• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(جناب مولانا محمد ذاکر کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب مولانا محمد ذاکر کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
مولانا محمد ذاکر: جناب والا! ایوان کا کافی وقت اس پر صرف ہوچکا ہے، اس میں مزید وضاحت کی حاجت نہیں۔ لیکن مجھے تعجب ہے کہ اس مسئلے کو اس رنگ میں کیسے زیر بحث لایا گیا، حالانکہ یہ مسئلہ اتنا واضح ہے، اتنی مسلمہ حقیقت ہے کہ اس پر کسی اظہار خیال کی حاجت نہیں تھی۔ اس میں مخالفین کو موقع دیاگیا اور اس کا جواب الجواب شائع کیاگیا۔ 2948اور اس پر بحثیں ہوئیں اور اٹارنی جنرل کو تکلیف دی گئی۔ یہ سب باتیں ہوئیں۔ لیکن ایک اسلامی مملکت میں اس مسئلے کو اس وقت زیربحث لانے کی حاجت ہی کیاتھی؟ یہ اتنی واضح چیز ہے جیسے دن چڑھا ہوا ہو، جیسے اظہر من الشمس کہتے ہیں۔ اس پر بحث ہوئی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس میں مزید بولنا، مزید وضاحت کرنا، میں تو اس کو سوء ادب سمجھتا ہوں، یہ بے ادبی ہے۔ کوئی یہ ایسی غیراسلامی حکومت نہ تھی کہ جس میں اس وضاحت کی ضرورت ہوتی۔ جب یہ ہمارا دعویٰ ہے اور ہمارا اعلان ہے کہ یہ اسلامی حکومت ہے، پھر اسلامی حکومت میں ایک ایسے مسئلے کو جو مسلمہ حقیقت ہے، اس کو اس طرح زیربحث لانا ایک تعجب کی بات ہے۔ کیونکر تعجب ہوا کہ اس کو زیربحث لایا گیا۔ میں سمجھتا ہوں اس کو زیربحث لانا نہایت بے ادبی ہے۔ یہ نبی کریم ﷺ کی شان باعظمت میں گستاخی ہے۔ ہم کون ہیں، ہماری کیا حقیقت ہے کہ ہم اس پر بحث کریں۔ جب خالق کائنات نے اس کا فیصلہ فرمادیا۔ اس بارے میں واضح احکامات پہلے سے موجود ہیں۔ اس میں اب کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں تھی کہ پھر ہم اس کو ازسرنوزیر بحث لائیں۔ یہ ایک بڑا تعجب خیز معاملہ ہے جو ایک حد تک ٹھیک ہے، ہوگیا۔ لیکن مزید اس میں کسی قسم کے انتظار کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ پاکستان کے اندرون سواداعظم نہایت بے تابی سے آپ کا انتظار کر رہا ہے، اور بیرونی ممالک میں بھی دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی غیرت، ملی غیرت، ایمانی غیرت کیا ہے۔ اس لئے اس مسئلے میں مزید بحث کی حاجت نہیں پھر اٹارنی جنرل کی بحث کے دوران کافی کارروائی ہو چکی ہے اور اب اس میں دوٹوک فیصلہ ہونا چاہئے۔ دوٹوک فیصلہ کے سوا اور کوئی صورت کار نہیں۔ اگر ہمارا حسب اقتدار مزید شک وشبہ میں پڑا رہے تو یہ مزید نقصان کا باعث ہوگا۔
2949میں اس مسئلے میں مزید کچھ کہنا سوء ادبی سمجھتا ہوں۔ میں پھر توجہ دلاؤں گا کہ اس کی اہمیت کے مطابق، اس کی حیثیت کے مطابق، اس کی شایان شان ہمارا ایک انداز فکر ہونا چاہئے اور اسی میں ہماری نجات ہے۔
آپ کو یہ علم ہی ہے اور سب پر واضح ہے کہ یہ فتنہ برطانوی سامراج کی یادگار ہے اور برطانوی سامراج نے اس کو پروان چڑھنے کے مواقع دئیے، ورنہ کب کا ختم ہوچکا ہوتا۔ پھر کسی اسلامی ملک میں ایسی کوئی چیز برداشت نہیں ہوتی۔ جب سے یہ پاکستان بنا، اس کے بننے کے بعد کافی وقت ضائع ہوا، کئی تحریکیں اٹھیں جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکیں اور جن لوگوں نے اس مسئلہ کو اٹھایا اور لاپرواہی سے کام لیا وہ پچک گئے اور وہ آج تک مارے مارے پھرتے ہیں۔ میرے دوست چوہدری غلام رسول تارڑ صاحب نے خوب کہا کہ موجودہ حکومت کی خوش قسمتی ہوگی کہ اگر اس میں واضح طور پر اپنی جرأت ایمانی سے کام لیں۔ میں قومی توقعات کے ساتھ عوام کے ترجمان کی حیثیت سے کہتا ہوں کہ اس فیصلہ کے لئے مزید شک وشبہ میں نہیں پڑے رہنا چاہئے۔ مزید انتظار نہیں کرنا چاہئے۔ اس میں کسی بحث کی ضرورت نہیں۔ یہ ایک بالکل اٹل چیز ہے۔ اسلام کا فیصلہ کن معاملہ ہے۔ اس میں جرأت ایمانی سے کام لینا چاہئے۔ اگر حکومت نے ذرا سستی کی، ذرا لاپرواہی کی اور کسی سیاسی مسئلے میں گرفتار ہوکر اس میں واضح پالیسی اختیار نہیں کر سکے گی تو اس کے نتائج نہایت خطرناک ہوں گے۔ وہ نتائج ظاہر ہیں۔ تمام کے ذہن نہایت بے تابی کے ساتھ تڑپ تڑپ کر پوچھ رہے ہیں، دریافت کر رہے ہیں۔ خاص طور پر یہ کام قومی اسمبلی کے ذمے کیاگیا۔ قومی اسمبلی کی بڑی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ یہ ملک کی نمائندہ جماعت ہے۔ میرے خیال میں جہاں تک میں اس وقت پہنچا ہوں، مجھے یاد نہیں کہ شاید ہی کسی ممبر نے اس کے خلاف تقریر کی ہو تقریباً سبھی نے تائید کی ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ مسئلہ سواداعظم کی خواہشات کے مطابق حل نہ ہو۔ کیونکہ 2950قومی اسمبلی تقریباً اپنا صحیح فرض ادا کر چکی ہے۔ اس میں اب حکومت کی جرأت کی ضرورت ہے۔ حکومت نے اگر اندرونی اور بیرونی حمایت کا صحیح جائزہ لیتے ہوئے، صحیح جرأت ایمانی سے کام لے لیا تو یقینا کامیابی ہوگی۔
 
Top