(توہین انبیاء کے حوالہ جات)
توہین انبیاء کے تحت گواہان مدعیہ نے یہ دکھلایا ہے کہ مرزاصاحب نے نہ صرف عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کی ہے۔ بلکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بھی توہین کی ہے۔ بحوالہ کتاب (حقیقت النبوۃ ص۲۶۵،۲۶۶) مرزاصاحب کے اس قول سے کہ: ’’میں بروزی طور وہی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرتﷺ کا ہی وجود قرار دیا۔ پس اس طور سے آنحضرتﷺ کے خاتم النّبیین ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا۔ کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا۔‘‘
یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ مرزاصاحب کو نبوت ملنے سے خاتمیت محمدیہ میں فرق نہ آنے کے یہی معنی ہوسکتے ہیں کہ مرزاصاحب اور سرور عالمﷺ ایک ہوں جو عقلاً اور نقلاً باطل ہے اور اگر رسول اﷲﷺ بطریق تناسخ معاذ اﷲ مرزاصاحب ہوئے تو تناسخ کفر اور اگر یہ معنی ہیں کہ سایہ ذی سایہ کا عین ہوتا ہے تو یہ ایسی باطل بات ہے کہ دنیا جانتی ہے۔ کسی شخص کا سایہ ذی سایہ نہیں ہوسکتا تو اب مرزاصاحب کانبی ہونا۔ رسول اﷲﷺ کا نبی ہونا نہیں ہے۔ اگر بفرض محال یہ مان لیا جائے کہ سایہ اور ذی سایہ ایک ہوتا ہے تو رسول اﷲﷺ ظل اﷲ ہیں اور اس طرح وہ نعوذ باﷲ عین خدا ہیں اور مرزاصاحب عین محمد(ﷺ) ہیں تو اس سے صاف یہ نتیجہ ہے کہ مرزاصاحب عین خدا ہوئے۔ اگر ظل ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ذی ظل کی کوئی صفت اس میں آجائے تو ایسی ظلیت تمام دنیا کو حاصل ہے۔ بہرحال مرزاصاحب کا دعویٰ اتحاد رسول اﷲﷺ کے ساتھ۔ رسول اﷲﷺ کی کھلی توہین ہے۔
مرزاصاحب کے اس قول سے کہ ’’تمام کمالات متفرقہ جو تمام دیگر انبیاء میں پائے جاتے ہیں۔ نبی کریم کے ظل ہیں۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ بروزی اور ظلی نبوت کوئی کم یا گھٹیا درجہ نبوت نہیں ۔ کیونکہ ظل اور بروز کے لفظ سے یہ دھوکا پڑ سکتا تھا کہ مرزاصاحب کی مراد یہ ہوگی کہ آئینہ میں جیسے کسی شخص کا عکس پڑتا ہے۔ اسی طرح مرزاصاحب میں بھی کمالات محمدیہ اور نبوت کا عکس 2172پڑا ہے۔ مگر مرزاصاحب نبی نہیں ہے۔ اس واسطے کہ کسی شخص کا عکس جو آئینہ میں ہے اس ذی عکس کی کوئی حقیقی صفت نہیں ہوسکتی۔ مرزاصاحب کی اس عبارت نے اس شبہ کو ایسا صاف اور حل کر دیا ہے کہ شبہ کی گنجائش نہیں رہی۔ مرزاصاحب کا لفظ ظل عکس اور بروز کا ہے۔ مگر مراد ہے۔ حقیقت کاملہ نبوت۔ کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ جتنے انبیاء گذرے ہیں وہ سب رسول اﷲﷺ کی ایک ایک صفت میں ظل تھے اور باوجود اس ایک صفت میں ظل ہونے کے وہ مستقل نبی صاحب شریعت تھے اور حقیقی نبی تھے اور مرزاصاحب تمام صفات میں ظل ہیں تو ثابت ہو گیا کہ مرزاصاحب تمام نبیوں سے بڑے تھے اور یہ ایک بہت بڑا کفر ہے۔ مرزاصاحب باربار تحریر کرتے ہیں کہ پہلے نبیوں کی نبوت براہ راست اور میری نبوت فیض محمدی کا اثر ہے۔ ان کا یہ قول بھی غلط ہو جاتا ہے اس واسطے کہ جب ہر ایک نبوت ان کے نزدیک آپ کا فیض تھا۔ اس طرح مرزاصاحب کی نبوت بھی آپ کا فیض ہے۔ لہٰذا یہ فرق کرنا بھی باطل ہوا۔
مرزاصاحب کے ایک اور قول سے جو (تریاق القلوب حاشیہ ص۱۵۶، خزائن ج۱۵ ص۴۷۷) سے نقل کیاگیا ہے اور جو بالفاظ ذیل ہے۔
’’غرض جیسا کہ صوفیوں کے نزدیک مانا گیا ہے کہ مراتب وجود دو رویہ ہیں۔ اسی طرح ابراہیم نے اپنی خو اور طبیعت اور دلی مشابہت کے لحاظ سے قریباً اڑھائی ہزار برس اپنی وفات کے بعد پھر عبداﷲ پسر عبدالمطلب کے گھر میں جنم لیا اور محمد کے نام سے پکارا گیا۔‘‘
سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ:
الف… اس قول سے یہ لازم آتا ہے کہ سرور عالمﷺ کوئی چیز نہیں رہتے اور آپ کا تشریف لانا بعینہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تشریف لانا ہے۔ گویا کہ ابراہیم علیہ السلام کے یہ دور ہیں۔ گویا اصل ابراہیم علیہ السلام رہے اور آئینہ رسول اﷲﷺ ہوئے اور چونکہ ظل اور صاحب ظل میں مرزاصاحب کے نزدیک عینیت ہے اور اس وجہ سے وہ اپنے کو عین محمد کہتے ہیں تو جب محمدﷺ بروز ابراہیم علیہ السلام 2173ہوئے تو عین ابراہیم علیہ السلام ہوئے۔ اس سے صاف لازم آتا ہے کہ معاذ اﷲ رسول اﷲﷺ کا کوئی وجود بالاستقلال نہیں اور نہ ان کی نبوت کوئی مستقل شی ٔ ہے۔
ب… رسول اﷲﷺ ابراہیم علیہ السلام کے بروز ہوئے اور خاتم النّبیین آپ ہوئے کہ خاتم بروز اور ظل ہوتا ہے۔ صاحب ظل اور اصل نہیں ہوتا۔ اس طرح مرزاصاحب آنحضرتﷺ کے بروز ہوئے تو خاتم النّبیین مرزاصاحب ہوئے نہ کہ آنحضرتﷺ۔
ج… جب رسول اﷲﷺ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بروز ہوئے تو جملہ کمالات نبوت اگر مجتمع ہوں گے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام میں ہوں گے نہ کہ آنحضرتﷺ میں۔ یہ باطل اور بے معنی ہے۔
اس کے علاوہ یہ مضمون بھی فی نفسہ کہ آنحضرتﷺ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بروز ہوں اور ابراہیم علیہ السلام آنحضرت کے بروز ہوں۔ بے معنی اور فضول ہے اسلام میں جنم کا عقیدہ کفر ہے اور یہ ہے حقیقت مرزاصاحب کے نزدیک مجازی اور ظلی اور بروزی کی۔ رسول اﷲﷺ کی توہین کے سلسلہ میں مولوی نجم الدین صاحب گواہ مدعیہ نے حسب ذیل مزید واقعات بیان کئے ہیں۔
کسی کے توہین کرنے کے یہ معنی ہیں کہ یا تو اس میں کوئی عیب جسمانی ظاہر کیا جائے یا کسی بداخلاقی کے ساتھ اس کو متہم کیا جائے یا کسی کے لقب کو جس کے ساتھ اﷲتعالیٰ نے اسے سرفراز فرمایا ہے۔ اس کا اپنے لئے دعویٰ کیا جائے یا کوئی ایسی چیز اس کے سامنے یا اس کی شان میں کہی جائے۔ جس سے اس کی دل آزاری ہو۔ چنانچہ چند آیات قرآنی جن میں اﷲتعالیٰ سبحانہ وتعالیٰ نے نبی پاک محمدﷺ کو چند مراتب اور مقامات عالیہ سے مشرف فرمایا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے اوپر چسپاں کرے تو لامحالہ رسول اﷲﷺ کی شان میں گستاخی اور بے ادبی سمجھی جائے گی۔
2174چنانچہ آیات ذیل آیت ’’سبحان الذی اسریٰ بعبدہ… الخ!‘‘ جس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے شان معراج کا ذکر فرمایا گیا۔
دوسری آیت ’’ثم دنیٰ فتدلیٰ… الخ!‘‘ جس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے جو قرب الٰہی جناب رب العزت سے حاصل ہوا تھا۔ یا بقول دیگر جبرائیل علیہ السلام سے ذکر ہوا ہے۔
وآیت ’’انا فتحنالک فتحاً مبینا… الخ!‘‘
وآیت ’’قل ان کنتم تحبون اﷲ… الخ!‘‘
وآیت ’’انا اعطیناک الکوثر… الخ!‘‘
مرزاصاحب نے اپنے اوپر نازل ہونی بیان کی ہیں اور مقام محمود کو بھی اپنے حق میں تجویز کیا ہے اور ان اشعار میں جو آگے بیان کئے گئے ہیں کسی نبی کی استثناء نہیں کی گئی۔ ہمارے نبی کریم بھی انبیاء کی جماعت میں داخل ہیں۔ لفظ انبیاء کسی خاص نبی کے ساتھ مختص نہیں بلکہ تمام پر حاوی اور مشتمل ہے۔ دوسرے شعر کے مصرع ثانی میں اپنی افضلیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
(حقیقت الوحی ص۸۹، خزائن ج۲۲ ص۹۲) پر لکھتے ہیں:
’’آسمان سے کئی تخت اترے پر تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا۔‘‘ اس میں بھی رسول اﷲﷺ کی توہین ہے۔
مرزاصاحب کتاب (تحفہ گولڑویہ ص۴۰، خزائن ج۱۷ ص۱۵۳) پر لکھتے ہیں کہ: ’’مثلاً کوئی شریر النفس ان تین ہزار معجزات کا کبھی ذکر نہ کرے جو ہمارے نبیﷺ سے ظہور میں آئے۔‘‘
اور (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۵۶، خزائن ج۲۱ ص۷۲) میں لکھتے ہیں کہ: ’’ان چند سطروں میں جو پیشین گوئیاں ہیں وہ اس قدر نشانوں پر مشتمل ہیں جو دس لاکھ سے زائد ہوں گے اور نشان بھی ایسے کھلے کھلے ہیں جو اوّل درجہ پر خرق عادت ہیں۔‘‘
ان عبارات سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ رسول اﷲﷺ کے معجزات کو تین ہزار قرار دینا اور اپنے معجزات دس لاکھ۔ کیونکہ معجزہ خرق عادت ہوتا ہے۔ مرزاصاحب نے رسول اﷲﷺ پر اپنی کتنی بڑی فضیلت بیان 2175کی؟ اس قسم کی توہین کو توہین لزومی کہا گیا ہے۔ جس سے مراد یہ ہے کہ عبارت اس لئے نہیں لائی گئی کہ تنقیص کرے۔ مگر وہ عبارت صادق نہیں آتی۔ جب تک تنقیص موجود نہ ہو۔ مذکورہ بالا عبارات میں اس قسم کی تنقیص پائی جاتی ہے۔
اس ضمن میں مرزاصاحب کا ایک قول نقل کیا گیا ہے۔ (تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۶، خزائن ج۲۲ ص۵۷۴) جو بالفاظ ذیل ہے۔ ’’ہاں اگر یہی اعتراض ہو کہ اس جگہ وہ معجزات کہاں ہیں تو میں صرف یہی جواب نہیں دوں گا کہ میں معجزات دکھلا سکتا ہوں۔ بلکہ خدا کے فضل وکرم سے میرا جواب یہ ہے کہ اس نے میرا دعویٰ ثابت کرنے کے لئے اس قدر معجزات دکھلائے ہیں کہ بہت ہی کم نبی ایسے آئے ہیں جنہوں نے اس قدر معجزات دکھلائے ہوں۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۷۱، خزائن ج۱۹ ص۱۸۳) پر مرزاصاحب کا ایک شعر ہے جو الفاظ ذیل سے شروع ہوتا ہے۔ ’’ لہ خسف القمر المنیر وان لی ‘‘ جس کا یہ مطلب ہے کہ اس کے لئے چاند کے خسوف کا نشان ظاہر ہوا اور میرے لئے چاند اور سورج کا اس میں شق القمر کے معجزہ کو چاند گرہن سے تعبیر کیاگیا ہے۔ اس میں رسول اﷲﷺ کی توہین اور شق القمر کا انکار ہے۔ زیادہ تر توہین لفظ لہ کے استعمال اور طرز خطاب سے اخذ کی جاتی ہے جس سے صاف طور پر تقابل دکھا کر اپنی فضیلت دکھلائی گئی ہے۔
اس طرح (خطبہ الہامیہ ص ت حاشیہ، خزائن ج۱۶ ص۳۱۲) ’’ ما الفرق بین آدم والمسیح ‘‘ کے ایک مقولہ سے ظاہر کیاگیا ہے کہ اس میں آدم علیہ السلام کی توہین کی گئی ہے اور اس میں جو یہ الفاظ درج ہیں کہ یہ وعدہ قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ مسیح موعود شیطان کو شکست دے گا۔ یہ بالکل خلاف واقع جھوٹ ہے۔ قرآن شریف میں اس قسم کی کوئی آیت نہیں ہے۔
اشعار محولہ بیان مولوی نجم الدین صاحب گواہ مدعیہ حسب ذیل ہیں:
آنچہ داد است ہر نبی راجام
داد آن جام را مرابتمام
انبیاء گرچہ بودہ اندبسے
من بہ عرفاں نہ کمترم زکسے
کم نیم زاں ہمہ بروے یقین
ہر کہ گوید دروغ ہست ولعین
(نزول المسیح ص۹۹،۱۰۰، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷،۴۷۸)
2176اور جو مضمون ان اشعار میں اداکیاگیا ہے۔ اس کے متعلق سید انور شاہ صاحبؒ گواہ کی طرف سے کہاگیا ہے کہ باہمی فضیلت کا باب انبیاء میں فرق مراتب کا ہے اور جو پیغمبر افضل ہے وہ کسی قرینہ سے ظاہر ہو جائے گا کہ وہ کسی دوسرے سے افضل ہے اور نبی کریمﷺ نے اپنی امت کویہ پہنچایا ہے۔ مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ اس سے فوق متصور نہیں اور ایسی فضیلت دینا ایک پیغمبرکو اگرچہ واقعی ہو کہ جس میں دوسرے کی توہین لازم آتی ہو کفر صریح ہے۔
چھٹی وجہ تکفیر میں مدعیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ مرزا صاحب (ازالتہ الاوہام ص۵۵۶، خزائن ج۳ ص۳۹۹) پر لکھتے ہیں کہ: ’’تواتر کی جو بات ہے وہ غلط نہیں ٹھہرائی جاسکتی اور تواتر اگر غیرقوموں کا ہو تو وہ بھی قبول کیا جائے گا۔‘‘
پھر اس کے ساتھ اگلے صفحہ (ازالہ اوہام ص۵۵۷، خزائن ج۳ ص۴۰۰) پر جو کچھ لکھتے ہیں اس سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ تشریف لانے کی پیشین گوئی : ’’ایسی متواتر پیشین گوئیوں سے جو خیر القرون میں ہی تمام ممالک اسلام میں پھیل گئی تھی اور مسلمات میں سے سمجھی گئی تھی اور یہ اوّل درجہ کی پیشین گوئی ہے جس کو سب نے قبول کر لیا تھا اور جس قدر صحاح میں پیش گوئیاں لکھی گئی ہیں۔ کوئی اس کے ہم پہلو نہیں۔ انجیل بھی اس کی مصدق ہے۔‘‘
مگر اس کے بعد جب مرزاصاحب کو اس پیشین گوئی کا انکار مطلوب ہوا تو انہوں نے یہ کہا کہ ’’یہ بہت بے ادبی کی بات ہے کہ یہ کہا جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام نہیں مرے۔ یہ نہیں ہے مگر شرک عظیم یہ عقیدہ حیات کا مسلمانوں میں نصرانیوں سے آیا ہے۔ پھر اس عقیدہ کو انصاریٰ نے بہت مال خرچ کر کے مسلمانوں میں شائع کیا۔ شہروں میں اور گاؤں میں اس وجہ سے کہ ان میں کوئی شخص عقلمند نہ تھا اور پہلے مسلمانوں سے یہ قول نہیں صادر ہوا۔ مگرلغزش کے طور پر وہ لوگ معذورہیں۔ اﷲ کے نزدیک اس واسطے کہ وہ لوگ گنہگار تھے۔ مگر قصداً نہ تھے اور خطا کی وجہ یہ ہوئی کہ وہ سادہ لوح آدمی تھے۔ اگر کوئی مجتہد خطا کر دے تو اﷲ اس کی غلطی کو معاف بھی کرتا ہے۔ ہاں جن کے پاس امام آیا۔ حکم بینات کے ساتھ اور جس نے رشد کو گمراہی سے ظاہر کر دیا اور پھر بھی انہوں نے اعتراض کیا وہ لوگ ماخوذ ہوں گے۔‘‘
(الاستفتاء ضمیمہ حقیقت الوحی ص۳۹، خزائن ج۲۲ ص۶۶۰)
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ مرزا2177صاحب حیات عیسیٰ علیہ السلام کو شرک نہیں بلکہ شرک عظیم فرماتے ہیں اور وعدہ الٰہی کے مطابق بمنشاء آیت ’’ ان اﷲ لا یغفر ان یشرک… الخ! ‘‘ شرک کا معاف ہونا قطعاً محال ہے۔ اس سے لازم آتا ہے کہ مرزاصاحب کے اس قول کی بناء پر ساری امت گمراہ تھی اور ساری امت مشرک وکافر تھی اور جو شخص تمام امت کو گمراہ اور کافر کہے وہ خود کافر ہوتا ہے۔ مرزاصاحب کے اس قول سے اسلام پر اتنا بڑا حملہ ہوا ہے کہ اسلام کی ایک ذرہ بھر وقعت نہیں رہ سکتی۔ جب کہ یہ ثابت بھی ہوگیا کہ یہ عقیدہ بطریق تواتر تمام ممالک اسلام میں پھیل گیا تھا اور سب نے قبول بھی کر لیا اور کسی چھوٹے بڑے کو اس کی برائی کی اطلاع نہ ہوئی۔ اگر مرزاصاحب تشریف نہ لاتے تو جیسے پہلی ساری امت معاذ اﷲ شرک عظیم میں مبتلا تھی۔ آگے اسی طرح شرک عظیم میں مبتلا رہتی اور ممکن ہے کہ آئندہ کوئی اور شخص مجدد یا رسول اﷲﷺ کا بروز بن کر ۲۰،۲۵ اور شرک ثابت کر دے تو جب قرآن اور حدیث اور مسلمانوں کا ایسا مذہب ہے کہ شرک عظیم کا اس میں تیرہ سو برس تک پتہ نہ لگا تو پھر اس مذہب کا کیا اعتبار رہے گا؟
چنانچہ مرزاصاحب ایک اور استفتاء (ضمیمہ حقیقت الوحی ص۴۴، خزائن ج۲۲ ص۶۶۶) پر لکھتے ہیں کہ: ’’جو شخص بالقصد اس کا خلاف کرے اور یہ کہے کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہے۔ پس ان لوگوں میں سے ہے کہ جو قرآن کے کافر ہیں۔ ہاں جو لوگ مجھ سے پہلے گزر گئے وہ اپنے اﷲ کے نزدیک معذور ہیں۔‘‘
دوسری کتاب (دافع البلاء ص۱۵، خزائن ج۱۸ ص۲۳۵) پر لکھتے ہیں کہ: ’’ہم نے سنا ہے کہ وہ بھی دوسرے مولویوں کی طرح اپنے مشرکانہ عقیدہ کی حمایت میں کہ تاکہ کسی طرح حضرت مسیح ابن مریم کو موت سے بچالیں اور دوبارہ اتار کر خاتم الانبیاء بنا دیں۔ بڑی جانکاہی سے کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
(الفضل ج۳ نمبر۳، مورخہ ۲۹؍جون ۱۹۱۵ئ، ص۷) پر درج ہے: ’’پس ان معنوں میں مسیح موعود جو آنحضرتﷺ کی بعثت ثانی کے ظہور کا ذریعہ ہے۔ اس کے احمد اور نبی اﷲ ہونے سے انکارکرنا گویا آنحضرتﷺ کی بعثت ثانی اور نبی اﷲ ہونے سے انکار کرنا ہے۔ جو منکر کو دائرہ اسلام 2178سے خارج اور پکا کافر بنادینے والا ہے۔‘‘
اس ضمن میں مولوی نجم الدین صاحب گواہ مدعیہ نے ایک وجہ کفر یہ بیان کی ہے کہ مرزاصاحب نے تمام مسلمانان عالم کو جوان کی جماعت میں داخل نہیں خواہ وہ ان کو کافر کہیں یا نہ کہیں اور بقول خلیفہ ثانی ان کو دعوت پہنچے یا نہ۔ خارج از اسلام قرار دیا ہے۔ جو شخص تمام امت محمدیہ کو اسلام سے خارج کہتا ہے وہ کس طرح خود کو کفر کی زد سے بچا سکے گا۔
ان وجوہ کفر کے علاوہ مرزاصاحب کے حسب ذیل اعتقادات بھی عامتہ المسلمین کے اعتقادات کے خلاف بیان کئے گئے ہیں۔
مرزاصاحب یہ کہتے ہیں کہ قیامت کے معنی جو مسلمان اب تک سمجھتے تھے اس معنی پر قیامت نہیں ہونے کی۔ قرآن میں جو نفخ صور آیا ہے نہ اس سے یہ مراد ہے کہ واقعی کوئی نفخ صور ہے اور نہ یہ مراد ہے کہ قیامت قائم ہوگی۔ بلکہ اس سے مراد مرزاصاحب کا تشریف لانا ہے۔ قیامت کے متعلق جتنی آیات قرآن مجید میں ہیں اور جتنی احادیث میں ہیں ان تمام امور کا انکار ہے۔ صرف لفظوں کا انکار نہیں۔ مگر جن معنوں سے قرآن اور حدیث قیامت کو بیان کرتے ہیں۔ ان چیزوں کا انکار ہے۔ مردوں کا قبروں سے اٹھنا جو بہت سی آیات میں مذکور ہے اس کا بھی انکار ہے۔ وغیرہ وغیرہ!