• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

حیات عیسیٰ ؑ پر قرآنی دلیل (اذ قال اﷲ یا عیسیٰ ابن مریم اذکر نعمتی علیک)( المائدۃ:۱۱۰)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حیات عیسیٰ علیہ السلام پر قرآنی دلیل نمبر : 6 (اذ قال اﷲ یا عیسیٰ ابن مریم اذکر نعمتی علیک المائدۃ:۱۱۰)

قرآنی دلیل نمبر:۶…
’’ اذ قال اﷲ یا عیسیٰ ابن مریم اذکر نعمتی علیک وعلیٰ والدتک اذ ایدتک بروح القدس تکلم الناس فی المہد وکہلا (المائدۃ:۱۱۰)‘‘
{جب کہے گا اﷲتعالیٰ اے عیسیٰ علیہ السلام بیٹے مریم کے یاد کر ان نعمتوں کو جو کیں میں نے تجھ پر اور تیری ماں پر۔ جب کہ میں نے مدد دی تجھ کو جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ باتیں کرتا تھا تو لوگوں سے پنگھوڑے میں اور بڑی عمر میں۔}
محترم بزرگو! میں نے لفظی ترجمہ کر دیا ہے۔
اب میںقادیانیوں کے مسلمہ مجددین امت امام فخرالدین رازیؒ مجدد صدی ششم اور امام جلال الدین سیوطیؒ مجدد صدی نہم کی تفسیرسے اس آیت کی تفسیر پیش کرتا ہوں۔
اگر قادیانی کوئی اعتراض کریں تو رسالہ ہذا کی تمہید میں قادیانی اصول وعقائد نمبر۴ سامنے رکھ دیں۔ تاکہ شاید اپنے ہی منہ سے کافر وفاسق بننے سے شرما کر اسلامی تفسیر کی تائید میں رطب اللسان ہو جائیں۔
اس
آیت کی تفسیرمیں امام جلال الدین مجدد صدی نہم فرماتے ہیں۔
’’ اذا ایدتک (قویتک) بروح القدس (جبرائیل) تکلم الناس حال من الکاف فی ایدتک فی المہدای طفلا وکہلا یفید نزولہ قبل الساعۃ لانہ رفع قبل الکھولۃ کما سبق فی آل عمران ‘‘
(جلالین ص۱۱۰، زیر آیت کریمہ)
’’یاد کر اے عیسیٰ علیہ السلام وہ وقت جب کہ ہم نے قوت دی تم کو ساتھ جبرائیل علیہ السلام کے درآنحالیکہ تو باتیں کرتا تھا۔ بچپن میں اور کہولت کی حالت میں۔ اس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قیامت سے پہلے آسمان سے نازل ہونا ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ کہولت (ادھیڑ عمر) سے پہلے اٹھائے گئے تھے۔ جیسا کہ آل عمران میں گزر چکا ہے۔‘‘
حضرات! حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اﷲتعالیٰ (سورۂ بقرہ:۸۷،۲۵۳) میں دو جگہ فرماتے ہیں:
’’ وایدناہ بروح القدس ‘‘ امام موصوف اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’ وایدناہ قویناہ بروح القدس من اضافۃ الموصوف الی الصفۃ الی الروح المقدسۃ جبرائیل لطہارتہ یسیر معہ حیث سار ‘‘
ہم نے قوت دی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ جو جاتا تھا۔ جہاں وہ جاتے تھے۔
(جلالین ص۱۴، زیر آیت کریمہ)
اس آیت کی
تفسیر امام فخرالدین رازیؒ مجدد صدی ششم فرماتے ہیں:
’’ نقل ان عمر عیسیٰ علیہ السلام الی ان رفع کان ثلاثا وثلاثین سنۃ وستۃ اشہر وعلیٰ ہذا التقدیر فہو ما بلغ الکھولۃ والجواب من وجہین… والثانی ھو قول الحسین بن الفضل الجلیؒ ان المراد بقولہ وکہلا ان یکون کہلا بعد ان ینزل من السماء فی آخرالزمان ویکلم الناس ویقتل الدجال قال الحسین بن الفضل وفی ہذہ الایۃ نص فی انہ علیہ السلام سینزل الیٰ الارض ‘‘
(تفسیر کبیر جز۸ ص۵۵)
’’نقل کیا گیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی عمر جب وہ آسمان پر اٹھائے گئے۔ ساڑھے تینتیس برس تھی اور اس صورت میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ دنیا میں کہولت (ادھیڑ عمر) تک نہیں پہنچے تھے۔ (پس کہولت میں کلام کرنے کا مطلب کیا ہوا) اس کا جواب دو طریقوں سے ہے… دوسرا جواب امام حسین بن الفضل الجبلی کا قول ہے کہ مراد ’’کھلا‘‘ سے یہ ہے کہ وہ کہل (ادھیڑ عمر کا) ہوگا۔ جب کہ وہ نازل ہوگا۔ آسمان سے آخری زمانہ میں اور باتیں کرے گا۔ لوگوں سے اور قتل کرے گا دجال کو۔ امام حسین بن الفضل کہتے ہیں کہ یہ آیت نص ہے۔ اس بات پر کہ عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ زمین پر نازل ہوں گے۔‘‘

تشریحی نوٹ از خاکسار ابوعبیدہ مؤلف رسالہ ہذا
اﷲتعالیٰ اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنے غیرمعمولی انعامات یاد کرا رہے ہیں۔ غیرمعمولی انعامات سے مراد میری وہ انعامات ہیں جو عام انسانوں کو حاصل نہیں۔ ورنہ ہیں وہ بھی انعام ہی۔ مثلاً آنکھیں، ناک، منہ، دانت، دماغ، لباس، والدین، اولاد، خوراک، پھل وغیرہ۔
ناظرین! قرآن کریم کی سورۂ مائدہ کا آخری رکوع کھول کر ان انعامات کا تذکرہ پڑھیں۔ اس کی سب غیرمعمولی نعمتیں ہیں۔ میں ساری نعمتوں کو یہاں گن دیتا ہوں۔
۱… روح القدس یعنی جبرائیل علیہ السلام کی تائید کا ہر وقت ساتھ رہنا۔
۲… بچپن (پنگھوڑے) میں کلام بلاغت نظام کرنا۔
۳… ادھیڑ عمر میں کلام بلاغت نظام کرنا۔
۴… کتاب، حکمت اور توریت وانجیل کا پڑھنا۔
۵… معجزہ خلق طیر (پرندوں کا بنانا)
۶… معجزہ احیاء موتیٰ (مردوں کو زندہ کرنا) ’’ وابراء اکمہ وابرص ‘‘
۷… بنی اسرائیل کے شر سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو محفوظ رکھنا۔
ناظرین! ان نعمتوں میں سے نمبر۳، ۷ تو ابھی زیر بحث ہیں۔ ان کے علاوہ بقیہ نعمتوں کا خیال کیجئے۔ سب کی سب ایسی نعمتیں ہیں جن سے عام انسان محروم ہوتے ہیں۔ نبوت وکتاب کا ملنا، معجزات کا غیرمعمولی ہونا تو سبھی کو مسلم ہے۔ بچپن میں باتیں کرنے سے مراد بعض لوگوں کے نزدیک قابل قبول نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مراد اس سے ناتجربہ کار نوجوان آدمی کا کلام ہے۔ یہ معنی کئی وجوہات سے مردود ہیں۔
۱… سورۂ مریم میں اﷲتعالیٰ نے جب مریم کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بے پدر کی بشارت دی اور پھر حمل ہوکر آخری وضع حمل کی نوبت آئی تو حضرت مریم ایک الگ جگہ میں جاکر دردزہ اور خوف طعن وتشنیع کے مارے عرض کرنے لگیں کہ اے کاش میں اس موقعہ سے پہلے مر کر بھولی جاچکی ہوتی تو اﷲتعالیٰ کی طرف سے جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ اے مریم غم نہ کر… اگر تو کسی آدمی کو دیکھے (جو تجھ پر طعن کرے اور اس کے بارہ میں سوال کرے) تو کہہ دینا کہ آج میں نے اﷲ کی خاطر (چپ رہنے کا) روزہ رکھا ہوا ہے۔ آج تو ہرگز بات نہ کروں گی۔ پس وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اٹھا کر قوم کے پاس لے آئی۔ قوم نے جب دیکھا تو کہنے لگی کہ اے مریم تو یہ طوفان (بے باپ کا لڑکا) کہاں سے لے آئی ہے۔ اے ہارون کی بہن، تیرا باپ زانی نہیں تھا اور تیری ماں بھی زانیہ نہ تھی۔ پس تو یہ لڑکا کہاں سے لے آئی ہے۔ پس حضرت مریم علیہا السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا کہ اس سے بات کرو۔ انہوں نے کہا۔ ہم اس بچے سے کیسے کلام کریں جو ابھی پنگھوڑے میں پڑا ہے۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کلام کر کے اپنی اور اپنی ماں کی زنا کے الزام سے بریت کا اعلان کیا۔
(ملحض از تفسیر جلالین ص۲۵۵، زیر آیت کریمہ)
۲… ذیل کی حدیث نبوی ہماری تائید کا ڈنکے کی چوٹ اعلان کر رہی ہے۔
’’ عن ابی ہریرہ عن النبیﷺ قال لم یتکلم فی المہد الا ثلاثۃ عیسیٰ و… الیٰ آخر الحدیث ‘‘
(بخاری ج۱ ص۴۸۹، باب واذکر فی الکتاب مریم)
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ تین بچوں کے سوا کسی نے ماں کی گود میں شیرخوارگی کی حالت میں کلام نہیں کیا۔ ایک تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اور … آخری حدیث تک۔‘‘ بخاری شریف مرزاقادیانی کے نزدیک اصح الکتب بعد کتاب اﷲ ہے۔ اس میں یہ حدیث موجود ہے۔
۳… حضرت ابن عباسؓ جو مرزاقادیانی کے نزدیک قرآن شریف کے جاننے والوں میں سے اوّل نمبر پر تھے۔ وہ فرماتے ہیں۔
’’ عن ابن جریحؒ قال قال ابن عباسؓ (ویکلم الناس فی المہد) قال مضجع الصبی فی رضاعۃ ‘‘
(تفسیر ابن جریر ج۳ ص۲۷۱، درمنثور ج۲ ص۲۵)
’’یعنی حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ مراد اس آیت میں دودھ پینے کی حالت میں بچے کا پنگھوڑے میں کلام کرنا ہے۔‘‘
دیکھئے! یہ قول وتفسیر حضرت ابن عباسؓ کی ہے اور روایت کیا ہے اس کو اوّل ابن جریر نے جو مرزاقادیانی کے نزدیک ایک زبردست محدث اور مفسر تھے اور دوسرے امام جلال الدین سیوطیؒ نے جو مجدد صدی نہم تھے۔ پس جو آدمی اس روایت کے قبول کرنے سے انکار کرے وہ حسب فتویٰ مرزاقادیانی کا فروفاسق ہو جائے گا۔
۴… خود مرزاقادیانی نے اس تفسیر کو قبول کر لیا ہے۔
’’اور یہ عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے تو صرف مہد (پنگھوڑے) میں ہی باتیں کیں۔ مگر اس لڑکے (پسر مرزا) نے پیٹ میں دو مرتبہ باتیں کیں۔‘‘
(تریاق القلوب ص۴۱، خزائن ج۱۵ ص۲۱۷)
۵… پنگھوڑے میں باتیں کرنا تین وجہوں سے عقلاً بھی صحیح معلوم ہوتا ہے۔
الف… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بطور معجزہ بغیر باپ کے ہوئی تھی اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کے نفخہ سے واقع ہوئی تھی۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ سورۂ مریم میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کا قول نقل فرماتے ہیں۔ ’’لاہب لک غلاماً زکیا‘‘ یعنی اے مریم میں تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دینے آیا ہوں۔ خود مرزاقادیانی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش کو بہت جگہ قبول کر لیا ہے۔
(ضمیمہ حقیقت الوحی ص۴۹، خزائن ج۲۲ ص۶۷۲)
اب ایک منٹ کے لئے ہم ناظرین کو سورۂ طٰہٰ کی سیر کراتے ہیں۔ اس کے رکوع۵ کا مطالعہ کریں۔ وہاں سامری اور اس کے گؤسالہ کے متعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام سامری سے گفتگو فرماتے ہیں۔
’’ قال فما خطبک یسامری۰ قال بصرت بما لم یبصروا بہ فقبضت قبضۃ من اثر الرسول فنبذتہا وکذالک سولت لی نفسی ‘‘
موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے سامری تیرا کیا معاملہ ہے۔ اس نے کہا کہ مجھ کو ایسی چیز نظر آئی جو اوروں کو نظر نہ آئی۔ پھر میں نے اس فرستادہ خداوندی (حضرت جبرائیل علیہ السلام) کے نقش قدم سے ایک مٹھی بھرخاک اٹھالی تھی۔ سو میں نے وہ مٹھی خاک اس قالب کے اندر ڈال دی اور میرے جی کو یہی بات پسند آئی۔ (اس مٹی کے ڈالنے سے اس میں ایک آواز پیدا ہوگئی)
(تفسیر ابن عباس مندرجہ درمنثور ج۴ ص۳۰۷)

نکتہ عجیبہ

حضرات! حضرت جبرائیل علیہ السلام کے نقش قدم سے مٹی میں خدا نے یہ تاثیر رکھی ہوئی ہے کہ وہ ایک بے جان دھات کے ڈھانچے میں آواز پیدا کر سکتی ہے۔ پس قابل غور یہ امر ہے۔ وہی جبرائیل اپنی پھونک سے حضرت مریم کو باذن الٰہی حمل ٹھہراتا ہے۔ اس نفخہ جبرائیلی سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوتے ہیں۔ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے گود میں باتیں کرنا اس گؤسالہ بے جان کے بولنے سے زیادہ مشکل ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پنگھوڑے میں باتیں کرنا زیادہ قرین قیاس ہے۔ کیونکہ گؤسالہ ایک تو بے جان تھا۔ اس میں جان پڑ گئی۔ پھر گؤسالہ بولنے بھی لگا۔ یہاں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انسان ہونے کی حیثیت سے آخر بولنا ہی تھا۔ نفخ جبرائیلی سے پنگھوڑے میں باتیں کرنے کی اہلیت پیدا ہوگئی اور یہی نفخ جبرائیلی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع علی السماء میں مناسبت پیدا کرنے کا باعث ہوگیا۔
ب… اﷲتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بے پدر کو لوگوں کے لئے ایک نشان (آیۃ) بنانا چاہتے تھے۔ چنانچہ سورۂ مریم میں مذکور ہے۔
’’ ولنجعلہ ‘‘ ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے اس واسطے پیدا کیا ہے تاکہ ہم ان لوگوں کے لئے اپنا ایک نشان بنائیں۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے بھی ہماری اس تفسیر کو صحیح تسلیم کیا ہے۔
(ضمیمہ حقیقت الوحی ص۴۹، خزائن ج۲۲ ص۶۷۲)
پس اﷲتعالیٰ نے گود میں باتیں کراکر پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان فیض ترجمان سے ان کی پیدائش کا معجزانہ ہونا ثابت کیا۔ اگر گود میں ان کا کلام کرنا تسلیم نہ کیا جائے تو ان کی پیدائش بے پدر کو الٰہی نشان ثابت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ کیونکہ اس کے بغیر خود پیدائش بے باپ بغیر ثبوت کے رہ کر ناقابل قبول ہو جائے گی۔ جو دلیل خود دلیل کی محتاج ہو وہ دلیل ہونے کی اہلیت نہیں رکھتی۔

چنانچہ خود مرزاقادیانی دلیل کی تعریف میں اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں۔
ج… مرزاقادیانی نے تریاق القلوب میں لکھا ہے: ’’کہ میرے اس لڑکے (پسر مرزا) نے ماں کے پیٹ میں دو مرتبہ باتیں کیں ہیں۔‘‘
(تریاق القلوب ص۴۱، خزائن ج۱۵ ص۲۱۷)
غور کیجئے! ماں کے پیٹ میں باتیں کرنا زیادہ مشکل ہے یا گود میں دودھ پیتے بچے کا باتیں کرنا۔ یقینا اوّل الذکر صورت تو ناممکن محض ہے۔ کیونکہ کلام کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہوا موجود ہو۔ منہ، ہونٹ، زبان وغیرہم حرکت کر سکتے ہوں۔ پھیپھڑے کام کر رہے ہوں۔ باوجود اس کے جب مرزامبارک، پسر مرزا نے اپنی ماں کے پیٹ کے اندر دو مرتبہ باتیں کیں تھیں اور لاہوری وقادیانی مرزائیوں نے مرزاقادیانی کے قول کو تسلیم کر لیا ہے تو انہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے گود میں باتیں کرنا کیوں ناممکن اور مستبعد نظر آتا ہے۔ اب ’’کھل‘‘ (یعنی ادھیڑ عمر میں باتیں کرنا) کے متعلق چند نکات بیان کر کے نتیجہ ناظرین کی فہم رسا پر چھوڑتے ہیں۔
ادھیڑ عمر میں باتیں کرنا کروڑہا انسانوں سے ہم روزمرہ مشاہدہ کر رہے ہیں۔ پس فرشتے کا حضرت مریم علیہ السلام کو یوں کہنا کہ ’’ہم تمہیں بشارت دیتے ہیں کہ تیرا لڑکا ادھیڑ عمر میں باتیں کرے گا۔‘‘ ایک ایسی بات کی بشارت دینا ہے جو بے شمار لوگوں کو حاصل ہے۔ بشارت کسی غیرمعمولی امر میں ہوا کرتی ہے یا اس وقت جب کہ کوئی آدمی معمولی نعمت سے محروم ہوا جارہا ہو۔ مثلاً کوئی آدمی نابینا ہو جائے تو ایسے وقت میں آنکھ کا،مل جانا بے شک بشارت ہوسکتا ہے۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ماں کو کیا عیسیٰ علیہ السلام کی کہولت کے زمانہ میں کوئی ’’لکنت‘‘ کا اندیشہ تھا کہ خدا نے ’’لکنت‘‘ کے دور ہونے کی بشارت دی؟ ہرگز نہیں بلکہ اس کہولت میں ایک خصوصیت تھی۔ جس کی وجہ سے اﷲتعالیٰ نے کہولت کے زمانہ میں باتیں کرنا بھی خاص نعمتوں میں شمار کیا۔ وہ یہ کہ باوجود ہزارہا سال تک آسمان پر رہنے کے جب وہ دوبارہ دنیا میں نازل ہوں گے تو اس وقت بھی کہولت کا زمانہ ہوگا۔ چونکہ ان کی عمر اور جسم پر زمانہ کا اثر نہیں ہوا ہوگا۔ اس لحاظ سے اس نعمت کا تذکرہ کر کے شکریہ کا حکم دے رہے ہیں۔ ورنہ اگر دوسرے انسانوں کی طرح ہی انہوں نے بھی کہولت میں باتیں کرنی ہوتیں تو پھر دوسری عام انسانی نعمتوں کو بھی پیش کیا ہوتا۔ مثلاً یوں کہا ہوتا۔ ’’اے عیسیٰ علیہ السلام ہماری نعمتوں کو یاد کر۔ ہم نے تمہیں دو آنکھیں دی تھیں۔ دوکان عطا کئے تھے۔ کھانے کو رنگارنگ پھل دئیے تھے۔ تم جوانی میں بولتے تھے۔ ہم نے تمہیں لباس دیا تھا۔ سوچنے کو دماغ مرحمت فرمایا۔ وغیرہ ذالک!‘‘ مگر نہیں ایسا نہیں فرمایا۔ کیونکہ عام نعمت کو ذکر کرنا بھی عام رنگ ہی میں موزوں ہوتا ہے۔

تصدیق از مرزاقادیانی

’’اس پیش گوئی (نکاح آسمانی) کی تصدیق کے لئے جناب رسول اﷲﷺ نے بھی پہلے سے ایک پیش گوئی فرمائی ہے کہ: ’’ یتزوج ویولد لہ ‘‘ یعنی وہ مسیح موعود بیوی کرے گا اور نیز وہ صاحب اولاد بھی ہوگا۔ اب ظاہر ہے کہ تزوج اور اولاد کا ذکر کرنا عام طور پر مقصود نہیں۔ کیونکہ عام طور پر ہر ایک شادی کرتا ہے اور اولاد بھی ہوتی ہے۔ بلکہ تزوج سے مراد وہ خاص تزوج ہے جو بطور نشان ہوگا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳، خزائن ج۱۱ ص۳۳۷ حاشیہ)
حضرات! غور فرمائیے کہ محض تزوج واولاد کا عام طور پر ذکر ہے۔ مرزاقادیانی نے کھینچ تان کر تزوج اور اولاد کے لئے ایک خصوصیت ثابت کر دی۔ کیونکہ یہ دونوں باتیں مسیح موعود کے متعلق ہیں۔ ’’ ویکلم الناس فی المہد وکہلا ‘‘ میں تو خداتعالیٰ خصوصیت کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اپنی خاص خاص نعمتوں کو پیش کر رہے ہیں۔ پس کہل کے معنی عام کہل یعنی سے وہ اعتراض بدرجہ اولیٰ عود کر آئے گا۔ جو مرزاقادیانی کی مذکورہ بالا عبارت میں مذکور ہے۔ یعنی کہولت (ادھیڑ عمر) میں باتیں کرنا عام طور پر مقصود نہیں۔ کیونکہ عام طور پر ہر ایک کہولت میں باتیں کرتا ہے۔ کہولت میں باتیں کرنے سے مراد وہ خاص کہولت ہے جو باوجود ہزارہا سال گزر جانے کے قائم رہی ہو اور مرزاقادیانی کی پادر ہوا دلائل وفات مسیح علیہ السلام کو خس وخاشاک میں ملانے والی ہو۔
نوٹ: ہماری پیش کردہ اسلامی تفسیر پر قادیانیوں کے دجل وفریب کا کوئی وار نہیں چلتا۔ کیونکہ ہم نے کہولت کی تعریف کو مبحث بننے ہی نہیں دیا۔ کہولت کے جو کچھ بھی معنی ہوں وہ ہمیں منظور ہیں۔ ہماری پیش کردہ تفسیر ماشاء اﷲ ہر حال میں لاجواب ہے۔ فالحمد ﷲ علی ذالک !
 
Top