ختم نبوت اور احادیث نبویہ
تواترآنحضرت ﷺ نے متواتراحادیث میں اپنے خاتم النبیین ہونے کا اعلان فرمایا اور ختم نبوت کی ایسی تشریح بھی فرمادی کہ اس کے بعد آپ ﷺ کے آخری نبی ہونے میں کسی شک وشبہ اور تاویل کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ متعدد اکابرنے ان احادیث ختم نبوت کے متواترہونے کی تصریح کی ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حزم ظاہری کتاب”الفصل فی الملل والاھوا والنحل“میں لکھتے ہیں:
” وقد صح عن رسول اللہ ﷺ بنقل الکواف التی نقلت نبوتہ واعلامہ وکتابہ انہ اخبرانہ لانبی بعدہ ۰
کتاب الفصل ص 77 ج 1“
(وہ تمام حضرات جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی نبوت آپ ﷺ کے معجزات اور آپ ﷺ کی کتاب (قرآن کریم) کو نقل کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ آپ ﷺ نے یہ خبردی تھی کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔)
حافظ ابن کثیر ؒآیت خاتم النبیین کے تحت لکھتے ہیں:
” وبذالک وردت الا حادیث المتواترۃ عن رسول اللہ ﷺ من حدیث جماعۃ من الصحابۃ ؓ۰
تفسیر ابن کثیر ص 493 ج 3“
(اور ختم نبوت پر آنحضرت ﷺ سے احادیث متواترہ وارد ہوئی ہیں۔ جن کو صحابہ کرام ؓ کی ایک بڑی جماعت نے بیان فرمایا۔)
اور علامہ سیدمحمود آلوسی ؒ تفسیر روح المعانی میں زیر آیت خاتم النبیین لکھتے ہیں:
” وکونہ ﷺ خاتم النبیین مما نطق بہ الکتاب وصدعت بہ السنۃ واجمعت علیہ الا مۃ فیکفر مدعی خلافہ ویقتل ان اصر۰
روح المعانی ص 41 ج 22“
(اور آنحضرت ﷺ کا خاتم النبیین ہونا ایسی حقیقت ہے جس پر قرآن ناطق ہے۔ احادیث نبویہ نے جس کو واشگاف طور پر بیان فرمایا ہے۔ اور امت نے جس پر اجماع کیا ہے۔ پس جو شخص اس کے خلاف کا مدعی ہو۔ اس کو کافر قرار دیا جائے گا اور اگر وہ اس پر اصرار کرے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔)
پس عقیدہ ختم نبوت جس طرح قرآن کریم کے نصوص قطعیہ سے ثابت ہے۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ کی احادیث متواترہ سے بھی ثابت ہے۔ انشااللہ چند احادیث اگلی پوسٹس میں پیش کروں گا ۔