• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(صدارت، وزارت عظمیٰ اور ختم نبوت)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(صدارت، وزارت عظمیٰ اور ختم نبوت)
جناب ڈپٹی چیئرمین! جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو معلوم تھا کہ اس ملک کے اندر آئینی بحران ہے اور سالہا سال سے ملک بغیر کسی آئین کے چل رہا ہے۔ جناب بھٹو نے عوام سے وعدہ کیا کہ وہ نہ صرف ان کو عوامی دستور دیں گے بلکہ ان کو اسلامی دستور دیں گے۔ ان کو یہ بھی یقین تھا کہ اسلامی دستور بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ ممبران قومی اسمبلی اگر مسلمان ہوں اور صحیح عقیدے کے مسلمان ہوں تو پھر ہم اتفاق رائے سے غیرمتنازعہ قسم کا اسلامی دستور اس ملک کو دے سکیں گے۔ جناب ڈپٹی چیئرمین! شاید یہی وجہ تھی کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی کے لئے اپنی پارٹی کا ٹکٹ کسی احمدی یا قادیانی کو نہیں دیا اور آج ہم یہ بڑے فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ اس ہاؤس کے سو فیصد ممبران کا عقیدہ ختم نبوت پر ہے اور وہ اس کے اوپر ایمان رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اتفاق رائے سے اس ملک کو ایک عوامی اور اسلامی دستور دے چکے ہیں اور اس اسلامی دستور میں ہم نے نظریہ ختم نبوت کو بھی تحفظ دیا ہے اور اگرمیں آپ کے سامنے دستور کے تھرڈ شیڈول کی عبارت پڑھ کر سناؤں تو معلوم ہو جائے گا کہ اس کے اندر واشگاف الفاظ میں ختم نبوت کو تحفظ دیا گیا ہے اور جو آدمی ختم نبوت کے اوپر ایمان کا اور اعتقاد کا حلف نہیں اٹھاتا وہ اپنے آپ کو نہ مسلمان کہلوا سکتا ہے نہ کرسی صدارت پر بیٹھ سکتا ہے اور نہ ہی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر متمکن ہوسکتا ہے۔
جناب ڈپٹی چیئرمین! جہاں تک مذہبی عقیدے کا تعلق ہے اس پر بہت سارا لٹریچر اس کارروائی کے دوران مختلف اسلامی اور احمدی عقیدہ رکھنے والوں کی جانب سے ممبران قومی اسمبلی 2854کے پاس آیا اور ہم نے ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ فاضل ممبران قومی اسمبلی مولانا مفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب اور مولانا عبدالحکیم صاحب نے جو اسلامی عقیدے کا بیان اس کمیٹی کے سامنے پڑھ کر سنایا ہے۔ عقیدے کے لحاظ سے میں ان دونوں کے بیانات سے سوفیصد متفق ہوں۔ لیکن اگر ہم نے صرف اپنے علمائے کرام کے بیانات پر اور ان کے وعظ ونصیحت پر ہی فیصلہ کرنا تھا تو پھر اسمبلی کے سامنے لاہوری جماعت اور ربوہ جماعت کو اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کی اجازت دینے کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ وعظ ونصیحت سن کر ہی ہم اسی وقت فیصلہ دے سکتے تھے کہ یہ لوگ مسلمان ہیں یا غیرمسلم ہیں؟ مگر چونکہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ کسی دوسرے فریق کے خلاف فیصلہ دینے سے پہلے آپ اس کو ضرور سماعت کر لیں اور اس کے عذرات سن لیں۔ یہی نیچرل جسٹس اور Good Conscience (روشن ضمیری) کا تقاضا ہے۔ جناب ڈپٹی چیئرمین! یہی وجہ ہے کہ قادیانی لیڈروں کو اپنا نقطۂ نظر اس اسمبلی میں پیش کرنے کی اجازت دی گئی۔ بلکہ انہوں نے خود اس کا مطالبہ کیا تھا کہ فیصلہ دینے سے پہلے ہمیں اسمبلی کے سامنے پیش ہوکر اپنی پوزیشن اور اپنا عقیدہ واضح کرنے کی اجازت دی جائے۔ ان کے بیانات پر جرح کے دوران میں نے کوشش کی کہ میں زیادہ سے زیادہ عرصہ کارروائی کے دوران حاضر رہوں اور میں نے یہ کوشش بھی کی کہ اگر وہ کوئی اس قسم کے دلائل پیش کر سکیں یا ثبوت دے سکیں کہ ان کا عقیدہ سچا ہے اور وہ مجھے قائل کر سکیں تو شاید میں ان کے عقیدے پر ایمان لے آؤں۔ اسی نظریہ سے میں نے ان کے تمام دلائل سنے۔ وہ شہادت جو اس اسمبلی کے ریکارڈ پر آئی ہے اگر میں اس کا آپ کے سامنے اور فاضل ممبران اسمبلی کے سامنے جائزہ لوں تو ہم یہ دیکھ لیں گے کہ کیا ان کا نظریہ اس قابل ہے کہ میں اس پر ایمان لے آتا،یا ان کا نظریہ اس قسم کا ہے کہ میں اس کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیتا؟
 
Top