• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سیف چشتیائی صفحہ نمبر122

ام ضیغم شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
ناظم
مہمان
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
دلیل سے ثابت نہ کریں، صرف کلیت ان کے لیے مفید نہیں ہوسکتی ، یا مدعیٰ کو بھی مطلقہ عامہ ٹھہرا کو مراد وقت من اوقات الذات سے بالخصوص وہی وقت الاوصاف لیا جاوے اور پھر صغریٰ میں بھی تحقیق الاوصاف دلیل معقول سے ثابت کردیا جاوے تو بھی ان کا مدعا حاصل ہوسکتا ہے ، الغرض قضیہ کو خواہ مطلقہ عامہ بنا دیں ،یا عرفیہ عامہ ، بہر کیف پھر بھی بغیر اس کے کہ اوصاف کےلیے جتنی کاروائی امروہی صاحب نےکی تھی وہ سب نصوص قاطعہ اور براہین ساطعہ سے ہباء منشورا ہوگئی۔
بیان واقعی :۔ اس میں شک نہیں کہ شمس الہدایت تھوڑے دنوں میں فاضلہ اوقات میں لکھی گئی، اور چونکہ بعض اوقات کاپی نویس کو استعمال شدہ کاغذات پر مضامین لکھ دیئے جاتے تھے لہذا کاتب کو بعض کلمات میں اشتباہ ہوجاتا تھا۔کیونکہ لکھے ہوئے کاغذوں پر لکھنا ہی ظاہر ہے کہ موجب اشتباہ ہوتا ہے ، خصوصا جب کہ کاپی نویس علم بھی نہ رکھتا ہو، مسودہ میں پہلی عبارت اس عبارت اس طرح پر ہے۔(مطلقہ عامہ کو دائمہ مطلقہ اور مہملہ کو محصورہ کلیہ سمجھ لیا ہے)کاپی نویس چونکہ منطق کے مصطلحات سے واقف نہ تھا، اور کاغذ بھی موجب اشتباہ تھا ، لہذا نقل کرتے وقت اس نے عبارت مذکورہ سے صرف مطلقہ عامہ اور محصورہ کلیہ مہملہ اور ایسا ہی دائمہ مطلقہ دونوں نقل میں رہ گئے ۔
قولہ :۔ صفحہ 39سطر10اور مؤلف رسالہ کی یہ بڑی غلطی ہے کہ رفع جسمی اور رفع بحسب الدرجہ میں نسب تساوی کی سمجھ لی ہے ۔ حالانکہ ان دونوں میں اگر ہم رعایت مؤلف کی کریں ، تو عام خاص من وجہ کی نسبت ان میں ان سکتے ہیں، مگر یہاں پر تو بوجوہ مذکورہ سوارفع بحسب القدر کے رفع جسمی ہو ہی نہیں سکتا ۔
اقول :۔ ارے خدا کے بندے کبھی تو سچ بولا کرو۔ہم نے کس جگہ رفع جسمی اور رفع بحسب الدرجہ میں نسبت تساوی لکھی ہے ۔ بلکہ صرف استلزام کا رفع بحسب المرتبہ کو یا اجتماع دونوں کا ماتحن فیہ یعنی مادہ مسیح میں لکھا ہے کیا آپ کے نزدیک استلزام اور اجتماع میں تساوی ہے ، شمس الہدایت کی عبارت یہ ہے۔(حالانکہ مانحن فیہ میں تو رفع جسمی کی صورت میں رفع بحسب القدر بالاولیٰ وبالاحسب معلوم ہوتا ہے ۔صفحہ 11سطر 18)اور آپ نے جو ہماری رعایت فرما کر عموم وخصوص من وجہ کہا ہے بالکل لغو ہے۔ کیونکہ رفع جسمی سے مراد تو وہ رفع ہے جو مدلول ہے رفعہ اللہ الیہ کا ، یعنی رفع جسم مسیح کا بذریعہ ملائکہ کے آسمان کی طرف ، اور ظاہر ہےکہ اس رفع جسمی اور رفع بحسب الدرجہ میں عموم و خصوص مطلق ہے نہ من وجہ ۔
قولہ :۔39،19سطر21میں آپ لکھ چکے ہیں کہ بل رفعہ اللہ الیہ کو قیاس یاایتھا النفس المطئنۃ ۔ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ ، پر کرنا بے جا ہے ، اور اب دونوں کو متسادق فی المعنی فرماتے ہیں ھذاشیئ عجیب ولنعم ما قیل دورغ گوئے راحافظ نباشد ،
اقول :۔ ہم نے تو الی اللہ اور الی الرب ایسا ہی الی السماء کو متسادق فی المعنی قرار دیا ہے۔ کودن طالب علم بھی اس مضمون کوشمس الہدایت کی عبارت سے سجھ سکتا ہے۔ عبارت یہ ہے (خدا کی طرف مرفوع ہونا یا چڑھ جانا اسکی صورت یہی ہے کہ آسمان کو جومحل عباد مکرمین کا جہے قرار گاہ ان کی بنائی جاوے )لفظ (خدا کی طرف ) عبارت مذکور میں مطمع نظر ہے ، اور معنی حرفی چونکہ بغیر انضمام متعلق کے مستفاد صرف حرف سے نہیں ہوسکتا ، لہذا رفع اور رجوع اور صعود کا ذکر بھی ضروری کیا گیا ہے ۔کاش اسم فعل حرف کی تعریف ہی بخوبی سمجھ لی ہوتی تو نہ آپ ایسے رکیکہ اعتراضات فرماتے نہ ہم کو ان کی تردید میں تصنیع اوقات کرنی پڑتی ۔ اور بل رفعہ اللہ الیہ کا قیاس یا ایتھا النفس ۔الخ پر بے جا ہونےکامطلب یہ ہے کہ متعلق رفع کا یعنی مرفوع جسم عیسوی ہے ۔ بدلیل سباق اے وما قتلوہ
 
Top