(سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی توہین)
اب باقیماندہ وجوہات تکفیر میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین۔ آنحضرتﷺ کی توہین اور دیگر انبیاء علیہم السلام کی توہین کے بارہ میں گواہان مدعیہ کے بیانات کا خلاصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں مرزاغلام احمد صاحب کی حسب ذیل تحریروں پر اعتراض کیاگیا ہے۔مرزاصاحب اپنی کتاب (دافع البلاء ص۴، خزائن ج۱۸ ص۲۰۰) پر لکھتے ہیں: ’’لیکن مسیح کی راست بازی اپنے زمانہ میں دوسرے راست بازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ یحییٰ نبی کو اس پر ایک فضیلت ہے۔ کیونکہ وہ شراب نہیں پیتا تھا اور کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ کسی فاحشہ عورت نے آکر اپنی کمائی کے مال سے اس پر عطر ملا تھا یا اپنے ہاتھوں یا سر کے بالوں سے اس کو چھوا تھا۔ یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی تھی۔ اس وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ علیہ السلام کا نام ’’حصور‘‘ رکھا۔ مگر مسیح کا یہ نام نہ رکھا۔ کیونکہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے۔‘‘
(حاشیہ ضمیمہ انجام آتھم ص۴، خزائن ج۱۱ ص۲۸۸) پر لکھتے ہیں کہ: ’’پس اس نادان اسرائیلی نے ان معمولی باتوں کا پیش گوئی نام کیوں رکھا۔‘‘
آگے (ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۵، خزائن ج۱۱ ص۲۸۹) پر لکھتے ہیں کہ: ’’آپ کو گالیاں دینے اور بدزبانی کی اکثر عادت تھی۔‘‘
اس (حوالہ ایضاً) پر آگے کہتے ہیں کہ: ’’میرے نزدیک آپ کی یہ حرکات جائے افسوس نہیں۔ کیونکہ آپ تو گالیاں دیتے تھے اور یہودی ہاتھ سے کسر نکال لیا کرتے تھے۔‘‘
آگے (حوالہ ایضاً) ہے کہ: ’’یہ بھی یاد رہے کہ آپ کوکس قدر جھوٹ بولنے کی عادت تھی۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۷ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱) پر ہے کہ: ’’آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔ تین دادیاں اور تین نانیاں آپ کی 2166زنا کار اور کسبی تھیں۔ جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا۔‘‘
آگے (حوالہ ایضاً) پر لکھتے ہیں کہ: ’’آپ کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اس وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے۔ ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگا دے۔‘‘
آگے ہے کہ: ’’سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے۔‘‘
یہ گالیاں یسوع کا نام لے کر ضمیمہ انجام آتھم میں درج کی گئی ہیں۔ لیکن بیان کیا جاتا ہے کہ مرزاصاحب کے نزدیک یسوع اور مسیح ایک تھے۔ کیونکہ مرزاصاحب اپنی کتاب (توضیح المرام ص۳، خزائن ج۳ ص۵۲) پر فرماتے ہیں کہ: ’’مسیح ابن مریم جس کو عیسیٰ اور یسوع بھی کہتے ہیں۔‘‘
اسی طرح اپنی کتاب (کشتی نوح ص۶۵ حاشیہ، خزائن ج۱۹ ص۷۱) پر لکھتے ہیں کہ: ’’یورپ کے لوگوں کوجس قدر شراب سے نقصان پہنچا ہے اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے۔ شاید کسی بیماری کی وجہ سے۔ اے مسلمانو! تمہارے نبیa تو ہر ایک نشہ سے پاک اور معصوم تھے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۵، خزائن ج۱۱ ص۲۸۹) پر ہے: ’’جن جن پیشین گوئیوں کا اپنی ذات کی نسبت توراۃ میں پایا جانا آپ نے بیان فرمایا۔ ان کتابوں میں ان کا نام ونشان بھی نہیں پایا جاتا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۶، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰) پر لکھتے ہیں: ’’اور نہایت شرم کی بات ہے کہ آپ پہاڑی تعلیم کو جو انجیل کا مغز کہلاتی ہے یہودیوں کی کتاب ’’طالمود‘‘ سے چرا کر لکھا ہے اور پھر ایسا ظاہر کیا ہے کہ گویا میری تعلیم ہے۔‘‘
آگے (حوالہ ایضاً) پر ہے کہ: ’’آپ کے حقیقی بھائی آپ کی ان حرکات سے آپ سے سخت ناراض رہتے تھے اور ان کو یقین تھا کہ آپ کے دماغ میں ضرور کچھ خلل ہے۔‘‘
(کتاب ست بچن ص۱۷۱ حاشیہ، خزائن ج۱۰ ص۲۹۵) پر لکھتے ہیں کہ: ’’یہ درخواست بھی صریح اس بات پر دلیل ہے کہ یسوع درحقیقت بوجہ بیماری مرگی کے دیوانہ ہوگیا تھا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۶ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰) پر ہے کہ: ’’عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزات لکھے ہیں۔ مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔‘‘
اور (انجام آتھم ص۷، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱ حاشیہ) پر ہے کہ: ’’آپ 2167نے معمولی تدبیر کے ساتھ کسی شب کور وغیرہ کو اچھا کیا ہو یا کسی ایسی بیماریوں کا علاج کیا۔ مگر آپ کی بدقسمتی سے اس زمانہ میں ایک تالاب بھی موجود تھا جس سے بڑے بڑے نشان ظاہر ہوتے تھے۔ خیال ہوسکتا ہے کہ اس تالاب کی مٹی آپ بھی استعمال کرتے ہوں گے۔ اس تالاب سے آپ کے معجزات کی پوری پوری حقیقت کھلتی ہے اور اس تالاب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اگر آپ سے کوئی معجزہ بھی ظاہر ہوا ہو تو وہ معجزہ آپ کا نہیں ہے۔ بلکہ اس تالاب کا معجزہ ہے اور آپ کے ہاتھوں میں سوائے مکروفریب کے اور کچھ نہ تھا۔‘‘
اسی کتاب (ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۹، خزائن ج۱۱ ص۲۹۳) پر آگے مسلمانوں کو مخاطب کر کے لکھتے ہیں کہ: ’’خداوند تعالیٰ نے قرآن شریف میں کوئی خبر نہیں دی کہ یسوع کون تھا اور پادری اس بات کے قائل ہیں کہ یسوع وہ شخص تھا کہ جس نے خدائی کا دعویٰ کیا اور حضرت موسیٰ کا نام ڈاکو اور بٹ مار رکھا اور آنے والے نبی کے مقدس وجود سے انکار کیا اور کہا کہ میرے بعد سب جھوٹے نبی آئیں گے۔ پس ہم ایسے ناپاک خیال اور متکبر اور راست بازوں کے دشمن کو ایک بھلے مانس آدمی بھی قرار نہیں دے سکتے۔ چہ جائیکہ اس کو نبی قرار دیں۔‘‘
اور کتاب (ست بچن ص۱۶۷،۱۶۸، خزائن ج۱۰ ص۲۹۱) پر لکھتے ہیں: ’’اور بالخصوص یسوع کے دادا صاحب داؤد نے تو سارے برے کام کئے۔ ایک بیگناہ کو اپنی شہوت رانی کے لئے فریب سے قتل کرایا اور دلالہ عورتوں کو بھیج کر اس کی جورو کو منگوایا اور اس کو شراب پلائی اور اس سے زنا کیا اور بہت سا مال حرام کاری میں ضائع کیا۔‘‘
(اعجاز احمدی ص۱۴، خزائن ج۱۹ ص۱۲۱)پر ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تین پیشین گوئیوں کو غلط قرار دیا گیا ہے۔‘‘
(ازالتہ الاوہام ص۳۰۳ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۲۵۴) پر درج ہے کہ: ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس سال تک نجاری کا کام کرتے رہے ہیں۔‘‘
(کشتی نوح ص۱۶، خزائن ج۱۹ ص۱۸) پر لکھتے ہیں کہ: ’’مریم کی وہ شان ہے جس نے ایک مدت تک اپنے تئیں نکاح سے روکا۔ پھر بزرگان قوم کے نہایت اصرار سے بوجہ حمل کے نکاح کر لیا۔ گو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ برخلاف تعلیم 2168تورات عین حمل میں کیونکر نکاح کیاگیا اور بتول ہونے کے عہد کو کیوں ناحق توڑا گیا اور تعدد ازواج کی کیوں بنیاد ڈالی گئی… مگر میں کہتا ہوں کہ یہ سب مجبوریاں تھیں جو پیش آگئیں۔ اس صورت میں وہ لوگ قابل رحم تھے۔ نہ قابل اعتراض۔‘‘
(ازالہ اوہام ج۱ ص۷، خزائن ج۳ ص۱۰۶) پر مرزاصاحب مولویوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ: ’’اس سے زیادہ تر قابل افسوس یہ امر ہے کہ جس قدر حضرت مسیح کی پیشین گوئیاں غلط نکلیں۔ اس قدر صحیح نکل نہیں سکیں۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۳، خزائن ج۱۸ ص۲۳۳) پر لکھتے ہیں کہ: ’’خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس دوسرے کا نام غلام احمد رکھا۔‘‘
پھر (حقیقت الوحی ص۱۵۵، خزائن ج۲۲ ص۱۵۹) پر لکھتے ہیں کہ: ’’جب کہ خدا نے اور اس کے رسول نے اور تمام نبیوں نے آخری زمانہ کے مسیح کو ان کے کارناموں کی وجہ سے افضل قرار دیا ہے تو پھر یہ وسوسہ شیطانی ہے کہ کہا جائے کہ کیوں تم اپنے تئیں مسیح ابن مریم سے افضل قرار دیتے ہو۔‘‘
مولوی انور شاہ صاحبؒ نے لفظ یسوع کی اصل یہ بتائی ہے کہ یہ دراصل عبرانی لفظ ہے اور عبرانی میں ایشوع بمعنی نجات دہندہ تھا۔ ایشوع سے یسوع بنا اور زبان عربی میں آکر لفظ عیسیٰ بنا اور یہ تعریب قرآن سے شروع نہیں ہوئی۔ بلکہ نزول قرآن سے پہلے عرب کے نصاریٰ عیسیٰ علیہ السلام کو عیسیٰ ہی بولتے تھے۔
(ازالۃ الاوہام ص۳۰۴، ۳۰۶ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۲۵۵،۲۵۶) پر لکھتے ہیں کہ: ’’ماسوا اس کے یہ بھی قرین قیاس ہے کہ ایسے ایسے اعجاز طریق عمل ترب یعنی مسمریزمی طریق سے بطور لہوولعب نہ بطور حقیقت ظہور میں آسکیں۔ کیونکہ عمل ترب میں جس کو زمانہ حال میں مسمریزم کہتے ہیں۔ ایسے ایسے عجائبات ظہور میں آتے رہتے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام حاشیہ ص۳۰۹، خزائن ج۳ ص۲۵۸) پر لکھتے ہیں کہ: ’’اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو اﷲتعالیٰ کے فضل وتوفیق سے امید قوی رکھتا تھا کہ ان عجوبہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا۔ لیکن مجھے وہ روحانی طریق پسند ہے۔‘‘
2169ان عبارات سے یہ نتائج نکالے گئے ہیں کہ مرزاصاحب یہ بخوبی جانتے تھے۔ یسوع مسیح ایک ہی شخص ہے جیسا کہ ان کی اپنی تحریرات سے ثابت ہوتا ہے۔ اس لئے وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے یسوع کے نام سے جو کچھ کہا ہے اس سے عیسیٰ علیہ السلام مراد نہیں ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ ان میں سے بعض فقرات عیسائی پادریوں کے جوابات میں الزامی صورت میں بیان کئے گئے ہیں تو یہ جواب بھی صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ ان فقرات میں اس قسم کے الفاظ کہ ’’حق بات یہ ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ! الزامی جوابات نہیں ہوسکتے۔ بلکہ مرزاصاحب کی اپنی تحقیق کا نتیجہ شمار ہوں گے۔ نیز دافع البلاء کے حوالہ سے جو عبارت نقل کی گئی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کے نزدیک بھی عیسیٰ علیہ السلام کو حصور نہ کہنے کے لئے مذکورہ بالا قصے مانع تھے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اﷲتعالیٰ کے نزدیک بھی جو عالم الغیب ہے یہ بات محقق تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں یہ عیوب موجود ہیں۔ اس لئے اس کا نام ’’حصور‘‘ نہ رکھا اور جو گالیاں مرزاصاحب نے پہلے ’’انجام آتھم‘‘ میں عیسیٰ علیہ السلام کو دی تھیں وہی یہاں مذکور ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پاکبازی اور راست گوئی کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے اور قرآن نے ان کی شان میں کہا ہے کہ ’’وجیہاً فی الدنیا والآخرۃ ومن المقربین‘‘ رسولوں کو دنیا میں صرف اس لئے بھیجا جاتا ہے کہ لوگ ان کے نقش قدم پر چلیں اور ان کی اطاعت کریں۔ مرزاصاحب نے عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں نہایت گستاخانہ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ ان کے معجزات کو مسمریزم کہا ہے۔ حالانکہ مسمریزم اقسام سحر اور توجہ نفسانی کا ایک شعبہ ہے کہ جس کا کسی پاکباز یا نیک آدمی کے ساتھ اختصاص نہیں کیا جاسکتا۔ ہر بداخلاق بلکہ کافر تک اس کا عمل کر سکتا ہے اور پھر ایسے معجزات کو جس کو قرآن کریم نے نہایت شان اور عظمت سے ذکر فرمایا ہے۔ عمل ترب یا مسمریزم کہنا نہایت گستاخی اور بے ادبی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے جومعجزات ثابت کئے گئے ہیں ان کو آج تک تمام علمائے امت اور عامتہ المسلمین قبول کرتے رہے ۔ مرزاصاحب نے ان کو مسمریزم وغیرہ کی طرف منسوب کر کے خواہ مخواہ ایک 2170رخنہ اندازی فرمائی۔ ان کا عیسیٰ علیہ السلام کی اس طرح توہین کرنی ایک وجہ کفر ہے۔ چنانچہ مرزاصاحب نے بھی اپنی کتاب (ضمیمہ چشمہ معرفت ص۱۸، خزائن ج۲۳ ص۳۹۰) پر جو عبارت بالفاظ ذیل: ’’شاید کسی صاحب کے دل میں یہ بھی خیال آوے… تاموجب نزول غضب الٰہی‘‘ درج کی ہے۔ اس میں صاف لکھا ہے کہ ’’اسلام میں کسی نبی کی تحقیر کفر ہے اور سب پر ایمان لانا فرض ہے اور کسی نبی کا اشارہ سے بھی تحقیر کرنا سخت معصیت ہے اور موجب نزول غضب الٰہی۔‘‘
اس کی تائید میں منجانب گواہان مدعیہ چند سندات قرآن واحادیث اور اقوال بزرگان پیش کئے گئے ہیں۔ جن کی یہاں تفصیل درج کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف مختصراً یہ درج کیا جاتا ہے کہ سید انور شاہ صاحبؒ گواہ مدعیہ نے یہ کہا ہے کہ سب اور ناسزا کہنا۔ پیغمبروں کو اور طعن کہنا سرچشمہ ہے جمیع انواع کفر کا اور مجموعہ ہے جملہ گمراہیوں کا اور ہر کفر اس کی شاخ ہے اور کسی نبی کی ادنیٰ توہین کرنا بھی کفر ہے، اور کہ امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ جس نے ناسزا کہا نبی کریم کو یا تنقیص کی مسلمان ہو یہ شخص یا کافر۔ سزا اس کی قتل ہے اور علماء نے کہا ہے کہ تعریض کرنا خدا کی سب کا،یا رسول کی سب کا، ارتداد ہے اور موجب قتل ہے۔ آگے بیان کرتے ہیں کہ علماء نے جب توراۃ اور انجیل محرف سے کوئی چیز محرف نقل کی ہے۔ ان سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ کتابیں تحریف شدہ ہیں۔ مرزاصاحب یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام نالائق تھے۔ علماء کے طریق میں اور مرزاصاحب کے طریق میں کفر اور اسلام کا فرق ہے۔
مولوی نجم الدین صاحب گواہ مدعیہ نے بیان کیا ہے کہ مرزاصاحب نے اپنے آپ کو یوسف علیہ السلام سے بھی افضل کہا ہے اور کتاب (دافع البلاء ص۲۰، خزائن ج۱۸ ص۲۴۰) پر مرزاصاحب کہتے ہیں کہ: ’’ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو۔ اس سے بہتر غلام احمد ہے۔‘‘
اور یہ کہ باتیں شاعرانہ نہیں بلکہ واقعی ہیں۔ کتاب (ازالتہ الاوہام ص۱۵۸، خزائن ج۳ ص۱۸۰) سے مرزاصاحب کا ایک اور شعر نقل کیاگیا ہے جو بالفاظ ذیل ہے:
’’
اینک منم کہ حسب بشارات آمدم
عیسیٰ کجا است تابنہد پابمنبرم
‘‘
مولوی انور شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ قرآن شریف نے یہود اور نصاریٰ کے عقائد کی بیخ کنی کی ہے اور ایک حرف موسیٰ وعیسیٰ علیہم السلام کی ہتک کا اشارۃً یا کنایتہ نہیں فرمایا۔ 2171اب اس عنوان توہین انبیاء کے دوسرے ہیڈنگ پر گواہان مدعیہ کے پیش کردہ دلائل بیان کئے جاتے ہیں۔