(تنقیحات مقدمہ)
۱… کیامدعا علیہ مذہب قادیانی یا مرزائیت اختیار کر چکا ہے اور اس لئے ارتداد لازم آتا ہے۔
۲… اگر تنقیح بالا بحق مدعیہ ثابت ہوتو کیا نکاح فیما بین فریقین قابل انفساخ ہے؟
ان تنقیحات کے ثبوت میں مدعیہ نے مدعا علیہ کو عدالت مذکور میں بحیثیت گواہ خود پیش کیا تو مدعا علیہ نے ۵؍دسمبر ۱۹۲۶ء کو یہ بیان کیا کہ یہ درست ہے کہ وہ مرزاغلام احمد صاحب کومسیح موعود تسلیم کرتا ہے اور ساتھ ہی انہیں نبی بھی مانتا ہے۔ اس معنی میں کہ مرزاصاحب نبی کریمﷺ (حضرت محمد مصطفیٰﷺ) کے تابعدار ہیں اور آپﷺ کی شریعت کے پیرو ہیں اور آنحضرتﷺ کی غلامی کی وجہ سے آپ نبوت کے درجہ پر فائز ہوئے اور اس وقت تک اس کا یہی اعتقاد ہے۔ گویا وہ سلسلہ احمدیت میں منسلک ہوچکا ہے۔ وہ مرزاصاحب کو ان معنوں میں نبی کہتا ہے جن معنوں میں کہ قرآن کریم نبوت کو پیش کرتا ہے۔ جیسا کہ دیگرانبیاء علیہم السلام ہیں کہ ان پر وحی اور الہام وارد ہوتے ہیں۔ چونکہ وہ مرزاغلام احمد صاحب کو نبی تسلیم کرتا ہے۔ اس لئے وہ یہ بھی مانتا ہے کہ ان پر بمثل دیگر انبیاء علیہم السلام کے نزول ملائکہ وجبرائیل علیہ السلام ہوتا تھا۔
اس بیان کو مدنظر رکھتے ہوئے منصف صاحب احمدپور شرقیہ نے ۲۰؍جنوری ۱۹۲۷ء کو یہ امر مزید تنقیح طلب قرار دیا کہ کیا اس اعتقاد کی صورت میں جو مدعا علیہ نے بیان کیا ہے کہ وہ مرزاغلام احمد کو نبی تسلیم کرتا ہے۔ اس معنی میں کہ بمثل دیگر انبیاء علیہم السلام مرزاصاحب پر وحی اور 2122الہام وارد ہوتے تھے۔ کوئی شخص مذہب اسلام میں شامل رہ سکتا ہے؟ اور اس کا بار ثبوت مدعا علیہ پر عائد کیا۔ اس کے بعد مدعا علیہ نے ۱۹؍فروری ۱۹۲۷ء کو ایک درخواست پیش کی کہ سابقہ تاریخ پر اس نے جو بیان دیا تھا اس میں اس نے اپنے اعتقادات مذہبی کو بخوبی واضح کر دیا تھا۔ لیکن عدالت نے اس سے جو خلاصہ اخذ کیا ہے وہ اس کے اصلی اعتقاد مذہبی کے مغائر ہے۔ چونکہ اعتقاد مذہبی کی غلط تعبیر سے مقدمہ پر کافی اثر پڑتا ہے۔ اس لئے اپنے اعتقاد مذہبی کو من مدعا علیہ ذیل میں بیان کرتا ہے تاکہ غلط فہمی نہ رہے۔
میں خداوند تعالیٰ کو واحد لاشریک مانتا ہوں۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو خاتم النّبیین تسلیم کرتا ہوں۔ قرآن کریم کو کامل الہامی کتاب مانتاہوں۔ کلمہ طیبہ پر میرا ایمان ہے اور حضرت محمدﷺ کی برکت اور آپﷺ کی توسط سے اور آپﷺ کی شریعت مقدسہ کی اطاعت سے حضرت مرزاصاحب کو امتی نبی تسلیم کرتا ہوں۔ حضرت مرزاصاحب کوئی نئی شریعت نہیں لائے۔ بلکہ شریعت محمدی کے تابع اور اشاعت کرنے والے ہیں۔ ان پر وحی اور الہام بابرکت حضرت نبی کریمﷺ وارد ہوتے تھے۔
اس درخواست میں یہ استدعا کی گئی کہ جو امر تنقیح سابقہ تاریخ پر وضع کیاگیا ہے۔ وہ درست نہیں ہے۔ تنقیح بالفاظ ذیل وضع ہونا چاہئے کہ آیا مدعا علیہ جس کا مذہبی اعتقاد یہ ہوجو کہ اوپر بیان کیاگیا ہے۔ مرتد ہے، اور مسلمان نہیں ہے؟ اور اس کا ثبوت بذمہ مدعیہ عائد کیا جاوے۔ مگر عدالت نے اس درخواست پر کوئی التفات نہ کی اور اسے شامل مسل کر دیا۔
اس کے بعد بحکم ۷؍مئی ۱۹۲۷ء عدالت عالیہ چیف کورٹ یہ مقدمہ عدالت ہذا میں منتقل ہوا اور عدالت ہذا میں ۱۷؍دسمبر ۱۹۲۷ء کو مدعا علیہ نے اپنے عقائد کی پھر ایک فہرست پیش کی۔ جن کا ذکر مناسب جگہ پر کیا جائے گا۔
یہ مقدمہ عدالت ہذا سے بحکم ۲۱؍نومبر ۱۹۲۸ء اس بناء پر خارج کیاگیا کہ عدالت عالیہ چیف کورٹ بہاول پور سے اس قسم کے ایک مقدمہ بعنوان مسماۃ جندوڈی بنام کریم بخش میں باتباع 2123فیصلہ جات عدالتہائے اعلیٰ مدراس، پٹنہ وپنجاب کے یہ قرار دیا جاچکا ہے کہ احمدی مسلمانوں کا ایک فرقہ ہیں نہ کہ اسلام سے باہر، اور کوئی مرزائی مذہب اختیار کرنے سے کسی سنی عورت کا نکاح اس شخص کے ساتھ جو اس مذہب کو قبول کر لے۔ فسخ نہیں ہو جاتا اور کہ مدعیہ کی طرف سے ان فیصلہ جات کے خلاف کوئی سند پیش نہیں کی گئی۔
عدالت ہذا کا یہ حکم برطبق اپیل عدالت عالیہ چیف کورٹ سے بحال رہا۔ لیکن اپیل ثانی پر عدالت معلیٰ اجلاس خاص سے یہ قراردیا گیا ہے کہ عدالت ہذا سے فریقین کے پیش کردہ اسناد پر بحث کئے بغیر دعویٰ مدعیہ خارج کر دیا گیا ہے اور فاضل ججان چیف کورٹ نے اپنے فیصلہ میں یہ تسلیم کیا ہے کہ پٹنہ وپنجاب ہائیکورٹوں کے فیصلہ جات مقدمہ ہذا میں حاوی نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ان میں غیرمتعلق سوال زیربحث رہے ہیں۔ البتہ مدراس ہائیکورٹ کے فیصلہ مندرجہ ۷۱… انڈین کیسز ۶۶میں سوال زیربحث بجنسہ یہی تھا کہ آیا احمدی ہو جانے سے ارتداد واقع ہوتا ہے یانہ۔ لیکن ہم نے اس فیصلہ کو بغور مطالعہ کیا ہے۔ ہم فاضل ججان چیف کورٹ کی رائے سے اختلاف کرتے ہیں کہ فیصلہ مذکورہ بالا مکمل چھان بین سے طے پایا تھا۔ کیونکہ فاضل ججان مدراس ہائیکورٹ خود فیصلہ میں تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی خاص سند اس بات کی پیش نہیں کی گئی کہ فلاں فلاں اسلام کے بنیادی اصول ہیں اور ان سے اس حد یا اس درجہ تک اختلاف کرنے سے ارتداد واقع ہوتا ہے یا کن اسلامی عقائد کی پیروی یا کن عقائد کے نہ ماننے سے ارتداد واقع ہوتا ہے۔ اس فیصلہ میں پھر فاضل ججان یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس سوال کو کہ آیا عقائد قادیانی سے ارتداد واقع ہوتا ہے یا نہ۔ علماء اسلام بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اس لئے ہماری رائے میں فاضل ججان ہائیکورٹ کا فیصلہ سوال زیربحث پر قطعی نہیں ہے اور ہمیں مقدمہ ہذا میں اس کی پیروی کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس قرارداد کے ساتھ یہ مقدمہ اس ہدایت کے ساتھ واپس ہوا کہ گو مولوی غلام محمد صاحبؒ شیخ الجامعہ،جامعہ عباسیہ بہاول پور کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کا قادیانی عقائد کے مطابق یہ ایمان ہو کہ حضرت محمدﷺ کے بعد کوئی اور نبی آیا ہے اور اس 2124پر وحی نازل ہوئی ہے تو ایسا شخص چونکہ ختم نبوت حضرت رسول کریمﷺ کا منکر ہے اور ختم نبوت اسلام کے ضروریات میں سے ہے۔ لہٰذا وہ کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ لیکن ہم اس مقدمہ کا فیصلہ کرنے کے لئے شیخ الجامعہ صاحب کی رائے کو کافی نہیں سمجھتے۔ جب تک کہ دیگر ہندوستان کے بڑے بڑے علماء دین بھی اس رائے سے اتفاق نہ رکھتے ہوں اس لئے مقدمہ مزید تحقیقات کا محتاج ہے اور مدعا علیہ کو بھی موقعہ دینا چاہئے کہ شیخ الجامعہ صاحب کے بالمقابل اپنے دلائل پیش کرے۔
واپسی پر اس مقدمہ میں فریقین کے ہم مذہب اور ہم خیال اشخاص کی فرقہ بندی شروع ہو گئی اور تقریباً تمام ہندوستان میں اس کے متعلق ایک ہیجان پیدا ہوگیا اور طرفین سے ان کی جماعت کے بڑے بڑے علماء بطور مختار ان فریقین وبطور گواہان پیش ہونے لگے۔ ان کے اس طرح میدان میں آنے سے قدرتاً یہ سوال عوام کے لئے جاذب توجہ بن گیا اور پبلک کو اس میں ایک خاص دلچسپی پیدا ہوگئی اور ہر تاریخ سماعت پر لوگ جوق در جوق کمرۂ عدالت میں آنے لگے۔ چنانچہ عوام کی اس دلچسپی اور مذہبی جوش کو مدنظر رکھتے ہوئے حفظ امن قائم رکھنے کی خاطر پولیس کی امداد کی ضرورت محسوس کی گئی اور عدالت ہذا کی تحریک پر صاحب بہادر کمشنر پولیس کی طرف سے ہر تاریخ پیشی پر پولیس کا خاطر خواہ انتظام کیا جاتا رہا۔ امرمابہ النزاع حل وحرمت سے تعلق رکھنے کے علاوہ ضمناً چونکہ مدعا علیہ کے ہم خیال جماعت کی تکفیر پر بھی مشتمل ہے۔ اس لئے طرفین کو اس مقدمہ میں کھلے دل سے اپنے دلائل سندات اور بحث ہائے تحریری وتقریری پیش کرنے کا کافی درکافی موقعہ دیا گیا۔ حتیٰ کہ مدعا علیہ کی طرف سے ایک ایک گواہ کے بیان اور جرح پر بعض دفعہ مسلسل ایک ایک مہینہ بھی صرف ہوا ہے اور اس کی طرف سے جو بحث تحریری پیش ہوئی ہے۔ وہ کئی سوورق پر مشتمل ہے اور فیصلہ میں تعویق زیادہ تر مسل کے اس قدر ضخیم بن جانے کی وجہ سے بھی ہوئی ہے۔ دوران سماعت مقدمہ ہذا میں مدعا علیہ نے مدعیہ اور اس کے والد مولوی الٰہی بخش کے خلاف ۲۳؍اگست ۱۹۳۲ء کو عدالت سب جج صاحب درجہ دوم ملتان میں دعویٰ اعادہ 2125حقوق زن وشوئی دائر کر کے عدالت موصوف سے ان ہر دو کے خلاف ۱۷؍جون ۱۹۳۳ء کو ڈگری یک طرفہ حاصل کر لی اور اس مقدمہ میں جب کہ شہادت فریقین ختم ہوکر مدعیہ کی طرف سے بحث بھی سماعت ہوچکی تھی۔ مدعا علیہ کی طرف سے یہ عذر برپا کیاگیا کہ عدالت ہذا کو اختیار سماعت مقدمہ ہذا حاصل نہیں۔ کیونکہ بناء دعویٰ حدود ریاست ہذا میں پیدا نہیں ہوئی اور نہ ہی مدعا علیہ کی رہائش عارضی یا مستقل ریاست ہذا کے اندر ہوئی ہے۔
دوسرا عدالت سرکار برطانیہ سے مدعا علیہ کے حق میں ڈگری استقرار حق زوجیت برخلاف مدعیہ والٰہی بخش والدش کے صادر ہوچکی ہے۔ اس لئے بروئے دفعہ ۱۱ضابطہ دیوانی عدالت ہذا کو اس کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے اور کہ بموجب دفعات ۱۳،۱۴، ضابطہ دیوانی ڈگری مذکور قطعی ہوچکی ہے اور اس کے صادر ہونے کے بعد مقدمہ زیرسماعت عدالت ہذا نہیں چل سکتا۔
مدعا علیہ کے ان عذرات کو بوجہ اس کے کہ وہ عدالت ہذا کے اختیار سماعت سے تعلق رکھتے تھے۔ اہم سمجھا جاکر اس مقدمہ میں ۸؍نومبر ۱۹۳۳ء کو حسب ذیل مزید تنقیحات ایزاد کی گئیں۔