• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سورۃ النساء آیت 69 اور قادیانی مذہب

اسامہ

رکن ختم نبوت فورم
وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا
سورۃ النساء آیت 69 اور قادیانی تحریف کا جواب

از
محمد اسامہ حفیظ


آیت
وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا
اور جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے ، یعنی انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین ۔ اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں ۔
سورۃ النساء آیت 69
قادیانی کہتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کی اطاعت کرنے سے بندہ نبی بن جاتا ہے۔

جواب نمبر 1
پہلی بات تو یہ ہے کہ دلیل ہی آپ کے دعوے کے مطابق نہیں ہے آپ حضرات نبوت کی تین اقسام مانتے ہیں ( انوار العلوم جلد 2 صفحہ 276,277)ان میں سے ایک قسم کی نبوت کو حضور کے بعد جاری سمجھتے ہیں( کلمہ الفصل صفحہ 112) جو کہ مرزا قادیانی صاحب پر آکر ختم ہوئی ہے۔ ( تشحیذالاذاہان نمبر3 صفحہ 31 :: انوار العلوم جلد 2 صفحہ 578)
تو دلیل وہ پیش کریں جو آپ کے دعوے کے مطابق ہو یعنی نبوت کی تین اقسام میں سے حضور صلی اللہ وسلم کے بعد ایک قسم کی نبوت جاری ہونے کا اور وہ مرزا صاحب پر بند ہونے کا ذکر ہو۔
دوسری بات یہ ہے کوئی بھی ذی شعور اور صاحب عقل آدمی اس آیت کا صرف ترجمہ پڑھ لے تو اسے خود پتہ چل جائے گا کہ اس آیت سے نبوت کے جاری ہونے کا قطعاً کوئی ثبوت نہیں ملتا بلکہ اس آیت میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ وسلم کی اطاعت کرنے والوں کو یہ خوشخبری دی جا رہی ہے کہ یہ لوگ قیامت میں صدیق، شہید، صالحین اور انبیاء کے ساتھ ہوں گئے جیسے آیت کے آخری الفاظ
وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا
ترجمہ: اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں ۔
بات کو روز روشن کی طرح واضح کر رہے ہیں۔ پس ثابت ہوا یہ آیت صرف قیامت کی معیت کے باری میں ہے۔
بات کو اور واضح کرنے کے لیے قادیانیوں کے تسلیم کردہ دسویں صدی کے مجدد امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے اس آیت کا شان نزول پیش کرتا ہوں۔
1_امام صاحب فرماتے ہیں
بعض صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ جنت کے بلند و بالا مقامات پر ہوں گے اور ہم جنت کے نچلے درجات میں ہوں گے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کیسے کریں گئے تو یہ آیت نازل ہوئی

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا
(تفسیر جلالین صفحہ 112)
یہاں رفاقت سے مراد جنت کی رفاقت ہے کہ انبیائے کرام اگرچہ جنت کے بالا خانوں میں ہوں گے لیکن پھر بھی صحابہ کرام اور دوسرے نیک لوگ انبیاء کرام کی زیارت سے فیض یاب ہوں گے۔ جیسا کہ شان نزول سے ظاہر ہے۔
2_امام رازی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
اذا ارادوا الزيارة والتلاقي قدروا عليه فهذا هو المراد من هذه المعية.( تفسیر الرازی جلد 10 صفحہ 133)
مطیعین جب نبیوں صدیقوں اور شہیدوں سے ملنا چاہیں گے تو مل سکیں گے "مع" سے یہی مراد ہے۔
اس آیت میں آخرت میں معیت کا ذکر ہے اس پر ایک حدیث شریف بھی پیش کرتا ہوں۔
حدیث
امی عائشہ فرماتی ہیں
میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ہر نبی کو مرض وفات میں اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں رہنا چاہتا ہے یا عالم آخرت میں۔ جس مرض میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس مرض میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ اس سے میں سمجھ گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ( دنیا اور آخرت میں سے ایک کا) اختیار دیا جا رہا ہے۔ (مشکواۃ شریف::حدیث نمبر 5960)
کتب سیرت میں یہ روایت موجود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال کے وقت یہ الفاظ ارشاد فرمائے
مع الرفيق الاعلي في الجنة مع الذين انعمت عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين
رفیق اعلی کے ساتھ جنت میں انعام یافتہ لوگوں یعنی انبیاء، صدیق، شہید، اور صالحین کے ساتھ
(1_ السیرۃ النبویة لا بن كثيرجلد 4 صفحہ 477
2_ جمع الوسائل فی شرح الشمائلجلد 2 صفحہ 202
3_البدایة و النهايةجلد 5 صفحہ 261
4_ الطبقات الکبریجلد 2 صفحہ 177
5_نهایة الارب في فنون الأدبجلد 18 صفحہ 382)
ثابت ہوا کہ اس آیت میں نبی بننے کا ذکر نہیں ہیں کیونکہ حضور علیہ السلام نبی تو پہلے ہی بن چکے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمنا آخرت کی معیت کے متعلق تھی۔
کچھ اور احادیث ملاحظہ فرمائیں جن میں معیت کا ذکر ہے اور اس سے مراد جنت کی رفاقت ہے۔

حدیث نمبر 1

رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَنْ قَرَأَ أَلْفَ آيَةٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُتِبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ، وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا، إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى ".
رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا جو شخص ایک ہزار آیات روزانہ اللہ کی رضا کے لئے لیے تلاوت کرے وہ قیامت کے دن نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ہوگا اور انشاء اللہ ان کی رفاقت خوب رہے گی۔
(مسند احمد حدیث نمبر 15611،المعجم الکبیر طبرانی حدیث نمبر 399،عمل الیوم واللیلة لابن السني حدیث نمبر 704،المقصد العلی فی زوائد ابی یعلی الموصلی حدیث نمبر 421،مسند ابی یعلی الموصلی حدیث نمبر 1489، الابانة الكبرى لابن بطة حدیث نمبر 518)

حدیث نمبر 2
عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ، ‏‏‏‏‏‏وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سچا امانت دار تاجر انبیاء صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا۔
(سنن دارمی حدیث نمبر 2581،سنن ترمذی حدیث نمبر 1209،المستدرک علی الصحیحین حدیث نمبر 2143)
یہ روایت سنن دارقطنی میں بھی موجود ہے لیکن صرف دارقطنی میں میں آخر میں "یوم القیامة" کے الفاظ کا اضافہ ہے ( سنن دارقطنی حدیث نمبر 2813)


حدیث نمبر 3

‏‏‏‏‏‏وَمَنْ أَحَبَّنِي كَانَ مَعِي فِي الْجَنَّةِ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔
(سنن ترمذی حدیث نمبر 2678،تعظیم قدر الصلاۃ حدیث نمبر 714،المعجم الاوسط حدیث نمبر 9439،ترغیب فی فضائلِ اعمال حدیث نمبر 527)


اب قادیانی یہ بتائیں کہ کیا کوئی سچا تاجر یا ایک ہزار آیات روزانہ پڑھنے والا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والا نبی بن سکتا ہے ؟؟؟ یقیناً قادیانیوں کا جواب یہی ہو گا کہ سچا تاجر اور ایک ہزار آیات روزانہ پڑھنے والا قیامت کے دن نبیوں صدیقوں شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ہم کہتے ہیں کہ جس طرح سچا تاجر اور ایک ہزار آیات روزانہ پڑھنے والا نبی نہیں بن سکتا بلکہ قیامت کے دن انبیاء صدیقین شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا اسی طرح اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والا بھی نبی یا رسول نہیں بن سکتا بلکہ قیامت کے دن انبیاء صدیقین شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔
ان تمام احادیث میں "مع" کا لفظ ہے جو معیت کے معنی میں استعمال ہوا ہے ان کو عینیت کے معنوں میں لینا ممکن ہی نہیں ہے۔


جواب نمبر 2
قادیانی اپنے باطل استدلال کی تائید کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے ایک امام لغت راغب اصفہانی کا قول پیش کرتے ہیں۔قادیانی حضرات کا کہنا ہے کہ امام راغب کے ایک قول سے ان کے بیان کردہ معنیٰ کی تائید ہوتی ہے۔وہ کہتے ہیں امام راغب نے فرمایا ہے کے نبیوں وغیرہ میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ منعم علیہم کے ساتھ ہوگا۔لہذا ضروری ہوا کہ اس امت میں بھی کچھ نبی ہونے چاہیے جو رسول کی اطاعت کرنے والے ہو۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ
قادیانی حضرات (پاکٹ بُک تعلیمی صفحہ 112:: پاکٹ بُک تبلیغی صفحہ 255) نے عبارت نقل کرنے میں دجل سے کام لیا ہے یہ حوالہ علامہ اندلسی کی تفسیر البحر المحیط سے لیا گیا ہے مگر انہوں نے اس قول کو نقل کر کے اپنی رائے اس طرح بیان فرمائی ہے۔
وهذا وجه الذي هو عنده ظاهر فاسدمن جهةالمعنى ومن جهته النهر ( البحر المحیط جلد 3 صفحہ 699 :: قادیانی کتاب قندیل صداقت صفحہ 190)
علامہ اندلسی فرماتے ہیں معنی اور نحو کے لحاظ سے یہ بات فاسد ہے
(قادیانیوں نے یہ جملہ یا اسے کہو کہ علامہ اندلیسی نے جو نتیجہ نکالا وہ نقل ہی نہیں کیا)
لہذا معلوم ہوا کہ یہ بالکل مردود اور ساقط الاستدلال ہے اور دوسری بات یہ کہ امام راغب کی کسی کتاب میں اس طرح کی عبارت نہیں ملتی۔ ان کی طرف یہ منسوب کرنا صحیح نہیں ہے۔ان کی طرف اس قول کی غلط نسبت ہے اس پر ہمارے پاس دو قرینہ موجود ہیں۔

پہلا قرینہ
امام راغب نے صدیقین کی تفسیر میں ایک رسالہ تصنیف فرمایا ہے جس کا نام
"الذریعہ الی مکارم الشریعہ" ہے۔ آیت

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا
کا تعلق بھی اسی موضوع سے ہے اگر بالفرض امام راغب کا یہی مسلک ہوتا جو البحر المحیط میں نقل ہے تو اس کتاب میں ضرور نقل کرتے لیکن پوری کتاب میں کہیں اشارۃً بھی اس کا ذکر نہیں ملتا۔

دوسرا قرینہ
اگر اس طرح کی عبارت امام راغب کی کسی کتاب میں ہوتی تو قادیانی مناظرین امام راغب کی اسی کتاب سے حوالہ دیتے لیکن قادیانیوں نے تو تفسیر البحر المحیط سے بے سند قول پیش کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ امام راغب نے اس طرح کی کوئی بات نہیں لکھی یہ قول ان کی طرف منسوب ایک بے سند قول ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں۔
امام راغب کا قول کئی وجوہات کی وجہ سے ہمارے لئے حجت نہیں۔ مثلاً امام راغب کے حالات زندگی واضح نہیں ہیں۔ کب پیدا ہوئے اور کہاں پیدا ہوئے؟ کہاں اور کس سے تعلیم حاصل کی؟ کچھ معلوم نہیں( مفردات القرآن صفحہ نمبر 7 )
اگر اس قول کو امام راغب کا قول مان بھی لیا جائے اور اس قول کو سہی بھی تسلیم کر لیا جائے تو بھی ہمارے خلاف نہیں ہے کیوں کہ تمام انبیاء کرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی اور متبع ہیں( روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 300) شب معراج میں تمام انبیاء نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور اقتداء کی اور بیت المقدس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کی اس کے علاوہ انبیاء سابقین اور بنی اسرائیل سلسلہ کے آخری نبی سیدنا عیسی علیہ السلام آیات قرآنی اور احادیث نبوی کی رو سے قیامت سے قبل اس امت میں تشریف لائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی اتباع اور اطاعت کریں گا۔ لہذا انبیاء میں سے ایک فرد کامل ایسا مل گیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور اطاعت کرے گا واضح رہے کہ مرزا قادیانی براہین احمدیہ حصہ پنجم کے صفحہ 133 پر خود تسلیم کرتا ہے کہ
یوں تو قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ہر نبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں داخل ہے جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے "لتومنن به ولتنصرنه" پس اس طرح تمام انبیاء حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہوئے۔( روحانی خزائن جلد 21 صفحہ نمبر 300)

جواب نمبر 3
قادیانی کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں دو آیات ہیں جن میں "مع" "من" یا "فی" کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ایک ایک آیت پیش کر کے جواب دیتا ہوں۔

آیت نمبر 1

اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا وَ اَصۡلَحُوۡا وَ اعۡتَصَمُوۡا بِاللّٰہِ وَ اَخۡلَصُوۡا دِیۡنَہُمۡ لِلّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ؕ وَ سَوۡفَ یُؤۡتِ اللّٰہُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَجۡرًا عَظِیۡمًا

مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کر لی وہ سنور گئے اورانہوں نے اللہ سے مضبوط تعلق جوڑ لیا اور انہوں نے اپنا دین اللہ کے لئے خالص کر لیا تو یہ مؤمنوں کی سنگت میں ہوں گے اور عنقریب اللہ مومنوں کو عظیم اجر عطا فرمائے گا
سورۃ النساء آیت 146
قادیانی کہتے ہیں کیا یہ توبہ کرنے والے خود مومن نہیں ہیں بلکہ مومنوں کے ساتھ ہیں؟ نہیں بلکہ وہ مومن ہیں پس ثابت ہوا "مع" معنی "من" کے معنی میں آتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مومنین پر الف لام عہد کا ہے اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو شروع سے خالص مومن ہیں ان سے کبھی نفاق سرزد نہیں ہوا ان کی معیت میں وہ لوگ جنت میں ہوں گے جو پہلے منافق تھے پھر توبہ کر کے مخلص مومن بن گئے۔ تو ثابت ہوا کہ مع اپنے اصل معنی مصاحبت کے لئے آیا ہے نہ کہ بمعنی من۔

آیت نمبر 2
رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیۡ لِلۡاِیۡمَانِ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ فَاٰمَنَّا ٭ۖ رَبَّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ کَفِّرۡ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الۡاَبۡرَارِ
اے ہمارے رب! ( ہم تجھے بھولے ہوئے تھے ) سو ہم نے ایک ندا دینے والے کو سنا جو ایمان کی ندا دے رہا تھا کہ ( لوگو! ) اپنے رب پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے آئے ۔ اے ہمارے رب! اب ہمارے گناہ بخش دے اور ہماری خطاؤں کو ہمارے ( نوشتۂ اعمال ) سے محو فرما دے اور ہمیں نیک لوگوں کی سنگت میں موت دے
قادیانی کہتے ہیں کہ یہاں مع من کے معنوں میں آیا ہے اگر من کے معنوں میں نہ لیا جائے تو اس کا مطلب ہوگا کہ یا اللہ ہمیں اس وقت موت دے جب نیک لوگوں کی موت ہو۔
اس کا جواب امام رازی نے پہلے سے ہی دے رکھا ہے امام صاحب فرماتے ہیں
ابرار کے ساتھ وفات کے یہ معنی ہیں کہ ان کے عمل جیسے عمل پر موت آئے تاکہ روز قیامت ان کے سے درجات میں ہوں۔ مرد عالم آج بھی بولتا ہے کہ اس مسئلہ میں امام شافعی کے ساتھ ہوں اور اس سے مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرا اور ان کا عقیدہ ایک ہے ( نا یہ کہ میں ان کے ساتھ پیدا ہوا یا بڑھتا رہا یا فوت ہوا ) { تفسیر رازی جلد 9 صفحہ 467}
اس لیے جملہ محققین مفسرین نے "مع" کو یہاں مصاحبت کے لئے ہی تحریر کیا ہے۔
تعلیمی پاکٹ بُک والے نے تو یہاں تک بس کر دی لیکن نہ جانے تبلیغی پاکٹ بک والے کو کیا سوجھا لکھتا ہے
ایک جگہ شیطان کے متعلق آیا ہے

اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ مَعَ السّٰجِدِیۡنَ
سوائے ابلیس کے ، اس نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے انکار کر دیا
سورۃ الحجر آیت 31
کے وہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہ ہوا اور
کے وہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہ ہوا اور دوسرے جگہ
وَ لَقَدۡ خَلَقۡنٰکُمۡ ثُمَّ صَوَّرۡنٰکُمۡ ثُمَّ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ ٭ۖ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ لَمۡ یَکُنۡ مِّنَ السّٰجِدِیۡنَ
اور بیشک ہم نے تمہیں ( یعنی تمہاری اصل کو ) پیدا کیا پھر تمہاری صورت گری کی ( یعنی تمہاری زندگی کی کیمیائی اور حیاتیاتی ابتداء و ارتقاء کے مراحل کو آدم ( علیہ السلام ) کے وجود کی تشکیل تک مکمل کیا ) ، پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم ( علیہ السلام ) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ۔ وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہوا۔
آتا ہے ( تبلیغی پاکٹ بُک صفحہ نمبر 252)
یعنی دیکھو دونوں جگہ لفظ ساجد آیا ہے لیکن دوسری آیت میں بجائے مع کے من ہے ثابت ہوا کہ مع بمعنی من ہوتا ہے۔
نوٹ:: تبلیغی پاکٹ بُک کتاب کے اس حوالہ میں مکمل آیات اور ان کا ترجمہ ہم نے اپنی طرف سے لکھا ہے قادیانیوں نے ہمیشہ کی طرح تین چار الفاظ آیت کے لکھے تھے۔
اگر یہ استدلال درست ہے تو خطرہ ہے کہ کوئی مجنون یہ بھی نہ کہہ دے کہ سورة ص میں آتا ہے

قَالَ یٰۤاِبۡلِیۡسُ مَا مَنَعَکَ اَنۡ تَسۡجُدَ لِمَا خَلَقۡتُ بِیَدَیَّ ؕ اَسۡتَکۡبَرۡتَ اَمۡ کُنۡتَ مِنَ الۡعَالِیۡنَ
( اﷲ نے ) ارشاد فرمایا: اے ابلیس! تجھے کس نے اس ( ہستی ) کو سجدہ کرنے سے روکا ہے جسے میں نے خود اپنے دستِ ( کرم ) سے بنایا ہے ، کیا تو نے تکبّر کیا یا تو ( بزعمِ خویش ) بلند رتبہ ( بنا ہوا ) تھا
سورۃ ص آیت 75
کیوں کہ اس آیت میں بجائے ساجدین کے عالین ہے پس ثابت ہوا کے ساجدین بمعنی عالین بھی ہوتا ہے ( معاذاللہ)
قرآن مجید عربی زبان میں ہے اس کے متکلم کا اسلوب بیان عجیب اور دل نشین ہے ایک ہی واقعہ متعدد مقامات میں بیان ہوتا ہے لیکن طریقہ بیان مختلف ہوتا ہے جس میں متکلم کی ایک خاص غرض اور حکمت پوشیدہ ہوتی ہے ابلیس مردود نے ایک جرم میں تین گناہ کیے تھے (1) اس نے تکبر کیا تھا اس کا ذکر سورۃ ص کی آیت کُنۡتَ مِنَ الۡعَالِیۡنَ ( سورۃ ص آیت 75)میں کیا گیا ہے (2) اس نے اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی اس کا ذکر سورۃ اعراف کی آیت 11 میں ہوا۔ لَمۡ یَکُنۡ مِّنَ السّٰجِدِیۡنَ (3) اس نے جماعت سے مفارقت کی تھی اس کا بیان ان سورة الحجر {اَبٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ مَعَ السّٰجِدِیۡنَ} سورۃ الحجر آیت 31 میں مذکور ہے۔پس مع ہرگز من کے معنوں میں نہیں ہے بلکہ دونوں کے فائدے الگ الگ اور دونوں جدا گانہ امر کے بیان کے لیے ہیں۔
اب میں قرآن مجید کی وہ آیات آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ "مع" "من" کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔

آیت نمبر 1

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ
اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے ( مجھ سے ) مدد چاہا کرو ، یقیناً اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ( ہوتا ) ہے
سورۃ البقرہ آیت 153

آیت نمبر 2
ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ؕ یَعۡلَمُ مَا یَلِجُ فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا یَخۡرُجُ مِنۡہَا وَ مَا یَنۡزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَ مَا یَعۡرُجُ فِیۡہَا ؕ وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ
وہی ہے جِس نے آسمانوں اور زمین کو چھ اَدوار میں پیدا فرمایا پھر کائنات کی مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہوا ( یعنی پوری کائنات کو اپنے امر کے ساتھ منظم فرمایا ) ، وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو کچھ اس میں سے خارج ہوتا ہے اور جو کچھ آسمانی کرّوں سے اترتا ( یا نکلتا ) ہے یا جو کچھ ان میں چڑھتا ( یا داخل ہوتا ) ہے ۔ وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے تم جہاں کہیں بھی ہو ، اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو ( اسے ) خوب دیکھنے والا ہے
سورۃ الحدید آیت نمبر 4

آیت نمبر 3

اِلَّا تَنۡصُرُوۡہُ فَقَدۡ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذۡ اَخۡرَجَہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ثَانِیَ اثۡنَیۡنِ اِذۡ ہُمَا فِی الۡغَارِ اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ۚ فَاَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلَیۡہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمۡ تَرَوۡہَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا السُّفۡلٰی ؕ وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الۡعُلۡیَا ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ
اگر تم ان کی ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلبۂ اسلام کی جد و جہد میں ) مدد نہ کرو گے ( تو کیا ہوا ) سو بیشک اللہ نے ان کو ( اس وقت بھی ) مدد سے نوازا تھا جب کافروں نے انہیں ( وطنِ مکہ سے ) نکال دیا تھا درآنحالیکہ وہ دو ( ہجرت کرنے والوں ) میں سے دوسرے تھے جبکہ دونوں ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) غارِ ( ثور ) میں تھے جب وہ اپنے ساتھی ( ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے فرما رہے تھے: غمزدہ نہ ہو بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ، پس اللہ نے ان پر اپنی تسکین نازل فرما دی اور انہیں ( فرشتوں کے ) ایسے لشکروں کے ذریعہ قوت بخشی جنہیں تم نہ دیکھ سکے اور اس نے کافروں کی بات کو پست و فروتر کر دیا ، اور اللہ کا فرمان تو ( ہمیشہ ) بلند و بالا ہی ہے ، اور اللہ غالب ، حکمت والا ہے
سورۃ التوبہ آیت 40

آیت نمبر 4

وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ وَ اصۡبِرُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ
اور اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا مت کرو ورنہ ( متفرق اور کمزور ہو کر ) بزدل ہو جاؤ گے اور ( دشمنوں کے سامنے ) تمہاری ہوا ( یعنی قوت ) اکھڑ جائے گی اور صبر کرو ، بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
سورۃ الانعام آیت 46

آیت نمبر 5

اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّ الَّذِیۡنَ ہُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ
بیشک اللہ اُن لوگوں کو اپنی معیتِ ( خاص ) سے نوازتا ہے جو صاحبانِ تقوٰی ہوں اور وہ لوگ جو صاحبانِ اِحسان ( بھی ) ہوں
سورۃ النحل آیت نمبر 128

آیت نمبر 6

اَلشَّہۡرُ الۡحَرَامُ بِالشَّہۡرِ الۡحَرَامِ وَ الۡحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ؕ فَمَنِ اعۡتَدٰی عَلَیۡکُمۡ فَاعۡتَدُوۡا عَلَیۡہِ بِمِثۡلِ مَا اعۡتَدٰی عَلَیۡکُمۡ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الۡمُتَّقِیۡنَ
حرمت والے مہینے کے بدلے حرمت والا مہینہ ہے اور ( دیگر ) حرمت والی چیزیں ایک دوسرے کا بدل ہیں ، پس اگر تم پر کوئی زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو مگر اسی قدر جتنی اس نے تم پر کی ، اور اﷲ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اﷲ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے
سورۃ البقرہ آیت 194

آیت نمبر 7
مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا ۫ سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ؕ ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ ۚ ۖ ۛ وَ مَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ ۚ ۟ ۛ کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡئَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ ؕ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا
محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اﷲ کے رسول ہیں ، اور جو لوگ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی معیت اور سنگت میں ہیں ( وہ ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں ۔ آپ انہیں کثرت سے رکوع کرتے ہوئے ، سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ ( صرف ) اﷲ کے فضل اور اس کی رضا کے طلب گار ہیں ۔ اُن کی نشانی اُن کے چہروں پر سجدوں کا اثر ہے ( جو بصورتِ نور نمایاں ہے ) ۔ ان کے یہ اوصاف تورات میں ( بھی مذکور ) ہیں اور ان کے ( یہی ) اوصاف انجیل میں ( بھی مرقوم ) ہیں ۔ وہ ( صحابہ ہمارے محبوبِ مکرّم کی ) کھیتی کی طرح ہیں جس نے ( سب سے پہلے ) اپنی باریک سی کونپل نکالی ، پھر اسے طاقتور اور مضبوط کیا ، پھر وہ موٹی اور دبیز ہوگئی ، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی ( اور جب سرسبز و شاداب ہو کر لہلہائی تو ) کاشتکاروں کو کیا ہی اچھی لگنے لگی ( اﷲ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنھم کو اسی طرح ایمان کے تناور درخت بنایا ہے ) تاکہ اِن کے ذریعے وہ ( محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جلنے والے ) کافروں کے دل جلائے ، اﷲ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے
سورۃ الفتح آیت 29
اور بھی بہت سی آیات ہیں لیکن اختصار سے یہ آیت درج کی ہیں۔
ان تمام آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مع اپنے حقیقی اور اصل معنوں میں ہی استعمال ہوتا ہے من کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔

جواب نمبر 4
قادیانی کہتے ہیں کہ اگر اس آیت میں صرف رفاقت کا ذکر ہے تو آپ اس امت میں صدیق، شہید اور اور صالحین کیوں مانتے ہیں کیونکہ آیت میں تو صرف رفاقت کا ذکر ہے۔
اس کا جواب یہ کہ
اس آیت میں اس بات کا قطعاً ذکر نہیں ہے کہ کوئی شخص اطاعت کر کے نبی ، صدیق یا شہید ہوگا یا نہیں ہو گا۔بلکہ یہاں مقصد صرف اطاعت کا نتیجہ بیان کرنا ہے کہ جو اطاعت کرے گا اس کو ان حضرات کے ساتھ رفاقت فی المکان حاصل ہوگی۔امت میں تین درجے جو ہم مانتے ہیں وہ اس آیت سے نہیں مانتے کیونکہ اس آیت میں درجات ملنے کا ذکر ہی نہیں وہ دوسری آیات سے مانتے ہیں جن میں درجات ملنے کا ذکر ہے اور جن آیات میں دنیا میں درجات ملنے کا ذکر ہے وہاں نبوت کا درجہ ملنے کا کوئی ذکر موجود نہیں۔
اب آپ کی خدمت میں وہ آیات پیش کرتا ہوں جن سے امت میں ہم یہ تین درجے مانتے ہیں۔


وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ وَ نُوۡرُہُمۡ ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ
اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ، اُن کے لئے اُن کا اجر ( بھی ) ہے اور ان کا نور ( بھی ) ہے ، اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی لوگ دوزخی ہیں
سورۃ حدید آیت 19

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدۡخِلَنَّہُمۡ فِی الصّٰلِحِیۡنَ
اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے تو ہم انہیں ضرور نیکو کاروں ( کے گروہ ) میں داخل فرما دیں گے
سورۃ العنکبوت آیت 9
ان آیات میں دنیا میں درجات ملنے کا ذکر ہے اور ان میں نبوت کا درجہ دنیا میں ملنے کا ذکر نہیں ہے۔
 
مدیر کی آخری تدوین :
Top