(رؤیا، کشف، الہام اور وحی میں کیا فرق ہے؟)
جناب یحییٰ بختیار: اب میں آپ عرض کروں گا کہ آپ رُؤیا، کشف، اِلہام اور وحی میں کیا فرق ہے؟ یہ تشریح ذرا کردیں تاکہ بعد میں جو ہم سوال پوچھیں۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: میں گزارش کردُوں کہ ہمارے نزدیک ’’وحی‘‘ اور ’’اِلہام‘‘ کے لفظ گو الگ الگ ہیں، لیکن ہم نے ہمیشہ اس کو، اور مرزا صاحب نے اور پہلے اولیاء اور ربانی علماء نے ہم معنی بھی استعمال کیا ہے۔ لیکن بعض لوگ ’’وحی‘‘ اور ’’اِلہام‘‘ میں فرق کرتے ہیں۔ یہ ان کا ہے اِصطلاح، ہماری یہ اِصطلاح نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک ’’وحی‘‘ 1544اور ’’اِلہام‘‘ مترادف الفاظ ہیں۔ وحی اور اِلہام کی کیفیت یوں ہے کہ رُؤیا میں اِنسان سویا ہوا ہوتا ہے، جس کو ہم عام زبان میں خواب دیکھنا کہتے ہیں۔ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان بیدار ہوتا ہے اور دیواروں کے اور فاصلوں کے جو بُعد ہیں، ان کو دُور کرکے وہ شخص دیوار کے پیچھے بھی اور ایک لمبے فاصلے سے بھی اس چیز کو دیکھ لیتا ہے۔ اس میں ایک مثال عرض کروں تو شاید بات واضح ہوجائے گی۔ حضرت عمرؓ، مسجدِ نبوی میں خطبہ جمعہ دے رہے تھے کہ یکدم آپ کی زبان سے یہ نکلا: (عربی)
لوگ حیران ہوگئے کہ یہ کیا لفظ! خطبہ دے رہے ہیں اور ایک غیرمتعلق لفظ استعمال ہوگیا۔ تو خطبے کے بعد عبدالرحمن بن عوفؓ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اُنہوں نے عرض کی کہ: ’’جناب! یہ ساریہ والا قصہ کیا ہے؟‘‘ اُنہوں نے کہا کہ: ’’کچھ نہیں، میں خطبہ دے رہا تھا، دیتے دیتے یک دم مجھ پر کشف کی حالت طاری ہوگئی اور میں نے دیکھا کہ شام کی سرحد پر جو مسلمانوں کی فوجیں لڑ رہی ہیں، میدانِ جنگ میں، ایک موقع ایسا آگیا ہے کہ ساریہ کمانڈر جو ہے جو مسلمانوں کی فوج کو لڑارہا ہے رُومیوں کے خلاف، تو رُومیوں کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا فوج کا پیچھے کی طرف پہاڑی کی پشت سے ہوکر ان کے Rear پر، ان کے پچھلے حصے پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ تو میں برداشت نہ کرسکا اور فوراً ہی میری زبان سے نکلا کہ ساریہ پہاڑ کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔ چنانچہ یہ کیفیت مجھ سے دُور ہوگئی اور میں نے خطبہ اپنا دینا شروع کردیا۔‘‘ اس کے بعد واقعہ یہ ہوا کہ جب وہ قافلہ وہاں جی جنگ کی خبریں لے کر مدینہ میں پہنچا تو ساریہ نے جو خط وہاں سے بھیجا وہ یہ تھا کہ یہ حالات ہوئے، یہ ہوا اور یہ ہوا اور ساتھ ہی بتایا کہ: ’’جمعہ کے دن، جمعہ کے وقت میں نے ایک آواز سنی جبکہ میں اپنی فوجوں کو لڑا رہا تھا، جس میں مجھے کہا گیا تھا کہ پہاڑ کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور وہ جناب کی آواز تھی، یعنی حضرت عمرؓ کی آواز تھی۔ 1545چنانچہ میں نے جو اُس طرف دیکھا تو ایک چھوٹی سی ٹکڑی ہمارے Back پر حملہ کر رہی تھی۔ چنانچہ میں اپنی فوج کو لے کر اس پہاڑی پر چڑھ گیا اور اس طرح ہم اس شکست سے بچ گئے، اور ہمارے انہوں نے، اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا۔‘‘ تو یہ دیکھئے، یہ وہ کشف کی کیفیت ہے کہ حضرت عمرؓ نے مدینہ میں رہ کر شام کی سرحدوں کا نظارہ دیکھ لیا ہے، اور یہی وہ کیفیت ہے کہ آواز حضرت عمرؓ نے مسجدِ نبوی میں یہ دی ہے اور وہ آواز سینکڑوں، ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرکے حضرت ساریہ کے کان میں پہنچتی ہے اور وہ اس پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں۔ یہ کشف کی کیفیت ہے۔
جس کو ’’وحی‘‘ اور ’’اِلہام‘‘ کہتے ہیں۔ اس بارے میں ہمارا تصوّر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ، جس طرح میں آپ سے بات کر رہا ہوں اور میری آواز آپ کے کانوں میں پہنچ رہی ہے اور خارج میں پہنچ رہی ہے، اندر کے خیالات نہیں ہیں یہ، بلکہ خارج سے ایک آواز آپ کے کانوں میں پہنچتی ہے، اس طرح جو موردِ وحی واِلہام ہوتا ہے وہ باہر سے آواز سنتا ہے خداتعالیٰ کی، اور وہ الفاظ ہوتے ہیں، ان الفاظ میں معانی ہوتے ہیں اور اس میں بہت سی خبریں بھی موجود ہوتی ہیں۔ اس کیفیت کے لئے جو واضح اور اچھا اور صاف لفظ ہے وہ ہے ’’مکالمہ مخاطبہ اِلٰہیہ‘‘ یعنی خداتعالیٰ اس بندے کے ساتھ مکالمہ کرتا ہے، اس کے ساتھ خطاب کرتا ہے، گفتگو کرتا ہے۔ یہی معانی ہمارے نزدیک ’’وحی‘‘ اور ’’اِلہام‘‘ کے ہیں۔ وحی واِلہام کی بہت سی قسمیں ہیں۔ خود قرآن مجید میں اس کی بہت سی کیفیتیں بیان کی گئی ہیں۔ کبھی اس کو ’’ورائے حجاب‘‘ کہا گیا ہے، کبھی اس کے لئے یہ کہا گیا ہے کہ فرشتہ آکر بولتا ہے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں مولانا! پوچھتا ہوں ’’وحی‘‘ اور۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ہمارے نزدیک۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں۔۔۔۔۔۔
1546جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ مترادف الفاظ ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ کے نزدیک نہیں ہوگا، ویسے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی، بعض لوگوں نے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ہاں۔
جناب عبدالمنان عمر: بعض لوگوں نے ’’وحی‘‘ اور ’’اِلہام‘‘ میں فرق کیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ’’وحی‘‘ جو ہے یہ صرف انبیاء کے ساتھ ہوتی ہے، اور ’’اِلہام‘‘ جو ہے یہ عام لفظ ہے۔ لیکن یہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ ہم لوگ نہیں۔ اس کو سمجھتے، اور نہ مرزا صاحب نے اپنی اَسّی(۸۰) سے اُوپر کتابوں میں اس فرق کو ملحوظ فرق میں رکھا ہے۔ (Pause)