حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ آخری نبی ہیں
مسلمان پیغمبر اسلام ﷺ کو انبیاء کے اس سلسلہ کا آخری نبی مانتے ہیں۔ قرآن اور انجیل میں ان میں سے بعض نبیوں کے اسماء بھی بتائے گئے ہیں۔ قرآن کریم کی حسب ذیل آیات سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ نبی کریم کی وفات کے بعد نبوت ختم ہوگئی اور اب کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔
۱… ’’محمدؐ تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں، بلکہ وہ خدا کے رسول اور آخری نبی ہیں اور اﷲ سب کچھ جانتا ہے۔‘‘
(سورہ۳۳، آیت۴۰)
۲… ’’یاد رکھو! خدا نے نبیوں سے عہد لیا اور کہا کہ ہم تمہیں کتاب اور دانش دیتے ہیں۔ پھر تمہارے پاس ایک رسول آتا ہے جو اس کی بھی تصدیق کرتا ہے جو تمہارے پاس ہے۔ کیا تم اس پر ایمان لاؤ گے اور اس کی مدد کرو گے۔ خدا نے کہا کیا تم راضی ہو اور اس معاہدے کی پابندی کرو گے۔ انہوں نے کہا ہم راضی ہیں۔ اس نے کہا گواہ رہنا اور ہم بھی گواہوں میں شامل ہیں۔‘‘
(سورہ۳، آیت۸۱)
۳… ’’آج کے دن جنہوں نے ایمان ترک کیا اور تمہارے مذہب کی طرف سے تمام امیدیں ختم کر دیں۔ ان سے خوف نہ کرو۔ بلکہ میرا خوف کرو۔ آج کے دن ہم نے تمہارا دین تمہارے لئے مکمل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کر دیں اور تمہارے لئے مذہب کے طور پر اسلام کو پسند کیا۔‘‘ (سورہ۵، آیت۴)
2276اس کے علاوہ متعدد احادیث اور متذکرہ بالا آیات کی معیاری تفاسیر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔
لیفٹیننٹ نذیرالدین کے فاضل وکیل شیخ ظفر محمود نے اس سلسلہ میں رسالہ ’’طلوع اسلام‘‘ جولائی ۱۹۵۴ء رسالہ ’’فسخ نکاح مرزائیاں‘‘ رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ نومبر ۱۹۵۳ء مسماۃ عائشہ بنام عبدالرزاق کے مقدمہ میں بہاول پور کے فاضل ڈسٹرکٹ جج ’’منشی محمد اکبر کا فیصلہ‘‘ اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی کتاب ’’قادیانی مسئلہ‘‘ پیش کیا۔
(مدعیہ کے وکیل) میاں عطاء اﷲ نے ’’طلوع اسلام‘‘ جولائی ۱۹۵۴ء ’’ختم نبوت کی حقیقت‘‘ از مرزابشیراحمد ایم۔اے (مرزاغلام احمد کے خلیفہ ثانی مرزابشیرالدین محمود احمد کے چھوٹے بھائی) نیز احمدی فرقہ کے بانی کی لکھی ہوئی کتاب ’’الحق‘‘ المعروف بہ ’’مباحثہ لدھیانہ‘‘ ان کی ایک اور تصنیف ’’حقیقت الوحی‘‘ ۱۹۵۳ء کے فسادات پنجاب کی تحقیقاتی رپورٹ، ابوالاعلیٰ مودودی کی ’’قادیانی مسئلہ‘‘ کا قادیانیوں کی طرف سے جواب، ’’تحقیقاتی عدالت میں مرزابشیرالدین محمود کا بیان‘‘ اور ’’مقدمہ بہاول پور‘‘ از جلال الدین شمس ’’تصدیق احمدیت‘‘ از بشارت احمد وکیل حیدر آباد دکن۔ ’’حقیقت الوحی‘‘ چوتھا ایڈیشن ۱۹۵۰ء ’’تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر ایک نظر‘‘ از جلال الدین شمس صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے تفصیلی حوالے دئیے ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر قادیانیوں کے اس عقیدہ کی طرف توجہ دلائی جسے احمدیہ جماعت کے فاضل وکیل مسٹر عبدالرحمان خادم نے تحقیقاتی عدالت کے فاضل ججوں کے سامنے پیش کیا تھا اور جس کے لئے انہوں نے حسب ذیل آیات قرآنی سے استنباط کیا تھا۔
۱… ’’اور جو شخص اﷲ اور رسول کا کہنا مان لے گا تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اﷲ نے انعام فرمایا ہے۔ یعنی ’’انبیائ‘‘، ’’صدیقین‘‘، ’’شہدائ‘‘ اور ’’صلحائ‘‘ اور یہ حضرات اچھے رفیق ہیں۔‘‘ (سورہ۴، آیت۶۹)
2277۲… ’’اور جو لوگ اﷲ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں، ایسے ہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں۔ ان کے لئے ان کا اجر اور ان کا نور ہوگا اور جو لوگ کافر ہوئے اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی لوگ جہنمی ہیں۔‘‘ (سورہ۵۷، آیت۱۹)
۳… اے فرزندان آدم! جب تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں، جو تمہیں میری آیتیں سنائیں پھر جو شخص ڈر گیا اور اصلاح کر لی، ایسوں پر کوئی خوف نہ ہوگا اور نہ وہ غم کھائیں گے اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا وہی دوزخی ہیں۔ (سورہ۷، آیت۳۵،۳۶)
۴… اے انبیائ! تمام اچھی اور پاک چیزوں سے کھاؤ اور نیک کام کرو کہ تم جو کچھ کرتے ہو اس سے میں باخبر ہوں۔ (سورہ۲۳، آیت۵۱)
مندرجہ بالا آیات قرآنی پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آئندہ بھی نبی کریم ﷺ کے بعد بعض ایسے لوگ ہوں گے جن پر نبی اور رسول کے لفظ کا اطلاق ہو سکے اور اس دلیل کو مزید تقویت پہنچانے کے لئے بعض احادیث اور ایسے محدثین اور علماء کے حوالے بھی دئیے گئے جن کی مذہبی حیثیت عام طور پر مسلمہ ہے۔ اگرچہ اس کی تردید نہیں کی گئی کہ مرزاغلام احمد نے اپنے لئے نبی کا لفظ استعمال کیا۔ لیکن یہ کہاگیا ہے کہ انہوں نے یہ لفظ ایک خاص معنی میں استعمال کئے۔ وہ عام معنوں میں نبی نہیں تھے۔ یعنی ایسے نبی جو خدا کے سابقہ پیغام کو منسوخ کرنے یا اس میں ترمیم یا تبدیلی کرنے کا حق یا اضافہ کرنے کے لئے خدا کی طرف سے کوئی خاص پیغام لے کر آئے ہوں ان کا دعویٰ نبوت تشریعی کا نہیں تھا بلکہ ظلی یا بروزی نبوت کا تھا۔