• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(جناب محمد افضل رندھاوا کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب محمد افضل رندھاوا کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
جناب محمد افضل رندھاوا: جناب چیئرمین! یہ فتنہ قادیان کے مسئلہ پر گذشتہ دنوں جو بیان اور Cross examination (جرح) اور جو تقاریر ہوئیں۔ وہ جناب والا! ہمارے سامنے ہیں اور جناب! میں تو ایک سیدھا سادہ سا مسلمان ہوں۔ جو شاید صرف اس لئے مسلمان ہے کہ مسلمان کی اولاد ہے۔ میں تو زیادہ آئینی یا مذہبی تاویلیں نہیں جانتا۔
متعدد اراکین: آواز نہیں آ رہی۔ (مداخلت)
جناب محمد افضل رندھاوا: تو جناب والا! اس سلسلہ میں دو چار موٹی موٹی گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔ جہاں تک آئینی موشگافیوں کا ذکر اورواسطہ ہے۔ جناب! اس ملک میں کہ جسے اسلام کے نام پر لیا گیا اور جب یہ ملک لیاگیا تو اس کے لئے جو سب سے بڑا سلوگن تھا وہ یہ تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الااﷲ۔ تو جناب! ایک ایسے ملک میں کہ جسے اسلام کے نام پر لیا گیا ہے۔ اس طرح کا فتنہ اور تمام عالم اسلام کے ساتھ گذشتہ اسی (۸۰) یا نوے(۹۰) سال سے ایک حادثہ ایک سانحہ ہوا ہے اور جس کو مضبوط سے مضبوط تر ایک گروپ کر رہا ہے۔ اس فتنہ کے لئے کم سے کم مجھے کسی آئینی موشگافیوں میں جانے کی ضرورت نہیں۔ اسلام کا بنیادی آئین وہ ہے جو آج سے تیرہ سو سال پہلے آیا جس پر ہمارا ایمان ہے اور اسی میں سب کچھ ہے او ر جناب والا! اس ضمن میں موجودہ ملکی آئین کو نہ پچھلے آئینوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جناب والا! جو کچھ ہے سامنے ہے اور یہ دیوار پر لکھا ہوا ہے۔
2798تو جناب والا! اس مسئلے کے جو دو پہلو میر ی سمجھ میں آتے ہیں، سیاسی اور مذہبی۔ سیاسی طور پر یہ عالم اسلام کو کمزور کرنے کی سامراجی سازش تھی۔ جس کی طرف راؤ خورشید علی خان نے ارشاد فرمایا۔ جناب والا! اس کی شہادت ہمیں اس سے بھی ملتی ہے۔ خلیفہ سوم جناب مرزا ناصر احمد مسلمانوں کی اس براعظم میں سب سے پہلی جنگ آزادی یعنی جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کو ’’غدر‘‘کہتے ہیں۔ تو جناب فتنہ قادیان ایک سازش تھی جو مسلمانوں کے شعور کو سیاسی طور پر ختم کرنے کے لئے کی گئی۔ جناب والا! انگریزوں نے اس وقت اس بوٹے کو لگایا اور اس کو سینچا او ر پھر ایک ایسا خنجر جیسا کہ انگریزوں نے عرب عالم کے سینے میں اسرائیل کی ریاست کی صورت میں ٹھونکا ہوا تھا۔ اس طرح کا ایک خنجر براعظم کے مسلمانوں کی چھاتی میں قادیانیوں کے نام پر ٹھونک دیا گیا۔
جناب والا! مذہبی طور پر تاویلیں لکھی ہیں۔ ایک مصرع ہے:
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
[At this stage Mr.Chairman vacated the Chair which was occupied by prof.Ghafoor Ahmad.]
(اس مرحلہ پر مسٹر چیئرمین کی جگہ پروفیسر غفور احمد نے اجلاس کی صدارت سنبھال لی)
جناب محمد افضل رندھاوا: جناب!میری اس سے پہلے تو خوش قسمتی رہی کہ میں نے نہ قادیانیوں کی کوئی کتاب پڑھی، نہ میرے حلقہ احباب میں اس طرح کا کوئی بزرگ تھا جس سے واقفیت حاصل ہوتی۔ لیکن یہاں جو کچھ عقل نے دیکھا، عقل شرمسار ہے، عقل شرمندہ ہے۔ کس طرح ایک غلط بات کی تاویلیں، پھر تاویلیں اورتاویلوں میں سے ایک تاویل۔ کس طرح ایک جھوٹ چھپانے کے لئے ہزارہا جھوٹ بولے جا رہے ہیں۔ جناب والا! جب گواہ (مرزا ناصر اور لاہوری گروپ) پر Cross examination (جرح) کیا جاتا ہے تو صرف یہ نہیں 2799دیکھا جاتا کہ اس نے جواب میں کیا کہا ہے۔
لیکن جناب والا!یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اور یہ انتہائی اہم ہوتا ہے کہ گواہ کس طرح سے جواب دے رہا ہے۔ کیا وہ اس طرح کی گواہی دے رہا ہے۔ جیسے ایک سچا آدمی دیتا ہے، یا وہ اس طرح کی گواہی دیتا ہے جس طرح ایک جھوٹا آدمی گواہی دیتا ہے۔ جناب! ہم سب لوگ جو یہاں بیٹھے ہیں۔ میں تمام فاضل ممبران کو اپنے آپ سے زیادہ افضل علم میں اور رتبہ میں بڑا سمجھتا ہوں۔ جناب! میری ناقص سمجھ میں تو یہ بات آئی ہے کہ یہ جھوٹ ایک فراڈ ہے جس کو یہ مرزائی ادھر ادھر سے سچا ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک ایسی بات ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس پر تمام عالم اسلام نہ صرف یہ کہ عالم دین حضرات بلکہ لچے لفنگے، چور، اٹھائی گیرے حتیٰ کہ دنیا میں سب سے برے مسلمان بھی نام رسول ﷺ اور نام رسالت پر قربان ہونا سب سے بڑا فخر سمجھتے ہیں، اور وہ ہمیں اس بارے میں تاویلیں سنا رہے ہیں۔
میں لمبی باتوں میں نہیں جاؤں گا۔ میرا تو سیدھا سادہ سا یہ مطلب ہے کہ ایک بات ہے جس میں میں جناب عبدالعزیز بھٹی صاحب سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہم گناہ گاروں کو یہ عظیم سعادت ملی ہے کہ ہم ناموس رسول ﷺ کی حفاظت کریں اور یہ ہمارے ہاتھ سے مسئلہ حل ہو جائے اور میرا بالکل پختہ ایمان ہے کہ دنیاوی دولت ، دنیاوی حشمت یا عہدے یا رتبے یا ممبریاں، یہ حضور پاک خاتم الانبیاء جناب محمد رسول اﷲ ﷺ کے خادموں کے خادموں کے پاؤں کی جو مٹی ہے۔ یہ اس سے بھی کم رتبہ ہیں۔ اس کے لئے ممبریاں جائیں، عہدے چلے جائیں، بلکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ بھی قربان ہوں،ہم خود بھی رسالت پر قربان ہوں۔ ہمارے بچے بھی قربان ہوں، ہم اس سے بڑا اور کوئی فخر نہیں سمجھتے۔
تو جناب! بڑی سیدھی بات ہے۔ سیاسی طور پر تو یہ ایک سیاسی جماعت ہے۔ فوری طور پر اس پرایک سخت قسم کی پابندی لگائی جائے اور ان کامحاسبہ کیا جائے اور 2800دوسری بات یہ ہے کہ ان کے جتنے فنڈز ہیں۔ مختلف ذرائع سے خواہ وہ اسرائیل سے ملے یا وہ یہاں سے ملے۔ ان کا حساب کیا جائے اور ضبط کریں اور تیسرے جناب والا! شہر ربوہ ہے۔ جس کو وہ شہر ظلی کہتے ہیں۔ اس کو Open city (کھلا شہر) قرار دیاجائے۔ جہاں لوگ آ جاسکیں۔ ان کی ریشہ دوانیاں عوام کے سامنے آنی چاہئیں۔
کلیدی اسامیوں سے نکالنے کے بارے میں میں اپنے فاضل دوست جناب عبدالعزیز بھٹی صاحب سے اختلاف کروں گا۔ جناب والا! اگر اس ملک کا آئین اور ملت اسلامیہ انہیں اقلیت قرار دیتی ہے اور یہ اسلام کا حکم ہے جس سے روگردانی کسی طور پرممکن نہیں۔ ایسے لوگوں کو کلیدی اسامیوں سے نکال دینے میں کیا حرج ہے؟ اور پھر یہ منطق میری سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ ’’اچھے مسلمان نہ سہی اچھے پاکستانی ہوسکتے ہیں۔‘‘ جس طرح کہ جناب والا! وہ اچھے مسلمان نہیں، تو اچھے پاکستانی کیسے ہو سکتے ہیں؟
ملک کی بدنامی سے زیادہ ہمیں ملک کی سلامتی کی ضرورت ہے۔ بدنامی تو ایسی چیز ہے جس کی وضاحت ہو سکتی ہے۔ ہم جس کی وضاحت کر سکتے ہیں۔ بدنامی کے داغوں کوصاف کر سکتے ہیں۔ لیکن جناب والا! یہاں تو ملک کی سلامتی کا سوال ہے۔ ہم کسی طرح ملک کو اس قسم کے لوگوں کے ہاتھوں میں دینے کے بالکل قائل نہیں ہیں۔ اگر ان کو اقلیت قرار دیا جاتا ہے تو یقینی طور پر ان کو کلیدی نوکریوں سے بھی نکالا جا سکتا ہے۔ اگر ایک آدمی اچھا مسلمان نہیں ہے تومیرے نقطہ نظر سے وہ کبھی اچھا پاکستانی نہیں ہو سکتا۔ اس لئے اس ملک کابنیادی فلسفہ جس کے تحت اس ملک کو ہم نے حاصل کیا ہے،وہ اسلام ہے۔
دوسرا پہلو جناب والا! مذہبی پہلو ہے اور اس سلسلے میں میں یہ مطالبہ کروں گا۔ جیسا کہ میرے دوست فاضل ممبران مطالبہ کر چکے ہیں کہ ان کو آپ کافر کہیں، ان کو اقلیت قرار دیں، ان کو مرتد کہیں، ان کو جھوٹا کہیں، جتنے الفاظ ڈکشنری میں ہوں، جن کے بارے میں وہ حضرت خلیفہ صاحب فرماتے رہے ہیں کہ ہر لفظ کے پندرہ معانی نکلتے ہیں۔ اگر 2801ایک لفظ کے دو سو معانی نکلتے ہیں تو میں تمام کے تمام ایسے معانی ان کے لئے استعمال کرناچاہتا ہوں اور یہ کہتا ہوں کہ انہیں اقلیت قرار دیا جائے۔ شکریہ۔
جناب قائم مقام چیئرمین(پروفیسر غفور احمد): چوہدری ممتاز احمد!
 
Top