• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

ختم نبوت یا نبی تراشی

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ختم نبوت یا نبی تراشی
۱… ’’جو دین دین ساز نہ ہو وہ ناقص ہے۔‘‘ یہ بات قطعاً غلط ہے۔ بلکہ سچ پوچھیں تو خود مرزاقادیانی کے ہاں بھی یہ غلط ہے۔ کیونکہ اس نے لکھا ہے کہ نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیاگیا ہوں۔ دوسرے اس کے مستحق نہ تھے۔ حتیٰ کہ صحابہؓ سے لے کر آج تک کوئی بھی مرزا کی طرح نہ تھا۔ چنانچہ اسی مضمون کو اس نے اپنی کتاب (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶) میں درج کر کے یہ بھی لکھ دیا کہ وہ ایک ہی ہوگا۔ تو دین دین ساز کہاں رہا؟ یہ تو صرف مرزاجی کی اپنے نفس کی پیروی اور تسویل ہے۔
۲… اور یہ کہنا کہ آپ کی قوت قدسی نبی تراش ہے اور آپ کی مہر سے نبی ہی بنتے رہیں گے اور نبوت ختم کرنا خداتعالیٰ کی رحمت وبرکت کو روکنا اور ختم کرنا ہے۔ قطعاً درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ دنیا میں اﷲتعالیٰ نے جس چیز کو پیدا فرمایا ہے اس کو ختم کرنا ہے۔ اگر ایک رسی کا ایک سرا ہے تو دوسرا سرا بھی ہوتا ہے۔ اگر ایک دریا کا ایک کنارہ ہے تو دوسرے کنارے پر جاکر ختم ہو جاتا ہے۔ اگر دن صبح کو شروع ہوتا ہے تو مغرب کو ختم ہوتا ہے۔ اگر دنیا کی ابتداء ہوئی ہے تو اس کی انتہاء بھی ہوگی۔ اگر نبوت حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کی ہے تو اس کو بڑھا بڑھا کر خاتم کمالات نبوت حضرت خاتم النّبیین( ﷺ ) 2410پر پورا کامل کر کے ختم کرنا ہے۔ یہاں ہر چیز کی حد ہے۔ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ’’کل شیٔ عندہ بمقدار (رعد:۸)‘‘ {اس کے ہاں ہر چیز کی مقدار معین ہے۔} اگرچہ بارش رحمت ہے۔ لیکن یہ ضرورت کی حد تک رحمت ہے۔ اگر چند دن مسلسل بارش ہو تو سب روکنے کے لئے دعائیں کریں گے۔
۳… دین سازی کمال نہیں۔ بلکہ نبوت آدم علیہ السلام سے شروع کر کے اس کو کامل کرتے کرتے آخری کمال پر پہنچا کر ختم کرنا کمال ہے۔ ناقص نبی بنا کر ختم کرنا کمال نہیں ہے۔
۴… یہ دین کا کمال نہیں ہے کہ اس دین کے تمام اجزاء پر ایمان لانے کے باوجود صدیوں کے بعد کسی ایک مدعی نبوت پر ایمان نہ لانے سے کروڑوں کی تعداد میں امت کافر ہو جائے۔ جس مدعی کا کوئی ذکر نہ کیاگیا ہو اور نہ حضرت رحمتہ للعالمین نے تمام آنے والی نسلوں کو کفر سے بچانے کے لئے کچھ ارشاد فرمایا ہو۔ جب کہ آپ نے اور بیسیوں امور کی خبریں دیں۔ بلکہ آپ نے لا نبی بعدی کہہ کر گویا اپنی امت کو آمادہ کیا کہ کسی نبی کا بھی اقرار نہ کرو۔ اگر کوئی نبی آنے والا تھا جس کاانکار کفر تھا تو کیا حضور ﷺ نے العیاذ باﷲ مجرمانہ خاموشی اختیار نہیں کی؟ بلکہ اپنی امت کے کافر بننے کا سامان کیا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون!
۵… یہ کمال نہیں ہے کہ امت کا تعلق اپنے کامل نبی سے واسطہ درواسطہ ہو۔ بلکہ یہ کمال اور بہتر ہے کہ تمام امت کا تعلق اپنے نبی سے بلاواسطہ قائم رہے۔
۶… خاتم النّبیین میں ’’خاتم‘‘ کا تعلق سابقین اور گزرے ہوئے انبیاء علیہم السلام سے ہے۔ نہ ’’لاحقین‘‘ اور آئندہ والوں سے، مرزاجی اور اس کے چیلوں نے کہا کہ خاتم النّبیین کا معنی ہے کہ سارے نبیوں کی مہر ہیں۔ آپ ﷺ نبی 2411تراش ہیں اور آپ ﷺ کی قوت قدسیہ سے نبی بنتے ہیں۔ دراصل دائرۂ نبوت کا مرکزی نقطہ آپ ﷺ کی ذات ہے۔ آپ ﷺ نے تمام کمالات نبوت خود طے فرماکر کمال تک پہنچا دئیے اور ختم کر دئیے۔ آپ ﷺ اسی لئے آخر میں آئے۔ جیسے صدر جلسہ تمام انتظامات کے بعد آتے ہیں۔ جن کے لئے جلسہ منعقد کیاگیا ہو۔ اسی وجہ سے آدم علیہ السلام بھی تمام انتظامات کے بعد لائے گئے کہ وہ انتظامات آپ کے لئے تھے۔ جیسے زمین وآسمان اور سورج وچاند وغیرہ کی پیدائش۔ پھر جب نبوت کو ختم کرنا تھا تو کامل کر کے ایک کامل کے ذریعے ختم کرنا زیادہ مناسب تھا۔ اسی لئے بیت المقدس میں تمام پیغمبر امامت کے لئے آپ کا انتظار کرتے رہے اور اسی لئے آپ نے ارشاد فرمایا۔ ’’ نحن الآخرون والسابقون (منتخب کنزالعمال علیٰ حامش مسند احمد ج۴ ص۳۰۶)‘‘ {ہم آخری اور پہلے کے ہیں۔}
اور دوسری حدیث جس کو ابن ابی شیبہ اور ابن سعد وغیرہ نے روایت کیا ہے: ’’ کنت اوّل النّبیین فی الخلق وآخرہم فی البعث (منتخب کنزالعمال علی حامش مسند احمد ج۴ ص۳۰۱)‘‘ {میں پیدائش میں سب سے پہلا نبی تھا اور مبعوث ہونے میں سب سے آخری۔}
اور اسی لئے قیامت میں بھی ’’لواء حمد‘‘ آپ ﷺ کوملے گا اور تمام انبیاء علیہم السلام شفاعت کبریٰ کا معاملہ آپ ﷺ کے سپرد فرمائیں گے۔
اور ایک حدیث نے اس کی تشریح کی ہے جو شرح السنہ اور مسند امام احمدؒ میں ہے۔
’’ انی عند اﷲ مکتوب خاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینتہ (مشکوٰۃ ص۵۱۳، باب فضائل سید المرسلین)‘‘ {میں اﷲ تعالیٰ کے ہاں اس وقت خاتم النّبیین تھا۔ جب کہ آدم علیہ السلام ابھی گارے میں تھے۔}
2412یہاں صرف یہ مراد نہیں کہ اﷲتعالیٰ پہلے سے یہ جانتے تھے اور تقدیر ہی یہ تھی۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ تو ہر پیغمبر اور اس کے وقت کو جانتے تھے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ کو ایک طرح یہ خصوصیت اور خلعت ختم نبوت کا شرف عطاء ہوچکا تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبوت وہبی نعمت ہے یہ کسبی نہیں ہے۔
۷… یہ نبوت کا آپ ﷺ پر خاتمہ دین کا نقصان نہیں ہے۔ بلکہ اﷲتعالیٰ کی نعمتوں میں سے بڑی نعمت ہے۔ اﷲتعالیٰ نے قرآن میں ساری امتوں کو ایک طرف اور اس ساری امت کو دوسری طرف رکھا ہے۔ چنانچہ چند آیتیں حسب ذیل ہیں:
’’ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس (آل عمران:۱۱۰)‘‘ {تم بہترین امت ہو جو لوگوں کی خاطر پیدا کی گئی ہو۔}
’’ وکذالک جعلناکم امۃ وسطاً لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیداً (بقرہ:۱۴۳) فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشہید وجئنابک علیٰ ہئولاء شہیداً (نسائ:۴۱)‘‘ {اور ایسے ہی ہم نے تم کو درمیانی (اور بہترین) امت بنایا تاکہ تم باقی لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہی دے۔ وہ کیسا وقت ہوگا کہ جب ہم ہر امت میں سے گواہ لائیں گے اور آپ کو ان (سب) پر گواہ بنائیں گے۔} ایسی بہت سی آیات ہیں۔
بہرحال اگر کثرۃ کا کوئی انضباط نہ ہو تو وہ بھیڑ ہو جاتی ہے۔ اگر اس میں نظم وضبط ہو تو وہ ایک طاقت ہوتی ہے۔ کثرت اگر کسی وحدت پر ختم ہو تو وہ مربوط اور قوی طاقت ہوتی ہے۔ تمام انبیاء علیہم السلام، سرور عالم ﷺ کے ماتحت ہیں اور اس وحدت کا مظاہرہ معراج کی رات مسجد اقصیٰ میں ہوا۔ اﷲتعالیٰ نے ساری امتوں کو ایک طرف اور آپ ﷺ کی امت کو دوسری طرف رکھا۔ اس لئے کہ آپ ﷺ آخری نبی اور آپ ﷺ کی امت آخری امت ہے۔
2413۸… پیغمبر شریعت وکتاب لاتے ہیں یا پرانی شریعت کو بیان کرتے اور چلاتے ہیں۔ یہاں تکمیل دین وشریعت کا کام پورا ہو چکا ہے۔ ’’ الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً (مائدہ:۳)‘‘ {آج میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی مہربانی تم پر پوری کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام پسند کر لیا۔}
بقاء وتحفظ شریعت کی ذمہ داری بھی خود خدا نے لے رکھی ہے۔ ’’ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (الحجر:۹)‘‘ {ہم نے ہاں ہم ہی نے یہ قرآن اتار اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔}
سیاست اور ملکی انتظام کاکام خلفاء کے سپرد ہوچکا ہے۔ حدیث شریف میں ہے۔ ’’ کانت بنو اسرائیل تسوسہم الانبیاء کلمّا ہلک نبی خلفہ نبی ولکن لا نبی بعدی وسیکون الخلفاء فیکثرون (اوکماقال) (بخاری ج۱ ص۴۹۱، کتاب الانبیائ، مسلم ج۲ ص۱۲۶، کتاب الامارۃ)‘‘ {بنی اسرائیل کا انتظام پیغمبر کیا کرتے تھے۔ جب ایک نبی جاتا دوسرا آجاتا۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے اور تم پہلے خلیفہ سے وفاداری کرتے رہنا۔}
اور مبشرات سچے خوابوں کی طرح نبوت کا جز ہے۔ بعینہ نبوت نہیں نہ جز کو کل کا نام دیا جاتا ہے۔ آدمی کی ٹانگ کو آدمی نہیں کہا جاسکتا۔ نہ اس کی ایک آنکھ کا نام انسان ہوتا ہے۔ یہ اجزاء انسانی ہیں۔ ہاں انسان کی تمام جزئیات کو انسان کہا جائے گا۔ جیسے مرد، عورت، کالا، گورا۔ بہرحال اجزاء 2414اور جزئیات کا فرق ہر پڑھا لکھا جانتا ہے یا حیوان ہر گھوڑے، گدھے اور بلی کو کہہ سکتے ہیں۔ لیکن کسی پاؤں یا سرکو حیوان نہیں کہہ سکتے۔ اب کسی نئے نبی یا نئی شریعت کی اس امت کو ضرورت نہیں ہے اور سرور عالم ﷺ نے صاف اور واضح اعلان فرما کر ہر طرح کی نبوت کا دروازہ بند کر دیا۔ مرزائیوں کو سرور عالم ﷺ کی مخالفت میں مزہ آتا ہے۔ مبشرات کا معنی خود حدیث میں سرور عالم ﷺ نے سچے خواب بتایا ہے۔
۹… یہ کہنا کہ ’’وہ لعنتی دین ہے جو نبی ساز نہ ہو۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۳۸، خزائن ج۲۱ ص۳۰۶)
جیسے کہ مرزاقادیانی اور اس کے چیلے چانٹے کہتے ہیں۔ بالکل غلط ہے۔ یہ بات تو پہلی امتیں بھی کہہ سکتی تھیں پھر تمہاری کون سی تخصیص ہے؟ پہلی امتوں نے اپنے اپنے پیغمبر کی اطاعت کر کے نبوت کے سوا باقی مراتب قرب حاصل کئے اور جس کو اﷲتعالیٰ نے چاہا نبوت عطاء کی۔ وہ دین نبی ساز نہ تھا۔ بلکہ نبیوں کی تعداد باقی تھی۔ اس کو پورا کرنا تھا۔ ان امتوں کی اپنے نبی سے تعلق ونسبت بھی قائم رہی۔ اسی طرح اﷲتعالیٰ کا منشاء ہے کہ یہ آخری امت اپنی نسبت قیامت تک اپنے نبی الزمان سے رکھتے ہوئے مراتب قرب حاصل کرتی رہے۔ کسی دوسرے کا واسطہ درمیان میں نہ ہو۔ یہ بات تو شیطان نے اﷲتعالیٰ سے کہی تھی کہ ذاتی طور سے میں آدم سے بہتر ہوں۔ آپ کے انتخاب اور اجتباء پر دارومدار کیوں ہو کہ آپ آدم کو سجدہ کراتے ہیں؟ اسی لئے شیطان ملعون ومردود ہوا، اور آدم علیہ السلام نے عبودیت اور اطاعت اختیار کی وہ مقبول ہوگئے۔ یہاں بھی مرزاغلام احمد قادیانی نے لکھا کہ ’’نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص ہوں۔ دوسرے کوئی اس کے مستحق نہیں۔‘‘ گویا یہ بھی شیطان کی وراثت تھامے ہوئے اپنا استحقاق اور شدت 2415اتباع ثابت کرتا ہے اور اب اس کے گم کردۂ راہ چیلے چانٹے اس سے وابستہ رہ کر اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں۔
یہاں سے مرزاقادیانی کی یہ جہالت بھی ظاہر ہو گئی ہے کہ پہلے پیغمبر براہ راست پیغمبر ہوئے۔ موسیٰ علیہ السلام یا کسی دوسرے پیغمبر کے اتباع کا اس میں دخل نہ تھا۔ مگر یہاں مجھے حضور ﷺ کی اتباع اور غایت اطاعت سے نبوت کا مقام ملا ہے۔ (حقیقت الوحی) اس لئے کہ پہلے کے پیغمبر بھی کسی نہ کسی پیغمبر کے دین کا اتباع کرتے تھے اور ہم بھی کرتے ہیں۔ نبوت تو موہبت اور بخشش ہے۔ جہاں ظرف اس کے مناسب دیکھا وہاں عطاء فرمادی اور ظرف بھی خود مہربانی کر کے عنایت کرتے تھے۔
’’ اﷲ اعلم حیث یجعل رسالتہ (انعام:۱۲۴)‘‘ {خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کہاں اپنی نبوت دے۔}
مگر اب تو سلسلۂ نبوت کی تکمیل کر کے اس کو بند فرمادیا۔ جتنے نبی آنے تھے وہ آگئے اور دائرۂ نبوت کی ساری مسافت آپ ﷺ نے طے کر لی اور تکمیل شریعت فرماگئے۔ اب آپ ﷺ کی نبوت کے ہوتے ہوئے اگر کوئی اور بھی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے وہ ایسے ہے جیسے کوئی احمق الذی دوپہر کے وقت پوری روشنی میں اپنا چراغ جلا کر بھینس ڈھونڈتا پھرے۔ اس احمق الذی کی عقل کو بھینس ہی کی عقل کہہ سکتے ہیں۔
۱۰… پھر یہ مدعی (مرزا) تو دین محمد کی توہین کرتا ہے کہ سرور عالم ﷺ کی پیروی سے صرف مرزاقادیانی ہی نبی بن سکا اور وہ بھی ایساجو انگریزوں کی اطاعت فرض قرار دے اور غیرمحرم عورتوں سے مٹھیاں بھروائے اور اپنے نہ ماننے والے کروڑوں افراد امت کو کافر قرار دے اور جو پورا وحی کا 2416ڈراوے کا اور لالچ کا اور تقدیر مبرم کا واویلا کر کے محمدی بیگم کو حاصل نہ کر سکا۔ بلکہ مسلسل بیس سال تک اس کی شادی کے زبانی مزے بھی لیتا رہا اور عقل کے اندھے مگر گانٹھ کے پکے مریدوں کو بتلاتا اور پھسلاتا رہا اور اپنے ساتھ سرور عالم ﷺ کو بھی شریک کر کے جھوٹا کرنے کی ناپاک کوشش کی اور یہ وحی بھی ایسی تھی بلکہ اس کو مرزاجی نے اپنے صدق وکذب کا معیار قرار دے کر دنیا کو چیلنج کیا تھا۔
کیا اسی بل بوتے پر ہم اس کی بات یا گپ کو سچ مان لیں کہ میری وحی قرآن کی طرح ہے۔ پھر ایسا شخص کہ جو اپنے نہ ماننے والوں کو کنجریوں کی اولاد کہے۔ اپنے مخالفین کو جنگل کے سور لکھے۔ حضرت پیر مہرعلی شاہ صاحب گولڑہ شریفؒ کو ملعون کہے۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کو اندھا شیطان لکھے۔ مولوی سعد اﷲؒ کو نسل بدکاراں قرار دے۔ تمام علماء کو بدذات فرقہ مولویاں سے تعبیر کرے اور حضرت حسینؓ کے مبارک ذکر کو گوہ کے ڈھیر سے تشبیہ دے۔ اپنے کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے افضل کہے۔ بلکہ تمام پیغمبروں کی صفات وکمالات کا اپنے کو جامع قرار دے۔ (یہ منہ اور مسور کی دال) اسی طرح اس نے پیش گوئی کی کہ عبداﷲ آتھم پندرہ ماہ میں مر جائے گا۔ جب وہ نہ مرا تو جھوٹا اعلان شائع کر دیا کہ اس نے رجوع الی الحق کر دیا تھا اور جب ۲۲ماہ بعد وہ اپنی موت مرا تو اعلان کر دیا کہ میری پیش گوئی یہ تھی کہ جھوٹا سچے کے سامنے مرے گا۔ لعنۃ اﷲ علی الکاذبین!
اﷲتعالیٰ ناصر احمد اور سارے قادیانیوں کو سمجھ دے۔ بہت سے نیک آدمیوں کے باپ دادا گمراہ گزرے ہیں۔ اگر یہ بھی توبہ کر کے سچے مسلمان ہو جائیں اور مرزاقادیانی کو خدا کے حوالے کریں۔ پیسے تو اب 2417بہت ہوگئے ہیں۔ عزت بھی مل گئی اور اگر یہ خیال ہو جیسے کہ آپ کی ڈینگوں سے بو آتی ہے کہ کوئی آپ کا سرپرست آپ کو بچالے گا تو ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ آپ کو خدا کے عذاب سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ وہ وقت گیا جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ آپ نے عام مسلمانوں کو بدنام اور ذلیل کرنے کی اپنے بیان میں کوشش کی ہے۔ اس لئے ہم نے یہ چند سطریں لکھ دی ہیں۔
۱۱… خاتم النّبیین میں خاتم کی اضافت نبیین کی طرف ہے۔ یہاں پرانے نبی پیش نظر ہیں۔ آپ ﷺ نے سابقین کی تعداد ختم کر دی جو آئے تھے آگئے۔ اب کسی کو آپ ﷺ کے بعد نبوت نہیں مل سکتی۔ خاتم النّبیین کا معنی خاتم الاحقین نہیں ہے کہ آنے والے آپ ﷺ کی مہر سے آیا کریں گے۔ یہ تو اﷲ پر جھوٹ بولا گیا۔ کیونکہ آپ ﷺ کی مہر سے کون کون آئے کیا مرزاجی یا اس کا پوتا ناصر احمد صاحب بتاسکتے ہیں؟ کیا مرزاجی کے بغیر تیرہ سو سال میں آپ ﷺ کی قوت قدسیہ نامکمل رہی۔ خاتم النّبیین میں پرانے پیغمبروں کا ذکر ہے کہ آپ ﷺ نے ان کی تعداد کو ختم کر دیا اور قصر نبوت کی تکمیل فرما دی۔ اب کوئی شخص نبوت نہ پاسکے گا۔ یہ اضافت اشخاص کی طرف ہے۔ باقی نبوت ورسالت کے خاتمہ کے لئے وہ مبارک الفاظ زیادہ موزوں ہیں جو امام ترمذیؒ نے روایت کئے ہیں وہ حدیث یہ ہے: ’’ ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی (قال) فشق ذالک علی الناس فقال لکن المبشرات فقال رؤیا المسلم وہی جزء من اجزاء النبوۃ (ترمذی ج۲ ص۳، باب ذہبت النبوۃ وبقیت المبشرات)‘‘ {رسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے تو اب میرے بعد نہ کوئی رسول بنے گا نہ نبی (راوی کہتا ہے) یہ بات لوگوں کو مشکل نظر آئی تو آپ ﷺ 2418نے فرمایا۔ لیکن مبشرات باقی ہیں۔ انہوں نے دریافت کیا کہ مبشرات کا کیا مطلب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ مسلمان کا خواب اور وہ نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے۔}
اس حدیث نے تمام مرتدوں کی کمر توڑ دی ہے۔ جس سے صاف صاف معلوم ہوگیا کہ آپ ﷺ کے بعد نہ کسی کو رسول بنایا جاسکتا ہے کہ جس کے پاس کتاب یا شریعت ہو۔ نہ کسی کو نبی بنایا جاسکتا ہے چاہے وہ دوسرے نبی کا تابع ہو اور کوئی نئی شریعت یا نئے احکام اس کو نہ دئیے گئے ہوں۔ جیسے لفظ خاتم النّبیین نے اگلے پیغمبروں کی تعداد ختم کر دی۔ اس حدیث کے مبارک الفاظ نے بعد میں دعویٰ کرنے والوں کی حقیقت بھی کھول دی۔ اب نہ کسی کے پاس وحی نبوت آسکتی ہے نہ وحی رسالت۔ اب یہ کہنا کہ مستقل نبی ختم ہوگئے۔ غیرمستقل باقی ہیں یا یہ کہ صاحب شریعت نہ آئیں گے مگر تابع اور غیرتشریعی نبی آسکتے ہیں۔ یہ سب بکواس ہے کفر ہے اور دین سے استہزاء ہے۔ اﷲتعالیٰ بچائے۔ آمین! مرزاجی کبھی بروزی اور ظلی نبوت کی آڑ لیتا ہے۔ کبھی فنا فی الرسول ہو کر نبی بننے لگتا ہے۔ کبھی مسیح موعود بننے کے لئے تنکوں کا سہارا لیتا ہے کبھی مریم بنتا ہے۔ پھر مرزاجی کو حیض آتا ہے۔ پھر مریم سے عیسیٰ بن جاتا ہے۔ کبھی آسمان میں اپنا نام محمد واحمد ظاہر کرتا ہے۔ کبھی اپنا نام ہی ابن مریم رکھ لیتا ہے۔ کبھی محدث ومجدد کا روپ اختیار کرتا ہے اور کبھی مہدی کی حدیثوں کو اپنے اوپر چسپاں کرتا ہے۔ کبھی کرشن کا اوتار بنتا ہے اور کبھی جے سنگھ بہادر، کبھی عین محمد بنتا ہے، کبھی مثیل مسیح کہلاتا ہے تو کبھی ان سے افضل۔ کبھی انسان کی جائے نفرت بنتا ہے۔ کبھی انگریزی عدالت میں توبہ نامہ داخل کرتا ہے اور کبھی 2419اپنے معجزات حضور ﷺ سے بڑھ کر ظاہر کرتا ہے۔ غرضیکہ مرزاغلام احمد صاحب عجیب چیز اور ایک چیستان تھے۔ ہم اس کو صرف انگریز کا کمال تصور کرتے ہیں۔ یہ کمال مرزاناصر احمد صاحب کو مبارک ہو۔ اگر ایسا نہیں تو پھر شیطان نے جو تلعب اس سے کیا ہے۔ بہت کم ہی کسی اور سے کیا ہوگا۔
 
Top