• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

رسالہ مرزا قادیانی شرابی مصنف مفتی مبشر شاہ

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
رسالہ مرزا قادیانی شرابی مصنف مفتی مبشر شاہ

مکمل رسالہ اس لنک سے ڈاونلوڈ کریں



مرزا قادیانی کی شراب نوشی
مکتوب نمبر 113:
محبتی عزیزی اخویم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
طبیعت کا یہ حال ہے کہ میں نے حسب تحریر آپ کے عرق کا فور ترک کر دیا تھا اور بجائے اس کے کوکو وائن استعمال کرنا شروع کیا اور سکاٹش ایملشن مگر میں سمجھ نہیں سکتا ۔ تعجب کی جگہ ہے کہ ابھی ایک دن بھی اس تبدیلی پر نہیں گزرا تھا۔ قریباً نصف رات کے بعد یا کچھ پہلے سونے کی حالت میں مجھ کو سخت بے قراری نہایت درجہ کی حرارت معلوم ہوئی اور دل چاہا ہے کہ تمام کپڑے اُتار کر باہر نکل جاؤں ۔ کچھ سمجھ نہیں آتی کہ اس قدر گھبراہٹ اور گرمی کیوں ہے اور لوگ لحاف میں لیٹے ہوئے سردی کی شکایت کرتے ہیں مگر مجھے گرمی محسوس ہوتی تھی نبض میں بھی تیزی آگئی ایسی گرمی کہ جس کا اثر خطر ناک محسوس ہوتا تھا ۔ آخر میرے دل میں گذرا کہ وہی عرق کا فورپی کر دیکھوں تب میں نے اندازہ سے بھی زیادہ پی اور کچھ عرق کھجور پیا تب طبیعت بحال ہوگئی اس وقت سے بحال ہے ۔ ابھی تک کچھ کم درجہ کی غیر طبع حرارت کے استعمال کرنے سے فائدہ ہوتا ہے ۔ در حقیقت طبائع کا بھی کچھ ٹھکانہ نہیں ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ ۔ باقی ہر طرح سے خیریت ہے۔والسلام
خاکسار:مرزا غلام احمد عفی عنہ
(مکتوبات احمد جلد چہارم صفحہ 248)
مرزا غلام احمد قادیانی کی طرف منسوب مکتوبات کو اگر غیر جانب دارانہ زاویے سے پڑھا جائے تو ان میں شخصیت کے بہت سے پوشیدہ پہلو کھل کر سامنے آتے ہیں۔ زیرِ نظر مکتوب ان پہلوؤں میں سے ایک نہایت اہم اور سنگین پہلو کو ظاہر کرتا ہے، اور وہ ہے مرزا قادیانی کی شرابوں اور الکوحلک ادویات کا مسلسل استعمال۔ اس مضمون میں ہم اسی مکتوب کو بنیاد بنا کر چند اہم نکات کی علمی و تحقیقی وضاحت کرتے ہیں۔
"کوکو وائن" اور دیگر الکوحلک مصنوعات کا استعمال
مکتوب میں مرزا قادیانی اپنے مرید ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین کو لکھتا ہے:
"میں نے حسب تحریر آپ کے عرق کافور ترک کر دیا تھا اور بجائے اس کے کوکو وائن استعمال کرنا شروع کیا اور سکاٹش ایملشن…"
(مکتوبات احمد، جلد 4، ص 248)
یہاں وہ واضح طور پر کوکو وائن کا نام لیتا ہے۔ تاریخی طور پر کوکو وائن (Coca Wine) ایک ایسی مشہور الکوحلک شراب تھی جس میں شراب کے ساتھ کوکین ایکٹیو کمپاؤنڈ شامل ہوتا تھا۔ یورپ میں اسے سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں بطور نشہ آور ٹانک استعمال کیا جاتا تھا۔
مرزا قادیانی نے اسے:
بطور دوا مسلسل استعمال اور باقاعدہ تبدیلی کے بعد بھی ملازم رکھا۔یہ بات اس کے طرزِ زندگی کے بارے میں سنگین سوالات اٹھاتی ہے۔

سکاٹش ایمَلشن اور الکوحلک ٹانک
مرزا نے اسی خط میں سکاٹش ایمَلشن (Scottish Emulsion) کے استعمال کو بھی ذکر کیا۔ اس دور میں یہ دوا بھی الکوحل کے بغیر تیار نہیں ہوتی تھی۔ جدید تحقیق کے مطابق اس میں الکوحل اور محرکاتی اجزاء شامل تھے۔یعنی مرزا قادیانی نہ صرف ایک وائن استعمال کر رہا تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ الکوحل ملی متعدد ادویات و ٹانکس بھی اس کے روزمرہ کا حصہ تھے۔
گرمی، بےقراری، کپڑے اتارنے کی خواہش
مرزا لکھتا ہے:
"نصف رات کے قریب مجھے سخت بے قراری، نہایت درجے کی حرارت محسوس ہوئی… دل چاہا تمام کپڑے اتار کر باہر نکل جاؤں… نبض میں تیزی…"
یہ کیفیت طبی اعتبار سے تین چیزوں کی نشاندہی کرتی ہے:
(1) وائن چھوڑنے کا Withdrawal Effect
جب کوئی شخص مسلسل الکوحل استعمال کرتا ہے اور اچانک چھوڑ دیتا ہے تو جسم میں:
گھبراہٹ، شدید بے چینی، جسم میں حرارت پسینہ اور کپڑے اتار دینے جیسی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔مرزا کی تحریر اسی کیفیت کی مکمل تصویر پیش کرتی ہے۔
(2) محرکاتی وائن کی طلب (Craving)
کوکا وائن چونکہ کوکین پر مبنی ہوتی ہے اس لیے اسے چھوڑنے سے ذہنی و جسمانی کشمکش بڑھ جاتی ہے۔ مرزا کے بیان سے اس کی لت (Addiction) کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
(3) طبیعت کے ’’فوراً بحال‘‘ ہو جانے کا سبب
مرزا آگے لکھتا ہے: "میں نے وہی عرق کافور زیادہ مقدار میں پیا… تب طبیعت بحال ہوگئی"یہ رویہ اس بات کی علامت ہے کہ جسم کو محرک الکوحل یا منشیات کی مطلوبہ خوراک ملتے ہی Withdrawal ختم ہو گیا۔یہ ’’طبیعت بحال‘‘ ہونا دراصل نشے کی طلب پوری ہونے کا نتیجہ ہے، نہ کہ کوئی معجزہ۔
4۔ ’’عرق کا فور‘‘ کا زیادہ مقدار میں پینا — نشے کا متبادل
مرزا قادیانی یہ بھی لکھتا ہے:
"میں نے اندازہ سے بھی زیادہ عرق کافور پی لیا… تو طبیعت بحال ہوگئی"۔عرق کافور بھی اُس دور میں الکوحل بیس پر تیار ہوتا تھا۔ یعنی جب کوکو وائن چھوڑنے سے Withdrawal کی علامات ظاہر ہوئیں تو مرزا نے:
زیادہ مقدار فوری استعمال اور اپنے جسم کو نشہ آور الکوحل کی خوراک فراہم کر کے خود کو ’’بحال‘‘ کیا۔یہ طرز عمل ایک نشہ کرنے والے شخص کے رویے سے مکمل مشابہت رکھتا ہے۔
5۔ "طبائع کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں" — اپنی بےبسی کا اعتراف
مرزا لکھتا ہے:
"در حقیقت طبائع کا بھی کچھ ٹھکانہ نہیں"۔یہ جملہ ایک طرح کا اقراری بیان ہے کہ اس کے مزاج میں ایسی تبدیلیاں ہو رہی تھیں جنہیں وہ خود سمجھنے سے قاصر تھا۔ نشے کے عادی افراد میں Mood Swings عام سی بات ہے۔
6۔ مجموعی نتیجہ — مرزا قادیانی کی شراب نوشی علمی و تاریخی اعتبار سے ثابت
اس واحد مکتوب سے ہی مندرجہ ذیل امور ثابت ہوتے ہیں:
(1) مرزا قادیانی باقاعدگی سے شراب پر مبنی وائن استعمال کرتا تھا۔
(2) وائن چھوڑنے سے اسے رات کے وقت گھبراہٹ، شدید حرارت اور کپڑے اتارنے کی کیفیت طاری ہوئی۔
(3) نشہ چھوڑنے کے اثرات ختم کرنے کیلئے اس نے زیادہ مقدار میں الکوحل بیس عرق کافور پیا۔
(4) اس کے جسم اور اعصاب پر منشیات کا واضح اثر تھا۔یہ سب کچھ اس کی اپنی قلمی تحریر سے ثابت ہے، کسی مخالف کی طرف سے گھڑی ہوئی بات نہیں۔
ٹانک وائن (Tonic Wine)
محبی اخویم حکیم محمد حسین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ اس وقت میاں یار محمد(قاضی یار محمدپلیڈر)بھیجا جاتا ہے ۔ آپ اشیاء خریدنی خود خرید دیں اور ایک بوتل ٹانک وائن کی پلومر کی دوکان سے خرید دیں ۔ مگر ٹانک وائن چاہیے اس کا لحاظ رہے باقی خیریت ہے۔ والسلام
مرزا غلام احمد عفی عنہ
(خطوط امام بنام غلام از حکیم محمد حسین قادیانی، صفحہ 5)
مرزا قادیانی اور ٹانک وائن
مرزا غلام احمد قادیانی کی طرف سے مختلف الکوحلک وائنز کا استعمال صرف طبی بہانہ نہیں تھا بلکہ اس کے روزمرہ معمولات کا مستقل حصہ تھا۔ کوکو وائن، پورٹ وائن، کولاوائن اور دیگر شرابوں کے ساتھ ٹانک وائن کا باقاعدہ حوالہ اس حقیقت کو مزید پختہ کرتا ہے کہ مرزا اپنے معتقدین، مریدین اور قادیانی لٹریچر میں بیان کردہ ’’ولی، مجدد، مامور‘‘ کی بجائے عملی طور پر شراب کے مسلسل استعمال کا عادی شخص تھا۔
پیش کردہ حوالہ میں مرزا قادیانی کی طرف سے حکیم محمد حسین قادیانی کو ایک نہایت واضح اور صریح ہدایت موجود ہے:
"ایک بوتل ٹانک وائن کی پلومر کی دکان سے خرید دیں، مگر ٹانک وائن چاہیے اس کا لحاظ رہے"
یہ مختصر سا جملہ درحقیقت کئی سنگین نکات پر روشنی ڈالتا ہے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
"ٹانک وائن" دوا نہیں، شراب کا مروجہ ٹانک
ٹانک وائن (Tonic Wine) اس دور میں انگلستان اور یورپ میں عام دستیاب ایک الکوحلک شراب تھی، جسے Tonifying Wine کہا جاتا تھا۔ یہ شراب:
٭ الکوحل کی معیاری مقدار
٭جڑی بوٹیوں یا محرکاتی compounds
٭اور جسمانی توانائی بڑھانے والے اجزاءپر مشتمل ہوتی تھی۔
اسے ’’دوا‘‘ کے طور پر بیچنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ یہ غیر الکوحلک یا حلال چیز تھی۔ بالکل اسی طرح جیسے آج کی شراب اگر دوائی کے نام پر فروخت ہو تب بھی شراب ہی رہتی ہے۔
مرزا قادیانی کا اپنے نمائندے کو خصوصی ہدایت کے ساتھ اسے خریدنے کے لیے بھیجنا اس بات کا ثبوت ہے کہ:
٭ یہ اس کی روزمرہ ضرورت تھی۔
٭معمولی چیز نہیں تھی کہ جو بھی ملے کافی ہو۔
٭بلکہ ’’اصل ٹانک وائن‘‘ ہی چاہئے تھی۔
یعنی یہ اشتیاق اور طلب اسی شخص میں ہوتی ہے جسے اس مشروب سے اذیت بخش اثرات کی حاجت ہو۔
’’پلومر کی دکان‘‘ کی تعیین شراب کی خریداری
مرزا قادیانی نے مخصوص دکان کا نام دے کر لکھا: "پلومر کی دکان سے خرید دیں"۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ:
قادیان سے لاہور تک باقاعدہ شراب کی خریداری کے مراکز متعین تھے۔ شراب کی خرید صرف ’’میسر ہونے‘‘ تک محدود نہیں تھی بلکہ ’’مخصوص دکان‘‘ سے خریدی جاتی تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ روزمرہ ’’طبی انتظام‘‘ نہیں بلکہ مستقل و منظم شراب بندی کا انتظام تھا۔یعنی مرزا کے پاس شراب کی سپلائی چین باقاعدہ قائم تھی جس میں مرید دوڑ دھوپ کرتے، خط لے کر جاتے، اور مخصوص دوکانوں سے وائن کی بوتلیں خرید کر واپس پہنچاتے تھے۔
یہ طرز عمل عام نبیوں، اولیاء یا مجددین کے قائم کردہ اعمال سے کوئی نسبت نہیں رکھتا، بلکہ ایک ایسے شخص کا انداز ہے جو اپنی نشہ آور ضروریات ہی کو اولین ترجیح دیتا ہے۔
"مگر ٹانک وائن چاہیے" نشئی کا اصرار
مرزا قادیانی اپنے خط میں غیر معمولی تاکید کرتا ہے: "مگر ٹانک وائن چاہیے، اس کا لحاظ رہے"یہ جملہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ:
٭ اسے عام ادویات سے تسلی نہیں ہوتی تھی۔
٭ اسے خاص قسم کا الکوحلک ٹانک درکار تھا۔
٭ یہ ’’خاص ذائقہ‘‘ یا ’’خاص تاثیر‘‘ ہی اس کی مطلوبہ کیفیت پیدا کرتی تھی۔
نفسیاتی ماہرین کے نزدیک نشے کے عادی افراد جب مخصوص مشروب کی تاکید کرتے ہیں تو یہ ان کے لگاؤ (Dependency) اور ذہنی عادت (Habitual Craving) کا ثبوت ہوتا ہے۔مرزا کا اصرار اس کے اندرونی میلان اور مستقل نشے کا زندہ ثبوت ہے۔
مرید کو بطور "شراب رساں" استعمال کرنا
مکتوب میں مرزا نے قاضی یار محمد کو خط تھما کر لاہور روانہ کیا۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ:
ایک ’’مدعی مجددیت،نبوت، مسیح موعودیعنی مرزا قادیانی‘ ‘ اپنی جماعت کے اہم کارکن علمی و مذہبی شخصیت یعنی قاضی — کو استعمال کر رہا ہے صرف شراب کی بوتل خریدنے کے لیے۔
یہ انداز کسی اللہ والے، زاہد یا اصلاحی پیشوا کے نہیں ہوتے بلکہ ایسے شخص کے ہوتے ہیں جس کا اصل محور اپنی نفسانی خواہشات ہوتی ہیں۔
مرزا قادیانی کے دعوے اور اس کی عملی متضاد زندگی
ایک طرف مرزا قادیانی یہ دعویٰ کرتا ہے:
٭ الہامات کا سلسلہ مجھ پر جاری ہے۔
٭میں مامور من اللہ ہوں۔
٭مجھے براہ راست خدا بولتا ہے۔
٭میں نبی اور مسیح موعود ہوں۔
دوسری جانب:
کوکو وائن۔ ٹانک وائن، پورٹ وائن، سکاٹش ایمَلشن،سٹرینس وائن اور الکوحلک ادویات یہ اس کے روزمرہ معمولات کی تصویر ہے۔
کوئی شخص جو مسلسل نشہ آور مشروبات استعمال کرتا ہو، شدید Withdrawal کی کیفیتوں کا شکار ہو، اور مریدین کو شراب کی خرید کے لیے دوڑاتا ہو، ایسے شخص کے ’’روحانی دعوے‘‘ نہ عقلی طور پر قابلِ قبول رہتے ہیں، نہ اخلاقی طور پر۔
ٹانک وائن مرزا کی شراب نوشی کا ناقابلِ انکار ثبوت
اس ایک خط سے ثابت ہوتا ہے کہ:
مرزا کے پاس شراب کی طلب مستقل اور مضبوط تھی۔ اُس نے مخصوص وائن کے لیے مرید کو خصوصی پیغام کے ساتھ بھیجا۔ شراب کی بوتل اس کے ’’ضروری سامان‘‘ میں شامل تھی۔ وائن اس کے گھرانے یا عملے کے لیے ’’عام‘‘ چیز نہیں تھی، بلکہ مرزا کی ذاتی ضرورت تھی۔ اس کا انحصار (Dependency) صاف ظاہر ہے۔یہ واحد حوالہ بھی مرزا قادیانی کی شراب نوشی کے پورے باب کو مستحکم کرتا ہے۔
پورٹ وائن(Port Wine)
1194 بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر منظورمحمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میاں مبارک احمد صاحب بیمار تھے۔ ان کے لئے ڈاکٹروں نے تجویز کی کہ پورٹ وائن ایک چمچہ دی جائے۔ چنانچہ ایک بوتل امرتسر یالاہور سے منگوائی گئی۔ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کے اس حصہ میں رہتا تھا جہاں حضور کی دواؤں کی الماری تھی۔ میں نے دیکھا کہ حضرت خلیفہ امسیح الثانی تشریف لائے ۔ اُن کے ہاتھ میں بوتل تھی۔ انہوں نے بوتل الماری میں رکھ دی اور مجھ سے فرمایا کہ پیر جی پانی چاہئے ۔ میں نے کہا کیا کرو گے؟ کہا کہ ابا نے فرمایا ہے کہ ہاتھ دھو لینا کیونکہ شراب کی بوتل پکڑی ہے۔ پھر ہاتھ دھو لئے ۔
(سیرت المہدی ،حصہ چہارم صفحہ 143، روایت نمبر 1194)
یہ روایت اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے کہ مرزا غلام احمد کے پورے گھرانے میں شراب عام تھی، استعمال بھی ہوتی تھی، اور بچوں تک میں اس کا اثر و تعامل موجود تھا۔
قادیانی خاندان کی اجتماعی شراب نوشی
سیرت المہدی وہ کتاب ہے جسے قادیانی جماعت ’’مسیح موعود‘‘ کے سوانحِ حیات کی سب سے معتبر کتاب قرار دیتی ہے۔ اس کی روایات مرزا بشیر احمد (مرزا قادیانی کے بیٹے) نے براہِ راست قادیانی خاندان کے افراد، شاگردوں، خدام اور عینی گواہوں سے جمع کیں۔لہٰذا اس کتاب میں موجود کوئی بھی بات ’’باہر والوں‘‘ کی نہیں بلکہ خاندان کے افراد کی اپنی شہادت ہے۔اسی سلسلہ میں روایت نمبر 1194 ایک نہایت سنگین حقیقت پر سے پردہ اٹھاتی ہے:
مرزا قادیانی کا بیٹا میاں مبارک احمد بیمار تھا۔ ڈاکٹروں نے علاج کے طور پر پورٹ وائن (Port Wine) تجویز کی۔ پورٹ وائن شراب کی ایک معروف قسم ہے، عام دوا نہیں۔ ایک بوتل امرتسر یا لاہور سے منگوائی گئی۔ یہ بوتل گھر کے اندر دواؤں کی الماری میں رکھی گئی۔ قادیانی خلیفہ ثانی (مرزا محمود احمد) خود بوتل اٹھا کر لائے۔ بوتل رکھنے کے بعد کہا: "ابا نے فرمایا ہے ہاتھ دھو لینا کیونکہ شراب کی بوتل پکڑی ہے"اس ایک واقعے میں پورا خاندان، گھر کا ماحول، مرزا قادیانی کا اپنا رویہ، اور بچوں کی تربیت سے سب کچھ کھل کر ظاہر ہوتا ہے۔
پورٹ وائن مکمل الکوحلک شراب، کوئی دوا نہیں
پورٹ وائن (Port Wine) 18% سے 22% الکوحل پر مشتمل تھی۔ یورپی شراب کی مضبوط اقسام میں شامل تھی۔ معالجین نے بھی اسے بطور ’’Tonifying Alcoholic Drink‘‘ استعمال کیا یعنی یہ ’’دوا‘‘ نہیں بلکہ صریح شراب ہے۔’’مبارک احمد‘‘ کو دی جانے والی بھی یہی شراب کی بوتل تھی۔
شراب گھر کی الماری میں محفوظ رکھی تھی
روایت کے مطابق "حضور کی دواؤں کی الماری میں بوتل رکھی گئی"اس ننھے سے جملے میں بہت بڑا مفہوم ہے۔
٭ شراب قادیانی گھرانے میں ایک عام استعمال کی چیز تھی۔
٭ اس کے لیے مخصوص جگہ (الماری) موجود تھی۔
٭ یہ کبھی کبھار کی ’’ضرورت‘‘ نہیں بلکہ معمول کا حصہ تھی۔
٭ایک نبی یا مجدد کے گھر میں ’’شرابوں کی الماری‘‘ کا ہونا کیسا مضحکہ خیز تصور ہے!
مرزا محمود (قادیانی خلیفہ) خود بوتل اٹھا کر لائے
سیرت المہدی کی روایت میں آتا ہے: "حضرت خلیفہ ثانی تشریف لائے، ان کے ہاتھ میں بوتل تھی"۔یہ کوئی خدمت گزاری یا مجبوری نہیں تھی یہ ایک معمول تھا۔
اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں:
٭ مرزا محمود خود گھر میں شراب کے معاملات سے واقف اور عملی طور پر متعلق تھے۔
٭ نوجوان عمر میں بھی شراب کی بوتل پکڑنا ان کے لیے کوئی حرج کی بات نہیں تھی۔
یہی وجہ ہے کہ بعد میں مخالفین نے مرزا محمود پر ’’زناکاری‘‘ کے الزامات بھی لگائے، اور اس نے خود اعتراف کیا: "میرے خلاف جو الزامات ہیں وہی میرے باپ پر بھی لگتے تھے" (الفضل، 8 دسمبر 1938ء، ص 5)
یعنی شراب اور اخلاقی گراوٹ،دونوں گھر کی وراثت تھے۔
شراب کی بوتل پکڑی ہے
روایت میں سب سے بڑا نکتہ یہ جملہ ہے: "ابا نے فرمایا ہے کہ ہاتھ دھو لینا کیونکہ شراب کی بوتل پکڑی ہے"یہاں چند نکتے قابل توجہ ہیں:
(1) مرزا قادیانی نے خود شراب کے عمل میں دخل دیا۔وہ جانتا تھا کہ کس نے بوتل پکڑی ہے، کب پکڑی ہے، کہاں رکھی جا رہی ہے۔اس کا مطلب ہے یہ سارا عمل اس کی نگرانی میں ہو رہا تھا۔ گھر میں شراب کا آنا معمول تھا۔ بوتلوں کی آمد و رفت اس کے علم میں تھی۔
(2) صرف ’’ہاتھ دھونے‘‘ کی نصیحت اگر شراب پینا جائز ہوتا تو ہاتھ دھونے کی کیا ضرورت؟اگر شراب حرام ہوتی تو گھر میں داخل ہونے یا بوتل پکڑنے کا کیا جواز؟یہ عجیب تضاد اس گھرانے کی دو عملی کو واضح کرتا ہے۔
(3) ’’ہاتھ دھو لینا‘‘ — بچوں کی تربیت میں شراب کا اثرماحول ایسا تھا کہ بچے شراب کی بوتل پکڑ لیتے، پھر صفائی کے نام پر رسمی کارروائی ہوتی۔
پورا خاندان شرابی
اس روایت سے واضح ہوتا ہے، مبارک احمد کو شراب دی جاتی تھی، مرزا محمود احمد شراب کی بوتلیں اٹھا کر لاتے تھے، مرزا قادیانی خود سارا عمل دیکھتا تھا، گھر میں شراب کی بوتلیں آنے کی ’’روٹین‘‘ تھی، بوتل رکھنے کی ’’مخصوص الماری‘‘ تھی، پورٹ وائن گھر میں منگوائی جاتی تھی، باہر نہیں لی جاتی تھی، نوکروں اور خدام کے ہاتھ روزانہ بوتلوں سے گزرتے تھے،یہ سب معاملات ایک عادی شراب نوش گھرانے کی نشانیاں ہیں۔کوئی ایسا گھرانہ جس میں بوڑھا باپ، نوجوان بیٹا، بیمار بچہ، خدام، نوکر اور گھر کی خواتین سب اسی ماحول میں رہتے ہوں، اس کو ’’شراب کا گھرانہ‘‘ کہنا حقیقت سے بعید نہیں۔
 
Top