• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(جناب راؤ خورشید علی خان کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پرخطاب)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب راؤ خورشید علی خان کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پرخطاب)
راؤ خورشید علی خان: آپ جو حکم دیں گے وہ مجھے سنائی نہیں دے گا۔ بہرحال حکم حاکم مرگ مفاجات۔ بہرحال میں عرض کر رہا تھا اس مسئلہ پر جو قادیانی حضرات نے اور لاہوری پارٹی نے اور اس کے علاوہ ہمارے محترم علماء حضرات کی طرف سے مولانا ہزاروی کی طرف سے مولوی مفتی محمود کی طرف سے پیش کیاگیا۔ اس کو پورے غور سے سنا ہے۔ جو باتیں ہوئی ہیں ہم نے بڑے غور سے سنی ہیں۔ میں یہ تونہیں کہتا کہ میں ہر روز بالکل وقت پر آتا رہا ہوں۔ لیکن میرا خیال یہ ہے کہ میں نے مکمل ناغہ کوئی نہیں کیا۔ بعض دن تاخیر سے آتا رہا ہوں۔ لیکن میں نے ہر روز بلاناغہ ایک ایک بات کو سنا اور پہلے سے جو معلومات ہیں۔ ان کی روشنی میں جو کچھ عرض کروں گا۔ وہ بھی اس میں شامل ہوں گی۔
یہ مسئلہ بہت ہی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ نہ صرف اس لئے کہ اس کا تعلق ہمارے دین سے ہے۔ ہمارے ملک کی سلامتی سے ہے۔ بلکہ میں اگر یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ اس ملک کی بقاء سے بھی اس کا تعلق ہے۔ اس کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ اگر ہم نے اس معاملے میں اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کی۔ تو نہ صرف یہ کہ اﷲ میاں ہمیں معاف نہیں کریں گے۔ بلکہ آئندہ آنے والی نسلیں بھی ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ ہمیں بڑی سوجھ بوجھ کا ثبوت دینا چاہئے۔ پورے غور و خوض کے ساتھ، کسی ڈر اورلالچ کے بغیر،خدا کو حاضر ناظر جان کر خالصتاً اسلامی نقطہ نظر سے اور ملک کی سلامتی اور بقاء کے نقطہ نظر سے اس پر غور کرنا چاہئے۔ ورنہ مجھے ڈر ہے جناب چیئرمین! کہ آخرت کی بات 2717میں تو شاید کچھ عرصہ لگے۔ گو اس کا بھی کچھ پتہ نہیں کہ اگلے لمحے ہمارے ساتھ خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آ جائے۔ ابھی میں پچھلے دنوں اپنے حلقہ نیابت کا مختصر سا دورہ لگا کر آیا ہوں۔ میری ان معروضات میں وہ اطلاع بھی شامل ہے۔ جومیں نے برائہ راست اپنے حلقے میں ایک چھوٹا سا دورہ لگا کر حاصل کی ہے۔
جناب والا! اس سلسلے میں میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان قادیانی حضرات اور لاہوری پارٹی نے ختم نبوت کے سلسلے میںجو رویہ اختیار کیا ہے اور ایک جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے امت کے اندر اتنی بڑی خلیج اور انتا بڑا انتشار پیدا کر دیا ہے کہ اگر اس قسم کا انتشار پیدا نہ کیا جاتا تو بہت ممکن ہے کہ امت میں آج جو جو ایک انتشار نظر آتا ہے۔ اس میں بہت حد تک کمی ہوتی اور ساری دنیا کا مقابلہ ہم احسن طریقے پر کر سکتے تھے اور اس ملک کی جہاں تک بات ہے۔ یہ تو اب بحرانوں کی سرزمین بن کر رہ گیا ہے۔ پہلے ہی بحرانوں سے دوچار تھا۔ اب مزید یہ بحران پیدا کیاگیا ہے اور اس وقت Immediate cause (فوری مسئلہ) جو ہے۔ وہ بھی ان فتنہ گروں کا پیدا کیا ہوا ہے۔ غضب خدا کا، ایک اتنی قلیل اقلیت اور اس کو یہ حوصلہ ہوا کہ اس نے ہمارے طلباء کے اوپر حملہ کیا۔ ظاہر بات ہے کہ اتنی قلیل اقلیت کو از خود یہ حوصلہ اور ہمت نہیں ہو سکتی۔ یہ کسی کی شہ پر کیاگیا ہے۔ یہ ملک کے خلاف سازش ہے اور جناب بھٹو نے میرے خیال میں یہ بات صحیح کہی کہ یہ بین الاقوامی سازش کا کوئی حصہ معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے اس کی بڑی اہمیت ہے اور ہمیں پورے غور وخوض کے ساتھ اس کا جائزہ لینا چاہئے۔
جناب والا! اس سلسلے میں اس کا تھوڑاسا پس منظر میں بیان کرنا چاہتاہوں۔ جس سے مجھے پورا یقین آیا اور باتوںکے علاوہ کہ یہ کیوں غلط کار لوگ ہیں اور ان کا نبوت کا دعویٰ کیوں جھوٹا ہے اور ختم نبوت کے انہوں نے جو معنی پہنائے ہیں، یہ کیوں غلط ہے؟
2718جناب چیئرمین! آپ کومعلوم ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں جب مغلوں کی حکومت ختم ہوئی۔ اس میں جب زوال آیا۔ انگریزوں نے قبضہ کیا تو اس وقت یہ جو ایک مرحلہ تھا۔ یہ ایک نازک مرحلہ تھا۔ جو علماء حق ہیں۔ انہوں نے اس بات کا جائزہ لیا کہ مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی ہے۔ ایک کافروں کی حکومت برسراقتدار آگئی ہے۔ اسلام چونکہ مکمل دین اور ہر چیز کا اس میں انتظام ہے اور اس میں جذبہ جہاد پر اتنا بڑا زور دیا گیا ہے کہ اگر ہم اس کومضبوطی سے تھامے رکھیں تو مسلمان غلام نہیں ہو سکتا۔
اس وقت اس تحریک کے جو بانی مبانی تھے۔ سید احمد شہید بریلویؒ اور دیگر حضرات، جنہوں نے اس تحریک کی رہنمائی کی۔ انہوں نے اس تحریک کو اس قدر منظم کیا کہ بنگال سے لے کر سرحد تک اور باقی قبائلی علاقے تک اس تحریک کو چلایا اور بنگال کے اور پٹنہ اوربہار کے لوگ جا کر وہاں لڑے ہیں۔ یہاں سکھوں کے ساتھ پشاور میں، اور دوسرے علاقوں میں اور اس طریقے سے انہوں نے اس تحریک کی آبیاری کی ہے۔ تمام تر زور اس بات پر تھا کہ مسلمان محکوم نہیں ہو سکتا۔ مسلمان غلام نہیں ہو سکتا، اور اگر مسلمان غلامی سے دوچار ہو تو اسے جذبہ جہاد کے تحت تن، من، دھن سب کچھ قربان کر دینا چاہئے اور اس کو ایک آزاد منش آدمی کی سی زندگی بسر کرنی چاہئے۔ غلامی اس کے لئے لعنت ہے۔ غلام کی حیثیت میں مسلمان، مسلمان نہیں رہتا اور وہ اسلام کے فرائض کو پورا نہیں کرسکتا۔
یہ اتنا بڑا مسئلہ تھا کہ انگریز کے لئے یہ ایک بڑا معّمہ بن گیا۔ انگریز اپنی حکومت کو مستحکم کرنا چاہتا تھا۔ لیکن دوسری طرف اس قسم کے، میں کہوں گا، نہتے لوگ، جن کے پاس کوئی جائیدادیں نہ تھیں۔ کوئی ذرائع نہ تھے،مخصوص قسم کے۔ بلکہ جو متمول لوگ تھے۔ وہ تاریخ میں آیاہے کہ ان کے لئے باطل پرست، خود پرست، مفاد پرست قسم کے علماء سے مکے، مدینے تک سے فتوے منگوائے گئے۔ یہاں سے بھی غلط قسم کے علماء سؤ سے انہوں نے فتوے لے لئے جہاد کے خلاف، اوراس بات کے حق میں کہ اس حکومت کے دوران امن قائم ہو گیا۔ اس 2719کی اطاعت میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود تحریک چلانے والے لوگ ان فتوؤں سے متأثر نہ ہوئے۔ لیکن کچھ متمول لوگ ان غلط فتاویٰ کے بھرے میں آ گئے اور انہوں نے ایک حد تک انگریزی حکومت کو قبول کر لیا۔ لیکن عام لوگ،بھوکے ننگے قسم کے لوگ جذبہ جہاد سے سرشار تھے۔ انہوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر اس تحریک کی آبیاری کی اور اس کو روپیہ فراہم کیا اور اس کو ٹوٹے پھوٹے ہتھیار فراہم کئے اور اس طریقے سے انگریز کا ناطقہ بند کردیا۔
میں مزید تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مرحلہ وہ تھا کہ جس وقت انگریز کو اس بات کی ضرور ت محسوس ہوئی کہ کوئی ایسا شخص ہاتھ لگے کہ جو یہ جہاد والی بات کو منسوخ قرار دے دے۔ کیونکہ اس نے ہمارا ناطقہ بند کر دیا ہے اور یہ ہماری حکومت کے اندر استحکام پیدا نہیں ہونے دیتا۔ اس وقت ایسی شخصیت کی ضرورت پڑی کہ جو اس جہاد کو حرام قرار دے دے اور جہاد جب حرام قرار دے دے تو بس، مسلمان پھر عیاشی کے اندر پڑ جائے گا۔ وہ نہ اسلام کے لئے لڑے گا اور نہ ملک و ملت کے لئے قربانی دے گا۔ پھر کوئی کافر، بے دین جو بھی چاہے اگر اس پر حکمرانی کرے۔ جائیدادیں دے۔ بس وہ حکمرانی کرتا رہے۔ تو گویا یہ شکل جب پیدا ہوئی تو اس وقت پھر مرزا قادیان پر ان کی نظر پڑی۔
ہنڑ بڑی مشہور شخصیت سول سروس کی ہے۔سب حضرات کوعلم ہے اس نے ایک کتاب لکھی ہے ’’انڈین مسلمان۔‘‘ اس کے اندر ان تمام چیزوں کی تفاصیل آئی ہیں۔ اس نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جب یہ کیفیت پیدا ہوئی تو ہنڑ صاحب نے خود اس بات کوتسلیم کیا کہ یہ جو ہم نے علماء سے فیصلے لئے تھے، یہ سب ناکام ہو گئے۔ شاہ ولی اﷲ صاحب یا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، جنہوں نے اس جہاد میں حصہ لیا اور اس طرح سے تحریک کو آگے بڑھایا، تو ان کو ہنٹر صاحب نے خود ’’نبی‘‘ کے لفظ سے یاد کیا2720ہے تاکہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دی جائے کہ بڑا قسم کا عالم جو ہے وہ نبی بھی بن سکتا ہے۔ اس طریقے سے مرزا قادیان نے رفتہ رفتہ ّجس کی تمام تفاصیل آپ کے سامنے آ چکی ہے۔ اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے چھوٹی اسٹیج سے آخر نبوت کا اس نے دعویٰ کردیا اور سب سے بڑی دو باتیں اس نے کیں۔ ایک جہاد کی منسوخی اور ایک یہ آیت کہ ’’ اولیٰ الامرمنکم ‘‘اس کی غلط تعبیر کہ اطاعت کرو خدا کی اور رسول ﷺ کی اور ’’ اولیٰ الامرمنکم ‘‘کی، جو تم میں سے ہو۔ تو یہ قادیانی لوگ جو تحریف کے استاد ہیں۔ (جیسا کہ مولانا ہزاروی صاحب نے بھی اس کا ثبوت بہم پہنچایا ہے) تو وہ ’’ منکم ‘‘ کو تو ہڑپ کر گئے اور اس آیت کے غلط معنی کئے کہ بس جو بھی حاکم ہو، چاہے کافر ہو، اس کی اطاعت کرو۔
ان دو چیزوں پر انہوں نے سب سے زیادہ زور دیا ہے۔ اب اس معاملے کے اندر ظاہر بات ہے کہ مسلمان کے پاس ایک ایسی کتاب ہے قرآن کریم کی شکل میں کہ اس میں کوئی تحریف نہیں کر سکتا۔ جو تحریف کرتا ہے وہ پکڑا جاتا ہے۔ مارا جاتا ہے اور قرآن کریم قیامت تک کے لئے محفوظ ہے اور اﷲ میاں نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ اس کی موجودگی میں اور احادیث صحیحہ کی موجودگی میں مسلمانوں کو اس بات کا قائل نہیں کیا جا سکتا کہ جہاد منسوخ ہو سکتا ہے یا وہ ’’اولیٰ الامرمنکم‘‘ میں سے ’’منکم‘‘کو نکال کر ہر کافر اور بے دین حکومت کے وہ غلام رہ سکتے ہیں۔
اس کے بعد جناب والا! اب آخری بات یہ کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے جو معروضات پیش کی ہیں۔ ان سے یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ سامراج کی خدمت کے لئے سامراج نے یہ پودا خود کاشت کیا تاکہ امت مسلمہ میں تفریق پید اکی جائے اور امت مسلمہ کے اتحاد اور اتفاق کو ختم کیا جائے۔ اسلام کی یکجہتی کو ضرب کاری لگائی جائے۔
اب آخر میں جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ اس مسئلہ کے حل کے لئے کوئی تجویز پیش کرنی چاہئے تو تجویز جناب!یہ ہے کہ جب تک ان قادیانیوں کے دونوں گروہ، 2721ربوہ والے اور لاہور والے، ان کو غیر مسلم اقلیت اگر قرار نہ دیا گیا تو مسئلہ حل نہ ہوگا۔ بلکہ خدانخواستہ، خدا نخواستہ، خدا نخواستہ اس ملک کے اندر ایسا بحران پیدا ہوسکتا ہے کہ اس کو قابو میں لانا بڑا مشکل ہو جائے گا۔ ہم پہلے ہی بہت سے بحرانوں سے دوچار ہیں اور اب ہمیں کسی نئے بحران کو دعوت نہیں دینی چاہئے ورنہ ہم خود پھر اپنے ساتھ دشمنی کریں گے۔ اس میں مذہبی طور پر تو جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ جو امت کا اتحاد ہے۔ وہ قائم رہے گا۔ تفریق و انتشار ختم ہو جائے گا اور سیاسی طور پر ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے سے اب یہ قادیانی مسلمانوں کے نام پر جو کلیدی اسامیوں پر قابض ہیں اور جو قبضہ جمائے ہوئے بیٹھے ہیں۔ ان سے ان کو ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ ان سے یہ محروم ہوں گے اور اب یہ جو اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھ رہے ہیں اور اس ملک کی سلامتی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور ان کو خدا نخواستہ توڑنا چاہتے ہیں۔ تو پھر وہاں قادیان کو لوٹنا چاہتے ہیں تو غیر مسلم اقلیت قرار دینے سے یہ دونوں مقاصد حل ہو سکتے ہیں اور یہی میری تجویز ہے اور میں یہ التجا کرتا ہوں تمام ہاؤس سے جناب چیئرمین! آپ کے ذریعے کہ ان کو ضرور غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ اسی میں ملک و ملت کا فائدہ ہے۔ پاکستان کا فائدہ ہے۔ تمام امت مسلمہ کا فائدہ ہے اور ہم ایک مزید بحران سے بچ جائیں گے۔
جناب چیئرمین: ڈاکٹر محمود عباس بخاری۔
ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری: اعوذ باﷲ من الشیطٰن الرجیم۔ بسم اﷲ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونستعینہ وصلی اﷲ علی اشرف الانبیاء و خاتم النّبیین ابوالقاسم محمدبہ آلہ الطاہرین و اصحابہ المخلصین ۔
جناب سپیکر! آج کا عنوان بڑا ہی نازک عنوان ہے اور میں پوری کوشش کروں گا کہ کہیں پر بھی اپنی حدود سے تجاوز نہ کروں۔ لیکن دل خون ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ضرب کاری لگانے والوں نے اور جنون کا تیشہ چلانے والوں نے جو نخل چناہے، جس درخت پر یہ…
2722Mr.Chairman: I would request the honourable speaker that, instead of words it should be matter, because we are concerned with the matter, the substance.
(جناب چیئرمین: میری معزز مقرر سے گزارش ہے کہ الفاظ کے بجائے مواد پیش کریں۔ اس لئے کہ ہمیں مواد کو مدنظر رکھناہے) یہ جو الفاظ ہیں ناں خوبصورت الفاظ، یہ کل بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ پرسوں بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ Today it should be matterآج صرف مواد ہونا چاہئے۔
ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری: سر! میں آر ہاہوں۔ گندے الفاظ کہاں سے لاؤں؟ میرے الفاظ تو شاید آپ کو پسند نہیں۔ لیکن کیا کروں زبان کی خامی سمجھ لیجئے میری۔
Mr.Chairman: Everybody can understand.
(جناب چیئرمین: ہر شخص سمجھ سکتا ہے)
Dr. S. Mahmood Abbas Bokhari: May I be permitted to continue?
(ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری: میں اپنی بات جاری رکھ سکتاہوں؟)
Mr.Chairman: You are permitted to continue. Come with proposals.
(جناب چیئرمین: آپ کو اپنی بات جاری رکھنے کی اجازت ہے۔ تجاویز پیش کریں)
[At this stage Mr.Chairman vacated the Chair which was occupied by (Dr. Mrs. Ashraf khatoo Abbasi)]
(اس مرحلہ پر جناب چیئرمین نے کرسی چھوڑ دی۔ جسے ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی نے سنبھال لیا)
Dr. S. Mahmood Abbas Bokhari: Madam Deputy Speaker, with your permission.
(ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری: محترمہ ڈپٹی سپیکر صاحبہ! آپ کی اجازت سے)
Madam Acting Chairman: Yes, you can continue.
(محترمہ قائم مقام چیئرمین صاحبہ: ہاں، آپ جاری رکھ سکتے ہیں)
 
Top