(تمہیں دوسرے فرقوں کو بکلّی ترک کرنا پڑے گا)
جناب یحییٰ بختیار: اچھا ، وہ دوسرا حوالہ۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، اس کے متعلق نہیں۔ ضمیمہ ’’تحفہ گولڑویہ‘‘ صفحہ:۲۷ ۔ سوال یہ تھا کہ وہاں یہ ہے کہ: ’’تمہیں دوسرے فرقوں کو کُلی ترک کرنا پڑے گا۔‘‘
859اس سے یہ پتہ لگتا ہے کہ علیحدہ آپ نے بالکل ملت اسلامیہ سے بالکل ممتاز چیز بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ تو اگر ہم (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۷) کو دیکھیں تو خود اس جگہ اس کا جواب موجود ہے۔ وہاں کی عبارت یہ ہے: ’’جیسا خدا نے مجھے اطلاع دی ہے، تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر اور مکذب یا متردد کے پیچھے نماز پڑھو، بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو۔ اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ ’’امامکم منکم‘‘ یعنی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ اس پر پہلے فقیر نوٹ لکھ چکا ہے، یہ ۳؍ جولائی ۱۹۵۲ء کا پرچہ نہیں، یہ ۳ ؍ جنوری ۱۹۵۲ء کا پرچہ ہے اس کی مکمل عبارت فقیر نے پہلے نقل کردی ہے، مرزا ناصر کو معلوم تھا کہ یہ ۳؍ جولائی کا پرچہ نہیں، ۳؍جنوری ۱۹۵۲ء کا ہے ، لیکن جان بوجھ کر غلط بیانی کی کہ ’’ہمیں نہیں معلوم کہ کونسا پرچہ ہے، ہمیں تو نہیں ملا۔‘‘ حالانکہ یہی وہ پرچہ ہے جس کے متعلق مرزا محمود سے ۱۹۵۳ء میں بھی پوچھا گیا تھا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جب مسیح نازل ہوگا تو تمہیں فرقوں کو، جو دعویٰ اسلام کرتے ہیں، کلی ترک کرنا پڑے گا۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۱۸حاشیہ، خزائن ج۱۷ص۶۴)
نماز کی امامت کے سلسلے میں صرف۔ ایک ہے (انوارالاسلام ص۳۰، خزائن ج۹ ص۳۱) جو فقرہ یہاں سوال میں پیش کیا گیا تھا، جہاں تک ہمیں یاد ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس کوئی ٹیپ تو ہے ہی نہیں۔ انہوں نے جو نوٹ کیا ہے اس کے مطابق ’’ولد الحرام بننے کا شوق ہے‘‘ اس قسم کا فقرہ کہ مسلمانوں کو یہ کہا گیا ہے ’’انوار الاسلام‘‘ میں۔ یہ عبارت خود اپنے معانی کو ظاہر کررہی ہے۔ یہاں یہ لکھا ہوا ہے: ’’اب اس سے زیادہ صاف اور کون فیصلہ ہوگا…‘‘ ’’کونسا‘‘ غالباً ہے، لفظ چھوٹا ہوا ہے۔ بہرحال:
’’اس سے زیادہ صاف اور کون فیصلہ ہوگا۔ کہ ہم دو (۲) کلموں کے مول میں خود امرتسر میں جاکر دو (۲) ہزار روپیہ دیتے ہیں آتھم کو۔ مسٹر عبداللہ آتھم اگر درحقیقت مجھے کاذب سمجھتا ہے (عبداللہ آتھم کی بات ہورہی ہے) مسٹر عبداللہ آتھم اگر درحقیقت مجھے کاذب سمجھتا ہے اور جانتا ہے کہ ایک ذرہ بھی اس نے اسلامی عظمت کی طرف860 رجوع نہیں کیا تو وہ ضرور بلاتوقف عبارتِ مذکورہ کے موافق اقرار کردے گا، کیونکہ اب تو وہ اپنے تجربہ سے جان چکا کہ میں جھوٹا ہوں۔ (اپنے متعلق ’’میں جھوٹا ہوں‘‘) اور مسیح کی حفاظت کو اس نے (یعنی عیسائی عبداللہ آتھم نے) مشاہدہ کرلیا، پھر اس مقابلہ سے اس کو کیا خوف ہے؟ کیا پہلے پندرہ ۱۵ مہینوں میں مسیح زندہ تھا اور مسٹر عبداللہ آتھم کی حفاظت کرسکتا تھا، اور اب مرگیا ہے، اس لئے نہیں کرسکتا، جبکہ عیسائیوں نے اپنے اشتہار میں یہ کہہ کے اعلان دیا ہے-کہ خدواوند مسیح نے مسٹر عبداللہ آتھم کی جان بچائی-پھر اب بھی خدواند مسیح جان بچائے گا۔ کوئی وجہ معلوم نہیں ہوئی کہ اب مسیح کے خداوند قادر ہونے کی نسبت مسٹر عبداللہ آتھم کو کچھ شک اور تردُّد پیدا ہوجائے اور پہلے وہ شک نہ ہو، بلکہ اب تو بہت یقین چاہئے، کیونکہ اس کی خداوندی اور قدرت کا تجربہ ہوچکا اور نیز ہمارے جھوٹ کا تجربہ لیکن یاد رکھو کہ مسٹر عبداللہ آتھم اپنے دل میں خوب جانتا ہے کہ یہ سب باتیں جھوٹ ہیں کہ اس کو مسیح نے بچایا۔ جو خود مرچکا وہ کس کو بچاسکتا ہے؟ اور جو مرگیا وہ قادر کیونکر اور خدواند کیسا؟ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ سچے اور کامل خدا کے خوف نے اس کو بچایا۔ اگر ایک نادان عیسائیوں کی تحریک سے بے باک ہوجائے گا تو پھر اس کامل خدا کی طرف سے بے باکی کا مزا چکھے گا۔ غرض اب ہم نے فیصلے کی صاف صاف راہ بتادی اور جھوٹے سچے کے لئے ایک معیار پیش کردیا۔ اب جو شخص اس صاف فیصلے کے برخلاف شرارت اور عناد کی راہ سے بکواس کرے گا اور اپنی شرارت سے بار بار کہے گا کہ عیسائیوں کی فتح ہوگی اور کچھ شرم اور حیا کو کام میں نہیں لائے گا اور بغیر اس کے جو ہمارے اس فیصلے کا انصاف کی رو سے جواب دے سکے، انکار اور زبان درازی سے باز نہیں آئے گا اور ہماری فتح کا861 قائل نہیں ہوگا۔ (اسلام کی فتح کا) تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں، پس حلال زادہ بننے کے لئے واجب یہ تھا کہ اگر وہ مجھے جھوٹا جانتا ہے (عبداللہ آتھم) اور عیسائیوں کو غالب اور فتح یاب قرار دیتا ہے تو میری حجت کو واقعی طور پر رفع کرے جو میں نے پیش کی ہے۔‘‘
تو میرے نزدیک تو یہ عبارت بڑی واضح ہے کہ اس کا مخاطب عبداللہ آتھم اور اس کے ساتھی عیسائی ہیں اور اس سے اور بھی آگے اگر پڑھ لیا جائے تو زیادہ واضح ہوجاتا ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ یہ واضح ہے اور زیادہ وقت نہیں کرنا چاہئے ضائع۔ لیکن اگر … اس میں پھر آگے تشریح ہے کہ ’’حرام زادہ‘‘ کس وجہ سے اور کس کو کہا گیا ۔ اگر کہیں تو میں پڑھ دیتا ہوں۔ ہاں جی؟