(ضروریات دین)
ضروریات دین وہ چیز ہیں کہ جن کو خواص وعوام پہچانیں کہ یہ دین سے ہیں جن سے اعتقاد توحید کا، رسالت کا، اور پانچ نمازوں کا اور مثل ان کے اور چیزیں۔
شریعت کے اگر کسی لفظ کو بحال رکھا جاکر اس کی حقیقت کو بدل دیا جاوے اور وہ معاملہ متواترات سے ہو تو وہ کفر صریح ہے۔ کفر وایمان کی اس شرعی حقیقت کے بیان کرنے سے یہ بات 2140واضح ہو جاتی ہے کہ ایک مسلمان بعض قسم کے افعال یا اقوال کی وجہ سے کافر اور خارج از اسلام ہو جاتا ہے۔ختم نبوت کا عقیدہ بایں معنی کہ آنحضرتa کی نبوت کے بعد کسی کو عہدہ نبوۃ نہ دیا جائے گا۔ بغیر کسی تاویل اور تخصیص کے ان اجماعی عقائد میں سے ہے جو اسلام کے اصولی عقائد میں سے سمجھایا گیا ہے اور آنحضرتa کے عہد سے لے کر آج تک نسلاً بعد نسلٍ ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا ہے۔
اور یہ مسئلہ قرآن مجید کی بہت سی آیات سے اور احادیث متواترۃ المعنی سے اور قطعی اجماع امت سے روزروشن کی طرح ثابت ہے اور اس کا منکر قطعاً کافر مانا گیا ہے اور کوئی تاویل وتخصیص اس میں قبول نہیں کی گئی۔ اس میں اگر کوئی تاویل یا تخصیص نکالی جاوے تو وہ شخص ضروریات دین میں تاویل کرنے کی وجہ سے منکر ضروریات دین سمجھا جائے گا۔
یہ اصول ہیں جن کے تحت میں اور بھی ایسے بہت سے فروع موجود ہیں جو مستقل موجبات کفر ہوسکتے ہیں۔
فریق ثانی کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ ایمان یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ پر۔ اس کے فرشتوں پر۔ اس کی کتابوں پر۔ اس کے رسولوں پر اور بعث بعد الموت پر اور تقدیر پر یقین رکھاجاوے اور اسلام گواہی دیتا ہے اس بات کی کہ سوائے اﷲ کے کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اس کے رسول ہیں، اور نماز کا ادا کرنا اور زکوٰۃ کا دینا اور رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اﷲ شریف کا حج ادا کرنا اگر استطاعت ہو، اور جو شخص زبان سے ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کہے اور دل سے اس کے مطالب کی تصدیق کرے تو ایسا شخص یقینی طور پر مؤمن ہے۔ اگرچہ وہ فرائض اور محرمات سے بے خبر ہو اور اسلام کے معنی یہ ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے جو فرائض اور محرمات بیان کئے ہیں کہ بعض اشیاء حلال اور بعض حرام ہیں ان پر بلاکسی اعتراض کے اپنی رضامندی کا اظہار کیا جاوے اور جو شخص ان اعمال صالحہ کا پابند ہو کہ جو قرآن مجید میں ایک 2141مؤمن کا طغرائے امتیاز قرار دئیے گئے ہیں تو وہ شخص مؤمن اور مسلمان ہے۔
یہ باتیں ایسی ہیں کہ جو ارکان اسلام سے تعلق رکھتی ہیں اور جن کے جزو ایمان ہونے میں فریق مدعیہ کو بھی کوئی کلام نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا ان باتوں پر فریق ثانی کا عقیدہ ان اصولوں کے تحت جو فریق مدعیہ کی طرف سے بیان کئے گئے ہیں۔ ویسا ہی ہے جیسا کہ دیگر عام مسلمانوں کا یا کہ اس سے مختلف۔ کیونکہ مدعیہ کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ جو شخص عقائد اسلام ظاہر کرے اور قرآن وحدیث کے اتباع کا دعویٰ بھی کرے۔ لیکن ان کی ایسی تاویل اور تحریف کردے کہ جس سے ان کے حقائق بدل جائیں تو وہ مسلمان نہیں سمجھا جاسکتا۔