• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

شکیل بن حنیف امت مسلمہ کے لئے ایک نیا فتنہ

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تحریر: مفتی محمد عارف باللہ القاسمی
====================

نبی اکر م ﷺ نے اپنے بعد دو عظیم شخصیتوں کی آمد کی بشارت دی ہے ، ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوسرے حضرت مہدی علیہ السلام۔ ایک حدیث میں آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

لن تهلك أمة أنا في أولها وعيسى ابن مريم في آخرها، والمهدي في أوسطها۔(کنزالعمال جلد ۱۴ صفحہ ۲۶۶ حدیث ۳۸۶۷۱)

’’وہ امت کبھی ہلاک نہیں ہو گی جس کے اول میں میں ہوں اور آخر میں عیسیٰ بن مریم اور درمیان میں مہدی ہیں‘‘

متعدد احادیث مبارکہ میں حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مہدی علیہ السلام سے متعلق تفصیلات وضاحت کے ساتھ مروی ہیں جن کی روشنی میں امت مسلمہ کے لئے حقیقی عیسیٰ علیہ السلام اور حقیقی مہدی علیہ السلام کو پہچان کر چھوٹے مدعیان کی شناخت کرنا آسان ہے ، لیکن اس کے باوجود کئی ایک ایسے مدعیان اب تک ظاہر ہوچکے ہیں جنہوں نے اپنے بارے میں یہ دعوی کیا کہ وہ مسیح موعود اور مہدی ہیں، ان میں سے بعض کی شہرت نہ ہوسکی، جبکہ بعض کا بڑا حلقہ تیار ہوگیا اور بہت سے لوگ ان کےجھوٹے دعووں کے شکار ہوگئے، جیساکہ محمد جونپوری کے مہدی ہونے کا عقیدہ رکھنے والے مستقل فرقہ مہدویہ کی شکل میں وجود میں آئے اور آج ان کی معتد بہ تعداد ہے ، اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے تدریجی طور پر دعوے کرتے ہوئے اپنے بارے میں یہ دعوی کیا کہ وہ مسیح موعود اور مہدی منتظر اور نبی ہے، اور اس کے چھوٹے دعووں کی زد میں آنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے اور وہ بڑے پیمانے پر اپنی مادی قوتوں کا استعمال کرتے ہوئے دعوت وتبلیغ میں مصروف ہیں، مرزا غلام احمد قادیانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شکیل بن حنیف نامی ایک شخص نے اپنے بارے میں یہ دعوی کیا کہ وہ مسیح اور مہدی ہے ، اور اس کے ماننے والے ان احادیث صحیحہ متواترہ کو جو کہ حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میں مروی ہیں اس شخص (شکیل بن حنیف )پر چسپاں کرکے لوگوں میں اس بات کی تبلیغ کرتے ہیں کہ وہ شخص مسیح موعود اور مہدی ہے ، ابھی چندایام قبل حیدرآباد کی ایک بڑی مسجدمیں شکیل بن حنیف کے چار متبعین لوگوں میں اس فتنہ کی تبلیغ کرتے ہوئے پائے گئے جنہیں وہاں کے مصلیوں نے عقلمندی کی مظاہر ہ کرتے ہوئے قانون کے حوالے کیا، اور ان کے عزائم کو ناکام کردیا۔سال گزشتہ اس کے ماننے والوں نے دلی میں تبلیغی جماعت کے بعض احباب کو مناظرہ کا چیلنج کیا ، جس پر دارالعلوم دیوبند کے بعض اکابر اور بعض جماعت کے ذمہ داران مناظرہ کے لئے متعین مقام پر پہونچے تو اس سے قبل اس کے متبعین نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی ، لیکن چند لوگوں نے انہیں پکڑلیا تو ان لوگوں نے مناظرہ سے یہ کہتے ہوئے فرار اختیار کیا کہ ہم بلادلیل شکیل بن حنیف کومسیح اور مہدی مانتے ہیں، یہی حال ان نوجوانوں کا بھی تھا جنہیں مسجد عزیزیہ ، مہدی پٹنم حیدرآباد میں پکڑا گیا ، وہ نوجوان یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ تم لوگ کچھ بھی کرو ہم اس کی پیروی نہیں چھوڑیں گے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکار شکیل بن حنیف اپنے ماننے والوں کو اپنا مکمل اسیر بنالیتا ہے ۔

شکیل بن حنیف کون ہے؟

شکیل بن حنیف دربھنگہ بہار کا متوطن ہے اور اس کی علمی لیاقت یہ ہے کہ اس نےعصری ادارے میں تعلیم حاصل کی ہے اور کمپیوٹر انجینئر ہے، ملازمت کی تلاش میں دہلی آیا اور یہیں پر وہ ایک دینی جماعت سے بھی وابستہ ہوا ، لیکن ذہنی بگاڑ اور عہد ہ کی ہوس کی وجہ سے اس نے بعض بھولے بھالے جماعت کے ساتھیوں کو اپنا ہمنوا بنانا شروع کیا ، اور بالآخر اپنے بار ے میں طرح طرح کےدعوے کرنے لگا ، یہ شخص ۲۰۰۴؁ء سے اپنے گمراہ خیالات لوگوں میں پھیلا رہا ہے ،اس کے دعووں کی وجہ سے حالات اس کے خلاف اتنے کشیدہ ہوگئے کے اسے دہلی چھوڑنا پڑا، پھر دوبارہ دہلی ہی واپس آیا اور لکشمی نگر کے علاقہ میں ایک مکان لے کر اس کو اپنا مرکز بنایا ۔اور اب کے حامی کئی شہروں میں پھیل چکے ہیں۔اورنگ آباد میں بھی اس کے ماننے والے مسلمانوں میں بے چینی پیدا کرچکے ہیں حتی کہ وہاں انہوں نے اپنی ایک مستقل کالونی ’’ رحمت نگر‘‘ کے نام سے بسا رکھی ہے جہاں انہیں لوگوں کو بسنے دیا جاتا ہے جو شکیل بن حنیف کی پیروی کرنے والے ہیں۔

شکیل بن حنیف کے جھوٹے دعوےاور قرآن وحدیث کی غلط تشریحات

شکیل بن حنیف نے اپنے بارے میں تین اہم دعوے کئے ہیں:

(۱) وہ مسیح موعود ہے ۔

(۲) مہدی ہے۔

(۳) اللہ نے اس کو ایک خصوصی نہج عطا فرمایا ہے جس کی اس جھوٹے نے اب تک وضاحت نہیں کی ہے کہ وہ خصوصی نہج کیا ہے ؟

ان تین دعووں کے علاوہ اس کے اور بھی متعدد ایسے دعوے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہیں اور قرآن اور صحیح احادیث سے متعارض ہیں۔

مسیح موعود ہونے کا دعوی تو ایسا جھوٹا ہے کہ کسی صورت اس پر مسیح موعود کی علامتیں منطبق نہیں ہوتی ہیں، احادیث صحیحہ میں مسیح موعود کے بارے میں آیا ہے کہ وہ عیسی ابن مریم ہیں جو بغیر والد کے محض قدرت خداوندی سے پیدا ہوئے ،جنہیں دشمنوں کی شازشوں سے بچاکر بحفاظت آسمان پر اٹھالیا گیا، اور پھر وہ قرب قیامت میں آسمان سے اتریں گے،اترتے وقت زرد رنگ کے دوکپڑے زیب تن کئے ہوں گے،سرمبارک پر ایک لمبی ٹوپی ہوگی،دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے اتریں گے،آپ کے ایک ہاتھ میں نیزہ ہوگا جس سے دجال کو قتل کریں گے،اس وقت جس کافر کو آپ کی سانس کی ہوا لگے گی وہ مر جائے گا، اور آپ کی سانس اتنی دور تک پہونچے گی جہاں تک آپ کی نظر جائے گی،آپ کا نزول صبح کی نماز کے وقت دمشق میں سفید منارے کے پاس ہوگا، مسلمانوں کی ایک جماعت اس وقت دجال سے مقابلہ کے لئے تیار ہوگی، بوقت نزول لوگ نماز کی صفوں کو درست کر رہے ہوں گے،اس وقت اس جماعت کے امام حضرت مہدی ہوں گے(اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ مہدی اور مسیح دونوں دو الگ شخصیتیں ہیں)حضرت مسیح چالیس سال تک دنیا میں نزول کے بعد قیام فرمائیں گے،نزول کے بعد آپ حضرت شعیب علیہ السلام کی نسل میں نکاح کریں گے، صلیب کو توڑیں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے یعنی عیسائیت کا خاتمہ کریں گے، آپ دجال کو فلسطین میں باب لد کے پاس قتل کریں گے ، آپ کے زمانہ میں دولت کی فراوانی ایسی ہوگی کہ کوئی مال لینے والا نہ ہوگا ، چیزیں سستی ہوں گی، وغیرہ متعدد علامتیں احادیث مبارکہ میں مسیح موعود کے بارے میں بیان کی گئی ہیں، بغیر کسی غور وفکر کے ایک عام انسان بھی یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ جس طرح شکیل حنیف سے پہلے مسیح ہونے کے دعویدار مرزا غلام احمد قادیانی میں ان علامتوں میں سے ایک بھی نہیں پائی گئی تو وہ مردور اور جھوٹا قراردیا گیا اسی طرح اس جھوٹے شکیل میں بھی ان علامتوں میں سے کوئی علامت نہیں پائی جاتی کہ وہ ابن مریم نہیں بلکہ ابن حنیف ہے ، وہ نہ آسمان پر کبھی اٹھایا گیا اور نہ ہی دنیا کہ کسی علاقہ میں آسمان سے اترا ہے ،بلکہ عام انسانوں کی طرح پیدا ہوا ہے ،نہ ہی اس کا حلیہ مسیح موعود کے جیسا ہے اور نہ اسے دجال اور دجالی جماعت سے مقابلہ کرنے کا موقع ملا ہے ، نہ اس نے خنزیر کو قتل کیا اور نہ ہی عیسائیت کا خاتمہ کیا ہے، اورارض فلسطین کوتو اس نے آج تک دیکھا نہیں ہے ۔اور اس نے اب تک چند نکاح توکئے لیکن ان میں سے ایک بھی حضرت شعیب کی نسل سے نہیں۔نہ شکیل کی سانس نظر کی حد تک پہونچتی ہے اور نہ ہی آج تک اس کی سانس سے کسی بھی کافر کی موت ہوئی ہے ، اور وہ جس دور میں اپنے فتنو ں کو پھیلارہا ہےاس میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور مال کے اتنے طلب گار ہیں کہ انہیں شمار نہیں کیا جاسکتا ، اور چیزوں کی مہنگائی نے تو عام انسانوں کی کمر توڑ رکھی ہے۔

یہ تو صرف چند علامتیں ہیں، جن کی روشنی میں ایک عام ا نسان بھی اس جھوٹے کو مسیح موعودنہیں مان سکتا ۔
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
لیکن خود کو مسیح ثابت کرنے کے لئے شکیل بن حنیف اور اس کے ماننے والے قرآنی آیات اور صحیح احادیث کے خلاف یہ دعوی کرتے ہیں کہ حضرت مسیح نازل نہیں ہوں گے بلکہ پیدا ہوں گے۔اور احادیث میں حضرت مسیح کے لئے نزول کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے اس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ’’ نزول‘‘ سے مراد آسمان سے نازل ہونا نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد پیدا ہونا ہے،جب کہ قرآن کریم وحدیث کا واضح فیصلہ ہے کہ حضرت مسیح عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر باحیات موجود ہیں اور قیامت کے قریب آسمان سے دوبارہ تشریف لائیں گے۔قرآن کریم میں حضرت عیسی علی السلام میں کے بارے میں اللہ عزوجل کا ارشاد ہے :

وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا {}بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا {النساء: ۱۵۷ ۔ ۱۵۸}

’’انھوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ ان کو سُولی پر چڑھایا ،لیکن ان کو اشتباہ ہوگیا اور جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ غلط خیال میں ہیں ،ان کے پاس کوئی دلیل نہیں سوائے اندازوں کے ،اور انھوں نے ان کو یقینا قتل نہیں کیا بلکہ ان کو اللہ تعالی نے اپنی طرف اٹھالیا اور اللہ تعالی بڑے زبردست حکمت والے ہیں‘‘

یہ آیت صاف دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات نہیں ہوئی بلکہ وہ آسمان پر زندہ ہیںاور ان کے دوبارہ دنیا میں آنے اور پھر نزول کے بعد ان کی وفات کے بارے میں اللہ عزوجل کا ارشاد ہے :

وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا {النساء: ۱۵۹}

’’اور جتنے فرقے ہیں اہل کتاب کے وہ عیسٰی پر ایمان لا ئیں گے ان کی موت سے پہلے‘‘

اس آیت میں بِهِ اور مَوْتِهِ دونوں میں ضمیروں کا مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔اور اس آیت میں اللہ تعالی نے واضح کردیا کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو تمام اہل کتا ب ان پر ایمان لائیں گے ۔ اس آیت میں تمام مفسرین نے یہی معنی بیان کئے ہیں حضرت حسن فرماتے ہیں:

قَبْلَ مَوْتِ عِيسَى. وَاللَّهِ إِنَّهُ الْآنَ حَيٌّ عِنْدَ اللَّهِ، وَلَكِنْ إِذَا نَزَلَ آمَنُوا بِهِ أَجْمَعُونَ. (تفسیر ابن کثیر: ۲؍۴۵۳)

(اہل کتاب کے تمام فرقے عیسٰی پر ایمان لا ئیں گے)حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے ، اور خدا کی قسم وہ ابھی اللہ کے پاس زندہ ہیں اور جب وہ نازل ہوں گے تو سب کے سب ان پر ایمان لائیں گے۔

صحابی رسول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اسی مذکورہ آیت سے استدلال کرتے ہوئے حضرت عیسی کے آسمان پر زندہ ہونے اور دوبارہ نازل ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشكَنّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا فَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعُ الْجِزْية، وَيَفِيضُ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ، حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا". ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: اقْرَؤُوا إن شئتم: {وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا}(بخاری شریف )

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ عنقریب ابن مریم تمہارے درمیان نازل ہوں گے انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے والے ہوں گے صلیب توڑ ڈالیں گے خنزیر کو قتل کر ڈالیں گے جزیہ ختم کر دیں گے (کیونکہ اس وقت سب مسلمان ہوں گے) اور مال بہتا پھرے گا حتیٰ کہ کوئی اس کا لینے والا نہ ملے گا اس وقت ایک سجدہ دنیا و مافیھا سے بہتر سمجھا جائے گا پھر ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں اگر اس کی تائید میں تم چاہو تو یہ آیت پڑھو کہ اور کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہوگا جو عیسیٰ کی وفات سے پہلے ان پر ایمان نہ لے آئے اور قیامت کے دن عیسیٰ ان پر گواہ ہوں گے۔

مذکورہ آیات اور حدیث سے صاف واضح ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام قرب قیامت میں نزول فرمائیں گے ، اور مسلمانوں کو جس مسیح کا انتظار ہے جو پیدا ہوکر آسمان پر اٹھائے جاچکے ہیں اور قیامت کے قریب نازل ہوں گے اسلئے کوئی ایسا شخص مسیح نہیں ہوسکتا جس میں یہ خوبی نہ ہو، اس لئے شکیل بن حنیف اور اس متعین جھوٹے اور مکار ہیں جو کسی صورت مسیح موعود نہیں ہوسکتے۔اور وہ اپنے جھوٹے دعووں کو سچ کرنے کے لئے قرآن وحدیث میں تحریف کےمرتکب ہیں اور کھلم کھلا قرآن وحدیث سے بغاوت کرنے والے ہیں۔اور اپنے دعووں کو ثابت کرنے کے لئے قرآن وسنت میں جو الفاظ اور عبارتیں استعمال کی گئیں ان کی ایسی تاویلیں کرتے ہیں جو کسی بھی اعتبار سے صحیح نہیں ہیں۔مثلا حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے احادیث میں نزول کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس کی وہ تاویل کرتے ہیں کہ نزول سے مراد پیدا ہونا ہے ، جب کہ عربی زبان میں نزول کا معنی نازل ہونا اوراوپر سے اترنا ہے اور اسی معنی میں قرآن وحدیث میں اس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے ، اور یہ حقیقت ہے کہ کسی لفظ سے اس کے حقیقی معنی کو چھوڑ کر مجازی معنی اس وقت مراد لیا جاسکتا ہے جب کہ حقیقی معنی مراد لینا دشوار ہواور مجازی معنی کا کوئی قرینہ موجود ہو، یہی وجہ ہے کہ پوری امت نزول سے اس کا حقیقی معنی ہی مراد لیتی ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کی قائل ہے ۔

اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلا م کے بارے میں احادیث میں آیا ہے کہ ان کی آمد سے قبل دجال ظاہر ہوچکا ہوگا اور وہ دجال سےمقابلہ کرکے اسے قتل کریں گے، اس اجماعی عقیدہ سے جب اس کے دعوی پر اعتراض ہوتا ہے تو وہ اس کی تاویل کرتا ہےکہ دجال کوئی خاص شخص اور انسان نہیں جو ظاہر ہوگا، بلکہ دجال ایک نظریہ یا ملکی طاقت ہے اور وہ موجودہ دور کے ظالمانہ قوتوں کو دجال کہہ کر خود کو ان کا مقابلہ کرنے والا مسیح کہتا ہے ، حالانکہ احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ دجال ایک خاص شخص ہے جو پیدا ہوچکا ہے اور قیامت کے قریب ظاہر ہوگا اور جسے مخصوص صلاحتیں حاصل ہوں گی، جن سے وہ لوگوں کو اپنے دعوں کے ماننے پر مجبور کرے گا۔حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے مروی ایک طویل روایت میں ہے، وہ فرماتی ہیں:

میں نے رسول اللہ ﷺ کی طرف سے نداء دینے والے کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا نماز کی جاعت ہونے والی ہے پس میں مسجد کی طرف نکلی اور میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کی اس حال میں کہ میں عورتوں کی اس صف میں تھی جو مردوں کی پشتوں سے ملی ہوئی تھی جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی نماز پوری کرلی تو مسکراتے ہوئے منبر پر تشریف فرما ہوئے تو فرمایا ہر آدمی اپنی نماز کی جگہ پر ہی بیٹھا رہے پھر فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کیوں جمع کیا ہے صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم میں نے تمہیں کسی بات کی ترغیب یا اللہ سے ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا میں نے تمہیں صرف اس لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری نصرانی آدمی تھے پس وہ آئے اور اسلام پر بیعت کی اور مسلمان ہو گئے اور مجھے ایک بات بتائی جو اس خبر کے موافق ہے جو میں تمہیں دجال کے بارے میں پہلے ہی بتا چکا ہوں چنانچہ انہوں نے مجھے خبر دی کہ وہ بنو لخم اور بنو جذام کے تیس آدمیوں کے ساتھ ایک بحری کشتی میں سوار ہوئے پس انہیں ایک ماہ تک بحری موجیں دھکیلتی رہیں پھر وہ سمندر میں ایک جزیرہ کی طرف پہچنے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا تو وہ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرہ کے اندر داخل ہوئے تو انہیں وہاں ایک جانور ملا جو موٹے اور گھنے بالوں والا تھا بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کا اگلا اور پچھلا حصہ وہ نہ پہچان سکے تو انہوں نے کہا تیرے لئے ہلاکت ہو تو کون ہے اس نے کہا اے قوم اس آدمی کی طرف گرجے میں چلو کیونکہ وہ تمہاری خبر کے بارے میں بہت شوق رکھتا ہے پس جب اس نے ہمارا نام لیا تو ہم گھبرا گئے کہ وہ کہیں جن ہی نہ ہو پس ہم جلدی جلدی چلے یہاں تک کہ گرجے میں داخل ہوگئے وہاں ایک بہت بڑا انسان تھا کہ اس سے پہلے ہم نے اتنا بڑا آدمی اتنی سختی کے ساتھ بندھا ہوا کہیں نہ دیکھا تھا اس کے دونوں ہاتھوں کو گردن کے ساتھ باندھا ہوا تھا اور گھٹنوں سے ٹخنوں تک لوہے کی زنجیروں سے جکڑا ہوا تھا ہم نے کہا تیرے لئے ہلاکت ہو تو کون ہے اس نے کہا تم میری خبر معلوم کرنے پر قادر ہو ہی گئے ہو تو تم ہی بتاؤ کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا ہم عرب کے لوگ ہیں ہم دریائی جہاز میں سوار ہوئے پس جب ہم سوار ہوئے تو سمندر کو جوش میں پایا پس موجیں ایک مہینہ تک ہم سے کھیلتی رہیں پھر ہمیں تمہارے اس جزیرہ تک پہنچا دیا پس ہم چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سوار ہوئے اور جزیرہ کے اندر داخل ہو گئے تو ہمیں بہت موٹے اور گھنے بالوں والا جانور ملا جس کے بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کا اگلا اور پچھلا حصہ پہچانا نہ جاتا تھا ہم نے کہا تیرے لئے ہلاکت ہو تو کون ہے اس نے کہا میں جساسہ ہوں ہم نے کہا جساسہ کیا ہوتا ہے اس نے کہا گرجے میں اس آدمی کا قصد کرو کیونکہ وہ تمہاری خبر کا بہت شوق رکھتا ہے پس ہم تیری طرف جلدی سے چلے اور ہم گھبرائے اور اس (جانور) سے پر امن نہ تھے کہ وہ جن ہو اس نے کہا مجھے بیسان کے باغ کے بارے میں خبر دو ہم نے کہا اس کی کس چیز کے بارے میں تم خبر معلوم کرنا چاہتے ہو اس نے کہا میں اس کی کھجوروں کے پھل کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں ہم نے اس سے کہا ہاں پھل آتا ہے اس نے کہا عنقریب یہ زمانہ آنے والا ہے کہ وہ درخت پھل نہ دیں گے اس نے کہا مجھے بحیرہ طبریہ کے بارے میں خبر دو ہم نے کہا اس کی کس چیز کے بارے میں تم خبر معلوم کرنا چاہتے ہو اس نے کہا کیا اس میں پانی ہے ہم نے کہا اس میں پانی کثرت کے ساتھ موجود ہے اس نے کہا عنقریب اس کا سارا پانی ختم ہو جائے گا اس نے کہا مجھے زغر کے چشمہ کے بارے میں بتاؤ ہم نے کہا اس کی کس چیز کے بارے میں تم معلوم کرنا چاہتے ہو اس نے کہا کیا اس چشمہ میں وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں ہم نے کہا ہاں یہ کثیر پانی والا ہے اور وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں پھر اس نے کہا مجھے امیوں کے نبی کے بارے میں خبر دو کہ اس نے کیا کیا ہم نے کہا وہ مکہ سے نکلے اور یثرب یعنی مدینہ میں اترے ہیں اس نے کہا کیا راستے میں عروہ ؓ نے جنگ کی ہے ہم نے کہا ہاں اس نے کہا اس نے اہل عرب کے ساتھ کیا سلوک کیا ہم نے اسے خبر دی کہ وہ اپنے ملحقہ حدود کے عرب پر غالب آگئے ہیں اور انہوں نے اس کی اطاعت کی ہے اس نے کہا کیا ایسا ہو چکا ہے ہم نے کہا ہاں اس نے کہا ان کے حق میں یہ بات بہتر ہے کہ وہ اس کے تابعدار ہو جائیں اور میں تمہیں اپنے بارے میں خبر دیتا ہوں کہ میں مسیح دجال ہوں عنقریب مجھے نکلنے کی اجازت دے دی جائے گی پس میں نکلوں گا اور میں زمین میں چکر لگاؤں گا اور چالیس راتوں میں ہر ہر بستی پر اتروں گا مکہ اور مدینہ طبیہ کے علاوہ کیونکہ ان دونوں پر داخل ہونا میرے لئے حرام کردیا جائے گا اور اس میں داخل ہونے سے مجھے روکا جائے گا اور اس کی ہر گھاٹی پر فرشتے پہرہ دار ہوں گے حضرت فاطمہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی انگلی کو منبر پر چبھویا اور فرمایا یہ طبیہ ہے یہ طبیہ ہے یہ طیبہ ہے یعنی مدینہ ہے کیا میں نے تمہیں یہ باتیں پہلے ہی بیان نہ کر دیں تھیں لوگوں نے عرض کیا جی ہاں، فرمایا بے شک مجھے تمیم کی اس خبر سے خوشی ہوئی ہے کہ وہ اس حدیث کے موافق ہے جو میں نے تمہیں دجال اور مدینہ اور مکہ کے بارے میں بیان کی تھی آگاہ رہو دجال شام یا یمن کے سمندر میں ہے، نہیں بلکہ مشرق کی طرف ہے وہ مشرق کی طرف ہے وہ مشرق کی طرف ہے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا پس میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے یاد کر لی۔ (مسلم: ۲۹۴۲)

اس حدیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ دجال سے مراد کوئی خاص نظریہ یا طاقت نہیں ہے بلکہ وہ ایک خاص شخص ہے جو قیامت کے قریب ظاہر ہوگا۔احادیث میں اتنی وضاحت کے باوجود شکیل بن حنیف اور اس کے متبعین اس کو خاص نظریہ قرار دیتے ہیں جو یقینا بہت بڑا فریب ہے ۔اس نے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنانے کے لئے دجال کی ذات کے بارے میں غلط تشریح کی طرح اور بھی بہت سی چیزوں اور علامات قیامت کی غلط تشریح کی ہے ،اوران کو جدید ایجادات پر منطبق کرکے لوگوں کو گمراہ کیا ہے، مثلا احادیث میں دجال کی سواری کے بارے میں آیا ہےکہ وہ گدھا ہے ، اس کی تشریح وہ کرتا ہے کہ اس سے مراد جنگی جہاز ہے، دجال کی ایک آنکھ سے مراد سیٹیلائٹ ہے، تعجب ہے اس کی اس من مانی تشریح پر اور اس کی اندھی فکر پر ؛ کیونکہ احادیث سے جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ دجال کے چہرہ پر عام انسانوں کی طرح دو آنکھوں کی ساخت ہوگی، البتہ ایک آنکھ کی جگہ آنکھ کی پتلی کے بجائے ابھرا ہوا گوشت ہوگا ، اور اس کی دوسری آنکھ بھی ’’کانی‘‘ہوگی۔علامہ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میںبڑی تفصیل سے اس پر بحث کی ہے، احادیث میں ایسی صاف صراحت کے باوجود اسے سٹیلائیٹ سے تعبیر کرنا ان تمام احادیث کی تکذیب ہے جن میں اس کی آنکھ کی تفصیل رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی ہے ۔

نیز شکیل بن حنیف دجال کی پیشانی پر کافر لکھا ہونے کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ اس سےمراد امریکہ اور فرانس ہے، یعنی’’ امری کا فرانس‘‘ کو اس طرح لکھنے سے ’’ کافر‘‘ کا لفظ درمیان میں پڑتا ہے ۔ جب کہ رسول اللہ ﷺ نے دجال کو ایک انسان قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس کی دونوں آنکھوں کے مابین پیشانی پرکافر لکھا ہوگا۔کیا امریکا اور فرانس کی بھی کوئی حقیقی پیشانی اور آنکھیںہیں جو اس جھوٹے مدعی کو نظر آئیں۔

اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آیا ہےکہ وہ دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے، اس کی تشریح وہ کرتا ہے کہ اس سے مراد کراما کاتبین ہیں، جو ہر انسان کے ساتھ ہوتے ہیں، جب کہ حدیث میں صاف لفظوں میں آیا ہے کہ وہ دو فرشتوں کے سہارے اتریں گے یعنی ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہوں گے، اگر کراما کاتبین ہی مراد ہوتے تو اس کو بطور خاص رسول اللہ ﷺ ذکر کیوں کرتے، فرشتوں کاذکر کرنا اور ان کے سہارے سے اترنے کی صراحت خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کراما کاتبین نہیں ہے ،بلکہ دو خاص فرشتہ ہیں جن کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے حضرت عیسیٰ اتریں گے، غور کیجئے کہ احادیث نبویہ کی کس قدر مضحکہ خیز تشریح وہ کر رہا ہے، جسے عقل سلیم قبول نہیں کرسکتی۔

حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان سے ناز ل ہونے کا انکار کرتے ہوئے اور خود کو مسیح موعود بتاتے ہوئے شکیل بن حنیف یہ کہتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے صرف نزول کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، اگر وہ آسمان پر ہوتے اور آسمان سے نازل ہونے والے ہوتے تو احادیث میں جہاں نزول کی بات کہی گئی ہے وہیں ’’ من السماء‘‘ کا لفظ ذکر کیا گیا ہوتا اور یہ صراحت ہوتی کہ وہ آسمان سے نازل ہوں گے۔

اس کے اس جاہلانہ دعوی کی غلطی کو سمجھنے کے لئے یہ ذہن میں رکھ لینا کافی ہے کہ جب کوئی چیز اچھی طرح لوگوں کو معلوم ہواور ذہنوں میں موجود ہو تو اس کو ذکر کرنے کی اہمیت نہیں ہوتی، قرآن میں چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کی صراحت صاف لفظوں میں موجود ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ آسمان پر زندہ موجود ہیں، اور جو جہاں موجود ہوتا ہے وہیں سے اس کی آمد ہوتی ہے ، اس لئے جب قرآنی آیت میں صراحت کی وجہ سے لوگوں کو یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ آسمان پر ہیں تو صرف نزول کا تذکرہ عام احادیث میں کیا گیا ’’من السماء ‘‘ کے ذکر کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ،کیونکہ صرف نزول کے تذکرہ سے ہی ہر ذہن میں یہ بات آجاتی ہے کہ آسمان سے ہی وہ نازل ہوں گے۔ قرآن کریم میں بھی اس کی نظیر موجود ہے ، اللہ نے قرآن کریم کے بارے میں فرمایا ہے :

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے‘‘

اس میں قرآن کےنزول کی بات کے ذکر کرنے پر اکتفاء کیا گیا ، من السماء وغیرہ کی صراحت نہیں کی گئی ، کیونکہ اس کو ذکر کئے بغیر ہر شخص کے ذہن میں یہ بات آجائے گی کہ اس کا نزول آسمان سے ہی ہوا۔

مزید یہ کہ اس کا یہ دعوی بھی غلط ہے کہ احادیث میں ’’ من السماء‘‘ کی صراحت نہیں ہے آئی ہے، اس کا یہ دعوی اس کی جہالت اور کم علمی کی ایک بہترین مثال ہے ، کیونکہ کئی احادیث میں ’’من السماء‘‘کی صراحت مذکور ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

ينزل أخي عيسى ابن مريم من السماء ( کنز العمال: ۱۴؍۶۱۹، تاریخ دمشق لابن عساکر: ۵۱۳۶۳)

’’میرے بھائی عیسی بن مریم آسمان سے ناز ل ہوں گے‘‘

حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ مِنَ السَّمَاءِ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ.(الاسماء والصفات للبیہقی : حدیث نمبر: ۸۹۵، ۲؍۳۳۱)

’’تمہاری خوشی کا اس وقت کیا حال ہوگا ،جب کہ عیسیٰ بن مریم تم میں آسمان سے نازل ہوں گے اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا‘‘

شکیل بن حنیف کا یہ دعوی بھی ہے کہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ دونوں الگ الگ شخصیتیں نہیں ہیں، بلکہ ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں، اور پھر اس طرح خود کو مہدی اور مسیح دونوں قرار دیتا ہے ، حالانکہ احادیث میں دونوں کے نام ونسب، تفصیلات ، حلیے ، کمالات واحوال الگ الگ بیان کئے گئے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہیں کہ دونوں کی شخصیت الگ الگ ہے۔مثلا حضرت مہدی کی تفصیلات یہ بیان کی گئیں ہیں کہ وہ نام ، شکل وشباہت اور اخلاق وعادات میں نبی اکرم ﷺ کے مشابہ ہوں گے یعنی ان کا نام بھی محمد اوران کے والد کا نام بھی عبد اللہ ہوگا، ان کی کنیت ابو عبد اللہ ہوگی ،حضرت فاطمہ کی نسل سے ہوں گے،مکہ میںحجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان ان کے ہاتھ پر لوگ بیعت کریں گے، پھر وہ وہاں سے شام اور خراسان وغیرہ کا سفر کریں گے، اور پھر بیت المقدس ان کا مستقر ہوگا ،جب کہ حضرت مسیح کا نام عیسی ابن مریم بیان کیا گیا ہے ، اور ان کی ولادت کے بجائے دمشق کے دو مناروں کے پاس ان کے نزول کی بات احادیث میں آئی ہے ۔

یہ تفصیلات واضح طور پر بتاتی ہیں کہ دونوں دو الگ شخصیتیں ہیں، اور یہ بات بھی واضح ہوتی ہےکہ ایک شخص کا مسیح اور مہدی دونوں ہونے کا دعوی ہی خود اس کے جھوٹے ہونے کی واضح دلیل ہے ، اور مرزا غلام احمد قادیانی یا اس کی راہ پر چلنے والا شکیل بن حنیف نہ مہدی ہے نہ مسیح، کیوں کہ احادیث میں دونوںبرگزیدہ شخصیتوں کی ذکر کردہ علامات میں سے ادنی سی بھی کوئی علامت ان ان میں نہیں ہے ۔اور ان علامات کو اپنے اندر ثابت کرنے کی کوئی تاویل بھی اس قابل نہیں ہے کہ اسے عقل سلیم قبول کرسکے۔

البتہ حضرت مسیح اور حضرت مہدی علیہما السلام کی الگ الگ شخصیت کو ایک ثابت کرنے کے لئے مرزا غلام احمد قادیانی ہی کی طرح شکیل بن حنیف ایک روایت سے استدلال کرتا ہے کہ جو کہ ابن ماجہ میں مروی ہے:

عن أنس بن مالك، أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: "لا يزداد الأمر إلا شدة، ولا الدنيا إلا إدبارا، ولا الناس إلا شحا، ولا تقوم الساعة إلا على شرار الناس، ولا المهدي إلا عيسى ابن مريم(ابن ماجۃ : ۴۰۳۹)

’’حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا معاملہ (دنیا) میں شدت بڑھتی ہی جائے گی اور دنیا میں ادبار (افلاس اخلاق رذیلہ) بڑھتا ہی جائے گا لوگ بخیل سے بخیل تر ہوتے جائیں گے اور قیامت انسانیت کے بدترین افراد پر قائم ہوگی اور (اس وقت) کامل ہدایت یافتہ شخص صرف حضرت عیسیٰ بن مریم ہونگے‘‘

اس حدیث کے آخری ٹکرہ : ولا المهدي إلا عيسى ابن مريم کو پیش کرکے یہ کہتے ہیں کہ دونوں ایک ہی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت اور خاص طور پر روایت کا آخری یہ ٹکرہ اس قابل نہیں ہےکہ اس سے استدلال کیا جاسکے، کیونکہ اکثر محدثین کے نزدیک اس روایت کی سند ضعیف ہے ، امام بیہقی ؒ، امام حاکم ؒ، علامہ ابن تیمیہؒ ، وغیرہ نے اس کو ضعیف کہا ہے ، ملا علی قاریؒ فرماتے ہیںکہ اس حدیث کے ضعیف ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے( مرقات المفاتیح: ۱۰؍۱۸۳) علامہ ذہبیؒ نے میزان الاعتدال میں اس کو ’’خبر منکر‘‘ کہا ہے (میزان الاعتدال: ۳؍۵۳۵) علامہ شوکانیؒ نے اس کو موضوع کہا ہے (الفوائد الجموعۃ : ۱۲۷) البتہ بعض حضرات نے’’ شواہد ‘‘کی وجہ سے اس کو صحیح لغیرہ کہا ہے، البتہ اس کا آخری ٹکرہ تو بالاتفاق’’منکر ‘‘ ہے؛ کیونکہ یہ روایت دیگر سندوں سے جہاںجہاں دیگر محدثین کی کتابوں میں مذکور ہے وہاں اس روایت میں یہ آخری ٹکرہ نہیں ہے، گویا کہ یہ جملہ اضافہ شدہ ہے حدیث کا حصہ نہیں ہے۔ (حاشیہ ابن ماجہ: شعیب ارناؤوط: ۵؍۱۶۵ ۔ ۱۶۷)

اس لئے اس ایک ناقابل استدلال روایت کو لے کر دیگر صحیح اور متواتر روایات کو چھوڑ دیناکیسے صحیح ہوسکتا ہے ، خاص طور پر ایسے مسئلہ میں جس کا تعلق عقیدہ سے ہے جہاں حد درجہ احتیاط ضروری ہے۔ بلکہ اس کے مقابلہ میں صحیح متواتر احادیث راحج اور قابل استدلال ہوں گی، یا اگر اسے صحیح مان بھی لیا جائے تو اس حدیث کی ایسی تشریح کرنی لازم ہوگی جس سے یہ دیگر روایات متواترہ صحیحہ سےمتعارض نہ ہو، ایسی صورت میں حدیث میں مذکورہ لفظ ’’مہدی‘‘ سے اصطلاحی معنی اورحضرت مہدی مراد لینے کے بجائے یہ کہا جائے گا کہ مہدی سے مراد مہدی کا لغوی معنی ہے (جیسا کہ ترجمہ کیا گیا ہے ) اور رسول اللہ ﷺ اس حدیث کے ذریعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کمال ہدایت کو بیان کررہے کہ اس دور فتن میں جس میں ہرطرف گمراہیوں اور فتنوں کا رواج ہوگا حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی رشد وہدایت کے اعلی مرتبہ پر فائز ہوں گے اور وہی اس وقت کے سب سے باکمال ہدایت یافتہ ہوں گے، علامہ سندی ؒ وغیرہ اس حدیث میں مذکور لفظ’’ مہدی ‘‘کے بارے میں یہی فرماتے ہیں کہ یہاں ’’ مہدی ‘‘کا لفظ وصف کے طور پر مذکور ہے لقب کے طور پر نہیں ( حاشیۃ السندی علی ابن ماجۃ : ۲؍۴۹۵) اور قرب قیامت میں پیدا ہونے والے محمد بن عبداللہ مہدی کا لقب مہدی ہے اور حضرت عیسیٰ صفت کے اعتبار سے مہدی ہیں یعنی کامل ہدایت یافتہ ہیں۔

بہر حال شکیل بن حنیف اور اس کے متبعین راہ راست سے منحرف ہیںاور اسلامی مسلمہ عقائد کے منکر ہیں جن کے اقرار کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا،اسی لئے دارالعلوم دیوبند نے ان کے بارے میں یہ فتوی صادر کیا ہے :

مہدی اور مسیح سے متعلق جواحادیث صحیحہ متواترہ ہیں ا ن احادیث کو شکیل بن حنیف دربھنگوی پر چسپاں کرکے جولوگ اس ( شکیل ) کو مہدی مانتے ہیں وہ از خود دائرہ اسلام سے باہر ہیں ایسے لوگوں کے ساتھ میل جول اسلامی رواداری ا ن کی شادی غمی میں شرکت ا ن کی تقریبات میں جانا یا ا ن کو مسلمانوں کی تقریبات میں بلانا جائز نہیں ہے۔اسی طرح ایسے شخص کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے عمل کو بیعت نہیں بلکہ مرتد ہونا کہا جائے گا جو حرام اور گناہ ہے۔ اور جب شکیل بن حنیف اور اس کے پیروکار اسلام میں داخل ہی نہیں ہیں تو ان کو اپنی مساجد میں عبادت گذاری وغیرہ کی اجازت دینا شرعاً درست نہیں ، متولیانِ مساجد اور تمام مسلمانوں پر لازم پر ہے کہ ان کو اپنے مساجد سے دور اور پاک رکھیں، نیز اسلام کیلئے مخصوص اصطلاحات کا استعمال جیسے قادیانیوں اور دیگرکافروں کیلئے جائز نہیں ایسے ہی شکیل بن حنیف کے پیروکاروں کیلئے بھی جائز نہیں۔ مسلمانوں کو ان لوگوں کی عبادات کو بجائے نماز کے پوجا سے اور روزہ کو بَرت و ا پواس سے اور تلاوت کو پڑھنے سے تعبیر کرنا چاہئے تاکہ اسلامی اصطلاحات کے استعمال سے دوسرے مسلمانوں کو مغالطہ نہ ہو اور غلط فہمی میں کو ئی ا ن کو مسلمان نہ سمجھ بیٹھے ( ماخوذ از ، ساگراردو تہذیب ڈاٹ بلاگ اسپاٹ ڈاٹ کوم)

ابھی تو یہ بات بھی سننے میں آرہی ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس نے خود کو ایک قدم اور آگے بڑھا یا ہے اور نبوت کا بھی دعوی کیا ہے ،اور یہ بات ایسے پاگلوں سے کوئی بعید بھی نہیں، کیونکہ اس قسم کے مکار دراصل عقیدہ ختم نبوت کے مسلمہ عقیدہ کے دشمن ہوتے ہیں لیکن وہاں تک پہونچنے کے لئے اس سے نیچے کے زینوں کو اختیار کرتے ہیں اور جب ان کے چند دیوانے تیار ہوجاتے ہیں تو پھر وہ اس منزل پر اپنے فائز ہونے کا اعلان کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں احادیث میں پہلے ہی بتادیا گیا ہے کہ جھوٹے مدعیان نبوت پیدا ہوں گے ، جن میں سے تیس بہت بڑے ہوں گے یعنی ان کا فتنہ بہت بڑا ہوگا اور وہ بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے۔رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

إنه سيكون في أمتي ثلاثون كذابون كلهم يزعم أنه نبي وأنا خاتم النبيين لا نبي بعدي (ترمذی: ۲۲۱۹)

’’بے شک میری امت میںتیس جھوٹے پیدا ہوں گے جو یہ دعوی کریں گے کہ وہ نبی ہیں ، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں ،میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘

اور ان جیسے فتنہ پروں کے بارے میں نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :

يكون في آخر الزمان دجالون كذابون، يأتونكم من الأحاديث بما لم تسمعوا أنتم، ولا آباؤكم، فإياكم وإياهم، لا يضلونكم، ولا يفتنونكم(مسلم : ۷)

’’اخیر زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو تم سے ایسی احادیث بیان کیا کریں گے جن کو نہ تم اور نہ ہی تمہارے آباؤ اجداد نے اس سے پہلے سنا ہوگا لہذا ان لوگوں سے جس قدر ہو سکے دور رہنا ‘‘
اس لئے عام مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس طرح کے نئے نئے دعوے کرنے والوں اور اسلاف ومتقدمین کے نہج سے ہٹ کر قرآن وسنت کی تشریح وتاویل کرنے والوں سے دور رہیں اور ان کے بہکاوے میں نہ آئیں۔ اللہ امت مسلمہ کو ان جیسے دہریوں سے محفوظ رکھے اور ان فتنہ پروروں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنادے۔
 
Top