بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
تنسیخ نکاح کے مقدمہ کے فیصلہ کے متن کا ترجمہ
(از حریت کراچی)
فیصلہ کا متن:
فیملی سوٹ نمبر۹/۱۹۶۹ء
مسماۃ امۃ الہادی دختر سردار خان مدعیہ
بنام
حکیم نذیر احمد برق مدعا علیہ
فیصلہ:تنسیخ نکاح کے مقدمہ کے فیصلہ کے متن کا ترجمہ
(از حریت کراچی)
فیصلہ کا متن:
فیملی سوٹ نمبر۹/۱۹۶۹ء
مسماۃ امۃ الہادی دختر سردار خان مدعیہ
بنام
حکیم نذیر احمد برق مدعا علیہ
مدعیہ نے یہ مقدمہ مدعا علیہ کے ساتھ اپنے نکاح کی تنسیخ کے لئے مندرجہ ذیل امور کی بناء پر دائر کیا ہے۔
یہ کہ ۲۲؍مارچ ۱۹۶۹ء کو جب مدعیہ کی عمر بمشکل ساڑھے چودہ برس تھی اس کے والد نے محمڈن لاء کے تحت اس کی شادی مدعا علیہ کے ساتھ کر دی۔ مدعیہ کا والد ایک ضعیف شخص ہے اور 2303اپنا ذہنی توازن کھو چکا ہے اور اپنی روزی کمانے کے لائق نہیں ہے۔ اس لئے مدعیہ اور اس کے دوسرے بہن بھائیوں کی پرورش اس کے بڑے بھائی نے کی جو سرکاری ملازم ہے۔ مدعیہ کا والد مدعا علیہ کے روحانی اثر میں ہے۔ جس کی عمر ساٹھ سال ہے اور جو خود کو ایک ایسا مذہبی مصلح قرار دیتا ہے جس کے روابط اﷲتعالیٰ سے ہیں۔ مدعیہ کا والد عرصے سے مدعا علیہ کے ساتھ ہے اور اس پر ایمان رکھتا ہے اور مذہبی اختلافات کے باعث اس کے تعلقات کنبے کے دوسرے افراد کے ساتھ خوشگوار نہیں ہیں۔ مدعیہ اپنے بھائی کے ساتھ کنری میں رہائش پذیر تھی اور وہ اپنے باپ کو دیکھنے کے لئے گئی تھی۔ جب مؤخر الذکر نے اس کی شادی مدعا علیہ کے ساتھ کر دی۔ شادی کے فوراً بعد مدعیہ اپنی ماں کے پاس واپس آگئی اور اسے دھوکے کی اس شادی اور اس سے اپنی ناراضگی کے بارے میں مطلع کیا۔ مدعا علیہ اور مدعیہ کے درمیان میاں بیوی کے تعلقات ابھی تک قائم نہیں ہوئے تھے۔ مدعا علیہ ساٹھ سال کی عمر کا ایک بوڑھا شخص ہے اور مدعیہ کی برادری کا آدمی نہیں ہے۔ ان کے درمیان مذہبی اختلافات کے علاوہ مدعا علیہ اور مدعیہ کے بھائی میں شادی کی بناء پر طویل عرصہ تک فوجداری مقدمہ بازی ہوتی رہی ہے اور یہ کہ مدعیہ اس شادی کے نتیجہ میں مدعا علیہ کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی۔ مدعا علیہ نے دو سال سے زائد عرصہ تک مدعیہ کو خرچ وغیرہ بھی نہیں دیا ہے۔ یہ کہ مدعیہ اب سن بلوغ کو پہنچ چکی ہے۔ وہ اس عدالت کے دائرہ اختیار میں ہے اور اب اس نے اس مقدمے کے ذریعے اپنا حق بلوغت استعمال کیا ہے یہ کہ بصورت دیگر بھی فریقین کے درمیان یہ شادی غیرقانونی اور ناجائز ہے۔ کیونکہ مدعیہ سنی مسلمان ہے اور مدعا علیہ احمدی (قادیانی) ہے۔
مدعا علیہ نے اس مقدمے کی سماعت کی مخالفت متعدد وجوہ کی بناء پر کی جو اس کے تیرہ صفحات پر مشتمل تحریری بیان میں شامل ہیں۔ میں ضروری نہیں سمجھتا کہ یہاں اس تحریری بیان کو دوبارہ پیش کروں۔کیونکہ اس سے فیصلہ غیرضروری طور پر طویل ہو جائے گا۔ تاہم اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ مدعا علیہ نے مدعیہ کے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ اس نے عمر کے بارے میں بھی مدعیہ کے بیان اور مدعیہ کی رہائش کے سوال پر عدالت کے دائرہ اختیارات کو چیلنج کیا ہے اور حق زنا شوئی دلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ مدعا علیہ نے مدعیہ کے والد سے اپنے تعلقات کی تفصیلات بھی 2304بیان کی ہیں اور اپنے مذہبی عقائد کا تذکرہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ فریقین کے درمیان یہ شادی قانونی ہے۔ فیصلہ میں مناسب موقع پر مدعا علیہ کے مؤقف سے بحث کی جائے گی۔
فریقین کے بیانات کی روشنی میں مندرجہ ذیل امور تصفیہ طلب قرار پاتے ہیں:
۱… آیا عدالت کو اس مقدمے کی سماعت کا اختیار نہیں ہے؟
۲… آیا فریقین کے درمیان سابقہ مقدمہ بازی کا تصفیہ ہو جانے کے باعث اب مدعیہ کو یہ مقدمہ دائر کرنے کا حق پہنچتا ہے؟
۳… آیا مدعیہ شادی کے وقت نابالغ تھی؟
۴… آیا مدعیہ کے والد نے مدعا علیہ کے ساتھ اس کی شادی دھوکہ سے کی تھی؟
۵… آیا فریقین کے درمیان یہ شادی غیرقانونی تھی؟
۶… آیا مدعیہ کو حق حاصل ہے کہ وہ مدعا علیہ کے ساتھ اپنا نکاح فسخ کرنے کا اعلان کرے؟
۷… آیا مدعا علیہ دوسال سے زائد عرصے تک مدعیہ کو خرچ وغیرہ دینے میں ناکام رہا ہے؟
۸… آیا مدعیہ کو خلع لینے کا حق حاصل ہے اور اگر ہے تو کن شرائط پر؟
میں نے فریقین کے وکلاء کے دلائل سنے ہیں اور مدعا علیہ کا مؤقف بھی جو اس نے خود پیش کیا سنا ہے۔ مدعیہ کے فاضل وکیل مسٹر محمد عثمان نے مذہب اور قانون کے بارے میں کئی کتابوں کے حوالے دئیے۔ جن کا تذکرہ میں فیصلے میں کروں گا۔ دلائل کی سماعت اور مقدمے کے شواہد پر غور کرنے کے بعد میں نے مندرجہ نتائج اخذ کئے ہیں۔
مسئلہ نمبر:۱
مدعیہ نے اپنی درخواست میں اور عدالت کے روبرو اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ سامارو میں رہائش پذیر ہے۔ مدعا علیہ نے اس کی نہ تو اپنے تحریری بیان میں تردید کی ہے اور نہ عدالت کے روبرو اسے چیلنج کیا ہے۔ اپنے تحریری بیان کے پیراگراف نمبر۱۲ میں مدعا علیہ نے اعتراف کیا ہے 2305کہ مدعیہ سامارو میں اپنے بھائی کے پاس رہائش پذیر رہی ہے۔ اس لئے مدعیہ کی عمومی رہائش گاہ وہ جگہ تصور کی جائے گی جہاں وہ واقعی رہ رہی ہے نہ کہ وہ جگہ جہاں اس کا باپ رہتا ہے۔ مغربی پاکستان فیملی کورٹ رولز مجریہ ۱۹۶۵ء کے ضابطہ نمبر۶ کے تحت جس جگہ مدعی رہائش پذیر ہو۔ اس کی عدالت کو تنسیخ نکاح کے مقدمے کی سماعت کا حق حاصل ہے۔ سامارو یقینا اس عدالت کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے اور یہ عدالت زیرنظر مقدمے کی سماعت اور اس کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔ چنانچہ زیربحث مسئلے کا تصفیہ مدعیہ کے حق میں کیاجاتا ہے۔
مسئلہ نمبر:۲
اس مسئلہ کے تصفیہ کی ذمہ داری مدعا علیہ پر ہے۔ جس نے اپنے مؤقف کی حمایت میں کوئی شہادت پیش نہیں کی۔ وہ یہ ثابت کرنے کے لئے کسی عدالت کا کوئی فیصلہ پیش نہیں کر سکا ہے کہ اب اس مقدمہ کو دوبارہ زیربحث نہیں لایا جاسکتا۔ اس ضمن میں مدعا علیہ کا موقف بے جان ہے اور اس میں کوئی وزن نہیں۔ اس لئے اس مسئلے کا فیصلہ مدعا علیہ کے خلاف کیا جاتا ہے۔
مسئلہ نمبر:۵
یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے اور اگر اس کا فیصلہ مدعیہ کے حق میں ہو جائے تو پھر اس مقدمے کے فیصلے کے لئے دوسرے امور پر غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ فریقین کے فاضل وکلاء نے اس مسئلہ پر سیر حاصل بحث کی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ مدعا علیہ حکیم نذیراحمد نے اپنے وکیل مسٹر لطیف کی اعانت کے بغیر ہی اس مسئلہ کے قانونی پہلو پر پورے مذہبی جوش وخروش کے ساتھ اپنی خود وکالت کی۔
مدعا علیہ کے فاضل وکیل مسٹر لطیف نے مغربی پاکستان فیملی کورٹ ایکٹ مجریہ ۱۹۶۴ء کی دفعہ ۲۳ پر انحصار کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا کہ اس عدالت کو شادی کے قانون جواز کی سماعت کا اختیار نہیں۔ کیونکہ یہ شادی مسلم فیملی لاز آرڈیننس کے تحت انجام پائی تھی۔
دفعہ ۲۳ میں کہاگیا ہے۔
2306’’کوئی فیملی کورٹ کی شادی کے جواز پر غور نہیں کرے گی جو مسلم فیملی لاز آرڈیننس مجریہ ۱۹۶۱ء کے مطابق رجسٹر کی گئی ہو۔ اس سلسلے میں متذکرہ عدالت کے لئے کوئی شہادت بھی قابل قبول نہیں ہوگی۔‘‘
متذکرہ دفعہ ۲۳ کا احتیاط کے ساتھ مطالعہ کرنے پر اس کی زبان ہی سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شادی کے جواز پر غور کرنے کے سلسلہ میں پابندی صرف اس صورت میں ہے جب کوئی شادی مسلم فیملی لاز آرڈیننس کے تحت ہوئی ہو۔ اس لئے دفعہ ۲۳ کے مندرجات کا سہارا لینے سے پہلے مدعا علیہ کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ فریقین کی شادی مسلم فیملی لاز آرڈیننس مجریہ ۱۹۶۱ء کے تقاضوں کے مطابق ہوئی تھی۔ مسلم لاز آرڈیننس کی دفعہ نمبر۱ کی ذیلی دفعہ نمبر۲ میں واضح طور پر کہاگیا ہے کہ اس کا اطلاق پاکستان کے تمام مسلمان شہریوں پر ہوتا ہے۔ متذکرہ آرڈیننس کی دفعہ۵ کے تحت صرف وہ شادیاں رجسٹر کی جاسکتی ہیں جو مسلم لاز کے تحت انجام پائی ہوئی ہوں اور آرڈیننس کی دفعہ نمبر۵ کی ذیلی دفعہ نمبر۱ میں کہاگیا ہے۔
’’ہر وہ شادی جو مسلم لاز کے تحت انجام پائی ہو۔ اس آرڈیننس کے مندرجات کے مطابق رجسٹر کی جائے گی۔‘‘
مسلم فیملی لاء کے تحت کسی مخالف فرقے کے شخص کے ساتھ شادی کرنے کے سلسلے میں ایک مسلمان کے غیر محدود اختیار پر پابندیاں عائد ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے اہم پابندی فریقین کا مذہب یا عقائد ہیں۔ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ آزادانہ شادی کر سکتے ہیں اور تھوڑا بہت فقہی مسلک کا اختلاف کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ فقہ حنفی میں ایک مرد کسی عورت یا کتابیہ سے شادی کر سکتا ہے۔ لیکن ایک مسلمان عورت مسلمان مرد کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کر سکتی۔ ایک مسلمان عورت کسی کتابی سے بھی شادی نہیں کر سکتی اور کسی بھی غیرمسلم سے جن میں عیسائی، یہودی یا بت پرست شامل ہیں اس کی شادی ناجائز ہوگی۔ مدعیہ کے فاضل وکیل نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مدعیہ اور مدعا علیہ کے درمیان شادی غیرمؤثر ہے۔ 2307کیونکہ موخر الذکر قادیانی (احمدی) غیرمسلم ہے۔ اس لئے اب یہ سوال تصفیہ طلب ہے کہ آیا فریقین کے درمیان شادی مسلم لاز کے تحت ہوئی ہے اور چونکہ یقینی طور یہ شادی مسلم لاء کے تحت جائز نہیں ہے۔ اس لئے مقدمے کے اس پہلو کا تفصیلی جائزہ لینا اور بھی ضروری ہوگیا ہے۔ اس ضمن میں کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے یہ پتہ چلانا ضروری ہے کہ دونوں فریق مسلمان ہیں یا نہیں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں یہ عدالت فریقین کے بارے میں چھان بین کر سکتی ہے۔ فیملی کورٹس ایسے ہی معاملات کا تعین کرنے کے لئے خاص طور پر تشکیل دی گئی ہیں۔ اس لئے میری رائے یہ ہے کہ فریقین کے درمیان شادی کے جواز کی چھان بین کی جاسکتی ہے۔
مدعیہ کے بیان کے مطابق مدعا علیہ کے ساتھ اس کی شادی غیرمؤثر ہے۔ اس لئے اگر قانون کی نظر میں بھی نکاح غیرمؤثر ہے اور ایسا نکاح جو غیرقانونی طور پر مسلم فیملی لاز آرڈیننس کے تحت رجسٹر کیاگیا۔ کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتا اور یہ فیملی کورٹ کی دفعہ۲۳ کے تحت مانع نہیں ہوسکتا۔ میں قانون کی اس تعبیر سے متفق ہوں اور یہ قرار دینے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا کہ دفعہ ۲۳ کے تحت جو ممانعت کی گئی ہے اس کا اطلاق صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ جائز مسلم شادی کو مسلم فیملی لاز آرڈیننس کے تحت درج کیاگیا ہو اور اس مقصد کے تحت عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ آیا فریقین کے درمیان جو نکاح ہوا ہے وہ وجود بھی رکھتا ہے یا نہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مغربی پاکستان فیملی کورٹ میں ترمیمی آرڈیننس مجریہ ۱۹۶۹ء کے ذریعے ترمیم کر دی گئی ہے۔ جس کے تحت کلاز نمبر۷ کے شیڈول میں اضافہ کیاگیا ہے اور شادیوں کے جواز کے مقدمات کی سماعت کے لئے خصوصی اختیارات دئیے گئے ہیں۔ اس اضافے کے پیش نظر میری رائے یہ ہے کہ مغربی پاکستان فیملی کورٹ آرڈیننس کی دفعہ نمبر۲۳ اس حد تک بالواسطہ طور پر منسوخ کر دی گئی ہے۔ اب اس امر کا جائزہ لینے سے پہلے کہ آیا مدعا علیہ ایک غیرمسلم ہے۔ میں مغربی پاکستان کے خلاف آغا شورش کاشمیری کی رٹ درخواست نمبر۹۳۷ 2308(۱۹۶۸ئ) کے ضمن میں مغربی پاکستان ہائیکورٹ کے ججوں کے ان مشاہدات کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ جن میں قرار دیا گیا ہے کہ عدالت یہ تعین کر سکتی ہے کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں۔ اگر اس سلسلے کا تعلق کسی طور جائیداد یا کسی منصب کے حق سے ہو۔ یہ مشاہدات زیر بحث مقدمہ میں میری تائید کرتے ہیں کہ عدالت یہ چھان بین کرنے کی مجاز ہے کہ مدعا علیہ قادیانی (احمدی) ہونے کی وجہ سے مسلمان ہے یا نہیں۔ عدالت عالیہ کے فاضل ججوں نے رٹ درخواست نمبر۹۳۷ (۱۹۶۸ئ) میں جو مشاہدات پیش کئے تھے اور جن کا ذکر اوپر کیاگیا ہے وہ درج ذیل ہیں۔
’’۲۴۔ جہاں تک تجارت اور پیشے کی آزادی اور تقریر کی آزادی سے متعلق بنیادی حقوق ۸اور۹ کا تعلق ہے وہ ہنگامی حالات کے اعلان کی وجہ سے معطل ہوگئے ہیں۔ مذہب پر عمل اور اس کے اعلان کی آزادی ہے۔ لیکن اس پر عمل کا مسئلہ قانون امن عامہ اور اخلاقیات کے تابع ہے۔ اس لئے یہ قطعی نہیں ہے۔ قانون کے تابع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کے لئے یہی آزادی تسلیم کی گئی ہے جو قانون امن عامہ اور اخلاقیات کے تقاضوں کے تابع ہے۔ درخواست گزار کے فاضل وکیل کے تمام دلائل کا لب لباب یہ ہے کہ احمدی اسلام کا فرقہ نہیں ہے اور یہ بات کہنے کی ضمانت درخواست گزار کو آئین کی رو سے حاصل ہے۔ لیکن فاضل وکیل یہ حقیقت نظر انداز کر گئے ہیں کہ پاکستان کے شہریوں کی حیثیت سے احمدیوں کو بھی یہ آئینی ضمانت اور آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے اسلام کے دائرے میں ہونے کا اعلان کریں۔ درخواست گزار دوسروں سے وہ حق کیوں کر چھین سکتا ہے۔ جو وہ خود اپنے لئے طلب کرتا ہے۔ یہ بات ہماری فہم سے بالاتر ہے۔ وہ یقینا انہیں دھمکا نہیں سکتا۔ اس وقت تصفیہ طلب بات یہ ہے کہ درخواست گزار اور ان کے دوسرے ہم خیال قانونی طور پر احمدیوں کو یہ ماننے سے کیونکر روک سکتے ہیں کہ اسلام کے دوسرے فرقوں کے نظریاتی اختلافات کے باوجود اسلام کے اتنے ہی اچھے پیرو ہیں۔ جتنا کہ کوئی اور شخص جو خود کو مسلمان کہتا ہے اس سوال کا جواب درخواست گزار کے 2309وکیل نے بڑی صفائی سے نفی میں دیا کہ آیا ایسا کوئی مقدمہ یا اعلان جائز ہوگا۔ جس کے ذریعہ یہ طے کیاجائے کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں یا جس کے ذریعے سے احمدیوں کو خود کو مسلمان کہنے سے روک دیا جائے۔ یہ بات قابل اطمینان ہے اور یہ مجرد سوال اس وقت تک نہیں اٹھایا جانا چاہئے جب تک اس کا کوئی تعلق کسی جائیداد یا منصب کے حق سے نہ ہو۔ ایسی صورت میں ایک دیوانی مقدمہ جائز ہوگا۔ مؤخر الذکر کی معروف شکلوں کا تعلق سجادہ نشین یا خانقاہ کے متولی کے عہدوں اور ایسے دوسرے اداروں سے ہے جن میں بعض اوقات مذہبی عقائد ان عہدوں پر فائز ہونے کی بنیادی شرط ہوتے ہیں۔ ہمارے مقاصد کے تحت سب سے موزوں مثال آئین کا آرٹیکل نمبر۱۰ ہے۔ جس کے مطابق دوسری خصوصیات کے علاوہ صدارتی انتخابات کے امیدوار کے لئے مسلمان ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ صدارتی انتخاب کے ایکٹ مجریہ ۱۹۶۴ء کی دفعہ۸ کے تحت ریٹرنگ افسر کو یہ اختیار ہے کہ وہ اس بات کا اطمینان کرنے کے لئے سرسری تحقیقات کرے کہ کوئی صدارتی امیدوار آئین کے تحت صدر منتخب ہونے کا اہل ہے۔ اس میں یہ تحقیقات بھی شامل ہے کہ متذکرہ امیدوار مسلمان ہے۔ اگر کسی امیدوار کے کاغذات نامزدگی اس لئے مسترد کر دئیے جائیں کہ وہ مسلمان نہیں تو پھر الیکشن کمیشن کے روبرو اپیل کی جاسکتی ہے اور اس قسم کی اپیل پر کمیشن جو بھی فیصلہ دے گا وہ قطعی ہوگا۔ آئین کے آرٹیکل نمبر۱۷۱ میں مزید کہاگیا ہے کہ انتخاب کے سلسلے میں کسی تنازعہ کا تصفیہ صرف طے شدہ طریق کار کے مطابق یا اس مقصد کے لئے قائم شدہ ٹربیونل کے ذریعے ہوگا۔ کسی اور طریق سے نہیں۔ آرٹیکل کے کلاز نمبر۲ میں کہاگیا ہے کہ: ’’جب کسی شخص کے صدر منتخب ہونے کا اعلان کر دیا جائے تو انتخاب کے جواز کو کسی بھی طرح کسی بھی عدالت یا اتھارٹی کے روبرو زیر بحث نہیں لایا جاسکے گا۔‘‘
اس طرح یہ بات ظاہر ہے کہ صدارتی انتخاب کے لئے بھی اس بات کا قطعی تعین کرنے کی غرض سے خصوصی اختیارات وضع کئے گئے ہیں کہ امیدوار مسلمان ہیں یا نہیں اور دیوانی عدالت کا دائرۂ اختیار محدود کر دیا گیا ہے۔
2310اب ہم ہر اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ زیربحث مقدمہ میں فریقین کے درمیان ہونے والی شادی مسلم شادی نہیں ہے۔ کیونکہ مدعیہ کے بیان کے مطابق مدعا علیہ قادیانی (احمدی) عقائد کا پیرو ہونے کے سبب غیرمسلم ہے۔ اس سلسلہ میں صرف ایک نقطہ غور طلب ہے اور وہ یہ ہے مدعا علیہ مسلمان ہے یا نہیں۔ جہاں تک مدعیہ کا تعلق ہے وہ حنفی (سنی) مسلم ہے جب کہ مدعا علیہ نے خود اقرار کیا ہے کہ وہ قادیانی (احمدی ) ہے۔
مدعا علیہ کے عقیدے اور اس کے مذہب کے بارے میں صحیح رائے قائم کرنے کے لئے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بیان کے ضروری حصے اور اس کے خطوط اور بعض دوسری تحریریں پیش کر دی جائیں، اپنے بیان ایکس ۲۹ میں مدعا علیہ کہتا ہے: ’’میں احمدی فرقہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں ۸؍نومبر ۱۹۶۵ء سے خلیفہ ہوں اور اسی وقت سے سردار محمد خان میرا پیروکار ہے۔ میں مرزاغلام احمد قادیانی کا تیسرا خلیفہ ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ سردست احمدی جماعت کے خلیفہ مرزاناصر احمد ایم۔اے ہیں۔ جو مرزاغلام احمد کے دوسرے خلیفہ کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں۔ مرزاغلام احمد کے دوسرے خلیفہ بشیرالدین احمد تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ اپنی درخواست کے پیراگراف نمبر۳ میں میں نے بیان دیا تھا کہ مدعیہ کا باپ اسلام کے سنی فرقے سے تعلق رکھتا ہے۔ میں مرزاغلام احمد قادیانی کا سچا پیروکار ہوں اور ان کی تعلیمات پر مکمل ایمان رکھتا ہوں۔ میں نے مرزاغلام احمد قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔‘‘
’’یہ حقیقت ہے کہ میں نے ایک خط میں لکھا ہے کہ قرآن پاک کے مطالعہ سے مجھ پر یہ انکشاف ہوا ہے کہ ۱۳۹۹ھ میں رمضان کے مہینے میں دو شنبے کی کسی شب کو مجھے امتی نبی اور رسول بنایا جائے گا۔ میں نے ایک ایکس ۳۴ اور خط میں لکھا ہے کہ عرش پر اور آسمان پر میرا حقیقی نام محمد احمد ہے۔ یہ میرا عقیدہ ہے کہ مرزاغلام احمد میری روحانی ماں اور حضرت محمد ﷺ میرے روحانی باپ ہیں اور میں ان کا مکمل روحانی بیٹا ہوں۔
2311مجھے مرزاغلام احمد کی تحریروں پر ایمان ہے… میں اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ مرزاغلام احمد نے اپنے نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ مرزاغلام احمد نے خود کو امتی نبی اور رسول قرار دیا تھا… یہ حقیقت ہے کہ ۵؍مارچ ۱۹۰۸ء کے ’’بدر‘‘ کے شمارے میں مرزاغلام احمد کا ایک دعویٰ شائع ہوا تھا۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ نبی اور رسول ہیں۔ اس میں انہوں نے یہ دعویٰ امتی نبی یا رسول کی حیثیت سے نہیں کیا تھا۔ میں نے مرزابشیرالدین کی کتاب ’’حقیقت النبوۃ‘‘ پڑھی ہے۔ جس میں مرزاغلام احمد کو مجازی نہیں بلکہ حقیقی نبی قرار دیا گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جو شخص نبی کے منصب کا منکر ہوتا ہے۔ وہ کافر قرار پاتا ہے۔ میں نے مرزابشیرالدین کی کتاب آئینہ صداقت پڑھی ہے جس میں کہاگیا ہے کہ جو شخص حضرت مرزاغلام احمد کی نبوت پر یقین نہیں رکھتا۔ وہ قطع نظر اس کے کہ اس نے ان کا نام سنا ہے یا نہیں۔ کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ مرزافضل احمد ولد مرزاغلام احمد نے مرزاغلام احمد کی بیعت نہیں کی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ مرزاغلام احمد نے اپنے بیٹے مرزافضل احمد کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی۔ اپنے عقیدے کے مطابق ہم ان لوگوں کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے جو مرزاغلام احمد کی نبوت پر یقین نہیں رکھتے۔ ہمارے عقیدے کے مطابق مرزاغلام احمد کی پیروکار کسی عورت کی شادی کسی ایسے شخص سے نہیں ہوسکتی جو ان کے پیروکار نہیں۔‘‘
اگزبٹ ۳۶ میں مدعا علیہ کہتا ہے: ’’علیم وحکیم خداتعالیٰ نے اپنے کل وعدوں وغیرہ اور ازلی وابدی ارادوں وغیرہ کے مطابق مجھ عاجز ۱۹۶۷۔۱۲۔۳۱ کو بروز اتوار اپنے الہامات کے ذریعے یہ علم بخشا کہ ہم نے اپنے ازلی وابدی ارادوں وغیرہ کے مطابق ۲۷؍رمضان کی شب شنبہ ۲۹،۳۰؍دسمبر ۱۹۶۷ء کی درمیانی رات میں اپنے عرش بریں پر اور کل آسمانوں پر ایک اعلان کر کے یہ حقیقت ظاہر کر دی ہے کہ برق عرش کو (یعنی مدعا علیہ) آج کی رات سے محمدمصطفیٰ ﷺ اور احمد قادیانی کی نبوت ورسالت وغیرہ ظلی وبروزی راہ سے عطا کر کے ان کو روحانی طور پر احمد رسول اﷲ اور محمد رسول اﷲ ہونے کا کل شرف دے دیا ہے۔ بعدہ یہ علم ملاکہ 2313ہم نے حضرت محمد رسول اﷲ، احمد رسول اﷲ کا شمس الانبیاء ہونا کل دنیا پر ظاہر وباہر کرنے کے لئے مجھے قمر الانبیاء یعنی کل رسولوں کا چاند ہونے کا مقام ومرتبہ عطاء کر دیا ہے۔‘‘
اگزبٹ ۳۸ میں مدعا علیہ کہتا ہے: ’’میں عاجز آپ لوگوں کے نزدیک تو سب انسانوں سے ہر طرح بدترین ہوں اور آپ لوگ مجھ کو ہر طرح سے تباہ وبرباد کرنا، عین نیکی کا کام اور بہت بڑا ثواب وغیرہ جانتے ہیں۔ مگر خدااور رسول کے نزدیک چونکہ خدا اور رسول کا بہت ہی شاندار غیرمعمولی خلیفہ اور امام الزمان اور پندرھویں صدی ہجری کا مجدد اور کل روحانی آسمانوں وغیرہ کا شہنشاہ اور حضرت رسول وغیرہ کا کامل اور جامع بروز مظہر ومثیل وغیرہ ہوں۔‘‘
اگزبٹ ۳۴ میں مدعا علیہ کہتا ہے: ’’مرزاغلام احمد قادیانی میرے نزدیک بروزی وظلی طور پر وہ کچھ تھے۔ جو حضرت رسول عربی تھے۔ میں عاجز بروزی اور ظلی طور پر وہی کچھ ہوں جو کہ حضرت مرزاصاحب تھے۔ آنحضرت میرے لئے روحانی طور پر باپ ہیں اور حضرت مرزا صاحب روحانی طور پر ماں ہیں اور میں ان دونوں سے پیدا ہونے والا کامل اور جامع روحانی بیٹا ہوں اور خداتعالیٰ کے عرش اور آسمانوں پر میرا اصل نام محمد احمد ہے۔‘‘
مدعا علیہ نے اعتراف کیا ہے کہ وہ مرزاغلام احمد کا پیروکار ہے۔ اس لئے یہ معلوم کرنا بے حد ضروری ہے کہ مرزاغلام احمد کی پیروی کرنے اور ان کی تعلیمات پر ایمان رکھنے کے باوجود مدعا علیہ کو مسلمان تصور کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ اس مقصد کے لئے احمدیوں کی تاریخ کی چھان بین کرنا غیرضروری نہ ہوگا۔