حدیث نمبر۱۰: حضرت ربیع سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نصاریٰ حضور ﷺ کے پاس آئے اور جھگڑنے لگے عیسیٰ ابن مریم کے بارہ میں
’’ وقالوا لہ من ابوہ وقالوا علی اﷲ الکذب والبہتان فقال لہم النبی ﷺ الستم تعلمون انہ لا یکون ولد الا وھو یشبہہ اباہ قالوا بلیٰ قال الستم تعلمون ان ربنا حی لا یموت وان عیسیٰ یأتی علیہ الفناء فقالوا بلیٰ
(درمنثور ج۲ ص۳)‘‘
ربیع کہتے ہیں کہ نجران کے عیسائی رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے 2558حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جھگڑنے لگے۔ کہنے لگے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باپ کون ہے۔ (مطلب یہ تھا کہ وہ خدا کا بیٹا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیٹے میں باپ کی مشابہت ہوتی ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر تمہارا رب زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا۔ حالانکہ عیسیٰ علیہ السلام پر یقینا موت آئے گی تو انہوںنے کہا کیوں نہیں۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے تھے تو یہاں پر بہت آسان تھا کہ آپ ﷺ الوہیت مسیح کے ابطال کے لئے فرمادیتے کہ عیسیٰ علیہ السلام تو مر گئے وہ کیسے خدا ہوسکتے ہیں۔ یہ بات ابطال الوہیت اورابنیت پر زیادہ صاف دلیل ہو جاتی یا یوں ہی فرمادیتے کہ تمہارے خیال میں تو وہ مرگئے ہیں تو پھر خدایا خدا کے بیٹے کس طرح ہوسکتے ہیں۔ پھر بھی بہترین دلیل تھی۔ مگر ممکن تھا کہ کوئی مرزائی چودھویں صدی میں اپنی کور چشمی سے اس سے موت مسیح ثابت کر دیتا۔ سرور عالم ﷺ نے نہایت صفائی سے حق اور صرف حق فرمایا کہ خداتعالیٰ حی ہیں جو کبھی نہیں مرتے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر فنا آئے گی۔ یعنی بجائے ماضی کے مستقبل کا صیغہ استعمال فرمایا۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام وفات پاگئے ہوتے تو یقینا اس بحث میں یہی بہتر تھا کہ ان ’’ عیسیٰ قداتیٰ علیہ الفنائ ‘‘ فرمادیتے۔
’’ وقالوا لہ من ابوہ وقالوا علی اﷲ الکذب والبہتان فقال لہم النبی ﷺ الستم تعلمون انہ لا یکون ولد الا وھو یشبہہ اباہ قالوا بلیٰ قال الستم تعلمون ان ربنا حی لا یموت وان عیسیٰ یأتی علیہ الفناء فقالوا بلیٰ
(درمنثور ج۲ ص۳)‘‘
ربیع کہتے ہیں کہ نجران کے عیسائی رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے 2558حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جھگڑنے لگے۔ کہنے لگے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باپ کون ہے۔ (مطلب یہ تھا کہ وہ خدا کا بیٹا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیٹے میں باپ کی مشابہت ہوتی ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر تمہارا رب زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا۔ حالانکہ عیسیٰ علیہ السلام پر یقینا موت آئے گی تو انہوںنے کہا کیوں نہیں۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے تھے تو یہاں پر بہت آسان تھا کہ آپ ﷺ الوہیت مسیح کے ابطال کے لئے فرمادیتے کہ عیسیٰ علیہ السلام تو مر گئے وہ کیسے خدا ہوسکتے ہیں۔ یہ بات ابطال الوہیت اورابنیت پر زیادہ صاف دلیل ہو جاتی یا یوں ہی فرمادیتے کہ تمہارے خیال میں تو وہ مرگئے ہیں تو پھر خدایا خدا کے بیٹے کس طرح ہوسکتے ہیں۔ پھر بھی بہترین دلیل تھی۔ مگر ممکن تھا کہ کوئی مرزائی چودھویں صدی میں اپنی کور چشمی سے اس سے موت مسیح ثابت کر دیتا۔ سرور عالم ﷺ نے نہایت صفائی سے حق اور صرف حق فرمایا کہ خداتعالیٰ حی ہیں جو کبھی نہیں مرتے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر فنا آئے گی۔ یعنی بجائے ماضی کے مستقبل کا صیغہ استعمال فرمایا۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام وفات پاگئے ہوتے تو یقینا اس بحث میں یہی بہتر تھا کہ ان ’’ عیسیٰ قداتیٰ علیہ الفنائ ‘‘ فرمادیتے۔