• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(جناب محمد حنیف خان کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
QADIANI ISSUE- GENERAL DISCUSSION
(قادیانی مسئلہ… عمومی بحث)

جناب چیئرمین: جناب محمد حنیف خان!
(جناب محمد حنیف خان کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
جناب محمد حنیف خان: جناب سپیکر! اس معزز اسمبلی کے سامنے جو مسئلہ پیش ہے اس مسئلے کو اس تمام ایوان کی کمیٹی کے سامنے اس لئے پیش کیاگیا ہے کہ کمیٹی ہر دو لاہوری اور قادیانی مکتب نظر سے اپنے آپ کو آگاہ کرنے اور ان کے مؤقف کے مطابق ایسا فیصلہ کرنے کے قابل ہوسکے کہ آیا جو محرکات ہمارے اس ملک میں ربوہ کے واقعہ سے پیش ہوئے ہیں یہ معزز اسمبلی اور نیشنل اسمبلی کے معزز ممبران اس کے متعلق اپنا کچھ نظریہ یا مؤقف بیان کرنے کے قابل ہوسکیں۔
جناب سپیکر! میں زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ میرے معزز اراکین اسمبلی نے اس مسئلے پر سیر حاصل تقریریں بھی یہاں کی ہیں اور اٹارنی جنرل صاحب بھی اس شہادت کی روشنی میں جو اس کمیٹی کے سامنے گذر چکی ہے اپنے اس تمام 2622مقدمے کا ماحصل اس کمیٹی کے سامنے ابھی تھوڑی دیر کے بعد پیش کریں گے۔ لیکن میں اپنی بات کو ضرور ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ اس کے متعلق ایک انفرادی حیثیت سے انفرادی ممبر اور اپنے متعلق میں یہ کہوں گا کہ میرے کیا تأثرات ہیں۔
جناب سپیکر! میں اس بات میں بھی نہیں جاؤں گا کہ یہ بانی سلسلہ کس دور سے تعلق رکھتے تھے، کب پیدا ہوئے اور وہ وقت مسلمانوں کی تاریخ میں کیا تھا۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ اس وقت خلافت عثمانی جو تھی اپنے آخری دور میں تھی اور خلافت عثمانی کے خلاف تمام یورپ، روس اور یورپ کی تمام وہ طاقتیں جو مسلمانوں کو ختم کرنے کے درپے تھیں اور اسلام کا شیرازہ بکھیرنا انہوں نے اپنا مقصد سمجھ لیا تھا اور ان کا منتہائے مقصود تھا، انہوں نے بین الاقوامی طور پر کیا سازشیں کیں اور میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ اس وقت یہ عین موزوں اور مناسب تھا کہ ان طاقتوں کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار کسی طرف سے آجائے کہ مسلمانوں کے جذبۂ جہاد کو وہ مفقود یا سراسر سرد کر سکیں۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ انہوں نے وہ مقصد کس طرح پیدا کیا۔ یہ ان کی شہادت سے بھی عیاں ہے اور یہاں ہمارے معزز اراکین اسمبلی بھی بیان کر چکے ہیں کہ انہوں نے کتنی کتب جہاد کے فلسفہ کو تبدیل کرنے کے لئے یا ان کے قول یا عقیدے کے مطابق مسیح موعود کی آمد پر اس جہاد کی تاویل کو تبدیل کرنے میں کتنا مؤثر کردار ادا کیا۔
جناب والا! مذہبی لوگ اور علماء یہاں بیٹھے ہیں۔ میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ کسی قرآن کی آیت کا ترجمہ جو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں اور ہمارے آباؤ اجداد اور اسلاف جو ہیں ہمیں جس کی تلقین کرتے آئے، ان کے نزدیک ایک نئی صورت میں ایک نئے ترجمے میں اب پیش کیا جارہا ہے۔ یہ تو میں نہیں کہوں گا کہ یہ ان کا ترجمہ درست ہے یا غلط ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک تو ضرور درست ہے۔ لیکن باقی عامتہ المسلمین کے لئے 2623نہ پہلے درست رہا ہے اور نہ اب وہ اسے درست سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ حضرت مسیح یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ان کے عقیدے سے بالکل مختلف ہے۔ ہم حضرت مریم کو پاک معصوم اور ہرگناہ سے مبرّا قرآن کی بشارت سے سمجھتے آئے ہیں اور انشاء اﷲ! سمجھتے رہیں گے۔ ہمیں نعوذ باﷲ! قطعاً یہ کبھی شک پیدا نہیں ہوسکتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پاک روح نہیں تھے۔ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ پاک روح تھے اور اسی پاکیزگی کی بدولت انہیں صلیب نہیں دیاگیا۔ انہیں آسمان پر اٹھایا گیا اور ہمارے عقیدے کے مطابق وہ دنیا میں اس وقت آئیں گے جب کہ کفر کا غلبہ ہوگا۔
میں یہاں ایک یہ بات واضح کر دوں، میں موجود نہیں تھا، شاید علماء صاحبان نے یہ واضح کیا ہے یا نہیں، ان کی یہ دلیل ہے کہ حضرت مسیح موعود اگر زندہ ہیں تو محمد رسول اﷲ ﷺ آخری پیغمبر نہیں قرار دئیے جاسکتے۔ کیونکہ ایک زندہ پیغمبر اگر موجود ہو، ایک زندہ نبی موجود ہو اور وہ آخری پیغمبر جس پر ہمارا عقیدہ ہے اس کے بعد اگر اس دنیا میں آئے گا تو اس کی تکمیل، اس کا ختم ہونا یا خاتم ہو وہ رد ہو جائے گا، اور بعدمیں آنے والا خاتم سمجھا جائے گا۔ لیکن ہمارے عقیدے کے مطابق یہ ہے کہ وہ اگر آئے گا تو وہ نبی کی حیثیت سے عیسائیت کی رد میں نہیں آئے گا بلکہ مسلمانوں کے امام مہدی کے آگے وہ بحیثیت امی ہوکر آئے گا اور اس کے لئے یہ فخر ہوگا کہ وہ ہمارے محمد مصطفی ﷺ کے دین پر قائم ہونے کا اقرار اور اعلان کرے گا اور اس پر وہ فخر محسوس کرے گا۔
دوسری بات جو میں معزز اراکین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ باتیں بہت سی کی جاچکی ہیں۔ جس طرح کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ضرورت اس بات کی تھی کہ جہاد کے جذبے کو سرد کیا جائے تو معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ ان کی شہادت سے، ان کی کتب ہائے سے، یہ تاثر ملتا ہے کہ اس وقت جہاد کے لئے ایک مکتبہ فکر کو آگے کیا گیا اور 2624اس کے بعد جس وقت یہ دیکھا گیا کہ لوگ اس کو کلی طور پر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو اس میں ایک دوسرا فرقہ سامنے آیا جو اپنے آپ کو لاہوری ظاہر کرتا تھا۔ لاہوری فرقہ میں بھی سوائے اس کے میں کوئی فرق نہیں سمجھتا، جس طرح اس دن میں نے لاہوری فرقہ کے موجودہ عقائد کی شہادت سے اور اٹارنی جنرل کی ان پر جرح ہائے سے یہ اندازہ لگایا کہ وہ ’’کفر دون کفر‘‘ کا جو وہ مقصد بیان کرتے ہیں وہ اپنے لئے لگاتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں نے ’’کفر دون کفر‘‘ کا یہ مقصد قطعاً کسی وقت بھی نہیں لیا اور نہ یہ معنی کیا گیا ہے کہ ایک نبی کی نبوت کو کوئی اگر چیلنج کرے اور مذہبی نبوت جو ہے اس کو وہ اگر نبی نہ مانے اور اس کو مجدد مانے یا برگزیدہ مانے یا کسی صورت سے بھی اسلام کے ساتھ متعلقہ مانے تو وہ دون کفر نہیں ہے۔ بلکہ وہ کفر کی تکمیل ہوتی ہے اور وہ مکمل کافر ہوتا ہے۔
میں نے ایک سوال میں پوچھا تھا اور آپ کو یاد ہوگا اور وہ سوال یہ تھا کہ کفر کی اصطلاح قرآن پاک میں کس معنی میں استعمال کی گئی ہے اور کس معنی میں لی گئی ہے۔ تو ناصر محمود صاحب (مرزاناصر احمد) خلیفہ ثالث نے بڑی جرأت سے یہ کہا تھا کہ قرآن میں کفر کی اصطلاح جو ہے وہ صرف ملت اسلامیہ کی اور کفر کی تکمیل کے لئے استعمال کی گئی ہے اور دوسری اصطلاح جو انہوں نے یہاں ہمیں سنائی ہے اور رائج کی کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو تو ملت اسلامیہ میں بھی رہ سکتا ہے۔ انہوں نے یہ فرمایا کہ کفر یا کافر کا لفظ جو اسلام میں ، جو قرآن میں مذہبی سلسلہ میں مذہبی واسطہ سے استعمال ہوا ہے وہ دائرہ اسلام اور ملت اسلام دونوں کی تکمیل کرتا ہے اور وہ لفظ جس وقت استعمال ہوگا قرآن میں اس سے یہ مقصد لیا جائے گا کہ وہ دونوں سے خارج ہوگیا۔
جناب والا! سمجھ میں نہیں آتا، میں ایک بات عرض کروں کہ میں اپنے علماء صاحبان سے بھی نہایت ادب سے یہ درخواست کروں گا کہ وہ بھی اس بات کو سامنے ضرور رکھیں۔ ہمارے سامنے مسئلہ اکثریت اور اقلیت کا 2625ہے۔ میں اس پر زیادہ بحث نہیں کرنا چاہتا اور جو باتیں میں نے کہیں وہ اس لئے کہیں۔ کیونکہ اٹارنی جنرل صاحب تشریف نہیں لائے تھے۔ اب وہ تشریف لاچکے ہیں اور وہ زیادہ تفصیل سے باتیں کریں گے۔
آخر میں ایک بات کہوں گا کہ ہمارے سامنے ایک سوال ہے اور اس سوال کا میں اپنی دانست اور بساط کے مطابق ایک جواب دینا چاہتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ اقلیت کون ہے۔ آیا وہ اقلیت ہیں یا نہیں۔ آیا وہ غیرمسلم اقلیت ہیں یا مسلم اقلیت ہیں۔
جناب والا! وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور ہم لوگوں کو یا جو مرزاصاحب کو مسیح موعود نہ مانے یا وہ جیسا عقیدہ ان کا ہے وہ نہ مانے تو وہ جو کہتے ہیں کہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ جناب والا! اگر ہم لوگ ان کے دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں تو جزاک اﷲ! یہاں اس پاکستان میں وہ لوگ۹ء ۹۹فیصد اکثریت سے بستے ہیں جو ان کے دائرہ سے خارج ہیں اور اگر انہی کی بات کو لیا جائے اور انہی کی بات پر بھروسہ کیا جائے تو میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گا کہ وہ اپنی اس بات سے ہی اپنے آپ کو اقلیت ثابت کر چکے ہیں۔ کیونکہ ان کے قول کے مطابق ۹ئ۹۹فیصد جو ہیں، وہ اکثریت جو ہے وہ ان کے دائرہ سے الگ ہے، ان کی شادی ان سے الگ ہے، ان کی عبادت ان سے الگ ہے، ان کا رہنا سہنا ان سے الگ ہے، ان کا پیغمبر ان سے الگ ہے، ان کا عقیدہ ان سے الگ ہے، ان کی آیات کا ترجمہ ان کے قرآن کی آیات سے علیحدہ ہے۔ تو اس لئے جناب والا! جس وقت پاکستان بنایا گیا تھا اس وقت ہم نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ ہم مسلمان ہیں، ہماری تہذیب الگ ہے، ہماری عبادت الگ ہے، ہمارا مذہب الگ ہے، ہمارا خدا الگ ہے، ہمارا ان بتوں سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ہندو جن کی پوجا کرتے ہیں تو اس صورت میں ہمیں ایک علیحدہ وطن ملا تھا اور اٹارنی جنرل نے نہایت 2626قابلیت اور اہلیت سے اس بات کو ان کے منہ سے کہلوایا اور ثابت کیا۔ اس ہاؤس کے سامنے کہ جس وقت باؤنڈری کمیشن ریڈ کلف ایوارڈ دے رہا تھا یا پاکستان کا فیصلہ کر رہا تھا… (مداخلت)
جناب سپیکر! مجھے ایسا احتجاج اس بات پر ہے کہ اگر ہم داڑھی منے یا جن کو غیرمتشرع سمجھا جاتا ہے، ایسی تقریر میں جو دین کے متعلق ہو، جو اسلام کے متعلق ہو، جو قرآن کے متعلق ہو، وہ کی جائے تو حکم نہیں ہے کہ اس طرح سے چلا پھرا جائے۔ میں نہایت ادب سے کہوں گا کہ دو عالم جو اپنے آپ کو عالم بھی سمجھتے ہیں اور دین کے نہایت ماہر بھی اپنے آپ کو سمجھتے ہیں، ایک شریف معزز رکن تقریر کر رہا ہے اور یہ اس طرح آتے جاتے ہیں جس طرح کوئی بات نہیں ہورہی۔ تو یہ بات نہیں ہونی چاہئے۔ اگر کوئی سنجیدہ بات ہو تو اس میں ایک عالم کو کم ازکم نہایت سنجیدہ ہونا چاہئے اور کسی تقریر میں اس طرح کا تأثر پیدا نہ ہو۔ وہ عالم ہے، وہ اس معزز رکن سے زیادہ سمجھتا ہے اور جو باتیں معزز رکن کر رہا ہے، وہ کوئی ایسی خاص بات نہیں ہے۔
تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ جس وقت پاکستان بن رہا تھا اس وقت ہم نے ایک مؤقف اختیار کیا تھا کہ ہم ہندوؤں سے کیوں علیحدہ ہیں۔ میں اس لئے اقلیت اور اکثریت کی بات کرتا ہوں کہ اس وقت مسلمانوں نے خود کہا کہ ہم اقلیت ہیں اس لئے ہم علیحدہ قوم ہیں۔ ہماری عبادت الگ ہے، ہماری عام عبادت کا قاعدہ الگ ہے، ہمارا جنازہ جو ہے وہ الگ ہے، ہم دفن کرتے ہیں۔ زمین میں اور نماز جنازہ کرتے ہیں اور ہندو جو ہیں وہ اس کو جلاتے ہیں اور وہ اس پر ڈھول اور ساز بجاتے ہیں۔ ہم نے یہ کہا تھا کہ ہم ان کے ساتھ کھانا نہیں کھا سکتے۔ کیونکہ ہمارے لئے تو حرام ضرور ہے۔ لیکن ہندو بھی یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان جو ہے اس کے ساتھ وہ کھانا نہیں کھا سکتا۔ ہماری مجلسی زندگی، ہماری مذہبی زندگی ہندوؤں سے چونکہ الگ تھی۔ اس لئے ہمیں علیحدہ مذہب، علیحدہ قوم 2627قرار دیا گیا۔ تو ہم نے یہ دیکھا اس ایوان میں، جناب! آپ نے بھی اس ایوان میں دیکھا، شاید میں پہلا آدمی ہوتا اگر وہ یہاں اس ایوان میں اتنا بھی کہہ دیتے کہ ہم تو مسلمان ہیں۔ لیکن مرزاصاحب کو جو نہیں مانتا اور مسلمان خدا اور رسول کو اور کتاب وسنت کو مانتا ہے۔ ہم اسے غیرمسلم نہیں کہتے۔ تو پھر بھی کچھ گنجائش نکل آتی۔ لیکن کتنی ستم ظریفی ہوگی کہ اگر ایک گواہ یہاں پیش ہوکر مجھے یہ کہے کہ آپ کو میں کافر سمجھتا ہوں، آپ کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور مجھے یہ بھی کہنے کی اجازت نہ ہو یا میں اتنی بھی جرأت نہ کر سکوں یا میں یہ بھی نہ کہہ سکوں کہ بھائی! آپ کے دائرہ اسلام سے اگر ہم خارج ہیں تو ہم آپ کو اپنے دائرہ اسلام سے بھی خارج سمجھتے ہیں۔
جناب عالی! یہ میں نہیں کہہ رہا، یہ انہوں نے کہا ہے۔ انہوں نے چونکہ ہمیں خارج کیا۔ ’’امنا وصدقنا‘‘ ہم نے ان کا یہ کہنا قبول کیا۔ میرا خیال ہے تمام معزز ممبران ان کے اس کہنے پر تائید کریں گے کہ ان کے دائرے سے، ماشاء اﷲ! خداتعالیٰ نے ہم پر اپنی رحمت اور عنایت کی کہ ہم خارج ہوئے۔ لہٰذا ان کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ اگر ہم یہ نہ کہیں کہ وہ ہمارے دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
جناب عالی! میں نہایت معذرت کے ساتھ عرض کروں کہ آخر میں طریق کار کی بات رہ جاتی ہے۔ ہم نے ان کو کوئی قرار نہیں دیا، ہم نے ان کو اقلیت قرار نہیں دیا ہے اب تک۔ نہ ہم نے ان کے مذہب کو علیحدہ کیا ہے اب تک اپنے ساتھ سے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ ہم آپ سے علیحدہ ہیں، آپ ہمارے دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ جو میں نے نکتے ان سے لئے۔ ہم آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے، ہم آپ کے ساتھ شادی نہیں کرتے، ہم آپ کے جنازے میں شریک نہیں ہوتے، ہماری مسجد اقصیٰ الگ، ہماری مسجد اقصیٰ کا مینار الگ، اگر کسی کو حج کی توفیق نہ ہو تو وہ چھوٹا حج یہاں (قادیان میں) ادا کرنے کے قابل ہو 2628تو اس کا حج قبول۔ اگر وہ فرضی حج کرتا ہو اس کے بعد وہاں مسجد اقصیٰ میں اگر جاتا ہو تو اس کا چھوٹا حج قبول۔ تو یہ چونکہ انہوں نے خود کہا ہے، جزاک اﷲ! ہم کہتے ہیں کہ ان کو یہ خیالات مبارک ہوں، خدا ہمارے خیالات ہم کو مبارک کرے۔
لیکن آخر میں میں یہ کہوں گا کہ ہمیں اس مسئلے کو اچھی طرح حل کرنا چاہئے۔ ہمیں اس مسئلے کو نہ کوئی سیاسی رنگ دینا چاہئے اور نہ انفرادی اہمیت سے کوئی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ میرا عقیدہ یہ ہے کہ جس آدمی نے بھی ختم نبوت کے مسئلہ کو اپنے سیاسی عروج کا ذریعہ بنایا تو وہ حضرت محمد ﷺ کی برکت سے اس دنیا میں ذلیل ہوا ہے اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو میرا پکا ایمان اور پکا یقین ہے اور عقیدہ ہے کہ پھر بھی وہ ذلیل ہوگا۔ میں نہایت ادب سے معزز ممبران سے یہ استدعا کروں گا کہ بڑے اچھے طریقے سے اور خوش اسلوبی سے اس مسئلہ کو حل کیا جائے۔ تاکہ ملک انتشار سے بچ جائے۔ اگر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں یا ہم اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا نام لیوا کہتے ہیں تو میں آپ کی خدمت میں عرض کردوں کہ ہمارے پیغمبر ﷺ کو خدا کی طرف سے یہ حکم نہیں ہے کہ وہ تبلیغ کرتے وقت اگر ان کی تبلیغ پر کوئی ’’امنا وصدقنا‘‘ نہ کرے تو اس پر نہ ہی ان کو غصہ کرنے کی اجازت خدا نے دی ہے، نہ اس پر ان کو کوئی ایسی بات کرنے کی اجازت دی ہے کہ خدانخواستہ یہ ظاہر ہو سکے کہ کسی قسم کا جبر یا استبداد استعمال کیا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہم پر یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے بحیثیت مسلمان کے کہ ہر اس آدمی کی جو اس وقت ہمارے وطن عزیز میں رہتا ہے۔ خواہ وہ غیرمسلم پارسی ہے، سکھ ہے، عیسائی ہے، مرزائی قادیانی ہے یا لاہوری ہے، ان کی جان ومال کی حفاظت، عزت وآبرو، عبادت اور عبادت گاہ، ہم تمام کے اوپر ان کی حفاظت لازم آتی ہے۔ ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم ان کی حفاظت کریں۔ میں نہایت ادب سے یہ کہوں گا کہ ہمارے بائیں 2629ہاتھ کی طرف دو تین آدمی بہت بڑے عالم بیٹھے ہیں جن کی تقریر کا شاید ایک فقرہ پڑھا یا دو فقرے پڑھے۔ مجھے پہلے بھی اعتراض رہا ہے۔ ان کو میں نے پہلے کہا بھی ہے۔ نام نہیں لیتا۔ میں ان سے بھی کہوں گا کہ اشتعال انگیز تقریر نہ ملک کے مفاد میں ہے، نہ ہی مذہب کے مفاد میں ہے اور نہ ہی سیاست اس کی اجازت دیتی ہے اور نہ مذہب اس کی اجازت دیتا ہے۔
جناب والا! میں آپ کا نہایت مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے موقع دیا۔
Mr. Chairman: Thank you. Before I give floor to Malik Jafar,....
(جناب چیئرمین: شکریہ! اس سے پہلے کہ میں ملک جعفر صاحب کو دعوت دوں…)
(Interruption) (مداخلت)
جناب چیئرمین: سب سے پہلے میں مولانا عبدالحکیم صاحب کا بہت ہی مشکور ہوںِ ہاؤس کی طرف سے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، انہوں نے یہ حکم کیا کہ یہ جو کتاب انہوں نے ابھی بجھوائی ہے یہ تقسیم کر دی جائے، یعنی پڑھی نہ جائے اور تقسیم کر دی جائے۔ ممبر صاحبان خود پڑھ لیں گے۔ This may be distributed at once. Before I give floor to Malik Mohammad Jafar, (اس کتاب کو فوری طور پر تقسیم کر دیا جائے۔ اس سے پہلے کہ میں ملک محمد جعفر کو دعوت دوں) میں دو امور کے متعلق کچھ کہناچاہتا ہوں ایک سیکورٹی Arrangements (انتظامات) کے متعلق میں آپ کے ساتھ کچھ بات کرنا چاہتا ہوں تاکہ ہم In future (مستقبل میں) سیکورٹی Arrangements (انتظامات) کچھ اس طرح سے کریں کیونکہ صرف میری ہی ذمہ داری نہیں ہے، یہ ہم سب کی Collective (اجتماعی) ذمہ داری ہے تو اس لئے Before I give the floor to Malik Jafar, I would like to state that in future security arrangements are our responsibility. We find so many unwanted people who come in the canteen and other areas of the Assembly premises. Some of them bring with them cameras. People are bringing their friends. These things must come to an end. I am going to totally stop such things. (اس سے پہلے کہ میں ملک جعفر کو دعوت دوں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مستقبل میں سیکورٹی کے انتظامات ہماری ذمہ داری ہیں۔ بہت سے غیرمتعلقہ لوگ کینٹین اور اسمبلی کے گردونواح میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اپنے ساتھ کیمرہ لئے پھرتے ہیں۔ لوگ اپنے دوستوں کو ساتھ لے آتے ہیں۔ اس صورتحال کا خاتمہ ضروری ہے۔ میں ان سب چیزوں کو ختم کرنے لگا ہوں)
2630A Member: What about galleries?
جناب چیئرمین: گیلری والے کارڈ تو علیحدہ ہوتے ہیں۔ اسمبلی Premises (کی عمارت) میں داخل ہونے کے لئے کارڈ جو ہیں۔ اس لئے کہ پتہ نہیں کیا ہو جائے۔ You know what is happening (آپ کو پتا ہے کیا ہورہا ہے) اب تو ضروری ہوگیا ہے۔ اس کے لئے I need your cooperation (مجھے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے) پہلے اڑھائی مہینے میں میں آپ کا مشکور ہوں۔ یہ صرف آپ کی بقاء نہیں ہے، یہ ملک کی بقاء کا بھی سوال ہے۔ اس میں مجھے یاد ہے کہ کیمرہ والے ساتھ تھے۔ اس لئے اندر آگئے۔ People are bringing their friends (لوگ اپنے دوستوں کو ساتھ لا رہے ہیں) ہینڈ بیگ اور اس طرح کی جو چیزیں ہوں گی I am going to totally stop them. I am going to stop unwanted people coming through gate nos.3 and 4. (میں ان چیزوں کو مکمل طور پر روکنے لگا ہوں۔ میں گیٹ نمبر۳ اور ۴ سے غیر متعلقہ لوگوں کا داخلہ بند کرنے لگا ہوں)
A Member: What about members?
(ایک رکن: اراکین سے متعلق کیا ہے؟)
Mr. Chairman: We trust our honourable members. People are bringing their friends.
(جناب چیئرمین: ہم اپنے معزز اراکین پر اعتماد کرتے ہیں۔ لوگ اپنے دوستوں کو لارہے ہیں)
ممبر صاحبان چاہے بستر بند لے آئیں، جو چاہیں لے آئیں اس میں ناراضگی کی بات نہیں ہے۔یہ سب کچھ آپ کی Cooperation (کے تعاون) سے ہوگا۔ I want your cooperation. (مجھے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے)
میردریا خان کھوسو: کاروں کے ڈرائیوروں کے لئے آپ گنجائش رکھیں گے؟
Mr. Chairman: Of course, drivers will come. We have to come to certain decisions which are going to affect certain persons. I want your cooperation. After open 7th of September, we are going to open it. We have even to fill these galleries. As for sitting in the cafetaria, we have to regulate it. ایک دوسری چیز جس کے متعلق میں عرض کرنا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ شام کو جوائنٹ سیشن ہے۔ The Prime Minister of Sri Lanka is adderessing the Joint 2631Session today. Before her arrival, I request that all the honourable members be seated in their seats by 5:55 pm. I will first welcome the Prime Minister of Sri Lanka. It will not take more than an hour. The House Committee will continue tomorrow.
(جناب چیئرمین: ظاہر ہے، ڈرائیور تو آئیں گے۔ ہمیں بہرحال کچھ فیصلے کرنا ہوں گے جو چند لوگوں پر اثر انداز ہوں گے۔ جب اوپن کریں گے تو اس وقت یہ ہوگا۔ مجھے آپ کا تعاون چاہئے۔ ۷؍ستمبر کے بعد ہم اسے اوپن کر دیں گے۔ ہمیں یہ گیلریاں بھی بھرنا ہوں گی۔ کیفے میں بیٹھنے والوں کو بھی ہمیں کنٹرول کرنا ہوگا۔ ایک دوسری چیز جس کے متعلق میں عرض کرنا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ شام کو جوائنٹ سیشن ہے۔ سری لنکا کی وزیراعظم آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گی۔ ان کی آمد سے پہلے، میں تمام معزز اراکین سے درخواست کروں گا کہ شام ۵؍بج کر ۵۵منٹ تک اپنی نشستوں پر بیٹھ جائیں۔ میں پہلے سری لنکا کی وزیراعظم کو خوش آمدید کہوں گا۔ اس میں تقریباً ایک گھنٹہ لگے گا۔ ہاؤس کمیٹی کا یہ اجلاس کل جاری رہے گا)
وہ پہلا سواپانچ والا لیٹر غلط تھا۔ ہم نے کیٹگری والوں کو ساڑھے پانچ کا ٹائم دیا ہے۔ لیکن ممبر صاحبان پونے چھ بجے تک ہوں۔ پانچ بج کر پچپن منٹ پر انہوں نے آنا ہے تو کم ازکم دس منٹ پہلے ممبر صاحبان کو آجانا چاہئے۔ نماز مغرب سے پہلے ہم ختم کر دیں گے۔ اس ہاؤس کمیٹی کا جو سیشن ہے یہ کل Continue (جاری) کرے گا۔ پارلیمنٹ کا اجلاس ایک گھنٹہ چلے گا، ایک ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھیں گے، جیسے بھی آپ مناسب سمجھیں۔
پروفیسر غفور احمد: کل پانچ بجے ہے؟
جناب چیئرمین: پیرزادہ صاحب آرہے ہیں۔
Mr. Pirzada has come; and I met him in the morning. I think, I am sure much positive result will come and unanimous decision will be taken. And with these words, I am thankful to honourable members. I give the floor to Malik Jafar, and for five minutes I would speak with AG. I am leaving the House and the Deputy Speaker will take the chair.
(جناب چیئرمین: پیرزادہ صاحب آچکے ہیں اور میں انہیں صبح ملا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ کافی مثبت نتیجہ نکلے گا اور اتفاق رائے سے فیصلہ ہوگا۔ ان الفاظ کے ساتھ میں معزز اراکین کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں ملک جعفر کو دعوت دیتا ہوں اور پانچ منٹ کے لئے میں اٹارنی جنرل سے بات کروں گا۔ میں ایوان چھوڑ رہا ہوں اور ڈپٹی سپیکر کرسی، صدارت سنبھالیں گے)
خان ارشاد احمد خان: جناب چیئرمین صاحب! میں اجازت چاہتا ہوں۔
جناب چیئرمین: آپ کو بھی اجازت مل جائے گی۔ آپ کہاں رہے ہیں؟
ملک محمد جعفر: جناب چیئرمین! یہ پانچ منٹ کی بات ہے۔ میں اس بات کا بڑا خواہشمند تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب موجود ہوتے اور میری گزارشات کو سنتے۔
جناب چیئرمین: صرف پانچ منٹ۔ ارشاد احمد خان صاحب کو پانچ منٹ دے دیتے ہیں۔ Then we will come back within 5 minutes (پھر ہم پانچ منٹ میں واپس آجائیں گے)
2632مولانا عبدالحکیم: جناب چیئرمین صاحب!
جناب چیئرمین: جی، نہیں پڑھ سکتے آپ۔
مولانا عبدالحکیم: کتاب تو نہیں پڑھوں گا لیکن دو چار لفظ تو کہہ دوں۔
جناب چیئرمین: نہیں، On behalf of the House (ہاؤس کی طرف سے) ہاؤس Agree (اتفاق) کرتا ہے نا؟
مولانا عبدالحکیم: پرسوں آپ نے خود فرمایا تھا کہ آپ بولنا چاہیں تو بول سکتے ہیں۔
----------
[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by (Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi).]
(اس موقع پر جناب چیئرمین نے کرسی صدارت چھوڑ دی جو (ڈاکٹر بیگم اشرف خاتون عباسی) نے سنبھالی)
----------
محترمہ قائمقام چیئرمین: مسٹر ارشاد احمد خان!
 
Top