ہے کہ ان کے متبعین میں سے ایک گروہ جو لاہوری کہلاتے ہیں انہیں نبی تسلیم نہیں کرتے۔
لہٰذا ان کے مخالف جملہ فرقوں کے نزدیک اور ان کے ایک موافق فرقہ کی رائے میں رسول اﷲ ﷺ کا خاتم النّبیین بمعنی آخری نبی ہونا ثابت ہے۔ اس لئے مرزاصاحب کی نبوت کا دعویٰ کسی حالت میں بھی درست نہیں۔ ظلی اور بروزی نبی اگر آنحضرت ﷺ کے کمال اتباع سے ہونے ممکن ہوتے تو اس قسم کے نبی مرزاصاحب کے آنے 2247سے قبل کئی آچکے ہوتے۔ علاوہ ازیں مرزاصاحب کو درجہ کمال بھی اس وقت حاصل ہوسکتا تھا کہ اس قسم کے اور کئی نبی پیدا ہوچکے ہوتے۔ کیونکہ ہر جنس کا کمال اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کے اور ناقص افراد موجود ہیں۔ چنانچہ رسول اﷲ ﷺ بھی اسی لئے افضل الانبیاء ہیں کہ سلسلہ رسالت اور نبوت میں دیگر انبیاء منسلک ہیں۔ مرزاصاحب نے اپنے آپ کو خاتم الاولیاء ظاہر کر کے یہ بیان کیا ہے کہ وہ ولایت ختم کر چکے۔ لیکن اس سے وہ ولی ہی شمار ہوں گے۔ نبی نہیں سمجھے جائیں گے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے افاضۂ روحانی سے اگر نبوت مل سکتی ہے تو ضرور ہے کہ ان سے قبل ایسے نبی آتے کہ جن کے بعد انہیں درجہ کمال حاصل ہوتا۔ مدعیہ کی طرف سے یہ درست کہا گیا ہے کہ ظلی اور بروزی کی اصطلاحیں دراصل الفاظ ہی الفاظ ہیں۔ ورنہ دراصل مرزاصاحب کی مراد اس سے اصل نبوت سے ہے۔ جیسا کہ اس کی تشریح بعد میں ان کے خلیفہ ثانی نے کی۔ کچھ شک نہیں کہ یہ الفاظ مغالطہ پیدا کرنے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔ ورنہ ان کی کوئی حقیقت نہیں اور نہ ہی شرع میں اس قسم کے الفاظ پر کسی عقیدہ کا حصر ہے۔ مرزاصاحب نے یہ بیان کر کے کہ اس قسم کی نبوت قیامت تک جاری ہے۔ اسلام میں ایک فتنہ کی بناء ڈالی ہے اور ناممکن نہیں کہ ان کے بعد کوئی اور شخص دعویٰ نبوت کرے۔ ان کی کارگزاری کو بھی ملیا میٹ کر دے۔