خلاصہ کلام
ان واضح شواہد پر مبنی تفصیلات کو پڑھ کر مرزائیت کے سیاسی اور شرعی وجود کے متعلق کوئی غلط فہمی باتی نہیں رہتی۔ ہر حوالہ اپنی جگہ مکمل اور اس کے عزائم ومقاصد کی صحیح صحیح تصویر پیش کرتا ہے۔ یہی وجوہ ہیں جن کی بناء پر مسلمانوں کے تمام فرقوں نے متفقہ طور پر مرزائیت کو اسلام کا باغی اور ان کے پیروؤں کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔ اس تحریک کے احوال ونتائج اور آثار ومظاہر تمام مسلمانوں کے علم میں ہیں۔
2095مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ نیا نہیں بلکہ علامہ اقبال نے پاکستان بننے سے کہیں پہلے انگریزی حکومت کو خطاب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ: ’’ہمیں قادیانیوں کی حکمت عملی اور دنیائے اسلام سے متعلق ان کے رویہ کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ جب قادیانی مذہبی اور معاشرتی معاملات میں علیحدگی کی پالیسی اختیار کرتے ہیں تو پھر سیاسی طور پر مسلمانوں میں شامل ہونے کے لئے کیوں مضطرب ہیں؟ ملت اسلامیہ کو اس مطالبے کا پورا پورا حق حاصل ہے کہ قادیانیوں کو علیحدہ کر دیا جائے۔ اگر حکومت نے یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا تو مسلمانوں کو شک گزرے گا کہ حکومت اس نئے مذہب کی علیحدگی میں دیر کر رہی ہے۔‘‘
(اسٹیٹس مین کے نام خط ۱۰؍جون ۱۹۳۵ئ)
علامہ اقبال نے حکومت کے طرز عمل کو جھنجھوڑتے ہوئے مزید فرمایا تھا: ’’اگر حکومت کے لئے یہ گروہ مفید ہے تو وہ اس خدمت کا صلہ دینے کی پوری طرح مجاز ہے۔ لیکن اس ملت کے لئے اسے نظرانداز کرنا مشکل ہے جس کا اجتماعی وجود اس کے باعث خطرہ میں ہے۔‘‘
ان شواہد ونظائر کے پیش نظر آپ حضرات سے یہ گزارش کرنا ہم اپنا قومی وملی فرض سمجھتے ہیں کہ یورپی سامراج کے اس ففتھ کالم کی سرگرمیوں پر نہ صرف کڑی نگاہ رکھی جائے۔ بلکہ اس جماعت کو پاکستان میں اقلیت قرار دے کر بلحاظ آبادی ان کے حدود وحقوق متعین کئے جائیں۔ ورنہ مرزائی استعماری طاقتوں کی بدولت ملک وملت کے لئے مستقلاً خطرہ بنے رہیں گے اور خدانخواستہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ملک وملت کو ایک ایسے سانحہ سے دوچار ہونا پڑے، جو سانحہ کہ آج ملت اسلامیہ عربیہ کی حیات اجتماعی کے لئے اسرائیلی سرطان کی شکل اختیار کرچکا ہے۔