رفع پر چند نکات اور سوالات
۱… جب توفی کے بعد رفع ہو اور رفع کا وقوع بھی بعد میں ہو تو اس کا معنی یقینا موت نہ ہوں گے۔ ایسی کوئی مثال (اس کے خلاف) نہیں ہے۔
۲… 2527اس سے پہلے کی آیت میں ہے کہ یہودیوں نے بھی تدبیر کی اور اﷲتعالیٰ نے بھی تدبیر فرمائی اور اﷲتعالیٰ کی طرح کون بہتر تدبیر کر سکتا ہے۔ اب آپ فرمائیں کہ اگر مرزاغلام احمد قادیانی کی تفسیر مان لیں اور متوفیک کا مفہوم ہم تیرہ سو برسوں کے مجددین ومحدثین کے مطابق نہ لیں تو پھر کس کی تدبیر غالب آئی۔ یہود کی یا خداتعالیٰ کی۔ بقول مرزاجی کے یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پکڑوایا، مذاق اڑایا، منہ پر تھوکا، منہ پر طمانچے مارے، سولی پر چڑھایا، ان کے اعضاء میں میخیں ٹھونکیں اور جو کچھ کر سکتے تھے کیا۔ آخر کار مرا ہوا سمجھ کر سولی سے اتارا۔ حالانکہ ان میں ابھی جان تھی۔ خفیہ علاج کیا گیا وہ بچ گئے اور زخم اچھے ہونے کے بعد ماں سمیت وہاں سے چلے گئے اور دو ہزار سال پہلے کے جنگلوں، صحراؤں، دریاؤں، بیابانوں کو طے کرتے کرتے افغانستان پہنچے۔ خدا جانے کس طرح پھر پنجاب آئے۔ کسی نہ کسی طرح سری نگر جا پہنچے وہاں ساری عمر گمنامی میں گزاری اور مر گئے۔ یہودیوں نے اپنی طرف سے قتل کر کے ان کو لعنتی قرار دے دیا، عیسائیوں کو جو موقع پر موجود نہ تھے یقین دلا دیا۔ جنہوں نے کفارہ کا عقیدہ گھڑ لیا۔ اﷲتعالیٰ اتنا ہی کر سکے کہ سولی پر جان نہ نکلنے دی۔
کیا یہ خداتعالیٰ کی بہترین تدبیر تھی۔ پھر اسی تدبیر کا قیامت کے دن احسان جتائیں گے کہ میں نے بنی اسرائیل کو تم سے روکے رکھا کیا یہی روکنا تھا؟
۳… کیا موت کے بعد اوروں کا رفع روحانی نہیں ہوتا۔ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کون سی تخصیص ہے؟
۴… اگر متوفیک کا معنی موت دینا ہے اور رافعک کا معنی بھی روح کا اٹھانا ہے تو پھر رافعک کا لفظ زائد اور بے سود ہو جاتا ہے۔ جس سے قرآن کی بلاغت 2528قائم نہیں رہتی۔ جس کی شان سب سے اعلیٰ وارفع ہے۔ اور نہ عربی میں ایسا ہوتا ہے۔
۵… خداتعالیٰ کی یہ تدبیر تو فتنہ صلیب کے وقت کے لئے تھی۔ اسی وقت کی تسلی کے لئے انی متوفیک فرمایا گیا۔ مرزاجی کے مطابق یہ رفع روحانی اس وقت ہوا اور موت اس وقت واقع ہوئی جب کہ تمام طرح کی تکالیف گزر چکی تھیں۔ اچھی تسلی دی گئی؟