ختم نبوت کے سلسلہ میں بنیادی آیت کریمہ
’’
ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین
(احزاب:۴۰)‘‘
{حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ تم میں سے کسی مرد بالغ کے باپ نہیں ہیں۔ ہاں وہ اﷲتعالیٰ کے رسول اور خاتم النّبیین ہیں۔}
آپ ﷺ کی صاحبزادیاں تھیں اور بیٹے بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے۔ حضرت زید بن حارثہؓ آپ کے غلام تھے۔ جس کو آپ ﷺ نے آزاد کر کے متبنّٰی بنا لیا تھا۔ چنانچہ لوگ ان کو زید بن محمد کہنے لگ گئے تھے۔ مگر قرآن پاک نے جو صرف اور صرف حقیقت پر لوگوں کو چلانا چاہتا ہے۔ ایسا کہنے سے روک دیا۔ اب لوگ ان کو زید بن حارثہؓ کہنے لگ گئے۔ حضور ﷺ نے ان کی شادی اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینبؓ سے کرادی۔ لیکن خاوند بیوی میں اتفاق نہ ہوسکا۔ حضرت زیدؓ نے انہیں طلاق دے دی۔ اب ایک آزاد کردہ غلام سے ایک قریشی عورت کی شادی پھر طلاق۔ دو طرح سے حضرت زینبؓ پر اثر پڑا۔ پھر آپ ﷺ نے ان سے نکاح کر لیا۔ جس سے حضرت زینبؓ کی تمام کدورتیں دور ہوگئیں۔ مگر مخالفین نے بڑا پروپیگنڈا کیا کہ منہ بولے بیٹے کی بیوی سے آپ ﷺ نے نکاح کر لیا۔ اس پر اس آیت نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا۔ فرمایا کہ حضور ﷺ کسی مرد کے باپ نہیں ہیں۔ یعنی زبان سے کہہ دینے سے حضرت زیدؓ کے حقیقی باپ نہیں 2395بن سکتے کہ نکاح ناجائز ہو جائے۔ پھر پیغمبر کی شفقت بھی باپ سے زیادہ ہوتی ہے اور آپ ﷺ کی شفقت ساری امت کے لئے ہے کہ آپ ﷺ اﷲتعالیٰ کے رسول ہیں اور یہ شفقت کہیں ختم بھی نہ ہو گی۔ کیونکہ قیامت تک آپ ﷺ کے بعد کسی کو نبی بننا نہیں ہے۔ اس لئے آپ ﷺ قیامت تک کے لئے تمام امت کے روحانی باپ پیغمبر اور بہترین شفیق ہوئے اور یہ وہم کہ جب آپ ﷺ روحانی باپ ہوئے اور امت روحانی اولاد ہوئی تو روحانی وراثت یعنی نبوت بھی جاری رہ سکتی ہے۔ اس ارشاد سے وہ وہم بھی رفع ہوگیا۔ نیز اس فرمان سے کہ آپ ﷺ نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں۔ یہ وراثت بھی نہیں رہے گی اور اسی لئے حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ نبی نہیں ہوئے۔