دین میں اقوال سلف کی حقیقت
سب سے پہلے یہ بات قابل ذکر ہے کہ دین کا اصل سرچشمہ قرآن کریم، سرکار دوعالمﷺ کی احادیث اور اجماع امت ہے اور اکاّدکاّ افراد کی ذاتی آراء اس مسئلے پر کبھی اثر انداز نہیں ہوسکتیں۔ جو دین کے ان بنیادی سرچشموں میں وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہو۔ خاص طور سے نبوت ورسالت جیسا بنیادی عقیدہ تو خبرواحد سے بھی ثابت نہیں ہوتا۔ چہ جائیکہ اسے کسی انفرادی تحریر سے ثابت کیا جائے۔ اس لئے اس مسئلے میں قرآن وحدیث کی متواتر تصریحات اور اجماع امت کے خلاف اگر کچھ انفرادی تحریریںثابت ہو بھی جائیں تو وہ قطعی طور پر خارج از بحث ہیں اور انہیں بطور استدلال پیش نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا جن صوفیاء کے مبہم جملوں سے مرزائی صاحبان سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں ان کی تشریح وتوجیہہ سے ہمارا یہ مقصد ہر گز نہیں ہے کہ اگر بالفرض ان کی تحریروں کا مفہوم عقیدہ ختم نبوت سے متضاد ثابت ہو جائے تو اس مستحکم اور مسلمہ عقیدے کو کوئی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ بلکہ جس کسی نے ان کے کلام کی صحیح تشریح پیش کی ہے اس کا اصل مقصد صرف یہ ہے کہ ان پر ایک غلط الزام لگایا گیا ہے۔ جسے انصاف اور دیانت کی رو سے رفع کرنا ضروری ہے۔ بہ الفاظ دیگر ان حضرات کی تحریروں کو ختم نبوت سے متصادم بنا کر پیش کرنے سے عقیدۂ ختم نبوت پر کوئی الزام عائد نہیں ہوتا۔ بلکہ ان بزرگوں پر یہ الزام عائد ہوتا ہے۔
2007یہی وجہ ہے کہ جہاں تک دین کے بنیادی مسائل، عقائد اور عملی احکام کا تعلق ہے۔ وہ نہ علم تصوف کا موضوع ہیں اور نہ علمائے امت نے تصوف کی کتابوں کو ان معاملات میں کوئی مأخذ یا حجت قرار دیا ہے۔ اس کے بجائے عقائد کی بحثیں علم کلام میں اور عملی احکام وقوانین کے مسائل علم فقہ میں بیان ہوتے ہیں اور انہی علوم کی کتابیں اس معاملے میں معتبر سمجھی جاتی ہیں۔ خود صوفیائے کرام ان معاملات میں انہی علوم کی کتابوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور یہ تصریح کرتے ہیں کہ جو شخص تصوف کے ان باطنی اور نفسیاتی تجربات سے نہ گزرا ہو۔ اس کے لئے ان کتابوں کا دیکھنا بھی جائز نہیں۔ بسااوقات ان کتابوںمیں ایسی باتیں نظر آتی ہیں جن کا بظاہر کوئی مفہوم سمجھ میں نہیں آتا۔ بعض اوقات جو مفہوم بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے وہ بالکل عقل کے خلاف ہوتا ہے۔ لیکن لکھنے والے کی مراد کچھ اور ہوتی ہے۔ اس قسم کی عبارتوں کو ’’شطحیّات‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس لئے کسی بنیادی عقیدے کے مسئلہ میں تصوف کی کتابوں سے استدلال ایک ایسی اصولی غلطی ہے جس کا نتیجہ گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔
اس اصول کو خود اکابر صوفیاء نے بھی تسلیم کیا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ تصوف کے بھی امام ہیں۔ لیکن وہ تحریر فرماتے ہیں: ’’پس مقررشد کہ معتبر دراثبات احکام شرعیہ کتاب وسنت است وقیاس مجتہدان واجماع امت نیز مثبت احکام است۔ بعد ازیں چہار ادلہ شرعیہ ہیچ دلیلے مثبت احکام شرعیہ نمی تواندشد۔ الہام مثبت حل وحرمت نہ بودوکشف ازباب باطن اثبات فرض وسنت نہ نماید۔‘‘
(مکتوبات حصہ ہفتم دفتر دوم ص۱۵۔ مکتوب نمبر۵۵)
ایک اور جگہ صوفیاء کی ’’شطحیات‘‘ سے کلامی مسائل مستنبط کرنے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’قائل آں سخناں شیخ کبیر یمنی باشد یا شیخ اکبر شامی، کلام محمد عربی وعلیٰ آلہ ‘‘
2008نیز مرزاصاحب لکھتے ہیں: ’’ ومن تفوہ بکلمۃ لیس لہ اصل صحیح فی الشرع ملہمًا کان او مجتہداً فیہ الشیاطین متلاعبۃ ‘‘
یعنی ’’اگر کوئی شخص کوئی ایسی بات زبان سے نکال دے۔ جس کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو وہ صاحب الہام ہو یا مجتہد ہو تو درحقیقت وہ شیاطین کا کھلونا ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۲۱، خزائن ج۵ ص ایضاً)
لہٰذا مرزائی صاحبان کے لئے قرآن کریم کی صریح آیات اور متواتر احادیث کو چھوڑ کر چند صوفیاء کے اقوال سے استدلال کیسے درست ہوسکتا ہے؟