خود اپنے آپ کو الگ اقلیت قرار دینے کا مطالبہ
مذکورہ بالا توضیحات سے یہ بات دو اور دو چار کی طرح کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ مرزائی مذہب مسلمانوں سے بالکل الگ مذہب ہے۔ جس کا امت اسلامیہ سے کوئی تعلق نہیں اور اپنی یہ پوزیشن خود مرزائیوں کو مسلم ہے کہ ان کا اور مسلمانوں کا مذہب ایک نہیں ہے اور وہ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر سے الگ ایک مستقل امت ہیں۔ چنانچہ انہوں نے غیرمنقسم ہندوستان میں اپنے آپ کو سیاسی طور پر بھی مسلمانوں سے الگ ایک مستقل اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
مرزابشیرالدین محمود کہتے ہیں:
’’میں نے اپنے نمائندے کی معرفت ایک بڑے ذمہ دار انگریز افسر کو کہلوا بھیجا کہ پارسیوں اور عیسائیوں کی طرح ہمارے حقوق بھی تسلیم کئے جائیں۔ جس پر اس افسر نے کہا کہ وہ تو اقلیت ہیں اور تم ایک مذہبی فرقہ ہو۔ اس پر میں نے کہا کہ پارسی اور عیسائی بھی تو مذہبی فرقہ ہیں جس 1921طرح ان کے حقوق علیحدہ تسلیم کئے گئے ہیں اسی طرح ہمارے بھی کئے جائیں۔ تم ایک پارسی پیش کردو۔ اس کے مقابلہ میں دو۔ دو احمدی پیش کرتا جاؤں گا۔‘‘
(مرزابشیرالدین محمود کا بیان مندرجہ الفضل مورخہ ۱۳؍نومبر ۱۹۴۶ئ)
کیا اس کے بعد بھی اس مطالبے کی معقولیت میں کسی انصاف پسند انسان کو کوئی ادنیٰ شبہ باقی رہ سکتا ہے کہ مرزائی امت کو سرکاری سطح پر غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے؟