• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

شیخ راحیل کا مرزا مسرور احمد کے نام کھلا خط

admin

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
تیسرا کھُلا خط

منجانب شیخ راحیل احمد جرمنی | بنام جناب مرزا مسرور احمد صاحب

سابق احمدی، سکنہ ربوہ، (حال مقیم) جرمنی | و اجباب جماعت احمد یہ

محترم خلیفہ صاحب و بزرگو و دوستو سلام علیٰ من اتبع الھدیٰ

آپ میں سے کئی مجھے ذاتی طور پر جانتے ہیں اور بہت سے اس خاکسار کوغائبانہ طور پر جانتے ہیں، اسی طرح کافی دوستوں نے میرے پہلے دونوں کھلے خطوط کا مطالعہ بھی کیا ہوگا، جن میں خاکسار نے مرزا صاحب کے دعویٰ مسیحیت اور دعویٰ نبوت پر انتہائی واضح تضاد بیانیاں پیش کی تھیں۔ اب تیسری عرضداشت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کے دعویٰ مسیح موعود اور مہدی موعود کے بارے میں پیش خدمت ہے، گر قبول افتد زہے عزو شرف۔

خاکسار ایک احمدی گھرانے میں پیدا ہوا، ربوہ میں پلا بڑھا، اور جماعت کے مفاد میں ایک لمبا عرصہ مختلف عہدوں اور حیثیتوں میں کام کیا۔ ایک مسئلہ پرگفتگو کی وجہ سے میری توجہ ایک مربی صاحب نے اپنے دلائل میں لا جواب ہونے پر (نادانستہ طور پر) مرزا صاحب کی کتب کے مطالعہ کی طرف مبذول کرائی۔ خاکسار نے ایک کتاب اٹھائی اور وہ جہاں سے کھلی، وہاں آج تک جو جماعت نے سکھایا تھا اسکے خلاف لکھا ہو ا تھا۔ ا س لمحہ میں نے فیصلہ کیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابیں غیر جانبدار ہو کر پڑھوں اور حقائق کو دیکھوں، اورکئی برس کے مطالعہ کے بعدمیں اس نتیجہ پر پہنچا کہ مرزا صاحب کے تمام دعوے بے بنیاد ہیں ، دھوکے کی ٹٹی ہیں۔ مرزا صاحب کی جھولی میں کوئی ہیرا تو کیا صاف پتھر بھی نہیں ہیں اور اگر ہے تو صرف اور صرف جھوٹ ہے، اور یہ سب کھڑاگ مرزا صاحب نے اپنی روٹی کے لئے پھیلا یا تھا ۔مرزا صاحب اپنی کسی بات میں سچے نہیں تھے اور اپنے ان بے بنیاد، خود ساختہ دعووں کے ذریعہ، خود اپنی اور اپنی اولاد کے لئے اس دنیا کا کافی سامان کر گئے، حالانکہ جب انہوں نے دعویٰ کیا تھا تو انکی جائداد پر اصل مالیت سے زیادہ قرضہ تھا، لیکن لاکھوں انسانوں کو دوسرے جھوٹے مدعیان نبوت کی طرح نہ صرف دنیا کے مال سے محروم کیا بلکہ آخرت میں بھی جہنم کی آگ کا ایندھن بننے کےلئے چھوڑ گئے۔

مرزا غلام احمد قادیانی نے پہلا دعویٰ ملہم ہونے کا کیا اور اپنے ان الہاموں کو بنیاد بنا کر مجدد ہونے کا دعویٰ کیا، اور مجدد کے بارے میں انکا دعویٰ یہ ہے

”جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے مجددیت کی قوت پاتے ہیں وہ نرے استخواں فروش نہیں ہوتے بلکہ وہ واقعی طور پر نائب رسول اللہ ﷺ اور روحانی طور پر آنجناب کے خلیفہ ہوتے ہیں، خدا تعالیٰ انہیں تمام نعمتوں کا وارث بناتا ہے جو نبیوں اور رسولوں کو دی جاتی ہیں اور خدا تعالیٰ کے الہام کی تجلی انکے دلوں پر ہوتی ہے اور وہ ہر ایک مشکل کےوقت روح القدس سے سکھلائے جاتے ہیں اور انکی گفتار و کردار میں دنیا پرستی کی ملونی نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہ کلی مصفا کئے گئے اورتمام و کمال کھینچے گئے“۔(فتح اسلام ،ر خ ج۳/ ص۷،حاشیہ)

مرزا صاحب کی تمام تحریریں جو ۱۸۸۰ اور اسکے بعد لکھی گئی ہیں، مجدد ہونے اور کلی مصفا ہونے کے دعویٰ کے بعد لکھی گئی ہیں او ر انہی میں مرزا صاحب کے اسکے بعد بیشمار دعوے موجود ہیں۔مرزا صاحب اپنے دعووں کی بنیاد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں

” اور ہم اس کے جواب میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کرتے ہیں کہ میرے اس دعویٰ کی حدیث بنیاد نہیں بلکہ قرآن اوروہ وحی ہے جو میرے پر نازل ہوئی۔ ہاں تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔“(اعجاز احمدی،ر خ ج۹/ص140)

یہ دوسری بات ہے کہ جس مسیح اور مہدی ہونے کا مرزا صاحب دعویٰ کر رہے ہیں اسکی خبراحادیث میں ہی ہے، اور جو نشانیاں احادیث شریفہ میں دی گئی ہیں ان میں سے ایک بھی مرزا صاحب پرفٹ نہیں بیٹھتی اسی لئے ردی کی طرح پھینکی جا رہی ہیں، اور پھر اگر کوئی حدیث قرآن کے مطابق بھی ہے لیکن مرزا صاحب کی(نام نہاد) وحی سے معارض ہے وہ بھی ردی ہو گئی یعنی کہ مرزا صاحب کی وحی نعوذ باللہ قرآن مجید سے بھی بڑھ گئی۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ جو مواد مرزا صاحب نے اپنے دعووں کی بنیاد کے طور پر پیش کیا ہے وہ بقول انکے صحیح اور الہامی تائید کے ساتھ پیش کیا ہے، اس لئے ہم صرف مرزا صاحب نے جو تائیدی مواد اپنے دعویٰ کے متعلق پیش کیا ہے اسکے مطابق جائزہ لیں گے کہ آیا مرزا صاحب اپنے بیان کئے ہوئے معیار کے مطابق بھی اپنے دعویٰ جات پر پورے اُترتے ہیں یا نہیں؟مرزا صاحب نے ویسے تو بہت سی باتیں کہیں ہیں لیکن ہم آج نمونے کے طور پر صرف چند ہی باتیں پیش کریں گے کہ یہ خط زیادہ طوالت کی اجازت نہیں دیتا۔

 

admin

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
تیسرا کھلا خط بنام مرزا مسرور احمد . حصہ دوئم
یہاں ہم مسیح موعود کا دعویٰ لیتے ہیں، مرزا صاحب اس مسیح موعود کا معیار بیان کرتے ہوئے اپنی صداقت کے ثبوت میں فرماتے ہیں:۔

ثبوت نمبر۱: ۔مرزا صاحب (اپنے) بطور ملہم و مجدداور خلیفۃ الرسول ﷺ لکھتے ہیں:

” یہ آیت اس مقام میں حضرت مسیح کے جلالی طور پر ظاہر ہونے کا اشارہ ہے یعنی اگر طریق رفق اور نرمی اور لطف احسان کو قبول نہیں کریں گے اور حق محض جو دلائل واضحہ اور آیات بینہ سے کھل گیا ہے اس سے سرکش رہیں گے تو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ جب خدا تعالےٰ مجرمین کے لئے شدت اور عنف اور قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح علیہ السلام نہایت جلالیت کے ساتھ دنیا پر اتریں گے اور تمام راہوں اور سڑکوں کو خس و خاشاک سے صاف کر دیں گے اور کج اور ناراست کا نام و نشان نہ رہے گا اور جلال الٰہی گمراہی کے تخم کو اپنی تجلی قہری سے نیست و نابود کر دیگا۔“ براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد۱/صفحہ601

اب آیت کی اس الہامی تشریح سے مندرجہ ذیل باتیں سامنے آتی ہیں

(۱)حضرت مسیح ابن مریم نازل ہوں گے لیکن یہاں غلام ابن چراغ بی بی دعویٰ کر رہے ہیں۔

(۲) دنیا ان کا جلال دیکھے گی یعنی حکومت !لیکن کیا دنیا نے مرزا غلام احمد کا جلال دیکھا؟ دنیا کو چھوڑو کیا ہندوستان نے انکا جلال دیکھا؟ اسکو بھی چھوڑو کیا انکے صوبہ پنجاب نے بھی انکا جلال دیکھا؟ یا انکے ضلع نے، یا انکی تحصیل نے حتیٰ کہ انکی اپنی ملکیت قادیان نے ہی جلال دیکھا ہو تو بتاو؟بلکہ دنیا نے تویہاں تک دیکھا کہ مرزا غلام احمدقادیانی ،غلامی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، نو آبادیاتی طاقت کےلئے اپنی خدمات اور اپنے خاندان کی خدمات کا تذکرہ کر کے ملکہ وکٹوریہ کے ایک کلمہ شکریہ سے ممنون ہونا چاہتا ہے( دیکھو ستارہ قیصریہ)۔ کیا یہی ایک نبی کا جلال ہوتا ہے؟ یا جلال کے معنی لغت میں نئے لکھے گئے ہیں؟

(۳) حضرت مسیح ابن مریم تمام راہوں کو صاف کر دیں گے لیکن مرزا صاحب سوائے اپنی اولاد کےلئے مال اکٹھا کرنے کی راہیں صاف کر نےکے اور کچھ نہیں کر کے گئے، اور ہاں ایک صفائی جو مرزا صاحب نے کی کہ جن دنوں طاعون کا زور تھا اپنے گھر کی نالیاں صاف کر کے اپنے ہاتھوں سے نالیوں میں فینائل ڈالا کرتے تھے (دیکھو سیرت المہدی، مصنفہ مرزا بشیر احمد،ایم اے،پسر مرزا صاحب) ۔

(۴) کج اور نا راستی کا نام و نشان نہیں رہےگااور مرزا صاحب اور انکے بعد کے دور میں کج اور ناراستی نے دنیا میں اپنے پنجے اور زیادہ مضبوطی سے گاڑ لئے ہیں ، باقی دنیا کی بات چھوڑو ، اپنی جماعت کو ہی دیکھ لو، بلکہ جماعت کے عام ممبروں کو چھوڑو، انکے عہدیداروں کو ہی صرف دیکھ لو، وہ کن راہوں پر ہیں؟ اگر یہی کج اور ناراستی دور کرنا کہلاتا ہے تو ایسا سمجھنے والے کو اسکا ایمان مبارک ہو؟

(۵)گمراہی کا تخم نیست و نابود کر دیگااب ذرا دنیا کو چھوڑو اپنی جماعت کو ہی دیکھ لو، دنیا تو بہت دور کی بات ہے تمہارے بہت سے عہدے دار بھی عبادت سے بھاگتے ہیں اور بچوں کی ہی نہیں بڑوں کی بھی حاضریاں لگتی ہیں آپکی عبادت گاہوں میں، اور مرکز کو جھوٹی رپورٹیں بھجوائی جاتی ہیں،تمہارے خلفاءپر موکد بہ عذاب قسمیں کھا کر لوگ کیا کیا الزام نہیں لگا رہے؟ اور انکے احترام کا یہ حال ہے کہ ایک مربی کا خلیفہ کے کمرے میں بلاوا آتا ہے تو دوسرا مربی پوچھتا ہے کہ کیا تیل کی شیشی جیب میں ہے؟آپکے سامنے ثابت ہورہا ہے کہ مرزا صاحب اپنی ہی بیان کی ہوئی تصریح کے مطابق مسیح موعود نہیں ہیں۔چونکہ مرزا صاحب آیت کی اپنی الہامی تشریح کے مطابق نہ تو جلال دکھا سکے ، نہ کج اور ناراستی دور کر سکے اور کفر و گمراہی کے اندھیرے انکے دعوےٰ کے بعد اور گہرے ہو چکے ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیش کئے ہوئے معیار پر پورا اترنے میں ناکام رہے اور نبی صرف کامیاب ہوتا ہے اور خدا تعالے نبی کوٰ کبھی ناکام نہیں ہونے دیتا،اس لئے مرزا صاحب اپنے دئے ہوئے معیار کے مطابق بھی دعوے میں جھوٹے ہیں ۔


ثبوت نمبر۲: ۔ جب مرزا صاحب نے مسلمانوں کے عقائد سے اتفاق کرتے ہوئے اپنے ملہم اور مجدد ہونےکا پروپیگنڈہ خوب کر لیا تواب آہستہ آہستہ اپنے قدم آگے بڑھانے شروع کئے اور اپنے آپ کو مثیل عیسیٰ علیہ اسلام قرار دے لیا، اور یہ دروازہ بظاہر صرف اپنے لئے ہی نہیں بلکہ دوسروں کے لئے بھی کھول رہے ہیں۔یہ علیحدہ بات ہے کہ خود داخل ہونےکے بعد دوسروں کیلئے ہمیشہ کےلئے دروازہ بند کر دیتے ہیں۔زیرک اور داناعلمائے وقت نے جب دیکھا کہ مرزا صاحب ، حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی جگہ خود مسیح موعود اور مسیح ابن مریم بننے کی تیاری میں ہیں( کیونکہ مرزا صاحب سے پہلے بھی کئی جھوٹے مدعیان نبوت نے ایسے ہی طریقوں سے اپنے قدم نبوت کی طرف بڑھائے تھے) تومخالفت میں آوازیں اٹھنے لگیں، مرزا صاحب نے کچھ وقت حاصل کرنے کے لئے فوراً پینترا بدلا ، اور اعلان شائع کر دیا:

علمائے ہند کی خدمت میں نیاز نامہ“۔اے برادران دین و علمائے شرع متین! آپ صاحبان میری ان معروضات کو متوجہ ہو کر سنیں کہ اس عاجز نے جو مثیل موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے، جس کو کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں، یہ کوئی نیا دعویٰ نہیں جو آج ہی میرے منہ سے سنا گیا ہو بلکہ یہ وہی پرانا الہام ہے جو میں نے خدائے تعالےٰ سے پا کر براہین احمدیہ کے کئی مقامات پر درج کر دیا تھا ، جس کے شائع کرنے پر سات سال سے بھی کچھ زیادہ عرصہ گزر گیا ہو گا، میں نے یہ دعویٰ ہر گز نہیں کیا کہ میں مسیح ابن مریم ہوں جو شخص میرے پر یہ الزام لگاوے وہ سراسر مفتری اور کذاب ہے۔“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد۳/صفحہ۱۹۲)

جب میں نے یہ پڑھا تو پہلی بار میرے دل میں ایک واضح شک پیدا ہوا کہ مرزا صاحب کی جھولی میں ہیرے ہی نہیں بلکہ پتھر بھی ہیں۔ میرے لئے یہ ایسا حیران کن لمحہ تھا کہ ٹائٹل پر مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی موعود لکھا ہے او ر کتاب کے اندر ماننے والے تو بعد کی بات ، صرف خیال کر نیوالے ہی کم فہم ہیں نیز مفتری و کذاب ہیں، اور میرے کانوں میں (اور آپکے کانوں میں بھی) پیدائش سے ہی یہ ڈالا جا رہا ہے کہ مرزا صاحب مسیح موعود اور مسیح ابن مریم ہی ہیں۔ خیر مرزا صاحب کا اپنا یہ دعویٰ ہی انکے مسیح موعود ہونے کو باطل کر رہا ہے ، مرزا صاحب تسلیم کر رہے ہیں کہ انکو مسیح موعود اور مسیح ابن مریم سمجھنے والا مفتری اور کذاب ہے، لہٰذا مرزا صاحب مسیح موعود نہیں ہیں ۔

ثبوت نمبر۳ : ۔ مرزا صاحب نے اپنی دانست میں ہر قدم آہستہ آہستہ اور بڑا سوچ کربڑھایا، لیکن یہی قدم انکے خلاف ثبوت بھی بنتے گئے۔ مرزا صاحب ایک جگہ حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کے اشعار کی تشریح کرتے ہوئے اور اسکو اپنے حق میں بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے اس شعر” تا چہل سال اے برادر من ۔ دور آں شہسوار مے بینم“ کی تشریح میں لکھتے ہیں: ” یعنی اس روز سے جو وہ امام ملہم ہو کر اپنے تئیں ظاہر کریگا،چالیس برس تک زندگی کریگا۔ اب واضح رہے کہ یہ عاجز اپنی عمر کے چالیسویں برس میں دعوت حق کے لئے بالہام خاص مامور کیا گیااور بشارت دی گئی کہ اسی برس تک یا اس کے قریب تیری عمر ہے، سو اس الہام سے چالیس برس تک دعوت ثابت ہوتی ہے، جن میں سے دس برس کامل گزر بھی گئے۔“ (نشان آسمانی،روحانی خزائن جلد 4/صفحہ 473)

یہ رسالہ۱۸۹۲ میں لکھا گیا ۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا صاحب ۱۸۹۲ میں دعویٰ کر رہے ہیں کہ چالیس سال کی عمر میں مرزا صاحب ایک خاص الہام کے ذریعہ مامور ہوئے اور یہ رسالہ لکھنے تک پورے دس برس بطور مامور کے گزر چکے ہیں اور تیس سال ابھی باقی ہیں ، یعنی انکی زندگی کا سلسلہ مزید ، کم و بیش ۱۹۲۲ تک مزید چلنا چاہئے تھا، لیکن ہوتا کیا ہے کہ مرزا صاحب بجائے مزید تیس برس کی عمر پانے کے سولہ سال بھی مزید پورے نہیں کرتے اور مئی ۱۹۰۸ میں فوت ہو جاتے ہیں اور جس پیشگوئی کا اپنے آپ کو مصداق بنا کر اپنی صداقت کے لئے خودپیش کرتے ہیں، وہ پیشگوئی بھی انکی ذات پر پوری نہیں ہوئی اور انکا اسی برس والا الہام بھی پورا نہ ہوا۔ اس لئے پہلی بات تو یہ کہ مرزا صاحب کا اپنی عمر کا الہام جھوٹا ہوا ،دوسرے پیشگوئی کا مصداق بننے کا دعویٰ غلط ثابت ہوا ۔ جسکا الہام جھوٹا ہو اور جو پیشگوئی اپنی صداقت کے لئے پیش کرتا ہے اور اسکا اہل ثابت نہیں ہوتا ، وہ مسیح موعود نہیں ہو سکتا۔پس مرزا صاحب مسیح موعود نہیں۔
 

admin

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
تیسرا کھلا خط بنام مرزا مسرور احمد . آخری حصہ
ثبوت نمبر 4۔اب مرزا صاحب ایک حدیث شریف کو اپنے دعویٰ مسیح موعود کے ثبوت میں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
” اس پیشگوئی ( محمدی بیگم کیساتھ شادی کی ۔ ناقل) کی تصدیق کے لئے جناب رسول اللہﷺ نے بھی پہلے سے ایک پیشگوئی فرمائی ہے کہ یتزوج و یو لد لہ۔ یعنی وہ مسیح موعود بیوی کریگا نیز وہ صاحب اولاد ہو گا۔ اب ظاہر ہے کہ تزوج اور اولاد کا ذکر کرنا عام طور پر مقصود نہیں کیونکہ عام طور پر ہر ایک شادی کرتا ہے اور اولاد بھی ہوتی ہے، اس میں کچھ خوبی نہیں بلکہ تزوج سے مراد وہ خاص تزوج ہے جو بطور نشان ہوگا، اور اولاد سے مراد وہ خاص اولاد ہے جس کی نسبت اس عاجز کی پیشگوئی موجود ہے گویا اس جگہ رسول اللہ ﷺ ان سیاہ دل منکروں کو انکے شبہات کا جواب دے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ یہ باتیں ضرور پوری ہونگی۔“(ضمیمہ انجام آتھم، رخ ج۱۱/صفحہ۳۳۷،حاشیہ )
مرزا صاحب کی یہ تحریر 1896 کی ہے، اسوقت تک مرزا صاحب کی دو شادیاں ہو چکی تھیں اور ان میں سے اولاد بھی تھی، بلکہ پہلی بیوی(ماموں زاد حرمت بی بی عرف پھجے دی ماں) کو محمدی بیگم کے ساتھ شادی نہ کروانےکے جرم میں طلاق بھی دے چکے تھے اور اسی جرم میںسب سے بڑے بیٹے مرزا سلطان کو عاق بھی کرچکے تھے اور اپنی دوسری بہو عزت بی بی زوجہ فضل احمد کو بھی طلاق دلوا چکے تھے ۔ اسکے بعد تا حیات مرزا صاحب کی تیسری شادی محمدی بیگم یا کسی اور عورت سے نہیں ہوئی اور نہ ہی (شادی نہ ہونیکی وجہ سے) وہ خاص اولاد ہوئی،اس طرح مرزا صاحب نے خود ثابت کر دیا کہ وہ رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی پر بھی پورے نہیں اترے لہٰذامرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود نہیں ہیں۔
ثبوت نمبر۵: ۔لیکن بات یہاں ہی نہیں رکتی ، خاکسار آپ کی خدمت میں دو حوالے پیش کرتا ہے جس سے مرزا صاحب کی دروغ بیانی ظاہر و باہر ہو جائیگی۔ جب مرزا صاحب نے حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کا عقیدہ سر سید احمد خان سے اپنایا تو علماءاور دوسرے مسلمانوں نے اعتراض کیا کہ براہین احمدیہ میں جو کہ مرزا صاحب نے الہامی رہنمائی کے تحت لکھی تھی اسمیں تو حیات عیسیٰ علیہ اسلام کا عقیدہ لکھاہے،مرزا صاحب جواب دیتے ہیں کہ :
میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کا عقیدہ براہین احمدیہ میں لکھدیا۔ میں خود تعجب کرتا ہوں کہ میں نے باوجود کھلی کھلی وحی کے جو براہین احمدیہ میں مجھے مسیح موعود بناتی تھی ، کیونکر اس کتاب میں یہ رسمی عقیدہ لکھ دیا۔پھر میں قریباً بارہ برس تک جو ایک زمانہ دراز ہے بالکل اس سے بے خبر اور غافل رہا، خدا نے مجھے بڑی شد و مد سے براہین احمدیہ میں مجھے مسیح موعود قرار دیاہے مگر میں رسمی عقیدہ پر جما رہا۔ جب بارہ برس گزر گئے تب وہ وقت آگیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی جائے۔“ (اعجاز احمدی،رخ ج۱۹/صفحہ ۱۱۳)
پہلے لیتے ہیں رسمی عقیدہ والے جھوٹ کو، مرزا صاحب نے براہین احمدیہ کی فروخت کا جو اشتہار دیا تھا اسکی ان سطور کوجو میں ابھی پیش کرونگا ، رسمی عقیدہ نہیں تھا بلکہ انتہائی تحقیق کے بعد براہین احمدیہ لکھی گئی، مرزا صاحب فرماتے ہیں
اس عاجز نے ایک کتاب متضمن اثبات حقانیت قرآن و صداقت دین اسلام ایسی تالیف کی ہے جس کے مطالعہ کے بعد طالب حق سے بجز قبولیت اسلام اور کچھ نہ بن پڑے۔“( اشتہار اپریل۱۸۷۹ ، مجموعہ اشتہارات ج ۱/ص۱۱)
کتا ب براہین احمدیہ جسکو خدا تعالےٰ کی طرف سے مولف نے ملہم اور مامور ہو کر بغرض اصلاح و تجدید دین تالیف کیا ہے۔اول تین سو مضبوط اور قوی دلائل عقلیہ سے جن کی شان و شوکت و قدر و منزلت اس سے ظاہر ہے کہ اگر کوئی مخالف اسلام ان دلائل کو توڑ دے تو اس کو دس ہزار روپے دینے کا اشتہار دیا ہوا ہے۔ اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدد وقت ہے اور روحانی طور پر اس کے کمالات مسیح بن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اگر اس اشتہار کے بعدبھی کوئی شخص سچا طالب بن کر اپنی عقدہ کشائی نہ چاہے اور دلی صدق سے حاضر نہ ہو تو ہماری طرف سے اس پر اتمام حجت ہے۔“ بحوالہ اشتہار نمبر۱۱، مجموعہ اشتہارات جلد۱، صفحہ ۲۳ تا ۲۵
اب آپ اندازہ لگائیں کہ کیا اس کتاب کا اشتہار کسی رسمی عقیدہ کے سرسری عقیدے کا ذکر کر رہا ہے یا الہامی رہنمائی سے انتہائی دقیق تحقیق کا دعویٰ ہے۔ مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ مجدد نرے استخواں فروش نہیں ہوتے، بالکل صحیح کہا لیکن یہ تضاد بیانی اور کتاب بیچنے کےلئے جھوٹے دعوے ثابت کر رہے ہیں کہ مرزا صاحب نہ مجدد تھے اور نہ ہی الہام ہوتے تھے صرف ایک دروغ گو کتاب فروش تھے اور ایمان فروش تھے۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی ،اس ثبوت کے شروع میں خاکسار نے جو حوالہ پیش کیا ہے اسکے اس فقرے کو سامنے رکھیں” پھر میں قریباً بارہ برس تک جو ایک زمانہ دراز ہے بالکل اس سے بے خبر اور غافل رہا، خدا نے مجھے بڑی شد و مد سے براہین احمدیہ میں مجھے مسیح موعود قرار دیاہے مگر میں رسمی عقیدہ پر جما رہا۔ جب بارہ برس گزر گئے تب وہ وقت آگیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی جائے“۔ اور اب اس حوالے کو غور سے پڑھیں:
’واللہ قد کنت اعلم من ایّام مدیدة اننی جُعلت المسیح ابن مریم و انی نازل فیمنز لہ و لکن اخفیتہ نظراً اِلیٰ تاویلہ۔ بل ما بدلت عقیدتی و کنت علیھا من ا لمستمسکین و توقفُ فی الاظہار عشر سنین۔ترجمہ: ”اللہ کی قسم میں بہت عرصے سے جانتا تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم بنایاگیاہے اور میں ان کی جگہ نازل ہوا ہوں لیکن میں تاویل کر کے چھپاتا رہا۔ بلکہ میں نے اپنا عقیدہ نہیں بدلا اور اسی پر تمسک کرتا رہا اور اس دعویٰ کے اظہار میں میں نے دس برس تک توقف کیا۔“ (آئینہ کمالات اسلام، صفحہ۵۵۱، روحانی خزائن جلد۵)
اب آپ بتائیں کہ کیا یہ تضاد ایسے شخص کے قلم میں ہو سکتا ہے جسکا دعویٰ یہ ہو کہ وہ مجدد ہے ،جسکو بتمام کمال مصفیٰ کیا گیا ہے اور نائب رسول اللہ ﷺ ہو۔ کبھی نہیں، آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ایسا تضاد ایک ایمان فروش، ایک جھوٹے مدعی نبوت کی تحریروں میں ہی ہو سکتا ہے۔اور جھوٹی ، متضاد باتیں لکھنے والا مسیح موعود نہیں ہو سکتا۔
ثبوت نمبر6:۔مرزا صاحب صحیح بخاری کی ایک حدیث کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”مجھے قسم ہے اس پروردگار کی جسکے ہاتھ میں محمد( ﷺ) کی جان ہے ، تم میں حضرت عیسیٰ ابن مریم حاکم عادل کی حیثیت سے نازل ہوں گے“(ازالہ اوہام، رخ ج ۳/ص ۱۹۸)
اس حوالے کو ذہن میں رکھیں (زور لفظ قسم پر ہے) اور اب مرزا صاحب کی اس دلیل یا اصول کو پڑھیں، لکھتے ہیں:
قسم اس بات کی دلیل ہے کہ خبر اپنے ظاہر پر محمول ہے۔ اس میں نہ کوئی تاویل ہے اور نہ استثناء۔ورنہ قسم سے بیان کرنےکا کیا فائدہ؟“ (حمامۃ البشریٰ،،ر خ ج ۷/ص ۱۹۲)
اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ خاتم الانبیاء،رحمت اللعالمین، سرور کائنات، رسول اللہ ﷺایک بات کو قسم کھا کر بیان کر رہے ہیں اور مرزا صاحب ہیں کہ کسی بات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ، اپنے ہی تسلیم شدہ معیار کی پیروی نہ کرتے ہوئے کس ظالمانہ طریق پر ، رسول پاکﷺ کی قسم کھائی ہوئی بات کی بے بنیاد تاویل کر کے اپنے آپ کو عیسیٰ ابن مریم کی جگہ بٹھا رہے ہیں۔جو شخص رسول کریم ﷺ کی قسم کھائی ہوئی بات کی تاویلیں کرنا شروع کر دے وہ مسلمانوں کےلئے کسی طرح بھی مسیح موعود نہیں ہو سکتا، ہاں بھٹکے ہووں کےلئے ہو سکتا ہے۔
خاکسار نے انتہائی واضح دلائل کے ساتھ مرزا صاحب کی تحریروں کا تضاد واضح کر دیا ہے اور مرزا صاحب ہی کا قول ہے کہ
اس شخص کی حالت ایک مخبوط الحواس انسان کی حالت ہے کہ ایک کھلا کھلا تناقض اپنے کلام میں رکھتا ہے۔
اب خود دیکھ لو کہ اتنے متناقض کلام والے شخص کو مان کر (اسی شخص کے بقول)ایک مخبوط الحواس شخص کو نبی اور مسیح موعود مان رہے ہو، مرزا صاحب کے کلام میں جھوٹ اور تضاد کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں، اور خاکسار نے اوپر کی سطور میں مرزا صاحب کا جھوٹ بھی ثابت کر دیا ہے مرزا صاحب کے اپنے کلام میں، اور جھوٹ کے بارے میں مرزا صاحب ارشاد فرماتے ہیں: ”جھوٹ کے مردار کو کسی طرح نہ چھوڑنا، یہ کتوں کا طریق ہے نہ انسان کا۔“ (انجام آتھم،،ر خ ج۱/ص43)
یہ فیصلہ آپ خدا کو حاضر ناظر جان کر خود کر لو کہ مرزا صاحب نے جھوٹ بولا یا نہیں؟ جھوٹ کا مردار سینے سے لگائے رکھا ہے یا نہیں ، یہ فیصلہ کرنا آپکا کام ہے۔
مرزا صاحب نے دجال کے لفظ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے
دجال کے لئے ضروری ہے کہ کسی نبی بر حق کا تابع ہو کر پھر سچ کے ساتھ باطل کو ملا دے۔(مجموعہ اشتہارات، ج ۲/صفحہ۱۳۱)۔ اوردوسری جگہ لکھتے ہیں: ” دجال کے معنی بجز اسکے اور کچھ نہیں کہ جو شخص دھوکہ دینے والا ہو اور خدا تعالےٰ کے کلام میں تحریف کرنے والا ہو، اسکو دجال کہتے ہیں۔“ (تتمہ حقیقت الوحی، ر خ ج ۲۲/ص 456)
مرزا صاحب کی جو تحریریں خاکسار نے آپکی خدمت میں بطور نمونہ پیش کی ہیں وہ یہی ثابت کر رہی ہیں کہ متناقض اور موقع پرستانہ ، دھوکہ دینے والا کلام ہے اور ایسی سینکڑوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ پس ہوش کریں کہ کن کے ہاتھوں میں اپنا ایمان، مال و دولت، وقت، عزت و آبرو، اولاد، خود کو گروی رکھا ہوا ہے، اور وہ بھی کسی چیز کے بدلے میں نہیں۔ دنیا تو تمہاری انہوں نے چھین لی آخرت کے نام پر اور اتنے واضح جھوٹوں کے بعد، پھر بھی آنکھیں نہیں کھولو گے تو آخرت بھی تمہاری نہیں رہے گی۔یہ مذہب تمہارے اور خدا و رسول ﷺ کے درمیان ایک تاریک پردے کی طرح حائل ہو گیا ہے ، اس پردے کو پرے ہٹاوگے تو نور خدا کا جلوہ دیکھ سکو گے۔ مجھے آپ لوگوں سے ہمدردی ہے کیونکہ میری زندگی کے ۵۵ سال آپ لوگوں کیساتھ گزرے ہیں۔ اس لئے میری دلی خواہش ہے کہ اس دھوکہ سے باہر نکل آئیں اور اسی خواہش کے تحت یہ چند سطور لکھی گئی ہیں ۔ اس دعا کے ساتھ اپنی عرض کو ختم کرتا ہوں کہ میرا اور آپکا بھی خاتمہ محمدﷺ کی اصلی غلامی میں ہو نہ کہ کسی خود ساختہ نبی کی امت میں ۔آمین ۔
خاکسار
مورخہ 24 اپریل ۲۰۰۵ ء شیخ راحیل احمد ( سابق احمدی) از جرمنی
 
Top