
مرزا غلام احمد قادیانی کا کہنا ہے" کیونکہ دشنام دہی اور چیز ہے اور بیان واقعہ کا گو وہ کیسا ہی تلخ اور سخت ہو دوسری شے ہے ہریک محقق اور حق گو کا یہ فرض ہوتا ہے کہ سچی بات کو پوؔ رے پورے طور پر مخالف گُم گشتہ کے کانوں تک پہنچا دیوے پھر اگر وہ سچ کو سن کر افروختہ ہو تو ہوا کرے"(روحانی خزائن جلد 3صفحہ 112)
لیکن ایک اور مقام پر مرزا جی کچھ اور ہی کہتے ہیں ۔
'' خدا تعالیٰ کی سچی اطاعت اور نوع انسان کی بھلائی وہی شخص بجا لاسکتا ہے جو وقت شناس ہو ورنہ نہیں، مثلاً ایک شخص گوراست گو ہے مگر اپنی راستی کو حکمت کے ساتھ ملا کر استعمال نہیں کرتا بلکہ لاٹھی کی طرح مارتا ہے اور بے تمیزی سے ایک شریف خصلت کو بے محل کام میں لاتا ہے تو وہ ایک حکیم منش کے نزدیک ہرگز قابل تعریف نہیں ٹھہرتا ایسے کو جاہل نیک بخت کہیں گے نہ دانا نیک بخت، اگر کوئی اندھے کو اندھا اندھا کرکے پکارے اور پھر کسی کے منع کرنے پر یہ کہے کہ میاں کیا میں جھوٹ بولتا ہوں تو اسے یہی کہا جائے گا کہ بیشک تو راست گو ہے مگر احمق یا شریر کہ جس راستی کے اظہار کی تجھے ضرورت ہی نہیں اس کو واجب الاظہار سمجھتا ہے اور اپنے بھائی کے دل کو دکھاتا ہے۔''(شحنہ حق ص۴۰ و روحانی ص۳۶۶، ج۲)
آخری تدوین
: