• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(جناب راؤ ہاشم کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب راؤ ہاشم کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
جناب ایم ہاشم خان: جناب والا! جس مسئلہ سے یہ اسپیشل کمیٹی گذشتہ تین ماہ سے دوچار ہے، یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ اس ملک کے مسلمانوں کو یہ مسئلہ گذشتہ تقریباً ایک صدی سے درپیش ہے۔ مختلف موقعوں پر اسلامیان ہند نے یہ کوشش کی کہ ان کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ ۱۹۴۷ء تک تو وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکے، اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں ایک بہت بڑی عظیم طاقت کی سرپرستی حاصل رہی اور ۱۹۴۷ء کے بعد پہلی مرتبہ ۱۹۵۳ء میں جب یہ جدوجہد شروع ہوئی کہ احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیا جائے، اس وقت تو میں یہ کہوں گا کہ ہر تحریک جو تشدد اختیار کر جائے اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ ۱۹۵۳ء میں چونکہ تشدد شروع ہوگیا اور تشدد کا ہمیشہ جواب تشدد سے دیا جاتا ہے اور جب تشدد ناکام ہو جائے تو پھروہ تحریک بھی ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے۔ یہی صورتحال ۱۹۵۳ء میں ہوئی۔ اس وقت کے جو زعماء لیڈران اس تحریک کے تھے انہوں نے تشدد کا طریقہ اختیار کیا۱؎۔ عدم تشدد کا رستہ چھوڑ دیااس لئے سارے ملک کے سامنے اور ساری قوم کے دیکھتے دیکھتے ایک ایسا مسئلہ جو تھا یہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا، اب یہ کبھی سر نہ اٹھا سکے گا۔ تو اب بھی وہی بات تھی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک قسم کی تائید غیبی تھی کہ ۱۹۵۳ء کے بعد اس مسئلہ پر کبھی کسی نے سنجیدگی سے غور نہیں کیا کہ کس طریقے سے اس جماعت کے لوگ منظم ہوتے جارہے ہیں اور کس طریقے سے وہ اپنے آپ کو اس ملک میں اہم عہدوں پر فائز کر کے ہرچیز پر قابض ہو گئے ہیں جن کا سیاست میں اور دنیاوی کاموں میں کافی اثر ہوتا ہے۔
جناب والا! آپ یہ دیکھیں گے کہ اس فرقہ کے لوگوں نے سب سے پہلے یہ کوشش کی کہ Open Competition (آزاد مقابلہ) میں تو چونکہ بہت ساری چیزیں آجاتی ہیں،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۱؎ تحریک کے زعماء نے پرامن تحریک چلائی۔ حکومت نے ان کو گرفتار کر لیا۔ ایجنسیوں نے تشدد کے راستہ پر تحریک کو ڈال دیا۔ حکومت نے بدترین تشدد سے تحریک کو کچل دیا۔ اس میں زعماء تحریک کا کوئی قصور نہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہمارے ہاں سی۔ایس۔پی، پی۔سی۔ایس کے امتحانات ہوتے تھے۔ اس میں Open Competition (آزاد مقابلہ) ہوتے 2956تھے، وہاں پر زیادہ کارگر نہیں ہوسکے۔ وہاں تو یہ تھا کہ سو(۱۰۰) میں سے ایک آدمی آگیا تو Open Competition (آزاد مقابلہ) میں تو چلے گئے۔ ان لوگوں کے جو سینئر آفیسر تھے انہوں نے اس ملک میں کارپوریشنوں پر قبضہ کرنے کی سب سے زیادہ کوشش کی۔ آپ دیکھیں گے کہ اس ملک میں جتنی بھی کارپوریشنیں موجود ہیں ان میں اہم ترین عہدے ان کے پاس ہیں۔ اس کا طریقہ کار یہ رہا ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو پی۔آئی۔ڈی۔سی کا چیئرمین مقرر کرادیا۔ فرض کیجئے مجھے انہوں نے چیئرمین بنوادیا۔ اب میں چونکہ چیئرمین ہوگیا ہوں، میں ایک بڑے افسر کا ممنون احسان ہوگیا۔ وہ افسر احمدی تھا۔ انہوں نے دو چار دن کے بعد مجھے کہا کہ میں نے آپ کو چیئرمین مقرر کرایا ہے، آپ پرسانل آفیسر فلاں آدمی کو لگادیں۔ میں اس احسان تلے دبا ہوا تھا، لہٰذا میں نے ان کی مرضی کے مطابق ایک ایسے آدمی کو آفیسر بھرتی کرادیا۔ جس کا کام یہ تھا کہ وہ بھرتی کرے۔ لہٰذا اس آدمی نے اس ادارے میں ۹۹فیصد احمدیوں کو ملازمت دی۔ پی۔آئی۔ڈی۔سی بینک اور انشورنس کمپنیاں، جہاں بھی یہ لوگ گئے ان کی اکثریت رہی۔ اس طریقہ سے یہ ہماری اقتصادیات پر حاوی ہوتے چلے گئے۔ جس کے پاس پیسہ ہو آواز بھی اس کی ہوتی ہے۔ آج یہ لوگ منظم اس لئے ہیں کہ ان کے پاس پیسے اور وسائل ہیں۔ یہ ایک دو فیصد ہوتے ہوئے بھی اسی لئے ہمارا مقابلہ بڑی سختی کے ساتھ کرتے ہیں۔
----------
[At this stage Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi vacated the Chair which was occupied by Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali).]
(اس مرحلے پر ڈاکٹر بیگم اشرف خاتون عباسی نے کرسی صدارت کو چھوڑا جسے جناب چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) نے سنبھالا)
----------
جناب ایم ہاشم خان: تو میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ ۱۹۵۳ء کے بعد پہلی مرتبہ انہوں نے اس مسئلے کو جگادیا۔ اگر ربوہ کا واقعہ نہ ہوتا تو پھر میں سمجھتا ہوں کہ یہ قوم اس طرف دھیان دینے کے لئے تیار نہیں تھی۔
2957جناب والا! میں ایک بات ضرور عرض کروں گا کہ اس موجودہ حکومت کو بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ اس قسم کے مسائل ہیں کہ آج تک اس قوم کو اس قسم کے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ۲۵سال سے آج تک ہم ایسے وسائل سے دوچار نہیں ہوئے۔ سب سے بڑا مسئلہ جو آج تک حل نہیں ہوسکا وہ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے اس چیز کو جو کہ گزشتہ سو(۱۰۰) سو سال سے حل نہیں کی جاسکی اس کو ہم نے بڑی خوش اسلوبی سے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔
جناب والا! یہاں پر ناصر احمد نے یہ کہا کہ یہ ہمارا اختیار نہیں ہے۔ اس اسمبلی کو انہوں نے چیلنج کیا ہے کہ اسمبلی کو کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ اس پر فیصلہ (Adjudicate) دے سکے اور کسی کو غیرمسلم قرار دے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایوان اس ملک میں ایک بااختیار ایوان ہے۔ اس سے بڑی طاقت کوئی نہیں ہے۔ اگر یہ ایوان کسی کے بارے میں فیصلہ نہیں دے سکتا تو پھر وہ کون ساایوان ہے جو یہ فیصلہ کر سکتا ہے؟ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس ایوان کو اس الجھن میں نہ ڈالا جائے۔ بہرحال یہ کہنا کہ اس ایوان کو اس مسئلے کو حل کرنے کا اختیار نہیں ہے یہ غلط ہے۔ اس ایوان کو کلی طور پر اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی جماعت اور کسی فرقے کے بارے میں یہ کہہ سکے کہ یہ صحیح ہے یا غلط۔ ہم یہاںہر قسم کی قانون سازی کر سکتے ہیں۔ ہمارے اوپر ایک حق ضرور عائد ہوتا ہے کہ ہم کوئی ایسا کام نہیں کر سکتے جو اسلام کی روح کے خلاف ہو، جو آئین کے خلاف ہو اور ہم اس قسم کی قانون سازی کے مجاز نہیں ہیں۔ دنیا کی بہت سی پارلیمنٹس ہیں جن میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ وہ ہرچیز کر سکتی ہیں لیکن اس ملک میں پارلیمنٹ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ حلال اور جائز کو ناجائز قرار دے۔ اس کے علاوہ تمام قسم کی دنیاوی قانون سازی کر سکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ مذہب ایک ذاتی مسئلہ ہے، اس پر ہم Finding (فیصلہ) نہیں دے سکتے ہیں۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذہب صرف اس وقت تک ذاتی 2958مسئلہ رہتا ہے۔ جب تک وہ کسی شخص کی ذات تک محدود رہے۔ اگر میں دل میں کوئی خیال رکھتا ہوں اور اپنی عبادت میں مشغول رہتا ہوں تو یہ ذاتی مسئلہ ہوگا۔ لیکن جب باہر آکر علی الاعلان ہم ایسی باتیں کریں جن سے دوسرے لوگ بھی متاثر ہوں، ان کے جذبات مجروح ہوں، تو پھر یہ ذاتی مسئلہ نہیں رہتا۔ اس ملک کے اندر جو اسلام کے نام پر حاصل کیاگیا ہے۔ یہاں یہ کہنا کہ نعوذ باﷲ رسول کریم ﷺ کے بعد بھی نبی آسکتا ہے تو یہ ہمارے جذبات کے ساتھ بہت زیادتی ہوگی۔
ایک بات دیکھنے میں آئی ہے اور مجھے ذاتی تجربہ ہے کہ کالج سے لے کر اب تک جو احمدی بھی میرے ساتھ رہے ہیں، ہم ان کے ساتھ جرح کرتے تھے اور بڑے سخت الفاظ استعمال کر جاتے تھے، لیکن وہ ہنس کر ٹال دیتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد پہلی بار انہوں نے تشدد شروع کر دیا جو ملک خداداد اور رسول اﷲ ﷺ کے نام پر معرض وجود میں آیا۔ اس میں اقلیت کو تشدد کی جرأت کیسے ہوئی؟ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو اس سے باخبر رہنا چاہئے۔ ان کو یہ جرأت کیسے ہوئی کہ انہوں نے ٹرین پر حملہ کیا اور مسلمانوں پر تشدد کیا، ان لوگوں پر زیادتی کی جو کل آبادی کا ۹۹فیصد ہیں۔
جناب والا! میں یہ عرض کروں گا کہ اس اسمبلی کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ وہ یا ہمیں یعنی اکثریت کو (خدانخواستہ) غیرمسلم قرار دے یا انہیں غیرمسلم قرار دے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں آپ کے سامنے کہا کہ وہ ان کو مسلمان نہیں سمجھتے۔ جو مرزاغلام احمد کو نبی نہیں مانتے۔ اس ملک کی ۹۹فیصد آبادی ہرگز مرزاغلام احمد کو نبی تسلیم نہیں کرتی۔
 
Top