دروغ گوراحافظہ نہ باشد
حالانکہ یہ تعریف پرانی تعریفوں کے زمانہ مرزائیت کی ہے۔سچ ہے ’’دروغ گورا حافظہ نہ باشد۔‘‘ مرزا ناصر صاحب نے یہ اصطلاحی معنی مرزا غلام احمدقادیانی ہی کے الفاظ(آئینہ کمالات اسلام ص۵۷ تا۶۲، خزائن ج۵ ص ایضاً)سے نقل کیا ہے۔ ان چار صفحات میں مرزا قادیانی نے اپنے تصوف کا سکہ جمانا چاہا ہے اور اپنی تقریر سے یہ تصور دینے کی کوشش کی کہ گویا وہ بھی کوئی خدا رسیدہ اورمتبتل الی اﷲ ہے۔ مگر مرزا جی کا مقصد بھی دھوکہ دینا تھا اور یہی مقصد مرزا ناصر احمد کا بھی معلوم ہوتا ہے۔ ورنہ حدیث کی تین تعریفوں کے بعد مرزا جی کی اس چوتھی تعریف اور اس تقریر کے نقل کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔مگر باور یہ کرانا تھا کہ مرزا جی اتنے فنا فی اﷲ ہیں کہ ان کی کوئی حرکت حکم الٰہی کے سوا نہیں ہوسکتی۔ اس سلسلہ میں ہم مجبور ہیں کہ مرزا قادیانی کی معاشرتی زندگی قوم کے سامنے پیش کریں۔ کیا اس قماش کے آدمی کو اس تقریر سے ایک فی لاکھ بھی نسبت ہے۔ مگر پہلے ہم مسلمان کی تعریف کی بحث ختم کرنا چاہتے ہیں۔