• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

داستان مرزا قادیانی مختصر

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اپنے کردار کے آئینے میں


مفتی صادق نامی شخص مرزا غلام احمد قادیانی کا مرید خاص تھا۔ اس کے مرزا کے ساتھ تعلقات اور قربت کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مرزا قادیانی نے اصحاب بدر کے مقابل اپنی جماعت کے 313لوگوں کی ایک فہرست مرتب کی جس میں چونسٹھویں نمبر پر مفتی صادق کا نام موجود ہے اور اس مفتی صادق کو مرزا قادیانی نے قادیانی مذہب کا مفتی مقرر کیا ہوا تھا۔ مفتی صادق قادیانی نے مرزا قادیانی کے حالات پر ایک کتاب تحریر کی ہے جس کا نام اس نے ’’ذکر حبیب‘‘ رکھا۔ اس میں مفتی صادق اپنے اور مرزا قادیانی کے تھیٹر یعنی سینما جانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کے امرتسر جانے کی خبر سے بعض احباب بھی مختلف شہروں سے وہاں آ گئے۔ چنانچہ کپورتھلہ محمد خان صاحب مرحوم اور منشی ظفر احمد صاحب بہت دنوں وہاں ٹھہرے رہے ۔ گرمی کا موسم تھا۔ منشی صاحب اور میں ہر دو نحیف البدن اور چھوٹے قد کے آدمی ہونے کے سبب ایک ہی چار پائی پر دونوں لیٹ جاتے تھے ۔ ایک شب دس بجے کے قریب میں تھیٹر میں چلا گیا، جو مکان کے قریب ہی تھا اور تماشہ ختم ہونے پر دو بجے رات کو واپس آیا۔ صبح منشی ظفر صاحب نے میری عدم موجودگی کی حضرت صاحب (مرزا قادیانی) کے پاس میری شکایت کی کہ مفتی صاحب رات کو تھیٹر چلے گئے تھے۔ حضرت صاحب نے فرمایا: ایک دفعہ ہم بھی گئے تھے۔ ‘‘ (بحوالہ ذکر حبیب از مفتی صادق صفحہ 18)

محترم قارئین ! کیا کوئی شریف آدمی یہ پسند کرے گا کہ اس کے کمرے میں اور اس کی موجودگی میں کوئی غیر عورت کپڑے اتار کر غسل کرنا شروع کر دے اور وہ نہ تو اسے اس قبیح حرکت پر روکے اور نہ ہی خود وہاں سے ہٹے۔ بلکہ اس کمرے میں ہی بیٹھا رہے اور اس وقت کوئی تیسرا فرد بھی وہاں موجود نہ ہو۔ یقیناً ایسی بات کو کوئی شریف آدمی پسند نہیں کر سکتا۔ کیونکہ نبی کریم علیہ السلام نے غیر محرم عورت اور مرد کو ایک چارپائی پر اکٹھے بیٹھنے سے بھی منع فرما دیا اور کسی بھی غیر محرم مرد اور عورت کو خلوت میں اکیلے رہنے سے بھی منع فرمایا ہے، بلکہ فرمایا کہ اگر دو غیر محرم مرد و عورت اکٹھے ہوں تو تیسرا وہاں ان میں شیطان ہوتا ہے۔ آئیے ذرا مفتی صادق صاحب ہی کی زبانی مرزا قادیانی کے کردار کو ملاحظہ فرمائیں اور خود فیصلہ کریں کہ ایسا شخص شریف انسان کہلانے کا بھی حق دار ہے:

’’حضرت مسیح موعود کے اندرون خانہ ایک نیم دیوانی سی عورت بطور خادمہ رہا کرتی تھی۔ ایک دفعہ اس نے کیا حرکت کی کہ جس کمرے میں حضرت صاحب (مرزا قادیانی) بیٹھ کر لکھنے پڑھنے کا کام کرتے تھے وہاں ایک کونے میں کھرا تھا جس کے پاس پانی کے گھڑے رکھے تھے۔ وہاں اپنے کپڑے اتار کر اور ننگی بیٹھ کر نہانے لگی۔ حضرت صاحب اپنے کام تحریر میں مصروف رہے اور کچھ خیال نہ کیا کہ وہ کیا کرتی ہے ۔ جب وہ نہا چکی تو ایک اور خادمہ اتفاقاً آ نکلی اس نے اس نیم دیوانی کو ملامت کی کہ حضرت صاحب کے کمرے میں اور موجودگی کے وقت تو نے یہ کیا حرکت کی تو اس نے ہنس کر جواب دیا: ’’انہوں کچھ دیدا ہے‘‘ یعنی اسے کیا دکھائی دیتا ہے۔‘‘ (بحوالہ ذکر حبیب از مفتی صادق صفحہ 38)

محترم قارئین ! نبی کریم علیہ السلام جب عورتوں سے بیعت لیا کرتے تھے تو وہ بھی پردے کے پیچھے سے لیکن نبی آخر الزمان کا ظل و بروز ہونے کا دعوے دار اس کے برعکس غیر محرم عورتوں سے ٹانگیں دبوایا کرتا تھا۔ جس کا تذکرہ مرزا قادیانی کے فرزند مرزا بشیر احمد نے اپنی کتاب ’’سیرۃ المہدی‘‘ میں جواس نے مرزا کے حالات زندگی پر حدیث کی طرز میں لکھی ہے، میں تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ چنانچہ مرزا بشیر احمد اپنے باپ کے حالات زندگی کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہے:

’’ ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ مجھ سے میری لڑکی زینب بیگم نے بیان کیا کہ میں تین ماہ کے قریب حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں رہی ہوں۔ گرمیوں میں پنکھا وغیرہ اور اسی طرح کی خدمت کرتی تھی۔ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ نصف رات یا اس سے زیادہ مجھ کو پنکھا ہلاتے گزر جاتی تھی۔ مجھ کو اس اثناء میں کسی قسم کی تھکان و تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی، بلکہ خوشی سے دل بھر جاتا تھا۔ دو دفعہ ایسا موقعہ ہاتھ آیا کہ عشاء کی نماز سے لے کر صبح کی اذان تک مجھے ساری رات خدمت کرنے کا موقعہ ملا۔ پھر بھی اسی حالت میں مجھ کو نہ نیند ، نہ غنودگی اور نہ تھکان و تکلیف محسوس ہوئی، بلکہ خوشی اور سرور پیدا ہوتا تھا۔ (موقعہ جو ایسا تھا) اسی طرح جب مبارک احمد صاحب بیمار ہوئے تو مجھ کو ان کی خدمت کے لیے بھی اسی طرح گزارنی پڑیں۔ تو حضور نے فرمایا کہ زینب اس قدر خدمت کرتی ہے کہ ہمیں اس سے شرمندہ ہونا پڑتا ہے (آخر کیوں) اور آپ کئی دفعہ اپنا تبرک مجھے دیا کرتے تھے ۔‘‘(سیرۃ المہدی جلد اول صفحہ 789روایت نمبر910طبع چہارم)

’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت ام المومنین نے ایک دن سنایا کہ حضرت صاحب کے ہاں ایک بوڑھی ملازمہ مسماۃ بھانو تھی۔ ایک رات جب کہ خوب سردی پڑ رہی تھی حضور کو دبانے بیٹھی۔ چونکہ وہ لحاف کے اوپر سے دباتی تھی اس لیے اسے یہ پتا نہ لگا کہ جس چیز کو میں دبا رہی ہوں وہ حضور کی ٹانگیں نہیں بلکہ پلنگ کی پٹی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا بھانو آج بڑی سردی ہے۔ بھانو کہنے لگی: ’ہاں جی تدے تے تہاڈی لتاں لکڑی وانگر ہویاں ایں۔‘‘ یعنی جی ہاں جبھی تو آپ کی لاتیں لکڑی کی طرح سخت ہو رہی ہیں۔‘‘

خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب نے جو بھانو کو سردی کی طرف توجہ دلائی تو اس میں بھی غالباً یہ جتانا مقصود تھا کہ آج شاید سردی کی شدت کی وجہ سے تمھاری حس کمزور ہو رہی ہے اور تمھیں پتا نہیں لگا کہ کس چیز کو دبار ہی ہوں۔ مگر اس نے سامنے سے اور ہی لطیفہ کر دیا ۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ بھانو مذکورہ قادیان کے ایک قریب کے گانوں میں بسرا کی رہنے والی تھی اور اپنے ماحول کے لحاظ سے اچھی مخلصہ اور دیندار تھی۔‘‘ (سیرۃ المہدی از مرزا بشیر احمد جلد اول صفحہ 722روایت نمبر780طبع چہارم)

’’برکت بی بی صاحب اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکنہ تلونڈی نے بواسطہ لجنۃ اماء اﷲ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ ایک دن آپ لیٹے ہوئے تھے اور میں پیر دبا رہی تھی۔ کئی طرح کے پھل لیچیاں، کیلے، انجیر اور خربوزوں میں سے آپ نے مجھے بہت سے دیے۔ میں نے ان کو بہت سنبھال کر رکھا کہ یہ بابرکت پھل ہیں ، ان کو میں گھر لے جاؤں گی تاکہ سب کو تھوڑا تھوڑا بطور تبرک کے دوں۔ جب میں جانے لگی تو حضور نے امان جان کر فرمایا کہ برکت کی دوائی برنم دے دو۔ اس کے رحم میں درد ہے۔ (ایکس ٹریکٹ وائی برنم لیکوئڈ ایک دوا رحم کی اصلاح کے واسطے ہوتی ہے) یہ مجھے یاد نہیں کہ کس نے دوا لا کر دی۔ حضور نے دس قطرے ڈال کر بتایا کہ دس قطرے روز صبح پیا کرو۔ میں گھر جا کر پیتی رہی۔ ‘‘(سیرۃ المہدی جلد اول ص 214 روایت نمبر1350طبع چہارم )

’’ برکت بی بی صاحب اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکن تلونڈی نے بواسطہ لجنۃ اماء اﷲ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ ’’میں تیسری بار قادیان میں آئی تو میرے پاس ایک کتاب رابعہ بی بی کے قصے کی تھی جسے میں شوق سے پڑھا کرتی تھی ۔ آپ نے فرمایا کہ برکت بی بی ! لو یہ در ثمین پڑھا کرو۔‘‘

دوا پینے کے بعد مجھے حمل ہو گیا تھا جس کا مجھے علم نہ تھا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اور دو عورتیں بیٹھی ہیں کہ مجھے حیض آ گیا ہے ۔ میں گھبرائی اور تعبیر نامہ دیکھا۔ اس میں یہ تعبیر لکھی تھی کہ جو عورت اپنے آپ کو حائضہ دیکھے وہ کوئی گناہ کرتی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر سخت رنج ہوا ، میں نفل پڑھتی اور توبہ استغفار کرتی اور خدا سے عرض کرتی : یا اﷲ! مجھ سے کون سا گناہ ہوا ہے یا ہونے والا ہے؟ تو مجھے اپنے فضل سے بچا اور قادیان آئی۔ حضور کے پاؤں دبا رہی تھی کہ میں نے عرض کی: حضور مجھے ایک ایسی خواب آئی ہے جس کو میں حضور کی خدمت میں پیش کرنے سے شرم محسوس کرتی ہوں حالانکہ نہیں آنی چاہیے، کیونکہ حضور تو خدا کے بھیجے ہوئے ہیں۔ آپ سے عرض نہ کروں گی تو کس کے آگے بیان کروں گی۔‘‘ پھر میں نے حضور کی خدمت میں وہ خواب بیان کی ۔ حضور نے فرمایا: ’’کتاب جو سامنے رکھی ہے وہ اٹھا لاؤ۔‘‘ میں لے آئی ،آپ نے کتاب کھول کر دیکھا اور بتایا کہ ’’وہ جو عورت ایسا خواب دیکھے تو اگر حاملہ ہے تو لڑکا پیدا ہو گا اور اگر حاملہ نہیں تو حمل ہو جائے گا۔‘‘ میں نے عرض کی کہ مجھے حضور علیہ السلام کی دو اور دعا سے حمل ہے۔ آپ نے فرمایا: ان شاء اﷲ لڑکا پیدا ہو گا۔ ‘‘ (سیرۃ المہدی جلد دوم ، صفحہ 214 روایت نمبر51طبع چہارم)

’’ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحب نے کہ ایک دفعہ جوانی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) تمھارے دادا کی پنشن وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین بھی چلا گیا۔ جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو وہ آپ کو پھسلا کر اور دھوکا دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور ادھر ادھر پھراتا رہا۔ پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا۔ حضرت مسیح موعود اس شرم سے واپس گھر نہیں آئے اور چونکہ تمھارے دادا کا منشا رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہو جائیں ۔ اس لیے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنری کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازم ہو گئے۔ ۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں چھوڑ کر پھر مرزا امام الدین ادھر ادھر پھراتا رہا۔ آخر اس نے چائے کے ایک قافلے پر ڈاکہ مارا اور پکڑا گیا مگر مقدمہ میں رہا ہو گیا۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہماری وجہ سے ہی اسے قید سے بچا لیا ورنہ خواہ وہ خود کیسا ہی آدمی تھا ہمارے مخالف یہی کہتے رہے کہ ان کا ایک چچا زاد بھائی جیل خانہ میں رہ چکا ہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کی سیالکوٹ کی ملازمت 1864ء 1868 کا واقعہ ہے۔ (سیرۃ المہدی روایت نمبر49جلد اول صفحہ 38طبع چہارم)

’’ بیان کیا حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کسی سفر میں تھے ، سٹیشن پر پہنچے تو ابھی گاڑی آنے میں دیر تھی۔ آپ بیوی کے ساتھ ٹہلنے لگے۔ یہ دیکھ کر مولوی عبدالکریم صاحب جن کی طبیعت غیور اور جوشیلی تھی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بہت لوگ اور پھر غیر، ادھر ادھر پھرتے ہیں آپ حضرت صاحب سے عرض کریں کہ بیوی صاحبہ کو کہیں الگ بٹھا دیا جاوے ۔ مولوی صاحب فرماتے تھے کہ میں نے کہا میں تو نہیں کہتا، آپ کہہ کر دیکھ لیں۔ ناچار مولوی عبدالکریم صاحب خود حضرت صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ حضور لوگ بہت ہیں، بیوی صاحبہ کو الگ ایک جگہ بٹھا دیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا: جاؤ جی، میں ایسے پردے کا قائل نہیں ہوں۔ مولوی صاحب فرماتے تھے کہ اس کے بعد مولوی عبدالکریم سر نیچے ڈالے میری طرف آئے، میں نے کہا: مولوی صاحب ! جواب لے آئے۔‘‘ (سیرۃ المہدی جلد اول صفحہ 56 روایت نمبر77طبع چہارم)

محترم قارئین ! آپ نے کذاب داعی نبوت مرزا قادیانی کے کردار کی جھلکیاں قادیانیوں کی اصل کتب کے حوالے سے ملاحظہ کر لیں کہ کس طرح ساری ساری رات غیر محرم عورتوں سے ٹانگیں دبوانا اور تبر ک دینا، لوگوں کو بلیک میل کر کے ان کی بچیوں سے نکاح کی ناکام کوشش کرنا اور کمرے میں غیر محرم عورت کے برہنہ ہو کر غسل کرتے وقت اسے اس بے غیرتی سے منع کرنے کی بجائے خود وہیں بیٹھے رہنا، کس چیز کی عکاسی کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر اپنی بیوی کو ریلوے اسٹیشن پر لے کر بے پردہ ٹہلتے رہنا اور بیوی بھی وہ جسے قادیانی ذریت ام المومنین کہتی ہے، کے ساتھ دیوثیت کا بھر پور مظاہرہ کرنے والا بے غیرت شخص بنی یا ولی تو دور کی بات ہے شریف انسان کہلانے کا بھی حق دار ہو سکتا ہے؟ محترم قارئین ! قادیانی کذاب پرلے درجے کا بے غیرت ہی نہیں بلکہ شرابی بھی تھا اور شراب بھی اعلیٰ درجے کی ولایتی پیا کرتا تھا، جسے ٹانک وائن کہتے ہیں۔ لہٰذا مرزا قادیانی کا مرید خاص حکیم محمد حسین قریشی اپنی کتاب ’’خطوط بنام غلام‘‘ میں مرزا قادیانی کا ایک خط تحریر کرتا ہے جو درج ذیل ہے:

’’محبی اخویم حکیم محمد حسین صاحب سلمہ اﷲ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ۔ میں اس وقت میاں یار محمد بھیجا جاتا ہے۔ آپ اشیاء خریدنی خود خرید دیں اور ایک بوتل ٹانک وائن کی پلوجہ کی دکان سے خرید دیں۔ گھر ٹانک وائن چاہیے۔ اس کا لحاظ رہے۔ باقی خیریت ہے۔
والسلام
مرزا غلام احمد​
(خطوط امام بنام غلام ص 5مجموعہ مکتوبات مرزا غلام احمد قادیانی صاحب )
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
عجائبات مرزا


قادیانی فرشتے

(i)۔ ٹیچی ٹیچی
’’ایک دفعہ مارچ 1905ء کے مہینے میں بوقت قلت آمدنی لنگرخانہ کے مصارف میں بہت دقت ہوئی کیوں کہ کثرت سے مہمانوں کی آمد تھی اور اس کے مقابل پر روپیہ کی آمدنی کم ،اس لیے دعا کی گئی۔ 5مارچ 1905ء کو میں نے دیکھ کہ ایک شخص جو فرشتہ معلوم ہوتا تھا میرے سامنے آیا اور بہت سا روپیہ میرے دامن میں ڈال دیا۔ میں نے اس کا نام پوچھا ،اس نے کہا: نام کچھ نہیں ،میں نے کہا آخر کچھ تو نام ہو گا۔ اس نے کہا : میرا نام ہے : ٹیچی ٹیچی۔ ٹیچی ٹیچی پنجابی زبان میں وقت مقررہ کو کہتے ہیں یعنی عین ضرورت کے وقت پر آنے والا۔ تب میری آنکھ کھل گئی۔ بعد اس کے خدا تعالیٰ کی طرف سے کیا ڈاک کے ذریعے سے اور کیا براہ راست لوگوں کے ہاتھوں سے اس قدر مالی فتوحات ہوئیں جن کا وہم و گمان بھی نہ تھا اور کئی ہزار روپیہ آگیا۔‘‘ (حقیقت الوحی صفحہ 346،مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 346)

(ii)۔ خیراتی اور شیر علی
’’من جملہ نشانات کے ،ایک نشان یہ ہے کہ تخمیناً پچیس برس کے قریب عرصہ گزر گیا ہے کہ میں گورداسپور میں تھا کہ مجھے خواب آئی کہ میں ایک جگہ چارپائی پر بیٹھا ہوں اور اسی چارپائی پر بائیں طرف میرے مولوی عبداﷲ صاحب مرحوم غزنوی بیٹھے ہیں ،جن کی اولاد اب امرتسر میں رہتی ہے۔ اتنے میں میرے دل میں محض خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک تحریک پیدا ہوئی کہ مولوی صاحب موصوف کو چارپائی سے نیچے اتاروں۔ چنانچہ میں نے اپنی جگہ کو چھوڑ کر مولوی صاحب کی جگہ کی طرف رجوع کیا، یعنی جس حصہ چارپائی پر وہ بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے اس حصے میں میں نے بیٹھنا چاہا تب انہوں نے وہ جگہ چھوڑ دی اور وہاں سے کھسک کر پائنتی کی طرف چند انگلی کے فاصلے پر بیٹھے تب پھر میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس جگہ سے بھی ان کو اٹھا دوں ۔ پھر میں ان کیطرف جھکا تو وہ اس جگہ کو بھی چھوڑ کر چند انگلی کی مقدار پر پیچھے ہٹ گئے۔ پھر میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس جگہ سے بھی ان کو اور زیادہ پائنتی کی طرف کیا جائے ۔ تب پھر وہ چند انگلی پائنتی کی طرف کھسک کر ہو بیٹھے۔ القصہ میں ایسا ہی ان کی طرف کھسکتا گیا اور وہ پائنتی کی طرف کھسکتے گئے۔ یہاں تک کہ ان کو آخر کا ر چار پائی پر سے اترنا پڑا اور وہ زمین پر جو محض خاک تھی اور اس پر چٹائی وغیرہ کچھ بھی نہ تھی اتر کر بیٹھ گئے۔
اتنے میں تین فرشتے آسمان سے آئے ۔ ایک کا نام خیراتی تھا ، وہ بھی ان پر زمین پر بیٹھ گئے اور میں چارپائی پر بیٹھا رہا۔۔۔۔۔۔ اور انہی دنوں میں شاید اس رات سے اول یا اس رات کے بعد میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک شخص جو مجھے فرشتہ معلوم ہوتا ہے ،مگر خواب میں محسوس ہوا کہ اس کا نام شیر علی ہے، اس نے مجھے ایک جگہ لٹا کر میری آنکھیں نکال لی ہیں اور صاف کی ہیں۔ (تریاق القلوب صفحہ 224-225 ،مندرجہ روحانی خزائن جلد15صفحہ 352-351)

(iii)۔ آئل
جَآئَ نِیْ آئِلٌ وَاخْتَارَ وَاَدَارَ اِصْبَعَہُ وَاَشَارَ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنَ الْعِدَا وََیَسْطُوْا بِکُلِّ مَنْ سَطَا۔ آئل جبرائیل ہے فرشتہ بشارت دینے والا۔
ترجمہ: آیا میرے پاس آئل اور اس نے اختیار کیا(یعنی چن لیا تجھ کو) اور گھمایا اس نے اپنی انگلی کو اور اشارہ کیا کہ خدا تجھے دشمنوں سے بچاوے گا اور ٹوٹ کر پڑے گا اس شخص پر جو تجھ پر اچھلا۔ فرمایا آئل اصل میں ایالت سے ہے۔ یعنی اصلاح کرنے والا جو مظلوم کو ظالم سے بچاتا ہے ۔ یہاں جبرائیل نہیں کہا آئل کہا اس لفظ کی حکمت یہی ہے کہ وہ دلالت کرے کہ مظلوم کو ظالموں سے بچاوے اس لیے فرشتہ کا نام ہی آئل رکھ دیا۔ پھر اس نے انگلی ہلائی کہ چاروں طرف کے دشمن اور اشارہ کیا کہ یعصمک اﷲ من العداء وغیرہ۔
یہ بھی اس سے پہلے الہام سے ملتا ہے : اِنَّہُ کَرِیْمٌ تَمَشّٰی اَمَامَک َوَعَادٰی وہ کریم ہے تیرے آگے آگے چلتا ہے جس نے تیری عداوت کی اس نے اس کی عداوت کی ۔ چونکہ آئل کا لفظ لغت میں نہ مل سکتا ہو گا یا زبان میں کم مستعمل ہوتا ہو گا اس لیے الہام نے خود ہی اس کی تفصیل کر دی ہے۔‘‘ (بحوالہ تذکرہ صفحہ369طبع چہارم )

(iv)۔ درشنی
’’ایک فرشتہ کو میں نے 20برس کے نوجوان کی شکل میں دیکھا ، صورت اس کی مثل انگریزوں کے تھی اور میز کرسی لگائے ہوئے بیٹھا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ بہت ہی خوب صورت ہیں۔ اس نے کہا: ہاں میں درشنی آدمی ہوں۔‘‘ (ملفوظات مرزا قادیانی جلد چہارم صفحہ 69)

(v)حفیظ
صوفی نبی بخش صاحب لاہوری نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا:
’’ بڑے مرزا صاحب پر ایک مقدمہ تھا۔ میں نے دعا کی تو ایک فرشتہ مجھے خواب میں ملا جو چھوٹے لڑکے کی شکل میں تھا۔ میں نے پوچھا تمھارا کیا نام ہے۔ وہ کہنے لگا ، میرا نام حفیظ ہے۔ پھر وہ مقدمہ رفع دفع ہو گیا۔‘‘ (تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ 643طبع چہارم)

(vi)۔ مٹھن لال
’’فرمایا : نصف رات سے فجر تک مولوی عبدالکریم کے لیے دعا کی گئی ۔ صبح (کی نماز) کے بعد جب سویا تو یہ خواب آئی۔۔۔۔۔۔میں نے دیکھا کہ عبداﷲ سنوری میرے پاس آیا ہے اور وہ ایک کاغذ پیش کر کے کہتا ہے کہ اس کاغذ پر میں نے حاکم سے دستخط کرانا ہے اور جلدی جانا ہے ۔ میری عورت سخت بیمار ہے اور کوئی مجھے پوچھتا نہیں۔ دستخط نہیں ہوتے۔ اس وقت میں نے عبداﷲ کے چہرے کی طرف دیکھا تو زرد رنگ اور سخت گھبراہٹ اس کے چہرہ پر ٹپک رہی ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ یہ لوگ روکھے ہوتے ہیں ،نہ کسی کی سفارش مانیں اور نہ کسی کی شفاعت میں تیرا کاغذ لے جاتا ہوں۔ آگے جب کاغذ لے کر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص مٹھن لال نام جو کسی زمانہ میں بٹالہ میں اکسٹرا اسسٹنٹ تھا، کرسی پر بیٹھا ہوا کچھ کام کر رہا ہے اور گرد اس کے عملہ کے لوگ ہیں ۔ میں نے جا کر کاغذ اس کو دیا ور کہا کہ یہ ایک میرا دوست ہے اور پرانا دوست ہے اور واقف ہے۔ اس پر دستخط کر دو۔ اس نے بلا تامل اسی وقت لے کر دستخط کر دیے۔ پھر میں نے واپس آ کر وہ کاغذ ایک شخص کو دیا اور کہا خبردار ہوش سے پکڑو ابھی دستخط کیے گئے ہیں اور پوچھا کہ عبداﷲ کہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہیں باہر گیا ہے۔ بعد اس کے آنکھ کھل گئی اور ساتھ پھر غنودگی کی حالت ہو گئی۔ تب میں نے دیکھا کہ اس وقت میں کہتا ہوں، مقبول کو بلاؤ اس کے کاغذ پر دستخط ہو گئے ہیں۔‘‘
یہ جو مٹھن لال دیکھا گیا ہے ملائک طرح طرح کے تمثیلات اختیار کر لیا کرتے ہیں۔ مٹھن لال سے مراد ایک فرشتہ تھا۔‘‘
(تذکرہ طبع چہارم صفحہ 474-473 از مرزا قادیانی)

جو چاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے

(الف)۔نبی آخر الزمان جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کی اولاد مبارکہ میں تمام مؤرخین اور محدثین متفق ہیں کہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کے تین بیٹے قاسم، عبداﷲ ،ابراہیم اور چار بیٹیاں : فاطمہ، زینب ، رقیہ ، ام کلثوم، رضوان اﷲ علیہم اجمعین ہیں۔ فقط شیعہ حضرات اس بات سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نبی کریم علیہ السلام کی فقط ایک ہی بیٹی ہے جو فاطمہ رضی اﷲ عنہا ہے اور باقی بیٹیوں کو سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے پہلے خاوند سے شمار کرتے ہیں لیکن ان کی یہ بات اس لیے غلط قرار پاتی ہے کہ قرآن مقدس میں نبی کریم علیہ السلام کی بیٹیوں کے لیے لفظ بنات آیا ہے جو کہ بنت کی جمع ہے یعنی ایک سے زیادہ بیٹیاں ‘جہاں تک پہلے خاوند کی بیٹیوں کا تعلق ہے تو اس کے لیے ربائب کا لفظ آیا ہے۔ اس کے لیے ملاحظہ کریں سورۃ النساء آیت نمبر23۔
اب آتے ہیں مرزا قادیانی کی طرف کہ وہ اولاد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں کیا کہتا ہے ملاحظہ ہو۔
-1 ’’تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کے گھر میں گیارہ لڑکے پیدا ہوئے تھے اور سب کے سب فوت ہو گئے تھے۔‘‘(چشمہ معرفت صفحہ 286 مندرجہ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 299 از مرزا قادیانی)
-2 ’’دیکھو ہمارے پیغمبر کے ہاں 12لڑکیاں ہوئیں۔ آپ نے کبھی نہیں کہا کہ لڑکا کیوں نہ ہوا۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 372 طبع جدید از مرزا قادیانی)

(ب) محترم قارئین! ساری دنیا جانتی ہے کہ اسلامی سال کا آغاز ماہ محرم سے ہوتا ہے اور صفر ہجری سال کا دوسرا مہینہ ہے لیکن مرزا قادیانی اس کے برعکس لکھتا ہے کہ:
’’اور جیسا کہ وہ چوتھا لڑکا تھا اسی مناسبت کے لحاظ سے اس نے اسلامی مہینوں میں سے چوتھا مہینہ لیا یعنی ماہ صفر اور ہفتہ کے دنوں میں سے چوتھا دن لیا یعنی چار شنبہ اور دن کے گھنٹوں میں سے دوپہر کے بعد چوتھا گھنٹہ لیا۔‘‘(تریاق القلوب صفحہ 41 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15صفحہ 218از مرزا قادیانی)
محترم قارئین! اسلامی ہفتے کا آغاز جمعہ سے ہوتا ہے اسی مناسبت سے چہار شنبہ ہفتہ کا پانچواں دن بنتا ہے، جس کی وضاحت اس چاٹ سے ہوتی ہے۔

-1شنبہ،-2 یک شنبہ-3 دوشنبہ-4سہ شنبہ-5 چہارشنبہ-6 پنج شنبہ-7جمعہ

جبکہ مرزا قادیانی چار شنبہ کو چوتھا دن شمار کر رہا ہے کیوں نہ کرے ۔اس کے آقائوں(عیسائیوں)کے کیلنڈر میں ہفتے کے دنوں کا آغاز شنبہ(ہفتہ)کی بجائے یک شنبہ (اتوار) سے ہوتا ہے۔ اور عیسائی کیلنڈر کے مطابق ہی چار شنبہ ہفتے کا چوتھا دن بنتا ہے۔
محترم قارئین !اب مرزا قادیانی کی زندگی کے کچھ ایسے واقعات کا ذکر کرتا ہوں جنہیں قادیانی ذریت اپنے خود ساختہ جعلی نبی کی سادگی سے تعبیر کرتے ہیں لیکن کوئی بھی با شعور شخص ان واقعات سے مرزا قادیانی کی ذہنی اپروچ اور دماغی خلل کا اندازہ لگا سکتا ہے ۔ چنانچہ مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد رقم طراز ہے کہ
’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) اپنی جسمانی عادات میں ایسے سادہ تھے کہ بعض دفعہ جب حضور جراب پہنتے تھے تو بے توجہی کے عالم میں اس کی ایڑی پاؤں کے تلے کی طرف نہیں بلکہ اوپر کی طرف ہو جاتی تھی اور بارہا ایک کاج کا بٹن دوسرے کاج میں لگا ہوتا تھا۔ اور بعض اوقات کوئی دوست حضور کے لیے گرگابی ہدیۃً لاتا تو آپ بسا اوقات دایاں پاؤں بائیں میں ڈال لیتے تھے اور بایاں دائیں میں۔ چنانچہ اسی تکلیف کی وجہ سے آپ دیسی جوتی پہنتے تھے۔ اسی طرح کھانا کھانے کا یہ حال تھا کہ خود فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں تو اس وقت پتہ لگتا ہے کہ کیا کھا رہے ہیں کہ جب کھاتے کھاتے کوئی کنکر وغیرہ کا ریزہ دانت کے نیچے آ جاتا ہے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ344روایت نمبر378طبع چہارم )
’’ایک دفعہ کوئی شخص آپ کے لیے گرگابی لے آیا۔ آپ نے پہن لی مگر اس کے الٹے سیدھے پاؤں کا آپ کو پتہ نہیں لگتا تھا۔ کئی دفعہ الٹی پہن لیتے تھے اور پھر تکلیف ہوتی تھی بعض دفعہ آپ کا الٹا پاؤں پڑ جاتا تو تنگ ہو کر فرماتے ان کی کوئی چیز بھی اچھی نہیں ہے والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں نے آپ کی سہولت کے واسطے الٹے سیدھے پاؤں کی شناخت کے لئے نشان لگا دیے تھے مگر باوجود اس کے آپ الٹا سیدھا پہن لیتے تھے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ60روایت نمبر83طبع چہارم)
محترم قارئین !مرزا بشیر احمد نے مرزا قادیانی کے حالات زندگی پر مشتمل اپنے حقیقی ماموں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل کا ایک مضمون اپنی کتاب سیرت المہدی میں روایت نمبر447کے تحت درج کیا ہے۔ اس مضمون کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے مرزا بشیر احمد رقم طراز ہے کہ
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب جو ہمارے حقیقی ماموں ہیں ان کا ایک مضمون الحق دہلی مورخہ۲۶/۱۹جون۱۹۱۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شمائل کے متعلق شائع ہوا تھا یہ مضمون حضرت صاحب کے شمائل میں ایک بہت عمدہ مضمون ہے اور میر صاحب موصوف کے بیس سالہ ذاتی مشاہدہ اور تجربہ پر مبنی ہے ۔ لہٰذا درج ذیل کیا جاتا ہے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ409روایت نمبر 447طبع چہارم)
محترم قارئین !آپ بھی اس مضمون کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں قادیانی ذریت کی عقلمندی کی داد دیں کہ انہوں کیسی شاندار شخصیت نبوت کے لیے پسند کی ہے ۔لہٰذا اب اس مضمون کے اقتباسات درج کیے جاتے ہیں۔
’’بارہا دیکھا گیا کہ بٹن اپنا کاج چھوڑ کر دوسرے ہی میں لگے ہوئے ہوتے تھے بلکہ صدری کے بٹن کاجوں میں لگائے ہوئے دیکھے گئے ۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ417روایت نمبر447طبع چہارم)
’’بعض اوقات زیادہ سردی میں دو جرابیں اوپر تلے چڑھا لیتے ۔مگر بارہا جراب اس طرح پہن لیتے کہ وہ پیر پر ٹھیک نہ چڑھتی کبھی تو سرا آگے لٹکتا رہتا اور کبھی جراب کی ایڑی کی جگہ پیرکی پشت پر آ جاتی ۔کبھی ایک جراب سیدھی دوسری اُلٹی۔‘‘(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ418روایت نمبر 447طبع چہارم)
’’کپڑوں کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ کوٹ‘ صدری‘ ٹوپی‘ عمامہ رات کو اتار کر تکیہ کے نیچے ہی رکھ لیتے اور رات بھر تمام کپڑے جنہیں محتاط لوگ شکن اور میل سے بچانے کو الگ جگہ کھونٹی پر ٹانک دیتے ہیں۔ وہ بستر پر سر اور جسم کے نیچے ملے جاتے اور صبح کو ان کی ایسی حالت ہو جاتی کہ اگر کوئی فیشن کا دلدادہ اور سلوٹ کا دشمن ان کو دیکھ لے تو سر پیٹ لے۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کے پاس کچھ کنجیاں بھی رہتی تھیں یہ بات و رومال میں یا اکثر ازاربند میں باندھ کر رکھتے تھے۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ419روایت نمبر 447طبع چہارم)
محترم قارئین !مرزا بشیر احمد ایک اور مقام پر رقم طراز ہے کہ
’’ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاجاموں میں میں نے اکثر ریشمی ازار بند پڑا ہوا دیکھا ہے اور ازاربند میں کنجیوں کا گچھا بندھا ہوتا تھا۔ ریشمی ازاربند کے متعلق بعض اوقات فرماتے تھے کہ ہمیں پیشاب کثرت سے اور جلدی جلدی آتا ہے تو ایسے ازاربند کے کھولنے میں بہت آسانی ہوتی ہے۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ614روایت نمبر652طبع چہارم)
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ آپ معمولی نقدی وغیرہ اپنے رومال میں جو بڑے سائز کا ململ کا بنا ہوا ہوتا تھا باندھ لیا کرتے تھے اور رومال کا دوسرا کنارہ واسکٹ کے ساتھ سلوا لیتے تھے یا کاج میں بندھوا لیتے تھے ۔اور چابیاں ازاربند سے باندھتے تھے جو بوجھ سے بعض اوقات لٹک آتا تھا ۔اور والدہ صاحبہ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود عموماً ریشمی ازاربند استعمال فرماتے تھے کیونکہ آپ کو پیشاب جلدی جلدی آتا تھا اس لیے ریشمی ازاربند رکھتے تھے تاکہ کھلنے میں آسانی ہو اور گرہ بھی پڑ جاوے تو کھولنے میں دقت نہ ہو۔ سوتی ازاربند میں آپ سے بعض دفعہ گرہ پڑ جاتی تھی تو آپ کوبڑی تکلیف ہوتی تھی۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ49روایت نمبر65طبع چہارم)
’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے حضرت مسیح موعود۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔کھانا کھاتے ہوئے روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتے جاتے تھے کچھ کھاتے تھے کچھ چھوڑ دیتے تھے ۔کھانے کے بعد آپ کے سامنے سے بہت سے ریزے اُٹھتے تھے۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ45روایت نمبر56طبع چہارم)
محترم قارئین !یہ تو تھے مرزا قادیانی کے کھانے اور لباس پہننے کے انداز و اطوار اب اس کی زندگی کے مزید نادر نمونے بھی ملاحظہ فرمائیں چنانچہ معراج دین عمر قادیانی رقم طراز ہے کہ
’’آپ کے ایک بچے نے آپ کی واسکٹ کی جیب میں ایک بڑی اینٹ ڈال دی۔ آپ جب لیٹتے تو وہ اینٹ چبھتی کئی دن ایسا ہوتا رہا۔ ایک دن کہنے لگے کہ میری پسلی میں درد ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز چبھتی ہے۔ وہ حیران ہوا اور آپ کے جسد مبارک پر ہاتھ پھیرنے لگا اس کا ہاتھ اینٹ پر جا لگا۔ جھٹ جیب سے نکال لی ۔دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا کہ چند روز ہوئے محمود نے میری جیب میں ڈالی تھی اور کہا تھا کہ اسے نکالنا نہیں میں اس سے کھیلوں گا۔‘‘ (مسیح موعود کے مختصر حالات ملحقہ براہین احمدیہ صفحہ53طبع چہارم مرتبہ معراج دین عمر قادیانی)
’’آپ کو شیرینی سے بہت پیار تھا اور مرض بول بھی عرصہ سے آپ کو لگی ہوئی تھی ۔ اس زمانہ میں آپ مٹی کے ڈھیلے بعض وقت جیب میں ہی رکھتے تھے۔ اور اسی جیب میں گڑکے ڈھیلے بھی رکھ لیا کرتے تھے۔‘‘ (مسیح موعود کے مختصر حالات ملحقہ براہین احمدیہ صفحہ 67 طبع چہارم مرتبہ معراج دین عمر قادیانی)

مرزا قادیانی کا کلمہ

مرزا بشیر احمد رقم طراز ہے کہ
’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کا ایک کلمہ ہوتا ہے۔ مرزا کا کلمہ یہ ہے ’’میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ824روایت نمبر974طبع چہارم)

تیمم

مرزا بشیر احمد اپنی کتاب سیرت المہدی میں لکھتا ہے کہ
’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اگر تیمم کرنا ہوتا تو بسا اوقات تکیہ یا لحاف پرہی ہاتھ مار کر تیمم کر لیا کرتے تھے ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ تکیہ یا لحاف میں سے جو گرد نکلتی ہے وہ تیمم کی غرض سے کافی ہوتی ہے ۔لیکن اگر کوئی تکیہ یا لحاف بالکل نیا ہو اور اس میں کوئی گردنہ ہو تو پھر اس سے تیمم جائز ہو گا۔‘‘(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ774‘775روایت نمبر878طبع چہارم)

نماز میں فارسی نظم

’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ گرمیوں میں مسجد مبارک میں مغرب کی نماز پیر سراج الحق صاحب نے پڑھائی۔ حضور علیہ السلام بھی اس نماز میں شامل تھے۔ تیسری رکعت میں رکوع کے بعد انہوں نے بجائے مشہور دعاؤں کے حضور کی ایک فارسی نظم پڑھی۔ جس کا یہ مصرع ہے
’’اے خدا! اے چارئہ آزارِما‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ فارسی نظم نہایت اعلیٰ درجہ کی مناجات ہے جو روحانیت سے پر ہے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ644روایت نمبر707طبع چہارم)

قادیانی خشوع و خضوع

محترم قارئین! قادیانی سلطان القلم سورہ المؤمنون کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کس طرح بازاری زبان استعمال کرتا ہے۔ ملاحظہ کریں
’’یاد رکھنا چاہیے کہ نماز اور یاد الٰہی میں جو کبھی انسان کو حالت خشوع میسر آتی ہے اور وجد اور ذوق پیدا ہو جاتا ہے یا لذت محسوس ہوتی ہے یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس انسان کو رحیم خدا سے حقیقی تعلق ہے جیسا کہ اگر نطفہ اندام نہانی کے اندر داخل ہو جائے اور لذت بھی محسوس ہو تو اس سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ اس نطفہ کو رحم سے تعلق ہو گیا ہے، بلکہ تعلق کے لیے علیحدہ آثار اور علامات ہیں۔ پس یاد الٰہی میں ذوق و شوق جس کو دوسرے لفظوں میں حالت خشوع کہتے ہیں نطفہ کی اسی حالت سے مشابہ ہے جب وہ ایک صورت انزال پکڑ کر اندام نہانی کے اندر گر جاتا ہے۔‘‘(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 192 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 192)
’’جیسا کہ نطفہ کبھی حرام کاری کے طور پر کسی رنڈی کے اندام نہانی میں پڑتا ہے تو اس سے بھی وہی لذت ، نطفہ ڈالنے والے کو حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اپنی بیوی کے ساتھ ۔ایسا ہی بت پرستوں اور مخلوق پرستوں کا خشوع و خضوع اور حالت ذوق و شوق ، رنڈی بازوں سے مشابہ ہے۔ یعنی خشوع اور خضوع مشرکوں اور ان لوگوں کو جو محض اغراض دنیویہ کی بنا پر خدا تعالیٰ کو یا د کرتے ہیں اس نطفہ سے مشابہت رکھتا ہے جو حرامکار عورتوں کے اندام نہانی میں جا کر باعث لذت ہوتا ہے۔ بہرحال جیسا کہ نطفہ میں تعلق پکڑنے کی استعداد ہے مگر صرف حالت خشوع اور رقت اور سوز اس بات پر دلیل نہیں ہے کہ وہ تعلق بھی ہو گیا ہے جیسا کہ نطفہ کی صورت میں جو اس روحانی صورت کے مقابل پر ہی مشاہدہ ظاہر کر رہا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے صحبت کرے اور منی عورت کے اندام نہانی میں داخل ہو جائے اور اس کو اس فعل سے کمال لذت حاصل ہو تو یہ لذت اس بات پر دلالت نہیں کرے گی کہ حمل ضرور ہو گیا ہے۔ پس ایسا خشوع اور سوز و گداز کی حالت گو وہ کیسی ہی لذت اور سرور کے ساتھ ہو خدا سے تعلق پکڑنے کے لیے لازمی علامت نہیں ہے۔(ضمیمہ براہین احمدیہ صفحہ 193 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 193)
’’ اور پھر ایک مشابہت خشوع اور نطفہ میں ہے اور وہ یہ کہ جب ایک شخص کا نطفہ اس کی بیوی یا کسی اور عورت کے اندر داخل ہوتا ہے تو اس نطفہ کا اندام نہانی کے اندر داخل ہونا اور انزال کی صورت پکڑ کر رواں ہو جانا بعینہٖ رونے کی صورت پر ہوتا ہے۔ جیسا کہ خشوع کی حالت کا نتیجہ بھی رونا ہی ہوتا ہے اور جیسے بے اختیار نطفہ اچھل کر صورت انزال اختیار کرتا ہے۔ یہی صورت کمال خشوع کے وقت رونے سے ہوتی ہے کہ رونا آنکھوں سے اچھلتا ہے اور جیسی انزال کی لذت کبھی حلال طور پر ہوتی ہے جب کہ اپنی بیوی سے انسان صحبت کرتا ہے ۔ یہی صورت خشوع اور سوز و گداز اور گریہ زاری کی ہے یعنی کبھی خشوع اور سوز و گداز محض خدائے واحد ولا شریک کے لیے ہوتا ہے، جس کے ساتھ کسی بدعت اور شرک کا رنگ نہیں ہوتا۔ یہی وہ لذت سوز و گداز کی ایک لذت حلال ہوتی ہے مگر کبھی خشوع اور سوز و گداز اور اس کی لذت بدعات کی آمیزش سے یا مخلوق کی پرستش اور بتوں اور دیویوں کی پوجا میں بھی حاصل ہوتی ہے۔ مگر وہ حرام کاری میں جماع سے مشابہ ہوتی ہے۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ ،حصہ پنجم صفحہ 196 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 196)

لیلۃ القدر

محترم قارئین ! اﷲ رب العزت قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِO وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِO لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ
ترجمہ: ہم نے اس (قرآن مجید)کو شب قدر میں نازل کیا اور تمھیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ (سورۃ القدر آیت3-1)
محترم قارئین! شب قدر کے حوالہ سے نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اسے ماہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ اور ان راتوں میں نبی کریم علیہ السلام نے یہ دعا بہ کثرت پڑھنے کی ترغیب دی ہے: اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّتُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ× یعنی اے اﷲ ! بے شک تو معافی کو پسند کرتا ہے، پس تو مجھے معاف کر دے۔
مرزا قادیانی اس اسلامی عقیدے کی نفی کرتے ہوئے لیلۃ القدر کا ایک نیا مفہوم ایجاد کرتے ہوئے رقم طراز ہے:
’’لیلۃ القدر اس ظلمانی زمانہ کا نام ہے جس کی ظلمت کمال کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ اس لیے وہ زمانہ بالطبع تقاضا کرتا ہے کہ ایک نور نازل ہو جو اس ظلمت کو دور کر ے ۔ اس زمانہ کا نام بطور استعارہ کے لیلۃ القدر رکھا گیا ہے۔ مگر درحقیقت یہ ایک رات نہیں ہے ،یہ ایک زمانہ ہے جو بوجہ ظلمت رات کا ہم رنگ ہے ۔‘‘(فتح اسلام صفحہ 32مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 32)

قادیانی عقیدہ تثلیث

مرزا قادیانی اپنے عقیدہ تثلیث کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہے کہ:
’’اگر یہ استفسار ہو کہ جس خاصیت اور قوت روحانی میں یہ عاجز اور مسیح ابن مریم مشابہت رکھتے ہیں وہ کیا شے ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ایک مجموعی خاصیت ہے جو ہم دونوں کے روحانی قویٰ میں ایک خاص طور پر رکھی گئی ہے جس کے سلسلہ کی ایک طرف نیچے کو اور ایک طرف اوپر کو جاتی ہے ۔ نیچے کی طرف سے مراد وہ اعلیٰ درجہ کی دلسوزی اور غم خوار خلق اﷲ ہے جو داعی الی اﷲ کے نفس پاک میں موجود ہے۔ ان تمام سر سبز شاخوں میں پھیلاتی ہے۔ اوپر کی طرف سے مراد وہ اعلیٰ درجہ کی محبت قوی ایمان سے ملی ہوئی ہے جو اول بندہ کے دل میں با ارادہ الٰہی پیدا ہو کر رب قدیر کی محبت کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور پھر ان دونوں محبتوں کے ملنے سے جو درحقیقت ندا اور مادہ کا حکم رکھتی ہیں، اور ایک شدید مواصلت خالق اور مخلوق میں پیدا ہو کر الٰہی محبت کے چمکنے والی آگ سے جو مخلوق کی ہیزم مثال محبت کو پکڑ لیتی ہے ،ایک تیسری چیز پیدا ہو جاتی ہے جس کا نام روح القدس ہے ۔ سو اس درجہ کے انسان کی روحانی پیدائش اس وقت سمجھی جاتی ہے جب کہ خدا تعالیٰ اپنے ارادہ خاص سے اس میں اس طور کی محبت پیدا کر دیتا ہے اور اس مقام اور اس مرتبہ کی محبت میں بطور استعارہ یہ کہنا بجا نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت سے بھری ہوئی روح اس انسانی روح کو جو بار گاہ الٰہی اب محبت سے بھر گئی ہے ، ایک نیا تولد بخشتی ہے۔ اسی وجہ سے اس محبت کی بھری ہوئی روح کو خدا تعالیٰ کی روح سے جو نافخ المحبت سے استعارہ کے طور پر ابنیت کا علاقہ ہوتا ہے اور چوں کہ روح القدس ان دونوں کے ملنے سے انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان دونوں کے لیے بطور ابن ہے اور یہی پاک تثلیث ہے جو اس درجہ محبت کے لیے ضروری ہے جس کو ناپاک طبیعتوں نے مشرکانہ طور پر سمجھ لیا ہے۔‘‘(توضیح مرام صفحہ 14-13 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 61‘62از مرزا قادیانی)

قادیانی الہامی حمل

محترم قارئین ! اگر مرزا قادیانی اور اس کی ذریت کی تحریروں کو ملاحظہ کریں تو انسان اس شش و پنج میں پڑ جاتا ہے کہ مرزا قادیانی مرد تھا یا عورت یا پھر اس کا تعلق مخنثوں سے تھا۔ آئیے ذرا اس حوالے سے مرزا قادیانی اور اس کی ذریت کی عجیب و غریب تحریروں کو ملاحظہ فرمائیں۔ چنانچہ مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ
’’درحقیقت میرے اور میرے خدا کے درمیان ایسے باریک راز ہیں جن کو دنیا نہیں جانتی اور مجھے خدا سے ایک نہانی تعلق ہے جو ناقابل بیان ہے۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 63 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 81)
مرزا قادیانی کا مرید خاص قاضی یار محمد قادیانی اپنی کتاب ’’اسلامی قربانی ٹریکٹ نمبر34 پر اس تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہے کہ
’’حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) نے ایک موقع پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی ہے کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا تھا۔ سمجھنے والے کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔‘‘(اسلامی قربانی صفحہ 12از قاضی یار محمد قادیانی)
محترم قارئین ! مرزا قادیانی ایک اور مقام پر رقم طراز ہے کہ:
’’اس نے براہین احمدیہ کے تیسرے حصہ میں میرا نام مریم رکھا ہے، پھر جیسا کہ براہین احمدیہ سے ظاہر ہے دو برس تک صفت مریمیت میں ،میں نے پرورش پائی اور پردہ میں نشوونما پاتا رہا۔ پھر جب اس پر دو برس گزر گئے تو جیسا کہ براہین احمدیہ کے حصہ چہارم صفحہ 496 میں درج ہے مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینہ کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براہین احمدیہ کے حصہ چہارم ص 556میں درج ہے:’’مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا ، پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا۔‘‘ (کشتی نوح صفحہ 47 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19صفحہ 50)
محترم قارئین ! جب مرزا قادیانی نے اپنے آپ کو الہامی طور پر عورت کے روپ میں پیش کیا تو بعض لوگوں نے مرزا قادیانی پر یہ اعتراض کیا کہ کیا تمھیں حیض بھی آتا ہے تو ایسے ہی ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ :
’’اسی طرح میری کتاب اربعین نمبر4صفحہ 19میں بابو الٰہی بخش صاحب کی نسبت یہ الہام ہے ،یعنی بابو الٰہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے یا کسی پلیدی اور ناپاکی پر اطلاع پائے مگر خدا تعالیٰ تجھے اپنے انعامات دکھلائے گا جو متواتر ہوں گے اور تجھ میں حیض نہیں بلکہ وہ بچہ ہو گیا ہے۔ ایسا بچہ جو بمنزلہ اطفال اﷲ ہے۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی صفحہ 143، مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 581)
محترم قارئین! مزید قابلِ غور بات یہ ہے کہ مرزا قادیانی نے اپنے حمل کی مدت دس ماہ بیان کی ہے جبکہ طبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عورت کی مدت حمل زیادہ سے زیادہ نو ماہ ہوتی ہے جبکہ بھینس کی مدت حمل دس ماہ ہوتی ہے اب قادیانیوں کو اپنے خود ساختہ نبی کی جنس کے بارے میں بھی غور کرنا ہو گا کہ وہ مرد تھا یا کہ عورت ‘انسان تھا یا کہ حیوان؟
مزید ملاحظہ فرمائیے کہ مرزا قادیانی الہامی حمل کے ساتھ ساتھ کس طرح دردزِہ کا تذکرہ کرتا ہے چنانچہ مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ
’’خدا نے مجھے پہلے مریم کا خطاب دیا اور پھر نفخ روح کا الہام کیا۔ پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا تھا۔ فاجاء ھاالمخاض الٰی جزع النخلۃ قالت یالیتنی مت قبل ھذاوکنت نسیامنسیّا۔ یعنی پھر مریم کو جو مراد اس عاجز سے ہے دردزِہ تنہ کھجور کی طرف لے آئی۔‘‘(کشتی نوح صفحہ48مندرجہ روحانی خزائن جلد19صفحہ51)

مرشد اور مرید کا تعلق
مرشد اور مرید کے درمیان تعلق کا تذکرہ کرتے ہوئے مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ
’’ایسا ہی قرآن کریم اور حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ مرشد کے ساتھ مرید کا تعلق ایسا ہونا چاہیے‘ جیسا عورت کا تعلق مرد سے ہو۔‘‘
کیا کوئی قادیانی بتا سکتا ہے کہ قرآن مقدس میں کون سی آیت مبارکہ میں اس تعلق کی تفصیل موجود ہے۔ نیز مرشد اور مرید میں سے مرد کا کردار کون ادا کرے گا اور عورت کا کون؟

دن میں سو مرتبہ پیشاب

قارئین محترم! مرزا قادیانی ساری زندگی مختلف بیماریوں میں مبتلا رہا۔ انہی بیماریوں میں سے ایک بیماری دن میں سو مرتبہ پیشاب کرنا بھی تھی جس کا تذکرہ کرتے ہوئے مرزا قادیانی خود رقم طراز ہے کہ
’’مجھے کئی سال سے ذیابیطس کی بیماری ہے۔ پندرہ بیس مرتبہ روز پیشاب آتا ہے ۔اور بعض وقت سوسو دفعہ ایک ایک دن میں پیشاب آیا ہے۔ اور بوجہ اس کے کہ پیشاب میں شکر ہے‘ کبھی کبھی خارش کا عارضہ بھی ہو جاتا ہے اور کثرت پیشاب سے بہت ضعف تک نوبت پہنچتی ہے۔ ایک دفعہ مجھے ایک دوست نے یہ صلاح دی کہ ذیابیطس کے لیے افیون مفید ہوتی ہے ۔پس علاج کی غرض سے مضائقہ نہیں کہ افیون شروع کر دی جائے ۔میں نے جواب دیا کہ یہ آپ نے بڑی مہربانی کی کہ ہمدردی فرمائی لیکن اگر میں ذیابیطس کے لیے افیون کھانے کی عادت کر لوں تو میں ڈرتا ہوں کہ لوگ ٹھٹھا کر کے یہ نہ کہیں کہ پہلا مسیح تو شرابی تھا اور دوسرا افیونی۔‘‘(نسیم دعوت صفحہ74‘75مندرجہ روحانی خزائن جلد19صفحہ434‘435)
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی کا عبرت ناک انجام


محترم قارئین !مرزا قادیانی نے 1991ء میں ’’فتح اسلام‘‘ نامی رسالہ شائع کیا جس میں اس نے اپنے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا توا س سے اہل اسلام میں ایک عام شور برپا ہو گیا۔ اس شور کو مٹانے اور اس دعویٰ کی توضیح کے لیے اس نے ایک رسالہ ’’توضیح مرام ‘‘ مشتہر کیا تو اس نے شور کی آگ کو اور بھی تیز کر دیا اور خوب بھڑکایا کیوں کہ فتح اسلام میں تو اس نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا ، توضیح مرام میں اپنے نبی ہونے کا بھی دعویٰ کر دیا اور علاوہ برآں بہت سے ایسے عقائد کا اظہار بھی کیا جو نہ صرف اسلامی عقائد کے مکمل طور پر مخالف تھے بلکہ وہ عقائد نیچریہ ، فلاسفہ ، ہنود اور یہود و نصاریٰ کے عقائد کے عین مطابق و موافق بھی تھے۔
اس رسالہ کی اشاعت سے مرزا قادیانی کے خلاف نفرت بڑھی تو اس کے ازالے کے لیے اس نے ایک اور رسالہ ’’ازالہ اوہام‘‘ شائع کیا جس سے مرزا قادیانی کے مزید کفریہ عقائد کھل کر سامنے آ گئے کیونکہ اس رسالہ میں مرزا قادیانی نے نہ صرف معجزات انبیاء کا واضح انکار کیا بلکہ ملائکہ اور لیلۃ القدر کی بھی عجیب و غریب تعریف بیان کی ۔ ایسے ہی کفریہ عقائد کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے پہلے جماعت اہل حدیث کے سرخیل مولانا محمد حسین بٹالوی رحمۃ اﷲ علیہ نے ایک استفتاء تیار کیا جو انھوں نے اپنے استاد محترم سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں پیش کیا تو انھوں نے اس استفتاء کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے مرزا قادیانی اور اس کی ذریت کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔ مولانا محمد حسین بٹالوی رحمۃ اﷲ علیہ نے اسی فتویٰ پر برصغیر میں تمام مکاتب فکر کے دو سو سے زائد علما ء کے تائید ی دستخط کروا کر مشتہر کیا ۔ یہی وہ فتویٰ تکفیر ہے جو سب سے پہلے مرزا قادیانی کے خلاف شائع ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ مرزا قادیانی رقم طراز ہے:
’’نذیر حسین دہلوی نے تکفیر کی بنا ڈالی ، محمد حسین بٹالوی نے کفار مکہ کی طرح یہ خدمت اپنے ذمہ لے کر تمام مشاہیر اور غیر مشاہیر سے کفر کے فتوے اس پر لکھوائے۔‘‘ (سراج منیر صفحہ 73، مندرجہ روحانی خزائن جلد 12صفحہ75)
مرزا قادیانی مزید وضاحت کے ساتھ تحفہ گولڑویہ میں رقم طراز ہے کہ
’’مولوی محمد حسین جو اول المکفرین بانی تکفیر کے وہی تھے اور اس آگ کو اپنی شہرت کی وجہ سے تمام ملک میں سلگانے والے میاں نذیر حسین دہلوی تھے۔‘‘(تحفہ گولڑویہ صفحہ 129مندرجہ روحانی خزائن جلد 17صفحہ 215)
ایک اور مقام پر مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ:
’’شیخ محمد حسین صاحب رسالہ اشاعۃ السنۃ جو بانی مبانی تکفیر ہے اور جس کی گردن پر نذیر حسین دہلوی کے بعد تمام مکفروں کے گناہ کا بوجھ ہے۔‘‘(سراج منیر صفحہ 78 مندرجہ روحانی خزائن جلد 12صفحہ 80)
مرزا قادیانی مزید رقم طراز ہے کہ
’’غرض بانی استفتاء بٹالوی صاحب اور اول المکفرین میاں نذیر حسین صاحب ہیں اور باقی سب ان کے پیرو۔‘‘(دافع الوساوس صفحہ 31مندرجہ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 31)

الغرض ان تمام دلائل سے یہ بات پایہ تکمیل تک پہنچتی ہے کہ مرزا قادیانی اور اس کی ذریت کے خلاف سب سے پہلے فتویٰ کفر شائع کرنے اور اس کی بیخ کنی کرنے کی سعادت جماعت اہل حدیث کو حاصل ہوئی ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ مرزا قادیانی کے خلاف علمائے دیوبند اور پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اﷲ علیھم نے بھی اہم کردار ادا کیا لیکن اس کے باوجود یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ مرزا قادیانی کے خلاف تحریک ختم نبوت کا آغاز کرنے والے بھی اہل حدیث ہی تھے اور جن کے ساتھ مباہلے میں مرزا قادیانی عبرتناک انجام سے دوچار ہوا وہ بھی اہل حدیث ہی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مولانا محمد حسین بٹالوی، بشیر شہسوانی، سعد اﷲ لدھیانوی، عبدالحق غزنوی، قاضی سلیمان منصور پوری اور مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمۃ اﷲ علیہم اجمعین نے اس کے باطل دعووں کی بنیا د پر اسے ہر جگہ رگیدا تو تنگ آ کر مرزا قادیانی نے 15اپریل 1907ء کو ایک اشتہار بعنوان ’’مولوی ثناء اﷲ کے ساتھ آخری فیصلہ‘‘ شائع کیا جس میں مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ
’’بخدمت مولوی ثناء اﷲ صاحب ، السلام علیکم علی من اتبع الہدیٰ! مدت سے آپ کے پرچہ اہل حدیث میں میری تکذیب اور تفسیق کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمیشہ مجھے آپ اپنے اس پرچہ میں مردود و کذاب اور دجال مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری اور کذاب اور دجال ہے اور اس شخص کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا سراسر افتراء ہے۔ میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا۔ مگر چوں کہ میں دیکھتا ہوں کہ میں حق کے پھیلانے کے لیے مامور ہوں اور آپ بہت سے افتراء میرے پر کر کے دنیا کو میری طرف آنے سے روکتے ہیں اور مجھے ان گالیوں اور ان تہمتوں اور ان الفاظ سے یاد کرتے ہیں کہ جن سے بڑھ کر کوئی لفظ سخت نہیں ہو سکتا۔ اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہلاک ہو جاؤں گا کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام و ہلاک ہو جاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہوتا ہے، تاکہ خدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے اور اگر میں کذاب اور مفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ سنت اﷲ کے موافق آپ مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے ، جیسے طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئیں تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ۔ یہ کسی الہام یا وحی کی بنیاد پر پیشگوئی نہیں محض دعا کے طور پر کرتا ہوں کہ اے میرے مالک بصیر و قدیر جو علیم و خبیر ہے، جو میرے دل کے حالا ت سے واقف ہے ۔ اگر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افترا ء ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افتراء کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے مالک! میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر دے اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے۔(آمین)
مگر اے میرے کامل اور صادق خدا اگر مولوی ثنا ء اﷲ تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کر ۔ مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون و ہیضہ وغیرہ امراض مہلکہ سے بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے کھلے طور پر میرے روبرو اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بد زبانیوں سے توبہ کرے جن کو فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے ۔ آمین یارب العالمین۔
میں ان کے ہاتھ سے بہت ستایا گیا ہوں اور صبر کرتا رہا مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ان کی بد زبانی حد سے گزر گئی، وہ مجھے ان چوروں اور ڈاکوؤں سے بھی بدتر جانتے ہیں جن کا وجود دنیا کے لیے سخت نقصان رساں ہوتا ہے اور انھوں نے تہمتوں اور بد زبانیوں میں آیت {لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ} پربھی عمل نہیں کیا اور تمام دنیا سے مجھے بدتر سمجھ لیا ا ور دور دور ملکوں تک میری نسبت یہ پھیلا دیا کہ یہ شخص درحقیقت مفسد اور ٹھگ اور دکاندار اور کذاب اور مفتری اور نہایت درجہ کا بد آدمی ہے۔ سو اگر ایسے کلمات حق کے طالبوں پر بد اثر نہ ڈالتے تو میں ان تہمتوں پر صبر کرتا مگر میں دیکھتا ہوں کہ مولوی ثناء اﷲ انہی تہمتوں کے ذریعہ سے میرے سلسلہ کو نابود کرنا چاہتا ہے اور اس عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے جو تو نے اے میرے آقا اور میرے بھیجنے والے اپنے ہاتھ سے بنائی ہے۔ اس لیے اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اﷲ میں سچا فیصلہ فرما اور وہ جو تیری نگاہ میں درحقیقت مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق کی زندگی میں دنیا سے اٹھا لے یا کسی اور نہایت سخت آفت میں جو موت کے برابر ہو مبتلا کر، اے میرے پیارے مالک تو ایسا ہی کر آمین ثم آمین! رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُ الْفَاتِحِیْنَ (مجموعہ اشتہارات جلد 2صفحہ 705طبع چہارم)

محترم قارئین! یہ تو تھا مرزا غلام احمد قادیانی کا وہ اشتہار جس کے نتیجے میں مرزا غلام احمد قادیانی چند ماہ بعد ہی 26مئی 1908ء بروز منگل ہیضہ کے موذی مرض میں مبتلا ہو کر واصل جہنم ہوا۔ مرزا کی موت کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کا بیٹا مرزا بشیر احمد اپنی کتاب ’’سیرۃ المہدی‘‘ جلد اوّل روایت نمبر12 میں رقم طراز ہے:
’’حضرت مسیح موعود کی وفات کا ذکر آیا تو والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کو پہلا دست کھانا کھانے کے وقت آیا تھا مگر اس کے بعد تھوڑی دیر تک ہم لوگ آپ کے پاؤں دباتے رہے اور آپ آرام سے لیٹ کر سو گئے اور میں بھی سو گئی لیکن کچھ دیر کے بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور غالباً ایک یا دو دفعہ رفع حاجت کے لیے آپ پاخانہ تشریف لے گئے۔ اس کے بعد آپ نے زیادہ ضعف محسوس کیا تو اپنے ہاتھ سے مجھے جگایا ،میں اٹھی تو آپ کو اتنا ضعف تھا کہ آپ میری چارپائی پر ہی لیٹ گئے اور میں آپ کے پاؤں دبانے کے لیے بیٹھ گئی ۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا : تم اب سو جاؤ ، میں نے کہا : نہیں، میں دباتی ہوں اتنے میں آپ کو ایک اور دست آیا مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ آپ پاخانہ نہ جا سکتے تھے۔ اس لیے میں نے چار پائی کے پاس ہی انتظام کر دیا اور آپ وہیں بیٹھ کر فارغ ہوئے۔ اور پھر اٹھ کر لیٹ گئے اور میں ہاتھ پاؤں دباتی رہی ۔ مگر ضعف بہت ہو گیا تھا۔ اس کے بعد ایک اور دست آیا اور پھر آپ کو ایک قے آئی اور آپ کا سر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت دگر گوں ہو گئی۔‘‘ (سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر12صفحہ 11-10 از مرزا بشیر احمد)

ذرا غور کیجیے! کس طرح مرزا قادیانی اپنے آخری فیصلے والے اشتہار کے نتیجے میں ہی ہیضہ کی بیماری کے ساتھ واصل جہنم ہوا۔ جب کہ مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمۃ اﷲ علیہ اس کے بعد چالیس سال تک زندہ رہے اور ان کی وفات 1948ء کو سرگودھا میں ہوئی۔ لیکن اس کے باوجود قادیانی ذریت اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہ تھی کہ مرزا اپنی دعا کے نتیجے میں ہی مرا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ قادیانی جماعت کے جوشیلے خطیب اور قلم کار مرزا غلام احمد قادیانی کے مرید خاص منشی قاسم علی نے اخبار الحق میں مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمۃ اﷲ علیہ کو مباحثہ کا چیلنج دیا جس کا جواب مولانا امرتسری رحمۃ اﷲعلیہ نے اخبار اہل حدیث یکم مارچ 1912ء کے شمارہ میں قبول کر کے دیا۔ مباحثہ کی بنیاد ی شرائط درج ذیل تھیں:

-1 مباحثہ تحریری ہو گا۔
-2 ایک منصف محمدی اور دوسرا مرزائی ، تیسرا غیر مسلم ، مسلم الطرفین سر پینچ۔
-3 دونوں منصفوں میں اختلاف ہو تو سر پینچ جس منصف کے ساتھ متفق ہوں گے وہ فیصلہ ناطق ہو گا۔
-4 کل تحریریں پانچ ہوں گی ، تین مدعی کی اور دو مدعا علیہ کی۔
-5 مولانا ثناء اﷲ امرتسری مدعی اور منشی قاسم علی قادیانی مدعا علیہ ہوں گے۔
-6 مدعی کے حق میں فیصلہ ہو تو مدعا علیہ مبلغ تین سو روپیہ بطور انعام یا تاوان مدعی کو دے گا ۔ مدعا علیہ غالب ہو تو اس کو مدعی کچھ نہیں دے گا۔ غرض رقم ایک طرف سے ہو گی۔
مباحثہ کی تاریخ 15اپریل1912ء مقرر ہوئی۔ مباحثہ میں مسلمانوں کی طرف سے مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی منصف نامزد ہوئے اور قادیانیوں کی طرف سے منصف منشی فرزند علی صاحب ہیڈ کلرک قلعہ میگزین فیروز پور مقرر ہوئے اور سر پینچ کے لیے سردار بچن سنگھ صاحب بی اے گورنمنٹ پلیڈ ر لدھیانہ مقرر ہوئے۔
15اپریل 1912ء کو مبلغ تین سو روپیہ مولانا محمد حسن صاحب رئیس لدھیانہ کے سپرد کیا گیا کیونکہ انہیں امین کے طور پر نامزد کیاگیاتھا۔17اپریل 1912ء کو 3بجے دوپہر مباحثہ شروع ہوا۔ 21اپریل 1912کو مباحثہ کے سر پینچ سردار بچن سنگھ نے مولانا ثناء اﷲ امرتسری کے حق میں فیصلہ دیا اور قادیانیوں سے مبلغ تین سو روپیہ لے کر مولانا ثناء اﷲ امرتسری کو دے دیا۔ مولانا امرتسری رحمۃ اﷲ علیہ نے اس تین سو کی رقم سے ’’فاتح قادیان‘‘ نامی رسالہ شائع کر کے تقسیم کیا جس میں مباحثہ کی مکمل روئیداد بیان کی۔
محترم قارئین ! مرزا قادیانی نے مباہلے کے چیلنج تو اکثر علما کو دیے ،لیکن مباہلہ صرف ایک عالم دین مولانا عبدالحق غزنوی رحمۃ اللہ علیہ سے 1893ء میں امرتسر میں ہوا ۔مرزا قادیانی عوام النّاس کو اس مباہلے میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے اشتہار بعنوان ’’اعلان عام :۔اس مباہلہ کی اہلِ اسلام کو اطلاع جو دہم ذیقعد روز شنبہ کو بمقام امرتسر عید گاہ متصل مسجد خاں بہادر حاجی محمد شاہ صاحب مرحوم ہو گا‘‘ میں رقم طراز ہے کہ
’’اے برادران اہل اسلام کل دہم10ذیقعدروزشنبہ کو بمقام مندرجہ عنوان میاں عبدالحق غزنوی اور بعض دیگر علماء جیسا کہ انہوں نے وعدہ کیا ہے اس عاجز سے اس بات پر مباہلہ کریں گے کہ وہ لوگ اس عاجز کو کافر اور دجّال اور بیدین اور دشمن اللہ جلّشانہ ‘اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سمجھتے ہیں۔ اس عاجز کی کتابوں کو مجموعہ کفریات خیال کرتے ہیں۔ اور اس طرف یہ عاجزانہ صرف اپنے تئیں مسلمان جانتا ہے بلکہ اپنے وجود کو اﷲ اور رسول کی راہ میں فدا کیے بیٹھا ہے لہٰذا ان لوگوں کی درخواست پر یہ مباہلہ تاریخ مذکورہ بالا میں قرار پایا ہے۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ مباہلہ کی بد دعا کرنے کے وقت بعض اور مسلمان بھی حاضر ہو جائیں کیونکہ میں یہ دعا کروں گا کہ جس قدر میری تالیفات ہیں ‘ان میں سے کوئی بھی خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمودہ کے مخالف نہیں ہیں اور نہ میں کافر ہوں۔ اور اگر میری کتابیں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمودہ سے مخالف اور کفر سے بھری ہوئی ہیں تو خدا تعالیٰ وہ لعنت اور عذاب میرے پر نازل کرے جو ابتدائے دنیا سے آج تک کسی کافر بے ایمان پرنہ کی ہو ۔ اور آپ لوگ آمین کہیں۔ کیونکہ اگر میں کافر ہوں اور نعوذ باﷲ دین اسلام سے مرتد اور بے ایمان تو نہایت برے ایمان سے میرا مرنا ہی بہتر ہے اور میں ایسی زندگی سے بہزار دل بیزار ہوں۔ اور اگر ایسا نہیں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے سچا فیصلہ کر دیگا۔ وہ میرے دل کو بھی دیکھ رہا ہے اور میرے مخالفوں کے دل کو بھی بڑے ثواب کی بات ہو گی اگر آپ صاحبان کل دہم ذیقعد کو دو بجے کے وقت عید گاہ میں مباہلہ پر آمین کہنے کے لیے تشریف لائیں۔ والسلام۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ349ازمرزاقادیانی طبع چہارم)

اسی مباہلہ کا تذکرہ کرتے ہوئے مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ

’’انہی دنوں میں آپ نے ایک دن یعنی 10ذیقعدہ 1310ھ مطابق 27مئی 1893ء کو مولوی عبدالحق غزنوی کے ساتھ امرتسر کی عید گاہ کے میدان میں مباہلہ فرمایا۔۔۔۔۔۔۔۔اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس مباہلہ میں کوئی میعاد مقرر نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی فریق مخالف کے لیے بد دعا کی تھی بلکہ صرف یہی دعا کی تھی کہ اگر میں جھوٹا اور مفتری ہوں تو خدا تعالیٰ وہ لعنت میرے پر نازل کرے جو ابتدائے دنیا سے آج تک کسی کافر بے ایمان پرنہ کی ہو۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ380‘381روایت نمبر420طبع چہارم)

محترم قارئین!
مرزا قادیانی نے 2اکتوبر1907ء کو ایک اصول وضع کرتے ہوئے بیان جاری کیا کہ
’’مباہلہ کرنے والوں میں سے جو جھوٹا ہوتا ہے وہ سچے کی زندگی میں ہی ہلاک ہوا کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں اتنی بات صحیح ہے کہ سچے کے ساتھ جو جھوٹے مباہلہ کرتے ہیں تو وہ سچے کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 5صفحہ327‘328ازمرزاقادیانی طبع چہارم)
اس اصول کو وضع کرنے کے چند ماہ بعد 26مئی1908ء کو الہٰی فیصلہ کے تحت ہیضہ کے مرض سے اپنے مباہل مولانا عبدالحق رحمۃ اﷲ علیہ کی زندگی میں ہی ذلت ناک موت کا شکار ہوا ۔اور مولانا عبدالحق غزنوی رحمۃ اﷲ علیہ مرزا قادیانی کی عبرتناک موت کے بعد تقریباً نو سال زندہ رہے اور 23رجب 1335ھ بمطابق16 مئی1917ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

محترم قارئین!
صوفی عبدالحق غزنوی ؒؒؒؒؒؒرحمۃ اللہ علیہ کا ایک اور مباہلہ حافظ محمد یوسف کے ساتھ ہوا جس کا تذکرہ کرتے ہوئے مرزا قادیانی ایک اشتہار میں رقم طراز ہے کہ
’’پھر تکفیر کا فتویٰ تیار ہونے کے بعد اس طرف سے بھی مباہلہ کا اشتہار دیا گیا جو کتاب آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ بھی شامل ہے اور ابھی تک کوئی شخص مباہلہ کے لیے مقابلہ پر نہیں آیا مگر مجھ کو اس بات کے سننے سے بہت خوشی ہوئی کہ ہمارے ایک معزز دوست حافظ محمد یوسف صاحب نے ایمانی جوانمردی اور شجاعت کے ساتھ ہم سے پہلے اس ثواب کو حاصل کیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حافظ صاحب اتفاقا ایک مجلس میں بیان کر رہے تھے کہ مرزا صاحب یعنی اس عاجز سے کوئی آمادہ مناظرہ یا مباہلہ نہیں ہوتا اور اسی سلسلہ گفتگو میں حافظ صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ عبدالحق نے جو مباہلہ کے لیے اشتہار دیا تھا اب اگر وہ اپنے تئیں سچا جانتا ہے تو میرے مقابلہ پر آوے میں اس سے مباہلہ کے لیے تیار ہوں تب عبدالحق جو اسی جگہ کہیں موجود تھا حافظ صاحب کے غیرت دلانے والے لفظوں سے طوعاً و کرہاً مستعد مباہلہ ہو گیا اور حافظ صاحب کا ہاتھ آ کر پکڑ لیا کہ میں تم سے اسی وقت مباہلہ کرتا ہوں مگر مباہلہ فقط اس بارہ میں کروں گا کہ میرا یقین ہے کہ مرزا غلام احمد و مولوی حکیم نور الدین اور مولوی محمد احسن یہ تینوں مرتدین اور کذابین اور دجالین ہیں حافظ صاحب نے فی الفور بلا تامل منظور کیا کہ میں اس بارہ میں مباہلہ کروں گا کیونکہ میرا یقین ہے کہ تینوں مسلمان ہیں تب اسی بات پر حافظ صاحب نے عبدالحق سے مباہلہ کیا۔‘‘(مجموعہ اشتہارات از مرزا قادیانی جلد1صفحہ324‘325طبع چہارم)

محترم قارئین !اس مباہلہ کا الہٰی فیصلہ کچھ یوں ہوا کہ یہی حافظ محمد یوسف صاحب وقوع مباہلہ کے کچھ عرصہ بعد قادیانیت کو ترک کر کے نہ صرف مسلمان ہو گئے بلکہ مرزا قادیانی اور اس کی ذریت کو علمی میدان میں ناکوں چنے چبواتے رہے ۔یہی وجہ تھی کہ مرزا قادیانی کو حافظ یوسف صاحب کے خلاف اشتہارات اور کئی تحریریں شائع کرنا پڑیں جن میں سے ایک اشتہار ضمیمہ تحفہ گولڑویہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 37 پر موجود ہے۔

وَمَا عَلَیْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِینُ
 
آخری تدوین :
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top