• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(جناب کرم بخش اعوان کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب کرم بخش اعوان کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
جناب کرم بخش اعوان: نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم ! جناب والا! مرزاناصر احمد امام مرزائی امت ربوہ کی طرف سے دئیے گئے محضرنامہ کو میں نے غور سے پڑھا ہے اور انہوں نے دس دن کی جرح کے دوران جو لغوی معنے اور جوتاویلیں کی ہیں وہ بھی بڑے غور سے سنی ہیں۔ اسی طرح لاہوری پارٹی کا وضاحتی بیان بھی پڑھا اور ان کے بھی لغوی معنی اور تاویلیں اچھی طرح سے سنی ہیں۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ان کا مقصد یہ ہے کہ مرزائیوں کو مسلمانوں کا ایک فرقہ سمجھا جائے اور جس طرح وہ نوے(۹۰) سال سے مسلمان قوم کا شکار کر رہے ہیں اسی طرح اسلام کے نام پر اپیلیں کرتے رہیں اور قرآن وحدیث کا اسلحہ استعمال کر کے مسلمانوں کو تہ تیغ کرتے رہیں۔ یہ ایک سیاسی تنظیم ہے اور انگریزوں کی پیداوار ہے۔ انگریزوں کو یہ پودا لگانے کی کیوں ضرورت محسوس ہوئی؟ یہ ولیم ہنٹر کی کتاب ’’دی انڈین مسلمان‘‘ پڑھی جائے تو اس سے سمجھ پڑتی ہے کہ انگریز کو یہ پودا لگانے کی کیوں ضرورت پیش آئی اور اس وقت کیاتکلیف تھی۔ یہ کتاب ۱۸۷۱ء میں لکھی گئی تھی۔
حضرت سید احمد بریلویؒ نے جنہوں نے مغلیہ خاندان کے زوال کے بعد تحریک چلا رکھی تھی، وہ تحریک تو کمزور ہوگئی تھی۔ لیکن اب تک اس کے آثار باقی تھے۔ ان مجاہدین نے انگریزوں کے 2829ساتھ ۱۸۶۳ء میں اور ۱۸۶۸ء میں جنگیں لڑیں۔ جن میں ہزاروں انگریز مارے گئے اور ۱۸۵۷ء کے غدر کا بھی مسلمانوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ یہ کتاب دراصل ایک رپورٹ تھی جس میں مسلمانوں کے خلاف کی گئی بغاوت کے مقدمات اور مسلمانوں کے جہاد کی جنگوں کا تذکرہ اس میں درج ہے۔ ہنٹر کو یہ فکر تھی کہ گویہ تحریک دب گئی ہے۔ لیکن آزادی کے مجاہدین کسی وقت بھی جہاد کا نعرہ لگا کر پھر جنگ کر سکتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے ہندوستان کو دارالحرب سمجھا ہوا ہے۔ جب تک اس کا کوئی تدارک نہ کیا جائے کہ مسلمانوں کو جہاد سے ہٹا دیا جائے۔ تب تک ہمیں آرام نصیب نہیں ہوسکتا۔ مسلمان قوم کو قرآن یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ کسی کی غلام نہیں رہ سکتی۔ اس لئے کوئی ایسا تدارک ضرور ہو جائے کہ مسلمانوں کو جہاد سے ہٹا دیا جائے۔ انہیں ایام میں مرزاغلام احمد نے دو باتوں کا اعلان کر دیا۔
۱… جہاد کو منسوخ کر دو۔
۲… اولیٰ الامر کی اتباع کا اعلان کر دیا۔ (یعنی انگریزوں کی تابعداری کی جائے)
اس میں ’’ منکم ‘‘ کی شرط ہٹادی۔ لیکن قرآن کریم میں جو حکم ہے وہ ہے۔
’’ فاقتلوہم حتیٰ لا تکون فتنۃ ویکون الدین ﷲ فان نتہوا فلا عدوان الّٰا علی الظلمین (البقرۃ:۱۹۳)‘‘ {تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اﷲ کے لئے ہو جائے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی روا نہیں۔}
دوسری آیت سورۂ توبہ میں اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں کہ: ’’ ان اﷲ شتریٰ من المؤمنین انفسہم واموالہم بان لہم الجنۃ یقاتلون فی سبیل اﷲ فیقتلون ویقتلون وعدا علیہ حقاً فی التوراۃ والانجیل والقرآن ومن اوفیٰ بعہدہ من اﷲ فاستبشروا ببعکم الذی بایعتم بہ وذلک ہوا الفوز العظیم (التوبہ)‘‘ 2830{اﷲتعالیٰ نے مؤمنین کے نفس اور مال خرید لئے ہیں۔ (یعنی سودا کر لیا ہے) بعوض جنت کے، وہ اﷲ کی راہ میں لڑتے ہیں، مارتے ہیں اور مرتے ہیں۔ یہ اﷲ کا عہد ایک پختہ عہد ہے۔ تورات میں، انجیل میں، قرآن میں اور کون ہے جو اﷲ سے بڑھ کر عہد کا پورا کرنے والا ہے۔ خوشیاں مناؤ اس سودے پر جو آپ نے اﷲ سے چکا لیا ہے۔ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔}
یعنی قرآن کریم کی رو سے جس طرح ہم پر نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ فرض ہے اسی طرح جہاد بھی فرض ہے اور جہاد کے متعلق منسوخی کا حکم لگا کر انہوں نے گمراہی کا ارتکاب کیا ہے۔
’’ یایہا الذین اٰمنوا اطیعواﷲ واطیعوالرسول و اولیٰ الامرمنکم۰ فان تنازعتم فی شیٔ فردّوہ الی اﷲ والرسول ان کنتم تؤمنون باﷲ والیوم الاخر۰ ذالک خیرواحسن تاویلا ‘‘ {اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اﷲ کی اور رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اﷲ اور اﷲ کے رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اﷲ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر۔}
’’منکم‘‘ کی شرط ہے۔ ان کا اتباع کرو جو تم میں سے ہیں۔ یعنی جو مسلمان ہیں ان کا اتباع کرو۔ یہ نہیں کہ کوئی سکھ ہو یا کوئی انگریز ہو یا کوئی یہودی ہو یا کوئی بھی ہو تو اس کا اتباع کرو۔ یہ اس میں حکم نہیں ہے۔ اس میں یہ ہے کہ ان کا اتباع کرو جو تم میں سے ہیں تو اس طرح قرآن کریم میں اور بھی کئی جگہ مرزاغلام احمد نے تنسیخ اور ترمیم کی ہے اور ترجمہ کرتے ہوئے تحریف کی گئی ہے جو یہاں جرح میں ان سے پوچھا گیا۔
 
Top