• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سیف چشتیائی صفحہ نمبر114

ام ضیغم شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
ناظم
مہمان
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
کنت انت الرقیب علیہم ۔(مائدہ ۔117)کہ میں ان کا نگران تھا جب تک کہ ان کے بیچ تھا میں ، پھر جبکہ ماردیا تونے تو توہی ان پر نگہبان رہا۔ اس حدیث میں(کما قال العبد الصالح ) میں قال بمعنی یقول ہے ۔ فلما توفیتنی معنی موت ہوا۔ مگر یہ وہ موت ہے جو بعد النزول من السماء مسیح پر وارد ہوگی ، جس کے سارے اہل اسلام صحابہ سے لے کر آج کے علماء تک قائل ہیں ، ہاں اگر قال بمعنیٰ ماضی ہی ہوتا توفلما توفیتنی مسیح کی موت پر بروقت تحقق (رفعہ اللہ الیہ) کے دلالت کرتا، کیونکہ اس تقدیر پر مطلب یہ ٹھہرا کہ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ میں کہوں گا قیامت کے دن جیسا کہ کہا تھا مسیح بن مریم نے بعداٹھائے جانےکے دنیا سے جب کہ اس سے عیسائیوں کی نسبت سوال کیا گیا تھا کہ اانت قلت للناس "دلیل اس بات کی کہ امام بخاری ؒ نے بھی اس آیت کومتعلق قیامت ہی کے سمجھ رکھا تھا ۔ یہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے قبل اپنا مذہب بیان کردیا ۔ کہ اس آیت میں جو مسیح ابن مریم کے حق میں اتری ہے ۔ لفظ واذقال اللہ بمعنی یقول ہے اور اذصلہ یعنی زائدہ ہے ۔ یعنی امام بخاری ؒ نے اپنے اجتہاد سے اپنا مذہب متعلق اس آیت اور اس حدیث کے بیان کردیا کہ یہ سارا قضیہ اورکل سوال و جواب قیامت کے دن ہوگا،۔اور کلمہ اذ نے یہاں معنی ماضی میں کوئی اثر مخالف نہیں دکھایا ، جیسا کہ مرزا جی اپنے متعدد تالیفات میں اذکوقال کی ماضویت کے منصوص کرنےکےلیے لکھتے ہیں۔ بلکہ کلیہ کے طور پر لکھ دیا کہ ہر جگہ ماضی اذاکے تحت واقع ہو تو بالضرور اس سے معنی ماضی کا لیا جاتا ہے ۔ اور جس نے یہاں ماضی کو بمعنی مضارع کہا اس کو ظالمین اورکاذبین میں سے شمار کیا۔ دیکھو مکتوب عربی صفحہ 135امام بخاریؒ کو اس تخالف کا یہ انعام ملا جیسا کہ ابن عباس کو بروقت ظاہر کرنے کا مذہب اپنے کے ، یعنی قول بالتقدیم والتاخیر الایتہ کو تحریف ٹھہرایا ۔ یہ وہی امام بخاری ؒ تھے کہ بڑے زور سے ان کا نام اپنے موافقین سے لیا جاتا تھا، اور اب وہی امام بخاری ہیں کہ بباعث اظہار مذہب اپنے یعنی حیات مسیح کے جوقل کو بمعنی یقول کےلکھا ہے ان کو وہ انعام دیاجاتا ہے جو مکتوب عربی میں موجود ہے ۔اور پہلے تو ابن عباس کوافقہ الناس اورحبر ھذہ الامۃ کا لقب دے کر بمقابلہ ان لوگوں کے جو متوفیک سے معنی غیر موت کا لیتے تھے ، چلا چلا کر کہا جاتا تھا کہ ایسے بڑے صحابی عظیم الشان جلیل القدر کی تفسیر کو تم نہیں مانتے ۔ مگر جب ان کا مذہب ان کے مرویات فی التفسیر والحدیث سے روزروشن کی طرح ظاہر ہو اتو اب وہ محرفین اور غلط کاروں سے شمار کیے جارہے ہیں ۔دیکھو شمس بازغہ متعلق آیت وانہ لعلم للساعۃ جو عنقریب آئے گا۔اور ازالہ اوہام وغیرہ ۔ مرزا جی کا اپنے مریدوں کے ساتھ بھی یہی وتیرہ ہے ، جب تک وہ مرزا جی کے گیت گاتے ہیں مرزا جی ان کی ثنا خوانی تحریرات میں شائع کردیتے ہیں، خدائے تعالیٰ کے ساتھ ہم کلام ہونے سے نیچے نہیں چھوڑتے ، اور جب الگ ہوگئے تو سارے جہان میں کوئی انکے برابر ملعون اور مردود نہیں ہوتا۔
ایک دقت اوربھی ہے کہ مرزا جی قال سے ماضی کا معنی لیتے ہیں، اورجناب مولوی نورالدین صاحب بمعنی مضارع لیتے ہیں۔ دیکھومقدمہ اہل کتاب صفحہ 178۔ ہاں ہم پر یعنی جولوگ اس قصہ کو قیامت سے متعلق سمجھتے ہیں۔ مرزا صاحب کا ایک اعتراض کہ سوال خداوندی تویہ تھاکہ کیا تونے ان کو اپنے اور اپنی والدہ کی الوہیت کی طرف بلایا تھا، جس کا جواب مسیح نےیہ دیا سبحنٰک مایکون لی ان اقول۔ (مائدہ 116)جس میں یہ بھی کہا کہ جب تک میں ان میں تھا ان کام نگران حال تھا ۔ اور جب تونے مجھے فوت کرلیا توتو ہی ان کا نگہبان تھا۔ اس سے پایا جاتا ہےکہ مسیح کو عیسائیوں کے شرک کی کوئی خبر نہیں ۔ اوریہ جب ہی صحیح ہوسکتا ہے کہ اب مسیح زندہ نہ ہوں ۔ کیونکہ اگرزندہ ہیں اور دنیا میں آویں گے (جیسا کہ مسلمانوں کاعام عقیدہ ہے )توعیسائیوں کے کفر وشرک
 
Top