• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(سردار عنایت الرحمن خان عباسی کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(سردار عنایت الرحمن خان عباسی کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
سردار عنایت الرحمن خان عباسی: …آپ کے سامنے پڑھ کر اس ہاؤس میں پیش کرتا۔ لیکن جناب والا! میں وہی معروضات پیش کروں گا جو کہ میں نے اس ہاؤس کی طویل کارروائی سننے کے بعد اپنی رائے قائم کی ہے۔ حالانکہ جناب مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب جو کہ ختم نبوت کے سلسلے میں بڑے پرانے مجاہد ہیں اور انہوں نے اس ضمن میں تحریری اور زبانی طور پر جو خدمات انجام دی ہیں وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ ان کے ارشادات اس ضمن میں، میں آخری اور کافی سمجھتاہوں۔ لیکن میں اپنے طور پر یہ محسوس کرتا ہوں کہ جناب والا! اب یہ کوئی جھگڑا ہی نہیں رہا کہ احمدی نبی کریم ﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں یا 2705نہیں؟ کیونکہ ان کے ان طویل بیانات میں جو فاضل جرح اٹارنی جنرل صاحب نے ان پر فرمائی ہے۔ ان کے جوابات میں انہوں نے کسی جگہ بھی یہ نہیں کہا کہ مرزا صاحب نبی نہیں ہیں۔ ایک عجیب بات ہے کہ لاہوری جماعت جو ان کا ایک حصاری فرقہ ہے۔ جن کے متعلق میرا اپنا ذاتی خیال تھا کہ وہ مرزا صاحب کو آخری نبی نہیں مانتے بلکہ مجددمانتے ہیں۔ یا جو کچھ سمجھ لیجئے یا نبی سے کم درجہ والے۔ لیکن جرح کے دوران میں حیران ہوا کہ کیسی صفائی اور کیسے عجیب و غریب انداز سے انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا کہ مرزا صاحب یقینا(معاذ اﷲ) نبی ہیں۔
دراصل ان دونوں کا آپس میں جھگڑا یا مخالفت کہ لاہوری اورربوہ گروپ یا فرقہ، ان کا آپس میں جھگڑا نہیں ہے کہ مرزا صاحب نبی یا محدث ہیں۔ مولانا محمد علی صاحب (لاہوری) جو کہ مرزاصاحب کے بڑے قریبی دوست اور ساتھی تھے اور وہ صرف اپنے آپ کو ہی صحیح جانشین سمجھتے تھے۔ جب جانشین کا سوال پیدا ہوا تو بشیر الدین صاحب کہ جو اس وقت سولہ، سترہ یا اٹھارہ برس کے تھے۔ انہیں صرف اس بناء پر کہ وہ مرزاصاحب کے لڑکے ہیں۔ جانشین کر دیا تو مولانا محمدعلی صاحب (لاہوری) نے اپنے ہم خیال لوگوں کو علیحدہ کر دیا کیونکہ یہ ان کی طبیعت کے خلاف تھا۔
جناب! مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آتی۔ قرآن کہتا ہے، خدا کہتا ہے اور خود نبی کریم ﷺ کا اپنا ارشاد ہے کہ وہ ہر طریقے سے آخری نبی ہیں۔ جناب والا! کسی کا باپ ہوتا ہے۔ یہ عجوبہ بات ہے کہ باپ کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک دوسرا باپ اور ایک تیسری قسم کا باپ؟ اور اگر نبی کے متعلق یہ تاویل لی جا سکتی ہے کہ نبوت کی کئی قسمیں ہیں اور کئی درجے ہیں( معاذ اﷲ) خدا کے بھی کئی روپ ہوں۔ ان کے عقیدہ کے مطابق، تو پھر ہم کس طرح اس بات کو تسلیم کر یں کہ خدا وحدہ لا شریک ہے۔ اس کی کوئی قسم تو نہیں ہوسکتی۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیںآتی کہ وہ کون سی نبوت کی قسمیں ہیں۔ مجازی نبی، حقیقی نبی، شرعی نبی اور غیر شرعی نبی۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ یہ کسی جانور کو کھانا چاہیں 2706تو اس کے لئے ایک تاویل پیدا کر کے اسے حلال کر کے کھا جائیں۔ تو جناب والا! میں اپنے طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ اس ضمن میں کوئی جھگڑا نہیں ہے کہ وہ سچا تھا یا جھوٹا تھا (ان کے عقائد کے مطابق) جو کچھ میں سمجھتاہوں وہ توروز روشن کی طرح واضح ہے اوراس بات میں کوئی تضاد ہے ہی نہیں۔ مرزا صاحب نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ وہ خدا جاکے فیصلہ کرے گا کہ وہ نبوت صحیح تھی۔ معیار کے مطابق تھی یا نہیں تھی۔ لیکن ہم اپنے طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے بعد کسی بھی شخص کو کسی بھی صورت اور کسی بھی طریقہ سے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ یہ کہے کہ میں نبی ہوں۔ وحی ان پر نازل ہوتی ہے، عجیب بات ہے۔کتاب میں وہ ترمیم کرتے ہیں بلکہ ایک قرآن کریم کی آیت جس میں ارشاد ہے…غالباً حدیث شریف یا قرآن کریم کی آیت تھی جو دوران جرح واضح کی گئی تھی۔ جس میں ’’میرے پہلے اور میرے بعد‘‘ کے الفاظ ہیں۔ مجھے پتہ نہیں ہے کہ یہ الفاظ حدیث شریف کے ہیں یا قرآن مجید کی آیت ہے۔ جس میں یہ کہا گیا ہے’’نہ میرے پہلے اور نہ میرے بعد۔ نبوت کا جو سلسلہ ہے وہ ختم ہے۔‘‘ بعد والی چیز حذف کر دی گئی ہے۔ وہ کتاب میں ذکر کر دیا گیا ہے۔
اسی طرح جناب والا! ایک اور طریقہ بھی دکھیں۔ایک مسجد ان لوگوں نے تعمیر کی ہے اوراس پر لکھ دیا ہے لاالہ الااﷲ احمد رسول اﷲ ۔ ہم خوش تھے کہ ہم نے ان کی کمزوری پکڑ لی۔ جب ان پر جرح کی گئی تو غالباً وہ فرمانے لگے کہ یہ کوفی رسم الخط ہے۔ میں حیران ہوں جب تمام دنیا میں کلمے کا ایک ہی رسم الخط جاری ہے اور وہ یہ ہے لاالہ الااﷲ محمد رسول اﷲ تو کیوں خصوصیت کے ساتھ انہوں نے ایک کوفی رسم الخط استعمال کیا؟ تو یہ تمام باتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ان نیت میں فتور یقینا موجود ہے۔ آپ بتائیں اگر وہی مسجد قائم رہے اور جو دین میں آج کل ترقی ہو رہی ہے۔ وہ آپ کی نظروں کے سامنے ہے۔ لوگ خدا سے مذاق کرتے ہیں۔ لوگ 2707رسول سے مذاق کرتے ہیں۔ لوگ اپنے طریقہ عبادت میں اس دور میں بھی میں سمجھتاہوں اتنے مکمل اور کامل نہیں ہیں جتنا انہیں ہونا چاہئے۔ پچاس ساٹھ سال کے بعد وہی ایک مسجد ایک عظیم فتنے کی بنیاد بن جائے گی۔
اسی طریقے سے جناب والا! مجھے اس امر کا کامل یقین ہے۔ میں اس خطرے سے بھی اس معزز ہاؤس کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ اس آنر یبل کمیٹی کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ اسرائیلیوں کی طرح احمدیت بھی ایک بہت بڑا فتنہ ہے۔ جس وقت انگریز نے اس فتنہ کی ابتداء کی۔ ہم نہیں کہتے کہ مرزا صاحب یا ناصر صاحب کی علمیت کسی طریقے سے کم ہے۔ عالم لوگ ہی پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ جن لوگوں کو کتاب کا علم اور عبور ہوتا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہی اس قسم کی ہیرا پھیری کر سکتے ہیں۔ مرزا صاحب نے یہ جو طریقہ کار جس کی ابتداء جس وقت جن ذہنوں کی کاوش کے نتیجہ کے طور پر ہوئی۔ ان کا اس میں بنیادی مقصد صرف ایک تھا کہ مسلمانوں میں ایک فتنہ پیدا کیا جائے۔ ایک فتنہ کھڑا کیا جائے۔ انہوں نے جو آج اسرائیل کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں، یہ یاد رکھیں، یہ غور طلب بات ہے اور سوچنے کا مقام ہے۔ آج آپ اسرائیل کو تاریخ سے نہیں مٹا سکتے۔ تمام عالم اسلام ایک طرف ہے۔ آپ دیکھئے تمام عرب ایک طرف ہے۔ اسرائیل کے خلاف صف آراء ہیں۔ لیکن آج وہ اسرائیل کو نہیں مٹا سکتے۔ جب اسرائیل کا فتنہ کھڑا ہوا تھا۔ اس وقت بھی یہی نوعیت تھی۔ اس کا بھی یہ یہی مقام تھا۔ ان کے پاس کوئی جگہ نہیں تھی۔ یہی حیثیت آج ربوہ اختیار کر چکا ہے۔ آپ جگہ دیکھیں کہ کسی وقت اسرائیلیوں نے اپنی ریاست کا مطالبہ کیاتھا۔ ان کی ابتدائی شکل، ابتداء کی صورت صرف یہی تھی او ر صرف یہی تھی۔
وہ اس فتنہ کو ختم کرنے کے لئے بڑے طویل بیانات اور بڑی طویل جرح کر چکے ہیں۔ میں اس میںاور اضافہ نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن میں آپ کی وساطت سے اتنی گزارش ضرور کروں گا کہ ان کو علیحدہ کرنے کے لئے، ان کو نمایاں کرنے کے لئے، ہمارے پاس 2708صرف ایک طریقہ کار ہے کہ ہم آئین میں ترمیم کریں۔ ترمیم صرف اور صرف ان الفاظ میں کریں کہ احمدی فرقہ کے متعلق جتنے بھی لوگ ہیں یا وہ لوگ جو مرزا غلام احمدکو نبی کسی بھی رنگ میں مانتے ہیں۔ کسی بھی رنگ میں وہ لوگ مرزا کو نبی کی حیثیت دیتے ہیں۔ وہ غیر مسلم ہیں۔ وہ مسلمان نہیں۔ ان کو مسلمانوں کا مقام دینا نہیں چاہئے۔
جناب والا! میں یہ سمجھتا ہوں کہ جس طرح آپ نے ارشاد فرمایا، اس میں شک نہیں ہے اس کے مضر اثرات بھی ہوںگے۔ ایک اتنا بڑا منظم آرگنائزڈ فرقہ جس کو ہم علیحدہ کر کے ایک ٹولے کا رنگ دیں گے۔ وہ کھلم کھلا ہمارے ملک کے خلاف کام کریں گے۔ یہ ٹھیک بات ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی آپ اس بات پر غور کریں کہ کس تیزی سے یہ مسلمانوں کو مرتد کر رہے ہیں۔ دنیا میں جا کر دیکھیں جتنے بھی اسلام کے نام پر مشن موجود ہیں۔ آپ دنیا کے کسی بھی حصے میں جا کر دیکھیں۔ اسلام کے نام پر جتنے بھی مشن موجود ہیں۔ وہ احمدیوں اور مرزائیوں کے ہیں۔ یہ لوگ وہاں پر کام کر رہے ہیں۔ ملک کے اندر، ملک کے باہر، آپ اگر یہی رفتار ان کی جاری رہی ّ(خدا وند عالم اس بات کو جھوٹ کرے) تو مجھے یہ خدشہ ہے کہ بہت ہی قریب مستقبل میں میری قسم کے ضعیف الاعتقاد مسلمان جو اپنے دین سے پوری طرح با خبر اور واقف نہیں،ہو سکتا ہے کہ ان کے دین سے ہٹنے سے ایک وقت ایسا آئے اور آج جتنی بڑی اکثریت ہماری ہے۔ اس سے دو چند،سہ چند اکثریت ان لوگوں کی ہو جائے تو جناب والا! اس فتنے کو ختم کرنے کے لئے آئین میں اس قسم کی ترمیم انتہائی ضروری ہے۔ میں یہ سمجھتاہوں اس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۱؎۔
ایک اور بات بھی آپ کی خدمت میں عرض کر دوں۔ میں یہ چاہتا تھا کہ مولانا مفتی محمود صاحب یہاں پر تشریف رکھتے تو میں ان کے سامنے یہ گزارش کرتا اور ان 2709سے پوچھتا۔ خدا کے لئے مرزائیوں کا مسئلہ جو ہے،وہ بالکل واضح طور پر سامنے ہے۔ اس کے لئے خود اس امر کا اعتراف کرنے کے بعد ان سے بحث کرنا یا یہ کہنا کہ اب اس کی گنجائش ہے یا نہیں، اس کو چھوڑیے۔ لیکن جو مواد انہوں نے اس ہاؤس کے سامنے رکھا۔ ہمارے علماء پر بہت بڑا دھبہ ہے۔ ایک اتنا بڑاچارج ہے۔ میں یہ سمجھتاہوں اس چارج سے اس دھبہ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے انہیں اپنے عوام کے سامنے آنا چاہئے۔ آپ کے یعنی مفتی صاحب کے جوابات میں نے پڑھے۔ طویل ڈکشنری جس میں انہوں نے ایک اپنے تمام علم کا ذخیرہ اکٹھا کر دیا تھا،سب میں نے دیکھا،میں نے پڑھا۔ لیکن کہیں ایک جھلک ان چارجز کی، ان کے حقائق کی، جو انہوںنے یہاں پیش کئے۔ خدا جانے وہ سچے ہیں یا جھوٹے ہیں؟ اگر وہ جھوٹے بھی ہوں تو عقلی طور پر میں تسلیم کرتا ہوں۔ اب آپ نے اس کی تردید نہیں کی۔ تو میرے پاس کیا جواب ہے۔ میں یہ کہوں کہ ان کے جو دلائل ہیں، غلط ہیں۔ جو کہ آپ کے اندرونی فرقوں کے متعلق ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۱؎ کاش! سردار عنایت الرحمن عباسی آج قادیانیت کی زبوں حالی دیکھتے کہ دنیا میں منہ چھپانے کے لئے انہیں جگہ نہیں مل رہی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کتنی بڑی بات ہے کہ ۶۶۰ علماء کرام، جو دیوبندیوں کے متعلق مرزائیوں نے یہ اپنے بیانات او رجرح میں کہا ہے، انہوں نے نبی کریم ﷺ کے برگزیدہ امتی جن میں حضرت عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ،جن میں حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اﷲ علیہ، جن میں حضرت جنید بغداری رحمۃ اﷲ علیہ ہیں، نبوت کے بعد اگر اس ملک میں۱؎…
صاحبزادہ صفی اﷲ: پوائنٹ آف آرڈر۔ جناب والا! میں یہ عرض کروں کہ اس کی ضرور ت نہیں ہے کہ یہ ایسی باتیں کریں۔ کمیٹی کے سامنے وہ قرار دادیں ہیں او ر مرزا ناصر احمد کا محضر نامہ یہ ہے۔ گفتگو اسی پر ہونی چاہئے نہ کہ ہماری طرف سے جو بیان مولانا مفتی محمود صاحب نے پڑھا ہے، اس پر گفتگو شروع ہو۔ اگر ایسا ہوا تو ان بیانات کا مقصد فوت ہو جائے گا اور یہ سلسلہ ختم نہیںہوگا۔
2710سردار عنایت الرحمن خان عباسی: نہیں، نہیں۔ دھراتا نہیں۔ میں اپنے فرائض کی ادائیگی کر رہا ہوں۔ اصل بات میں نے کہہ دی ہے،مجھے کہنے دیں۔ یہ ریکارڈ پر آئے۔ میں یہ سمجھتاہوں…
صاحبزادہ صفی اﷲ: اس میں فائدہ نہیں ہے، نہ یہ موضوع زیر بحث ہے۔ یہ مناسب نہیں ہے کہ ایک ممبر اٹھ کھڑا ہو کہ تمہارے بیان میں یہ خامی ہے، وہ خامی ہے۔ یہ غیر متعلقہ بحث ہے۔
سردار عنایت الرحمن خان عباسی: اس میں بہت فائدہ ہے۔
جناب چیئرمین: یہاں آپ کا مناظرہ نہیں شروع ہو جاتا۔ یہ کہ ان کا جواب وہ دیں گے۔ ان کا جواب آپ دیں گے۔ ان کا جواب یہ دیں گے۔
Our discussion should be confined to the Resolution before us, not that one is Sunni and one as Shia. We should not talk against any sect. That is not relevant.
(ہماری بحث ہماری سامنے موجود قرارداد تک محدود رہنی چاہئے۔ اس پر نہیں کہ فلاں سنی ہے اور فلاں شیعہ۔ ہمیں کسی فرقے کے خلاف بات نہیں کرنی چاہئے۔ یہ متعلقہ گفتگو نہیں ہے)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۱؎ عنایت الرحمن عباسی سردار صاحب نے قادیانی محضرنامہ میں ان باہمی فتویٰ جات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جس کا جواب مولانا مفتی محمود صاحب کے پیش کردہ جواب محضر نامہ میں موجود ہے جو ج۱۵،۱۶ میں دیکھا جاسکتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
چوہدری جہانگیر علی: جناب والا! اس کا مطلب ہے کہ مسلمان صف آراء ہوں…
جناب چیئرمین: آپ تشریف رکھیں۔ میں نے یہی بات کی ہے۔
I am sorry This is not relevant.
(میں معذرت خواہ ہوں۔ یہ متعلقہ بات نہیں ہے)
سردار عنایت الرحمن خان عباسی: مسٹر چیئرمین!جناب والا! میری بات تو سن لیں۔
جناب چیئرمین: میں بات نہیں سنتا۔ We are not here to throw mud at each other. the only thing to debate is to declare them a minority. (ہم یہاں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے لئے نہیں بیٹھے ہیں۔ صرف انہیں اقلیت قرار دینے کے لئے گفتگو کرنا چاہتے ہیں)
Ch.Jahangir Ali: Sir, this is not throwing of mud.
(چوہدری جہانگیر علی: یہ کوئی کیچڑ نہیں اچھال رہا)
Mr. Chirman: This is not relevant.
(مسٹر چیئرمین: یہ متعلقہ بات نہیں ہے)
سردار عنایت الرحمن خان عباسی: یہ ریکارڈ پر موجود ہے۔
Mr. Chirman: I cannot agree…
(مسٹر چیئرمین: میں اتفاق نہیں کرسکتا)
2711سردار عنایت الرحمن خان عباسی: میںیہ چھوڑ دیتاہوں۔
Mr. Chirman: I cannot agree to this principle.
(مسٹر چیئرمین: میںاس اصول سے اتفاق نہیں کرسکتا)
چوہدری جہانگیر علی: جناب چیئرمین! اس کمیٹی کے سامنے جو کچھ شہادت پیش ہوئی ہے۔ دراصل بحث کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس شہادت پر جو اس ہاؤس کے سامنے آئی ہے۔ زیر بحث قراردادوں کی روشنی میں ممبر صاحبان اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ لیکن جو چیز ریکارڈ پر آ چکی ہے۔ اگر کوئی فاضل ممبر اس پر اظہار خیال کرنا چاہے تو میرے خیال میں دوسرے ممبر کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اس پر اعتراض کرے۔
Mr.Chairman: I cannot agree to this principle.
(مسٹر چیئرمین: میں اس اصول سے اتفاق نہیں کر سکتا)
چوہدری جہانگیر علی: صاحبزادہ صفی اﷲ صاحب کا یہ اعتراض بالکل غلط ہے۔ جس وقت اسی قسم کے الزامات مرزاناصر احمد لگا رہے تھے۔ کیا اس وقت انہوں نے اس قسم کا پوائنٹ آف آرڈراٹھایاتھا؟
سردار عنایت الرحمن خان عباسی: میں نہیں کہتاہوں۔
چوہدری جہانگیر علی: جناب! ہم نہیں چاہتے تھے کہ اس قسم کا میٹریل ریکارڈ پر آئے۔ ہم بہت صبر کے ساتھ اور جذبات کے ساتھ قابو پا کر یہاں بیٹھے رہے اور مرزا ناصر احمد اور عبدالمنان عمر کی یہ باتیں سنتے رہے۔ ہمارا یہ مطلب نہیں کہ خدانخواستہ اس ہاؤس میں اس قسم کی بات ہو جو انتشار کا موجب بنے۔بہرحال اگر کوئی فاضل ممبران گواہان کے بیانات کا اپنی تقریر کے اندر حوالہ دینا چاہیں تومیرا خیال ہے اس پر اس قسم کی پابندی نہیں لگنی چاہئے۔
Mr.Chairman: I am not in position to agree.
(مسٹر چیئرمین: میںاتفاق کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں)
2712سردار عنایت الرحمن خان عباسی: چلو، رولنگ ہے،سپیکر صاحب کی ہے۔ میں صرف اس ضمن میںکہوںگا۔ تفصیل میں جانا نہیں چاہتاہوں۔ ہم جو مسلمان ہیں۔ ہم دین سے واقف ہیں۔ جو مناسب جواب ہے۔ اس ہاؤس کے سامنے ہمارے علماء ایک پمفلٹ کی شکل میں لائیں اور ہماری رہنمائی فرمائیں۔
کرنل حبیب احمد: پوائنٹ آف آرڈر۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت جو تقریریں ہوئی ہیں اور جو حضرات اپنا مؤقف بیان کر رہے ہیں۔ وہ اب تمام کی تمام کتابوں کی شکل میں باہر آ جائیں گی اور اس کا زبردست تمام دنیا میں پراپیگنڈہ ہو گا اور ہماری آئندہ آنے والی نسلیں اس کو پڑھیں گی۔ یہ ایک مثبت ریکارڈ ہے اور تا قیامت رہے گا اور اس کو تاریخ اور دنیا کی کوئی چیز مٹا نہیں سکے گی اور ہم بھی یہ توقع کر رہے تھے کہ چوہدری صاحب اور دوسرے کئی دوستوں نے یہاں پوائنٹ آؤٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ہمارے علماء کرام جو یہاں تشریف رکھتے ہیں۔ مولانا صاحبان جو ہم سے بہت زیادہ اسلامی تعلیم رکھتے ہیں۔ ہم اس بات کو Admit (تسلیم) کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن کسی نے یہاں کوئی پوائنٹ آف آرڈر نہیں کیا۔ یا دوسری صورت میں پوائنٹ آف آرڈر نہیں کیا۔ میں نے اپنی کم عقلی کے باوجود پوائنٹ آؤٹ کیاتھا کہ انہوں نے یہاں فرمایا تھا کہ اگر یہاں کوئی عالم بیٹھا ہے جو عربی جانتاہے۔ وہ یہ سمجھے گا کہ عربی میں زیر، زبر، پیش سے کیا مطلب ہوتا ہے اور کیسے مفہوم تبدیل ہو سکتا ہے؟ ہمارے یہ علماء کے لئے اتنا بڑا چیلنج تھا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی نہیں اٹھا۔ میں یہ عرض کرناچاہتا ہوں کہ ان کے جواب میں…
جناب چیئرمین: پوائنٹ آف آرڈر پیش کرلیا ہے۔ تشریف رکھیں۔
کرنل حبیب احمد: عباسی صاحب جو تقریر فرمارہے ہیں۔ وہ نہایت مدلل اور Convincing (معقول) ہے۔ اب میں یہ کہتاہوں کہ وہ ریکارڈ پر بھی آئے گی۔ یہ تاریخ ہے اور 2713ایک اسلامی تاریخ ہے۔تو کیا وجہ ہے کہ انہوں نے جو جواب یہاں دیئے۔ ان دلائل کو زیربحث نہ لایاگیا۔ ان کے مؤقف کو جونہایت خطرناک تھا۔ ان کے جوابات کتاب کی شکل میں کیوں نہیں آئے۔ چونکہ میرابیٹا اوراس کا بیٹا،ہماری نسلوں کی نسلیں بھی ان کو پڑھیں گی۔ ہمارے علماء کے بیانات پڑھیں گے۔ تو وہ اپنے ذہن میں کیا تصور پیش کریں گے۔مثلاً میں یہ کہتاہوں کہ جو عباسی صاحب نے فرمایا وہ درست فرمایاہے۔ ہمارے کئی دوست اس طرف بیٹھے ہیں۔ اس وقت یہ پوائنٹ آؤٹ کیا۔ لیکن کوئی بات نہیں بنی اور ہمارے ایڈووکیٹ جنرل صاحب نے ایک ایسی معیاری ایڈووکیسی کی کہ جس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ میرے نزدیک وہ بھی مجھ سے زیادہ عالم ہوں گے۔ لیکن میں یہ چاہتا تھا کہ ہمارے علماء میں اس قسم کا کوئی مذاکرہ ہوتا تاکہ ہم کو بھی پتہ ہوتا۔ میں سنی ہوں۔ لیکن خدا گواہ ہے اگر ہم سنی ہیں تو ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم سنی ہیں۔ یہ میری اپنی بات ہے۱؎۔
جناب چیئرمین: کرنل صاحب!ذرا مجھے عرض کرنے دیں۔ میری بات بھی سن لیں۔ یہ بات اس وقت ریلیونٹ ہوگی کہ مولانا مفتی محمود صاحب اورکسی اورآنریبل ممبر کے دو عقائد ہوں۔ ایک ا ن کا سیاسی عقیدہ ہے اور ایک ان کامذہبی عقیدہ ہے۔ جب مذہبی عقائد کے متعلق ریزرویشن لائیں گے کہ مولانا مفتی محمود کے مذہبی عقائد ٹھیک نہیں ہیں۔ تب یہ ٹھیک تھا اور اس وقت یہ بحث ریلیونٹ ہوگی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آپس میں یہ لڑتے ہیں کہ شیعہ نے سنی کے متعلق یہ لکھا اورسنی نے شیعہ کے متعلق یہ لکھا۔
It appears that discussion is not relevant. They should not try to prove Shia and Sunni. They just want to prove their case.That is the evidence which they adduce in
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۱؎ یہ تمام بحث جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ شیعہ، سنی تناظر میں کی گئی جو مرزاناصر احمد کا عین مدعا تھا۔ تاہم بالغ نظری سے سپیکر نے اس کو ختم کرادیا۔ تفصیل محضر نامے پیش کردہ مولانا مفتی محمود میں پڑھ لیں جو گذر چکا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
respect of their claim. All the sects are unanimous so far as the Qadianies are concerned. This is on record. All the schools of thought are unanimous. We are sitting here to determine the status of Qadianies, not to talk either against the Shia or any other sect..
(یہ بحث غیرمتعلق دکھائی دیتی ہے۔ انہیں شیعہ اور سنی ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ وہ صرف اپنا مدعا ثابت کرنا چاہتے ہیں اور اپنے دعوے کے ثبوت میں وہ یہ شہادت پیش کر رہے ہیں۔ قادیانیوں سے متعلق تمام فرقے متفق ہیں۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ تمام مکاتب فکر متفق ہیں۔ ہم یہاں قادیانیوں کی حیثیت کا تعین کرنے کے لئے بیٹھے ہیں۔ شیعہ ،سنی یا کسی اورفرقہ کے خلا ف گفتگو کرنے کے لئے نہیں)
2714صاحبزادہ صفی اﷲ: میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ بات کرنل صاحب نے جو فرمائی کہ اس کا کسی نے جواب نہیں دیا۔ اصل میں کرنل صاحب کو شاید یاد نہیں ہے کہ چیئرمین صاحب نے فیصلہ سنا ٰیاتھا کہ گواہوں پر جرح کے دوران سوائے اٹارنی جنرل صاحب کے، کوئی جواب یا تقریر نہ کرے۔
جناب چیئرمین: میں جواب دے رہا ہوں کہ وہ ختم ہو گئی۔
مولاناغلام غوث ہزاروی: جناب والا! میں عرض کروں گا کہ…
جناب چیئرمین: وہ ختم ہوگئی۔ عباسی صاحب!شروع کریں۔
مولاناغلام غوث ہزاروی: جناب والا! یہ ریکارڈ میں آئے گا کہ علماء نے ناصر احمد کا جواب نہیں دیا۔ ناصر احمد نے قطعیات کا انکار کیا۔ ناصراحمد نے ہر بات کوٹالا اور یہاں یہ طے شدہ تھا کہ صرف سوالات اے جی صاحب کریں گے اور یہ بھی طے شدہ تھا کہ اے جی صاحب کے سوا کوئی سوالات نہیں کرے گا۔ لیکن ناصر نے جو کچھ کہا، وہ سب غلط کہا ہے۔
جناب چیئرمین: آپ کی تردید ۲۶۰ صفحات کی آگئی ہے۔ عباسی صاحب! آپ تقریر کریں۔
مولاناغلام غوث ہزاروی: آپ نے تو خود علماء کو پابند کیا۔ سب ممبران کو پابند کیا ہے کہ اے جی صاحب کے سوا کوئی سوال نہیں پوچھے گا۔ (مداخلت)
اب یہ کہتے ہیں کہ ساری دنیا میں ریکارڈ جائے گا اور وہاں یہ ہوگا کہ علماء جواب نہیں دے سکے۔ ناصراحمد سب غلط ہے اور ناصر احمد نے سب باتوں سے انکارکیاہے۔
جناب چیئرمین: مولانا صاحب! تشریف رکھیں۔
Maulana Sahib, I do not want to make it a controversy. We are sitting here as a special Committee. Nobody will be allowed to make political profit out of it. We are not here. کچھ تو آپ سوچیں۔ This is not relevant. بہتر فرقے ہیں وہ 2715To debate Brelvi and Wahabi. We should not take the debate on that side that Maulana Mufti being hit or Dr. Bokhari. Certain members do not like it.
(مولانا صاحب!میں اس معاملہ کو متنازعہ نہیں بنانا چاہتا۔ ہم یہاں سپیشل کمیٹی کی حیثیت سے بیٹھے ہیں۔ کسی کو اس معاملہ سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ غیر متعلقہ بات ہے۔ ہم یہاں بریلوی اور وہابی پر بحث کرنے کے لئے بیٹھے؟ ہمیں مفتی صاحب یا بخاری صاحب کو ہٹ کرنے کے لئے اس پر گفتگو نہیں کرنی چاہئے۔ کچھ ارکان ممبر اسے پسند نہیں کرتا)
سردار عنایت الرحمن خان عباسی: وہ ختم ہو گیا ہے اور آپ نے رولنگ دے دی ہے۔ رولنگ میں اب بات ختم ہو گئی ہے۔ بار بار نہ دھرائیں۔
Mr.Chairman: This is not relevnt. Please continue.
(مسٹر چیئرمین: یہ متعلقہ گفتگو نہیں ہے۔ برائے مہربانی جاری رکھیں)
سردار عنایت الرحمن خان عباسی: جناب والا! یہ بات اب ختم ہو گئی۔ میں گزارش کر رہا تھا کہ میں یہ بات زیر بحث لانا چاہتا ہوں کہ دونوں فرقے ذاتی طور پر اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں اور ان کے تسلیم کرنے کے بعد میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس فتنہ کے لئے ریزولیشن ڈرافٹ کرنا چاہئے جس میں احمدیوں کو چاہے وہ کسی فرقہ میں ہو۔ جو اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے بعد کسی صورت میں نبی آ سکتا ہے۔ ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیں۔ شکریہ!
جناب چیئرمین: راؤ خورشید علی خان صاحب! راؤ صاحب کے بھی دستخط ۳۷ ممبران میں ہیں۔ میں چیک نہیں کر رہاہوں۔ اب وقت کم ملے گا۔
راؤ خورشید علی خان: جناب چیئرمین صاحب!میں آپ کا شکرگزار ہوں کہ اس کے باوجود ۳۷ ممبران کی طر ف سے جو جواب دیاگیاہے…
Miangul Aurangzeb: On a point of order Sir. The honourable member has the ear-phones on. He cannot hear. He should take it off.
(میاں گل اورنگزیب: جناب عالی! پوائنٹ آف آرڈر۔ معزز ممبر نے اپنا ایئر فون آن کر دیا ہے۔ وہ نہیں سن سکتے۔ انہیں ایئر فون بند کردینا چاہئے)
Rao Khurshid Ali Khan: All right.
(راؤ خورشید علی خان: بہت اچھا)
Mr.Chairman: The point of order is upheld. It is a valid Point of Order. You may take it off.
(مسٹر چیئرمین: پوائنٹ آف آرڈر درست ہے۔ آپ کو اسے بند کر دینا چاہئے)
Rao Khurshid: Yes. (راؤ خورشید: ٹھیک ہے)
2716راؤ خورشید علی خان: بات یہ ہے کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ میں اپنی کہتا رہوں اور دوسروںکی نہ سنوں۔
جناب چیئرمین: ان کا یہ پوائنٹ ٹھیک ہے۔ آپ اپنی تقریر سن نہیں سکتے۔
 
Top