سرظفر اﷲ خاں کا کردار
اس پروگرام اور سیاسی عزائم کے حصول کا آغاز چوہدری ظفر اﷲ خاں نے اپنے دور وزارت میں بڑے زور وشور سے کیا۔ چوہدری صاحب بڑے فخر سے کہا کرتے کہ وہ چین جائیں یا امریکہ ہر جگہ مرزائیت کی تبلیغ کریں گے۔ وہ اپنی جماعت کے امیر کو مطاع مطلق سمجھتے تھے وہ نہ صرف احمدیت کو خدا کا لگایا ہوا پودا سمجھتے تھے۔ بلکہ یہ بھی کہ مرزاغلام احمد کے وجود کو نکال دیا جائے تو اسلام کا زندہ مذہب ہونا ثابت نہیں ہوسکتا ایسے خیالات کا اظہار وہ نہ صرف نجی مجالس بلکہ سرکاری ملازم ہوتے ہوئے احمدیت کے تبلیغی اجتماعات میں بھی برملا کرتے تھے۔
(ملاحظہ ہو الفضل ۳۱؍مئی ۱۹۵۲ء کراچی کے احمدی اجتماع کی تقریر)
پاکستان بننے کے بعد ایسے شخص کو جب وزارت خارجہ جیسا اہم عہدہ دیا گیا جس کی نگرانی میں تمام دنیا میں سفارتخانوں کا قیام اور پاکستان سے روابط قائم کرانے کا کام بھی تھا تو 2084شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی مرحوم نے اس وقت کے وزیراعظم کو لکھا کہ اگر کلیدی مناصب پر ایسے لوگوں کو فائز کرنے کا یہ تلخ گھونٹ آج گلے سے اتار لیا گیا تو آئندہ زہر کا پیالہ پینے کو تیار رہنا چاہئے۔
مگر یہ نصیحت بوجوہ کارگر نہ ہوسکی اور ہمیں زہر کا ایک پیالہ نہیں کئی کئی پیالے پینے پڑے۔
چوہدری صاحب موصوف تقسیم سے پہلے بھی اپنی سرکاری پوزیشن سے سراسر ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے قادیانی مفادات کے لئے کام کرتے رہے۔ مگر تقسیم کے بعد اس میں بڑھ چڑھ کر اضافہ کردیا۔ وزارت خارجہ کے سہارے سے انہوں نے غیرممالک میں قادیانی تحریک کو تقویت پہنچائی اور اس وقت سے لے کر اب تک یہ لوگ پاکستان کے سفارتی ذرائع سے اپنی باطل تبلیغ کے نام پر عالم اسلام کے خلاف سیاسی، جاسوسی اور سامراجی مفادات حاصل کر رہے ہیں۔ ایسے قادیانی حاشیہ برداروں نے ملکی زرمبادلہ اتنی بے دردی سے ضائع کیا کہ جب بھی اس طرح کی خبریں آئیں مسلمانوں میں تشویش اور اضطراب کی لہر دوڑی اور قومی اسمبلی تک میں اس بارہ میں آوازیں اٹھائی گئیں۔
۱۹۵۳ء کے فسادات پنجاب کی افسوسناک صورت ایسے مطالبات ہی کے نتیجہ میں پیدا ہوئی جس میں سواد اعظم نے دیگر مطالبوں کے علاوہ سرظفر اﷲ اور دیگر مرزائیوں کا کلیدی مناصب سے علیحدگی پر زور دیا گیا تھا۔ مگر ہم ان کے بیرونی آقاؤں مغربی سامراج کے ہاتھوں اتنے بے بس ہوچکے تھے کہ سینکڑوں مسلمانوں کی شہادت کے بعد بھی ’’اس وقت کے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے سرظفر اﷲ کی علیحدگی کے بارہ میں یہ قطعی رائے ظاہر کی کہ وہ اس اہم معاملہ میں کوئی کارروائی نہیں کر سکتے۔‘‘
(منیر انکوائری ص۳۱۹)
وزارت خارجہ جیسے اہم منصب پر فائز یہی شخص تھا جس کے افسوسناک کردار کا ایک رخ حال ہی میں لندن میں ان کے پریس کانفرنس مورخہ ۵؍جون ۱۹۷۴ء کی شکل میں سامنے آیا۔ یہ 2085پریس کانفرنس پاکستانی اخبارات میں آچکی ہے۔ مغربی پریس، بی بی سی اور آکاش وانی بھارت نے اس پریس کانفرنس کے عنوان سے اسی پروپیگنڈہ کی مہم چلائی۔ جس قسم کی مہم المیہ مشرقی پاکستان سے پہلے چلائی گئی تھی۔
بہرحال یہ ایک مثال تھی اس بات کی کہ کلیدی مناصب پر فائز ہونے کی شکل میں ان لوگوں کے ہاتھوں ملک وملت کے مفادات کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔