حضور ﷺ کا چوتھا ارشاد
بخاری غزوہ تبوک میں یہ حدیث درج ہے: 2402’’
الاترضیٰ ان تکون منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ الّا انہ لا نبی بعدی
(بخاری ج۲ ص۶۳۳، باب غزوہ تبوک)‘‘ {کیا تم اس پر خوش نہیں ہوتے کہ تم مجھ سے اس طرح ہو جاؤ۔ جیسے ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھے۔ مگر بات یہ ہے کہ میرے بعد نبی کوئی نہیں۔}
جب آپ نے غزوۂ تبوک کو جاتے ہوئے حضرت علیؓ کو اہل خانہ وغیرہ کی نگرانی کے لئے چھوڑا تو حضرت علیؓ نے بچوں اور عورتوں کے ساتھ پیچھے رہنے کو محسوس کیا۔ جس پر آپ ﷺ نے ان کو یہ فرما کر تسلی دے دی۔
حضرت ہارون علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چچازاد بھائی تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تابع نبی تھے۔ مستقل صاحب شریعت نہ تھے۔ نہ صاحب کتاب تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر جاتے وقت ان کو نگرانی کے لئے چھوڑ گئے۔ یہی بات آپ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرما کر ان کو تسلی کرادی۔ لیکن چونکہ حضرت ہارون علیہ السلام پیغمبر تھے۔ یہ غلط فہمی اس ارشاد سے دور فرمادی کہ ’’میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوسکتا۔‘‘ گویا تابع غیرمستقل نبی اور بغیر شریعت کے بھی آپ ﷺ کے بعد کوئی نہیں بن سکتا۔ آپ کومعلوم ہوگیا ہوگا کہ نبوت ایک عظیم منصب اور بھاری انعام ہے اور محض موہبت اور بخشش سے ملتا ہے۔ اس میں کسی کے اتباع واطاعت کا دخل نہیں ہوتا۔ مرزاقادیانی نے امتی نبی کی خود ساختہ اصطلاح گھڑ کر لوگوں کو کافر بنایا ہے۔ امت میں سے ہو یا باہر جس کو اﷲتعالیٰ چاہے یہ منصب دے دیں۔ وہ نبی ہے۔ لیکن اب یہ دروازہ بند ہوچکا ہے۔ مرزاجی اسی لئے تو کبھی صدیقیت کی کھڑکی کھولتے ہیں۔ کبھی فنا فی الرسول اور آپ ﷺ کے اتباع کا سہارا ڈھونڈتے ہیں۔ یہ سب دجل وفریب اور دھوکہ ہے۔ امتی نبی کی اصطلاح یا مسیح موعود کی اصطلاح کوئی مرزائی پرانے دین میں نہیں بتاسکتا۔