ختم نبوت میں کوئی تفریق نہیں
اور اگر بالفرض یہ درست ہو کہ مرزاصاحب ہمیشہ غیرتشریعی نبوت ہی کا دعویٰ کرتے رہے ہیں، تب بھی ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ عقیدہ ختم نبوت میں یہ تفریق کرنا کہ فلاں قسم کی نبوت ختم 1895ہوگئی ہے اور فلاں قسم کی باقی ہے۔ اسی ’’دجل وتلبیس‘‘ کا ایک جزو ہے جس سے سرکار دوعالمﷺ نے خبردار فرمایا تھا۔ سوال یہ ہے کہ قرآن کریم کون سی آیت یا سرکار دوعالمﷺ کے کون سے ارشاد میں یہ بات مذکور ہے کہ ختم نبوت کے جس عقیدے کو اﷲتعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے سینکڑوں بار دہرایا جارہا ہے وہ صرف تشریعی نبوت کے لئے ہے اور غیرتشریعی نبوت اس سے مستثنیٰ ہے۔ اگر غیرتشریعی انبیاء کا سلسلہ آپﷺ کے بعد بھی جاری تھا تو قرآن کریم کی ابدی آیات نے، سرکار دوعالمﷺ کی لاکھوں احادیث میں سے کسی ایک حدیث نے، یاصحابہ کرامؓ کے بے شمار اقوال میں سے کسی ایک قول ہی نے یہ بات کیوں بیان نہیں کی؟ بلکہ کھلے لفظوں میں ہمیشہ یہی واضح کیا جاتا رہا کہ ہر قسم کی نبوت بالکل منقطع ہوچکی اور اب کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ختم نبوت کی سینکڑوں احادیث میں سے خاص طور پر مندرجہ ذیل احادیث دیکھئے۔
۱… ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی
(رواہ الترمذی قال صحیح ج۲ ص۵۳، ابواب الرؤیا) ’’
بے شک رسالت اور نبوت منقطع ہوچکی۔ پس نہ میرے بعد کوئی رسول ہوگا اور نہ نبی۔‘‘ یہاں اوّل تو نبی اور رسول کے ساتھ نبوت اور رسالت کے وصف ہی کو بالکلیہ منقطع قرار دیا گیا۔ دوسرے رسول اور نبی دو لفظ استعمال کر کے دونوں کی علیحدہ علیحدہ نفی کی گئی اور یہ بات طے شدہ ہے کہ جہاں یہ دونوں لفظ ساتھ ہوں۔ وہاں رسول سے مراد نئی شریعت لانے والا اور نبی سے مراد پرانی شریعت ہی کا متبع ہونا ہے۔ لہٰذا اس حدیث نے ’’تشریعی اور غیرتشریعی دونوں قسم کی نبوت کو صراحۃً ہمیشہ کے لئے منقطع قرار دے دیا۔‘‘
۲… آنحضرتﷺ نے اپنے آخری اوقات حیات میں جو بات بطور وصیت ارشاد فرمائی۔ اس میں حضرت ابن عباسؓ کی روایت کے مطابق یہ الفاظ بھی تھے:
یا ایہا الناس لم یبق من مبشرات النبوۃ الا الرؤیا الصالحۃ
(رواہ مسلم ج۱ ص۱۹۱، باب النہی عن قرأۃ القرآن فی الرکوع والسجود)
اے لوگو! مبشرات نبوت میں سے سوائے اچھے خوابوں کے کچھ باقی نہیں رہا۔
1896۳… حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا:
کانت بنو اسرائیل تسوسہم الانبیاء کلما ہلک نبی خلفہ نبی وانہ لانبی بعدی وسیکون خلفاء فیکثرون قالوا افماتامرنا قال فوابیعت الاول فالاول اعطوہم حقّہم
(صحیح بخاری ج۱ ص۴۹۱، کتاب الانبیائ، مسلم ج۲ ص۱۲۶، کتاب الامارۃ)
’’بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء علیہم السلام کرتے تھے۔ جب کوئی نبی وفات پاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ لے لیتا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ صحابہؓ نے عرض کیا، خلفاء کے بارے میں آپﷺ کا کیا ارشاد ہے۔ فرمایا کہ یکے بعد دیگرے ان کی بیعت کا حق ادا کرو۔‘‘
اس حدیث میں جن انبیائے بنی اسرائیل کا ذکر ہے وہ کوئی نئی شریعت نہیں لائے تھے۔ بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی کی شریعت کا اتباع کرتے تھے۔ لہٰذا غیرتشریعی نبی تھے۔ حدیث میں آنحضرتﷺ نے بتادیا کہ میری امت میں ایسے غیرتشریعی نبی بھی نہیں ہوں گے۔ نیز لا نبی بعدی کہنے کے ساتھ آپﷺ نے اپنے بعد آنے والے خلفاء تک کا ذکر کر دیا۔ لیکن کسی غیرتشریعی یا ظلی بروزی نبی کا کوئی اشارہ بھی نہیں دیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ مرزائی اعتقاد کے مطابق دنیا میں ایک ایسا عظیم نبی آنے والا تھا۔ جو تمام انبیائے بنی اسرائیل سے افضل تھا۔ اس میں (معاذ اﷲ) تمام کمالات محمدیہ دوبارہ جمع ہونے والے تھے اور اس کے تمام انکار کرنے والے کافر، گمراہ، شقی اور عذاب الٰہی کا نشانہ بننے والے تھے۔ اس کے باوجود اﷲ اور اس کے رسولﷺ نے نہ صرف یہ کہا کہ آپﷺ کے بعد تمام نبوت کا دعویٰ کرنے والے دجال ہوں گے اور آپﷺ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اپنے بعد کے خلفاء تک کا ذکر کیاگیا۔ لیکن ایسے عظیم الشان نبی کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں کیاگیا۔ اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا نکلتا ہے کہ اﷲ اور اس کے رسولa نے (معاذ اﷲ) اپنے بندوں کو جان بوجھ کر ہمیشہ کے لئے ایک گمراہ کن دھوکے میں مبتلا کر دیا تاکہ وہ علی الاطلاق ہر قسم کی نبوت کو ختم 1897سمجھیں اور آنے والے غیرتشریعی نبی کو جھٹلا کر کافر، گمراہ اور مستحق عذاب بنتے رہیں؟ کیا کوئی شخص دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے اس بات کا تصور بھی کر سکتا ہے؟
عربی صرف ونحو کا ابتدائی طالب علم بھی جانتا ہے کہ عربی زبان کے قواعد کی رو سے لا نبی بعدی(میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا) کا جملہ ایسا ہی ہے جیسے لا الہ الا اﷲ (اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں) لہٰذا اگر اوّل الذکر جملے میں کسی چھوٹے درجے کے غیرتشریعی یا طفیلی نبی کی گنجائش نکل سکتی ہے تو کوئی شخص یہ کیوں نہیں کہہ سکتا کہ مؤخر الذکر جملے میں ایسے چھوٹے خداؤں کی گنجائش ہے۔ جن کی معبودیت (معاذ اﷲ) اﷲتعالیٰ کا ظل، بروز ہونے کی وجہ سے ہے اور جو مستقل بالذات خدا نہیں۔ ہر باخبر انسان کو معلوم ہے کہ دنیا کی بیشتر مشرک قومیں ایسی ہیں جو مستقل بالذات خدا صرف اﷲتعالیٰ کو قرار دیتی ہیں اور ان کا شرک صرف اس بناء پر ہے کہ وہ اﷲتعالیٰ کے ساتھ کچھ ایسے دیوتاؤں اور معبودوں کی بھی قائل ہیں۔ جن کی خدائی مستقل بالذات نہیں۔ کیا ان کے بارہ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ لا الہ الا اﷲ کی قائل ہیں؟ اگر بالواسطہ خداؤں کے اعتقاد کے ساتھ اسلام کا پہلا عقیدہ یعنی عقیدۂ توحید سلامت نہیں رہ سکتا تو آپﷺ کے بعد بالواسطہ یا غیرتشریعی انبیاء کے اعتقاد کے ساتھ اسلام کا دوسرا عقیدہ یعنی ختم نبوت اور نزول کیسے کھپ سکتا ہے؟