خلافت عثمانیہ اور ترکی
(قادیان جماعت کا ایڈریس بخدمت ایڈورڈ میکلیگن لیفٹیننٹ گورنر پنجاب اخبار الفضل ۲۲؍دسمبر ۱۹۰۹ء ج۷ نمبر۴۸)
’’ہم یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ مذہباً ہمارا ترکوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم اپنے مذہبی نقطہ خیال سے اس امر کے پابند ہیں کہ اس شخص کو اپنا پیشوا سمجھیں جو مسیح موعود کا جانشین ہو اور دنیاوی لحاظ سے اس کو اپنا بادشاہ اور سلطان یقین کریں، جس کی حکومت کے نیچے ہم رہتے ہیں۔ پس ہمارے خلیفہ حضرت مسیح موعود (مرزاصاحب) کے خلیفہ ثانی ہیں اور ہمارے بادشاہ حضور سلطان ملک معظم ہیں۔ سلطان ترکی ہر گز خلیفۃ المسلمین نہیں۔‘‘
(صیغہ امور عامہ قادیان کا اعلان مندرجہ الفضل قادیان ج۷ نمبر۱۶۱، ۱۶؍فروری ۱۹۲۰ئ)
اخبار لیڈر آلہ آباد مجریہ ۲۱؍جنوری ۱۹۲۰ء میں خلافت کانفرنس کا ایڈریس: ’’بخدمت جناب وائسرائے شائع کیا گیا۔ فہرست دستخط کنندگان میں مولوی ثناء اﷲ امرتسری کے نام سے پہلے کسی شخص مولوی محمد علی قادیانی کا نام درج ہے۔ مولوی محمد علی کے نام کے ساتھ قادیانی کا لفظ محض اس لئے لگایا گیا کہ لوگوں کو دھوکہ دیاجائے۔ ورنہ قادیان سے تعلق رکھنے والا احمدی نہیں ہے جو سلطان ترکی کو خلیفۃ المسلمین تسلیم کرتا ہو… معلوم ہوتا ہے یہ مولوی صاحب لاہوری سرگروہ کے غیرمبائع ہیں۔ لیکن وہ لفظ قادیان کے ساتھ لکھنے کے ہرگز مستحق نہیں۔ نہ اس لئے کہ وہ قادیان کے باشندے ہیں اور نہ اس لئے کہ مرکز قادیان سے رکھنے والے کسی احمدی کا یہ عقیدہ نہیں کہ سلطان ترکی خلیفۃ المسلمین ہے۔‘‘
خلافت عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور عربوں کو ترکوں سے لڑانے میں قادیانی انگریز کے شانہ بشانہ شریک رہے ہیں۔ اس کا ایک اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جو دمشق کے ایک مطبوعہ رسالہ القادیانیۃ میں مرزائیوں کے سیاسی خط وخال اور استعماری فرائض ومناسب کی نشاندہی 2058کے بعد لکھا گیا ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں انگریزوں نے مرزابشیرالدین محمود احمد کے سالے ولی اﷲ زین العابدین کو سلطنت عثمانیہ بھیجا۔ وہاں پانچویں ڈویژن کے کمانڈر جمال پاشا کی معرفت ۱۹۱۷ء میں قدس یونیورسٹی میں دینیات کا لیکچرر ہوگیا۔ لیکن جب انگریزی فوجیں دمشق میں داخل ہوگئیں تو ولی اﷲ نے اپنا لبادہ اتارا اور انگریزی لشکر میں آگیا اور عربوں کو ترکوں سے لڑانے بھڑانے کی مہم کا انچارج رہا۔ عراقی اس سے واقف ہوگئے تو گورنمنٹ انڈیا نے وہاں ان کے ٹکے رہنے پر زور دیا۔ لیکن عراقی حکومت نہ مانی تو بھاگ کر قادیان آگیا اور ناظر امور عامہ بنادیا گیا۔
(عجمی اسرائیل ص۲۷، بحوالہ القادیانیہ طبع دمشق)
یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد رسالہ القادیانیہ نے لکھا ہے کہ کسی بھی مسلمان عرب ریاست میں مرزائیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ بلکہ ان کے ایسے کارناموں کی بدولت پاکستان کو عربوں میں ہدف بنایا جاتا ہے۔ سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد مصطفی کمال کے دورمیں بھی مرزائیوں کی سازشیں جاری رہیں اور یہ روایت عام ہے کہ ترکی میں دو قادیانی مصطفی صغیر کی ٹیم کا رکن بن کر گئے۔ مصطفی صغیر کے بارہ میں مشہور ہے کہ وہ قادیانی تھا اور مصطفی کمال کو قتل کرنے پر مامور ہوا تھا۔ لیکن راز فاش ہونے پر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔