• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(سوشل تعلقات کے سوال پر بے مقصد طویل گفتگو)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(سوشل تعلقات کے سوال پر بے مقصد طویل گفتگو)
جناب عبدالمنان عمر: جی، میں سوشل کی ۔۔۔۔۔۔۔ ذرا اِجازت دیجئے تو میں گفتگو کروں۔ میں نے علامہ اقبال کا نام اس لئے نہیں لیا تھا کہ وہ اُن کا کوئی فقرہ ایک آدھ میری نظر کے سامنے سے گزرگیا تھا۔ میں آپ کے سوشل تعلقات کے ذِکر میں اُس کو لایا کہ یہ علامہ اقبال صاحب، اتنی شدید مخالفت بعد میں اُنہوں نے کی ہے۔ اگر مرزا صاحب کی وجہ سے ان کی مخالفت ہوتی، مرزا صاحب کے معتقدات کی وجہ سے ہوتی تو وہ اتنا حکیم شخص تھا، اُس نے اتنا عرصہ… معتقدات اُن کے سامنے ہیں، بیعت وہ شخص کرتا ہے… معلوم ہوا وہ اُن معتقدات کے باوجود وہ بیعت کر رہا تھا۔ اُس کو اِختلاف پیدا ہوا۔ میں اُن اِختلافات کا ضرور ذِکر کرنا چاہتا ہوں۔ وہ اِختلافات پیدا ہوئے اور اتنے شدید پیدا ہوئے کہ اس پر کتابیں اُنہوں نے لکھیں۔ یہی میرا موقف ہے جناب! کہ لوگوں کو اِختلاف جو ہے مرزا صاحب کے وجود میں، مرزا صاحب کے زمانے میں، مرزا صاحب کے معتقدات کی وجہ سے نہیں پیدا ہوا، بلکہ بعد میں ایسے حالات پید ا ہوگئے اور ایسے نئے Factors جمع ہوگئے جن کی وجہ سے وہ لوگ جو پہلے مرزا صاحب کو مانتے تھے، اُنہوں نے بھی آپ کو چھوڑا۔ یہ تھا میرا موقف۔
اور دُوسری گزارش اس سلسلے میں جو کرنا چاہتا تھا کہ علامہ اقبال وہ ہیں، وہ خود جماعت کے بڑے سخت مخالف، مگر اُن کے بھتیجے جماعت میںشامل، اُن کے بھائی 1621جماعت میں شامل، اُن کے والد جماعت میں شامل۔ کوئی تعلق خراب نہیں تھے، وہی علامہ اقبال جن کے بھائی جماعت میں شامل تھے، وہ اُن کو باپ کی طرح سمجھتے تھے۔ تو محض یہ کہنا کہ اِختلافِ عقائد کی وجہ سے سوشل تعلقات خراب ہوگئے تھے، یہ صورت نہیں ہے۔ جو بُرے لوگ تھے وہ بُرے تعلقات رکھتے تھے۔ جو اچھے لوگ، فہمیدہ لوگ تھے، سلجھے ہوئے لوگ تھے، اُنہوں نے تعلقات خراب نہیں کئے۔ میں نے علامہ اقبال کی مثال اس لئے عرض کی ہے کہ اُسی ایک گھر کے اندر بھائی اور دُوسرا بھائی، اُن کے بھیجتے، اُن کے بیٹے کوئی تعلقات خراب نہیں، اُن کے تعلقات بڑے اچھے تھے۔ یہ تھی وجہ اس نام کے پیش کرنے کی۔
دُوسرا میں عرض یہ کر رہا تھا کہ اگر اُن کے تعلقات اُن کے معتقدات اتنے خراب تھے تو چاہئے یہ تھا کہ وہ شخص جب دعویٰ کرتا تھا، میں نے بتایا ہے کہ اُس وقت بھی اُس کے خلاف کوئی آواز نہیں اُٹھی۔ درمیان میں ایک دور آیا مخالفت کا اور وہ اِنفرادی طور پر جگہ بہ جگہ اُس مخالفت کا ظہور ہوتا رہا۔ جس بات کا میں نے اِنکار کیا تھا وہ یہ تھی کہ اس طرح ملک گیر پیمانے پر سوائے ۱۹۵۳ء کے اور سوائے موجودہ حالات کے، یہ اِختلافات نے اتنی شدید اور بھیانک صورت اِختیار نہیں کی تھی۔ یہ میں نے تقابل کے طور پر پیش کیا تھا۔ یہ میرا موقف بالکل نہیں تھا کہ بالکل جماعت کی مخالفت ہوئی نہیں۔ میں نے تو خود عرض کیا تھا کہ ان لوگوں کے بعض حصے ایسے تھے، بعض لوگ ایسے تھے، بعض محلے ایسے تھے کہ وہاں اُن کو مسجدوں میں نہیں جانے دیتے تھے، اُن کے جنازے خراب ہوجاتے تھے، تو یہ میں تسلیم کرتا ہوں، یہ حالات پیدا ہوئے، اور اس کی وجہ سے دقتیں بھی پیدا ہوئی تھیں۔ مگر میں عرض یہ کررہا تھا کہ معتقدات اپنی جگہ یا وہ دعوے ایسے نہیں تھے جن کی وجہ سے اتنا عالمگیر قسم کا اور اتنا ہمہ گیر قسم کا کوئی اِختلاف ہوتا۔ یہ میرے علم میں صرف دو مثالیں ہیں۔ پھر یہ کہ مرزا صاحب جب فوت ہوئے تو جماعت کا ذِکر میں نہیں کررہا، مسلمانوں کا ذِکر 1622کر رہا ہوں جو اُن کے ہم عقیدہ نہیں تھے، اُن میں سے یہ دیکھئے مولانا ابوالکلام آزاد، وہ فرماتے ہیں: ’’وہ شخص، بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا، زبان جادو، وہ شخص دماغی عجائبات کا مجموعہ تھا، جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی، جس کی اُنگلیوں سے اِنقلاب کے تار اُلجھے ہوئے تھے، جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں۔ وہ شخص جو مذہبی دُنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان بنا رہا، جو شور قیامت ہوکر خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا، خالی ہاتھ دُنیا سے اُٹھ گیا۔ یہ تلخ موت، یہ زہر کا پیالہ جس نے مرنے والی کی ہستی تہِ خاک پنہاں کردی، ہزاروں لاکھوں زبانوں پر تلخ کامیاں بن کے رہیں گے اور قضاء کے حملے نے ایک جیتی جان کے ساتھ جن آرزوؤں اور تمناؤں کا قتلِ عام کیا ہے، صدائے ماتم مدّت تک اس کی یاد تازہ رکھے گی۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور ایسے لوگ جن سے مذہبی یا اپنی دُنیا میں اِنقلاب پیدا ہوتا ہے، ہمیشہ دُنیا میں نہیں آتے۔ یہ نازشِ فرزندانِ تاریخ بہت کم منظرِعالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں تو دُنیا میں اِنقلاب پیدا کرکے دِکھادیتے ہیں۔ مرزا صاحب کی اس رحلت نے اُن کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اِختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو اُن تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرادیا کہ اُن کا ایک بہت بڑا شخص اُن سے جدا ہوگیا۔‘‘
یہ مولانا ابوالکلام آزاد، جو اِن کے ماننے والے نہیں تھے، یہ اُن کا تأثر ہے۔ اسی طرح۱؎…
 
Top