(خاوند قادیانی)
مدعا علیہ ناکح مدعیہ نے مذہب اہل سنت والجماعت ترک کر کے قادیانی، مرزائی مذہب اختیار کر لیا ہے اور اس وجہ سے وہ مرتد ہوگیا ہے۔ اس کے مرتد ہو جانے کے باعث مدعیہ اب اس کی منکوحہ نہیں رہی۔کیونکہ وہ شرعا کافر ہوگیا ہے اور بموجب احکام شرع شریف بوجہ ارتداد مدعا علیہ مدعیہ مستحق انفراق زوجیت ہے۔ اس لئے ڈگری تنسیخ نکاح بحق مدعیہ صادر کی جاوے اور یہ قرار دیا جاوے کہ مدعیہ بوجہ مرزائی ہو جانے مدعا علیہ کے اس کی منکوحہ جائز نہیں رہی اور نکاح بوجہ ارتداد مدعا علیہ قائم نہیں رہا۔
مدعا علیہ نے اس کے جواب میں یہ کہا ہے کہ اس نے کوئی مذہب تبدیل نہیں کیا اور نہ ہی وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ بلکہ وہ بدستور مسلمان اور احکام شرعی کا پورا پابند ہے۔ احمدی کوئی علیحدہ مذہب نہیں، نہ وہ مرزائی ہے، نہ قادیانی۔ نکاح ہر صورت میں جائز اور قابل تکمیل ہے۔ عقائد احمدیہ کی وجہ سے جو صلاحیت مذہبی کی طرف رجوع دلاتے ہیں وہ مرتد نہیں ہو جاتا۔ عدالت عالیہ چیف کورٹ بہاول پور، مدراس اور دیگر ہائی کورٹوں سے یہ امر فیصلہ پاچکا ہے کہ جماعت احمدیہ کے مسلمان اصلاح یافتہ فرقہ میں سے ہیں، مرتد یا کافر نہیں ہیں۔ دعویٰ ناجائز اور قابل اخراج ہے اور کہ بناء دعویٰ بمقام مہند ریاست بہاول پور قائم نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ نہ فریقین کی وہاں سکونت رہی ہے اور نہ ہی مدعا علیہ نے وہاں سرمیل کی کوئی تحریک کی۔ علاوہ ازیں کسی مقام پر سرمیل کی تحریک کئے جانے سے وہ مقام قانوناً بنائے دعویٰ تصور نہیں کیا جاسکتا۔ 2121دعویٰ وہاں سماعت ہونا چاہئے جہاں مدعا علیہ کی مستقل سکونت ہو یا بناء دعویٰ پید اہوئی ہو۔ مقدمہ حال میں مدعا علیہ کی مستقل سکونت چونکہ علاقہ ملتان میں ہے اور نکاح ضلع ڈیرہ غازیخان میں ہوا تھا۔ اس لئے دعویٰ حدود ریاست ہذا میں سماعت نہیں ہوسکتا۔
یہ دعویٰ ابتداً منصفی احمد پور شرقیہ میں دائر ہوا تھا۔ منصف صاحب احمدپور شرقیہ نے فریقین کے مختصر سے بیانات قلمبند کرنے کے بعد ۴؍نومبر ۱۹۲۶ء کو حسب ذیل امور تنقیح طلب قرار دئیے۔