(ظلی وبروزی)
مدعا علیہ نے اپنی بحث میں آگے یہ دکھلایا ہے کہ مرزاصاحب نے ظلی اور بروزی کی اصطلاحات یہ دکھانے کے لئے قائم کی ہیں کہ جس قسم کی نبوت کے وہ مدعی ہیں وہ شریعت والی نبوت نہیں اور نہ اس سے قرآن مجید کا منسوخ ہونا لازم آتا ہے۔ بلکہ آپ کا مطلب ان سے صرف یہ تھا کہ ان کو بلاواسطہ نبوت نہیں ملی۔ بلکہ آنحضرت ﷺ کے اتباع اور آپ میں فنا ہوکر اور آپ کی غلامی میں یہ مرتبہ نبوت ملا ہے۔ اس لئے آپ نے اپنے آپ کو ظلی نبی لکھا تاکہ آئندہ لوگ نبی کا لفظ سن کر چونک نہ پڑیں اور اس ظلی بروزی کے لفظ سے سمجھ لیں کہ آپ ویسے نبی نہیں جو معروف اصطلاح میں لئے جاتے ہیں۔ بلکہ یہ کہ ہر ایک کمال آپ کو آنحضرت ﷺ کے اتباع اور ذریعہ سے ملا ہے۔ آپ نے صرف اپنی نبوت کی حقیقت سمجھانے کے لئے ظلی، بروزی اور امتی نبی کی اصطلاحیں مقرر کیں تاکہ لوگ نبی کے لفظ سے دھوکا نہ کھا جائیں اور اصطلاحوں کا قائم کرنا ہر ایک کے لئے جائز ہے۔ بروز وغیرہ کے الفاظ صوفیاء نے بھی قائم کئے ہیں۔ مرزاصاحب تناسخ کے اس معنی میں جس معنی میں کہ اہل ہنود سمجھتے ہیں قائل نہ تھے۔ ان کے اس قول سے کہ ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی خو، طبیعت اور مشابہت کے لحاظ سے… عبداﷲ پسر عبدالمطلب کے گھر جنم لیا‘‘ سے یہ مراد نہیں کہ انحضرت ﷺ کی پیدائش حضرت ابراہیم ہی کی پیدائش تھی۔ چنانچہ انہوں نے (تریاق القلوب ص۱۵۵، خزائن ج۱۵ ص۴۷۷، حاشیہ) پر وجود دو رویہ کی تفسیر خود ہی بیان کی ہے اور تناسخ کے مسئلہ کا رد مرزاصاحب نے اپنی بہت سی کتابوں میں کیا ہے۔ مہدی موعود کی بروزی نبوت کے متعلق مدعیہ کے گواہ مولوی نجم الدین صاحب نے جو اعتراض کیا ہے۔ اس کے متعلق یہ کہاگیا ہے کہ اس نے اس حوالہ کے آگے کی عبارت نہیں پڑھی۔ اس میں خاتم الاولاد کا مطلب یہ ظاہر کیاگیا ہے کہ اس کے خاتمہ کے بعد نسل انسان کوئی کامل فرزند پیدا نہیں کرے گی۔ باستثناء ان فرزندوں کے جو اس کی حیات میں ہوں۔ سوائے ظلی اور بروزی اصطلاحات کے باقی تمام بحث فروعی امور کے متعلق ہے جن کا امر مابہ النزاع پر چنداں کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لیکن اس کے جواب میں اگر مدعیہ کی بحث کو جو اوپر بیان 2224کی جاچکی ہے دیکھا جاوے تو اس سے یہ نتیجہ درست طور پر برآمد ہوتا ہے کہ ظلی اور بروزی اور امتی وغیرہ کی اصطلاحات محض الفاظ ہی الفاظ ہیں۔ دراصل مرزاصاحب کا دعویٰ حقیقی نبو ت کے متعلق ہی تھا۔ جیسا کہ اس کی تشریح بعد میں ان کے خلیفہ ثانی کی تحریر جس کا حوالہ اوپر گذر چکا کی گئی ہے۔ خلیفہ صاحب کی اس تحریر کے متعلق مدعا علیہ نے ان کی ایک اور تحریر کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے مثال کے طور پر لکھا تھا کہ اگر حقیقی نبی کے یہ معنی کئے جاویں کہ وہ بناوٹی یا نقلی نبی نہ ہو تو ان معنوں کی رو سے حضرت مسیح موعود کو میں حقیقی نبی مانتا ہوں۔ یعنی صادق اور منجانب اﷲ اور غیرتشریعی نبی مانتا ہوں۔ لیکن اس سے ان کی وہ تحریر جس کا حوالہ مدعیہ کی طرف سے دیاگیا ہے رد نہیں ہوئی۔ وہ تحریر بذاتہ ایسی ہے کہ جس سے خود ایک مستقل مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ اس میں انہوں نے مرزاصاحب کے حقیقی نبی ہونے کا ثبوت دینے کی بھی آمادگی ظاہر کی ہے اور پھر ساتھ ہی یہ کہا کہ انہوں نے ظلی بروزی کے الفاظ محض بطور انکسار کے استعمال فرمائے ہیں اور کہ اس قسم کی فروتنی نبیوں کی شان میں داخل ہے۔ ان کے ان الفاظ کی مدعا علیہ کی طرف سے کوئی تردید نہیں کی گئی اور نہ ان کی کوئی تردید ہوسکتی ہے۔ مرزاصاحب نے اپنے ایک اعلان میں یہ لکھا ہے کہ خدا نے مجھے آنحضرت ﷺ کا وجود ہی قرار دیا۔ اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بروزات کے سلسلہ میں مرزاصاحب کے جن اقوال کا حوالہ گواہان مدعیہ کے بیانات میں دیاگیا ہے اور ان سے جو نتائج انہوں نے برآمد کئے ہیں اور جو ان کی بحث میں اوپر بیان کئے جاچکے ہیں ان سے واقعی یہ اخذ ہوتا ہے کہ مرزاصاحب اپنے ان اقوال میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اس قسم کا جنم مراد لیتے ہیں کہ جو بطریق تناسخ سمجھا جاتا ہے نہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خو، طبیعت اور دیگر خصائل کے ودیعت ہونے سے ان سوالات پر زیادہ بحث کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ یہ سوالات مرزاصاحب کی اپنی تکفیر سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ اس مقدمہ میں ایک ضمنی سوال ہے۔ اس لئے ان کے ایسے عقائد پر کہ جن پر مقدمہ ہذا کے تصفیہ کا زیادہ دارومدار نہیں ہے۔ تفصیلی بحث بلاضرورت ہے۔
2225ذیل میں مدعا علیہ کی طرف سے مدعیہ کے ان اعتراضات کا جواب درج کیا جاتا ہے جو مرزاصاحب کے دعویٰ نبوت تشریعیہ کے متعلق عائد کئے گئے ہیں۔
اس کی طرف سے بیان کیاگیا ہے کہ مرزاصاحب نے جہاں اپنے لئے رسول کا لفظ لکھا ہے وہاں انہوں نے اس لفظ کے ساتھ کسی جگہ شریعت کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ انہوں نے صاف لکھا ہے کہ آسمان کے نیچے بجز فرقان حمید اور کوئی کتاب نہیں۔ دعویٰ نبوت کے متعلق انہوں نے صاف کہا ہے کہ میں ان معنوں سے نبی ہوں کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پاکر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے۔ رسول اور نبی ہوں۔ مگر بغیر کسی جدید شریعت کے اور جہاں انہوں نے یہ کہا کہ مجھے نبی کا خطاب دیاگیا۔ وہاں آگے یہ الفاظ بھی ہیں مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی۔
جہاں مرزاصاحب نے یہ کہا ہے کہ وہ اپنی وحی پر اس طرح ایمان لاتے ہیں جس طرح کہ قرآن اور دوسری وحیوں پر۔ اس سے ان کا صاحب شریعت نبی ہونے کا دعویٰ اخذ نہیں ہوتا۔ بلکہ اس قسم کے اقوال سے یہ مراد ہے کہ آپ اپنی وحی کو منجانب اﷲ اور اس کے دخل شیطانی اور خطا سے پاک ومنزہ ہونے پر کامل یقین رکھتے ہیں اوراس کا وہ اظہار کر رہے ہیں اور یہ اس بات کو مستلزم نہیں کہ آپ صاحب شریعت ہونے کے مدعی ہیں۔
مرزاصاحب نے یہ نہیں کہا کہ میری وحی شرعی اور قرآن کی مثل ہے۔ مرزاصاحب کا اپنی وحی کو مدار نجات ٹھہرانا بھی ان کا مدعی نبوت تشریعہ ہونا ثابت نہیں کرتا۔ کیونکہ ان کی جو وحی اور تعلیم ہے وہ وہی تعلیم ہے جو عین قرآن مجید اور اسلام کی ہے۔ لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اب قرآن مجید کی اس تعلیم پر کاربند ہوکر وہی نجات پاسکتا ہے جو آپ کے حلقہ بیعت میں داخل ہو دوسرا نہیں۔ مرزاصاحب نے یہ نہیں فرمایا کہ میری وحی میں کوئی نئی شریعت ہے یا میری وحی ناسخ شریعت محمدیہ ہے۔ بلکہ فرمایا کہ شریعت محمدیہ کے ہی بعض ضروری احکام کی تجدید ہے۔ قرآن مجید کی بیسیوں آیتیں دوبارہ امت محمدیہ کے اولیاء اﷲ پر نازل ہوئیں۔ اس طرح مرزاصاحب پر قرآن مجید کے بہت 2226سے اوامر ونواہی نازل ہوئے اور انہی کے متعلق مرزاصاحب نے لکھا ہے کہ: ’’میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔‘‘
مرزاصاحب کے قول نمبر۶ مذکورہ بالا کے متعلق یہ کہاگیا ہے کہ اولیاء امت نے اس امر کو تسلیم کیا ہے۔ شریعت محمدی کے اوامر ونواہی کا بطور تجدید کے کسی بزرگ پر نازل ہو جانا ناجائز ہے۔ صرف ایسے اوامر ونواہی کا جو شریعت محمدیہ کے مخالف ہوں اور آنحضرت ﷺ کی پیروی کا نتیجہ نہ ہوں اترنا ممنوع ہے۔ اس قول میں مرزاصاحب نے شریعت کا لفظ صرف مخالفین کے مقابل پر بطور الزام استعمال کیا ہے اور فرضی طور پر معترضین کو ملزم کرنے کے لئے فرماتے ہیں کہ یہ عذر بھی مخالفین کا باطل ہے۔ کیونکہ شریعت اوامر ونواہی کا نام ہے اور میرے الہامات میں امر اور نہی دونوں موجود ہیں۔
قول نمبر۱۲ کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ اس سے جو مرزاصاحب کے صاحب شریعت نبی ہونے کا استدلال کیاگیا ہے وہ درست نہیں۔ کیونکہ اس جگہ انہوں نے صرف صاحب شریعت نبی محدث اور ملہم کے انکار کا حکم بیان کیا ہے اور دوسرے انبیاء جو شریعت یا احکام جدید نہیں لائے۔ ان کا حکم اس عبارت میں مذکور نہیں اس سے گواہان مدعیہ نے جو نتیجہ نکالا ہے وہ مرزاصاحب کی دوسری تحریروں کے مخالف ہے۔ کیونکہ دوسری جگہ مرزاصاحب نے کہا ہے کہ ’’میری مراد نبوت سے یہ نہیں ہے کہ میں آنحضرت ﷺ کے مقابلہ پر کھڑا ہوکر نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں۔ صرف میری مراد نبوت سے کثرت مکالمت ومخاطبت الٰہیہ ہے۔‘‘ اور دوسری جگہ لکھتے ہیں۔ ’’جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ اس وجہ سے نہیں مانتا کہ وہ مجھے مفتری قرار دیتا ہے اور اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا پر افتراء کرنے والا سب کافروں سے بڑھ کر کافر ہے۔ پس جب کہ میں نے مکذب کے نزدیک خدا پر افتراء کیا تو اس صورت میں میں نہ صرف کافر بلکہ بڑا کافر ہوا اور اگر میں مفتری نہیں تو بلاشبہ وہ کفر اس پر پڑے گا۔‘‘
مرزاصاحب کے مدعی صاحب شریعت ہونے کی بابت مدعیہ کی طرف سے جو ان کے ماہواری چندہ دئیے جانے کے حکم کا حوالہ دیا جا کر بحث کی گئی ہے۔ اس کے متعلق مدعا علیہ کا یہ 2227جواب ہے کہ وہ کوئی نیا حکم نہیں اور نہ اس میں تعمیل نہ کرنے والے کے متعلق کافر مرتد یا ملعون وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ بلکہ یہ حکم قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے انفاق فی سبیل اﷲ پر بہت زور دیا ہے۔ مرزاصاحب نے اس قرآنی تعلیم کے ماتحت فرمایا کہ ایسا شخص جو راہ خدا میں خرچ نہیں کرتا اور باوجود مقدرت ۳،۳ ماہ تک اس ربانی حکم سے غافل رہتا ہے اور کچھ پرواہ نہیں کرتا تو اس کا سلسلہ سے کوئی تعلق نہیں اور گواہان مدعیہ کا یہ کہنا کہ زکوٰۃ نہ دینے والے کے متعلق ایسا حکم نہیں ہے درست نہیں۔ کیونکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ان لوگوں کے متعلق جنہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تھا۔ فرمایا کہ اﷲ کی قسم کہ اگر انہوں نے ایک معمولی رسی بھی جس سے اونٹ باندھا جاتا ہے اور جسے وہ رسول اﷲ ﷺ کے وقت میں ادا کرتے تھے روکی، تو میں ان سے قتال کروں گا۔ دیکھئے کہ زکوٰۃ میں سے کچھ حصہ ادا نہ کرنے پر کتنی سخت سزا مقرر کی گئی۔ ان دلائل کا زیادہ تفصیلی جوابات دینے کی ضرورت نہیں۔ ان کو اگر گواہان مدعیہ کی پیش کردہ دلائل کی روشنی میں دیکھا جائے گا تو ان کا ابطال خود بخود ہی ثابت ہو جائے گا۔ تاہم ان کے مختصراً جوابات درج کئے جاتے ہیں۔ رسول کی تعریف خود گواہ مدعا علیہ نے یہ کی ہے کہ جو صاحب کتاب ہو اور نبی عام ہوتا ہے۔ چاہے کتاب لائے یا نہ لائے۔ اب مرزاصاحب کے اپنے آپ کو رسول کہنے سے یہی مراد لی جائے گی کہ وہ صاحب کتاب نبی ہیں۔ علاوہ ازیں جو وحی کہ دخل شیطانی سے منزہ قرار دیا جاوے تو وہ منجانب اﷲ ہونے کی وجہ سے اس طرح قطعی ہوگی جیسا کہ دیگر انبیاء کی وحی چنانچہ مرزاصاحب خود بھی فرماتے ہیں کہ اگر ان کی وحی کو جمع کیا جاوے تو وہ کئی جزئیں بن جائے۔ اب اس قسم کی وحی کو اگر کتابی صورت میں نہ بھی لایا جائے تو بھی کتاب اﷲ کہلائے گی۔ کیونکہ اس میں اﷲتعالیٰ کی طرف سے اوامر ونواہی بیان کئے جاتے ہیں۔ مرزاصاحب کی ایسی وحی جس میں شریعت محمدیہ کے اوامر ونواہی کی تجدید ہے۔ بہت تھوڑی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی جو دیگر وحی ہے اس کی قطعیت کے لحاظ سے اس پر بھی اس طرح ایمان لانا ضروری ہوگا۔ جیسا کہ قرآن مجید پر اور وہ بھی شریعت کا جزو تصور ہوگی۔ اس لئے مرزاصاحب نے رسول کے لفظ کے ساتھ شریعت کا لفظ استعمال نہیں کیا تو بھی ان کی تصریحات 2228سے یہی سمجھا جائے گا کہ وہ صاحب شریعت رسول ہیں چاہے وہ صاف الفاظ میں یہ کہیں یا نہ کہیں۔ ان کے دیگر اقوال سے نتیجہ یہی برآمد ہوتا ہے جو اوپر بیان کیا جاچکا ہے۔ ان کے دیگر اقوال جن میں انہوں نے اپنی نبوت کی تشریح کی ہے یا یہ کہا ہے کہ جدید شریعت نہیں لائے۔ ان اقوال کا کہ جن سے مذکورہ بالا نتائج اخذ ہوتے ہیں۔ رد نہیں بن سکتے۔ کیونکہ جیسا کہ شروع بحث میں دکھلایا گیا جو اقوال کہ اپنے اندر مستقل مفہوم لئے ہوئے ہیں۔ ان کے مطالب وہی سمجھے جائیں گے جو ان اقوال کی اپنی طرز بیان سے اخذ ہوتے ہیں اور تاوقتیکہ اس بات کی صراحت نہ ہو کہ وہ اقوال واپس لئے جاچکے ہیں۔ دیگر اقوال نہ ان کے قائم مقام بن سکتے ہیں اور نہ ان کی تشریح۔
مرزاصاحب چاہے یہ کہیں یا نہ کہیں کہ ان کی وحی شرعی اور قرآن کی شکل ہے۔ وہ جب اسے دخل شیطانی سے پاک سمجھتے ہیں اور دوسروں پر حجت قرار دے کر اسے مدار نجات ٹھہراتے ہیں اور اپنے نہ ماننے والے کو بھی کافر سمجھتے ہیں اور بقول گواہ مدعا علیہ اب آئندہ کے لئے مرزاصاحب کی بیعت میں داخل ہونا بھی ضروری ہے تو پھر کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ ان کی وحی شرعی نہیں؟ خصوصاً جب کہ صاحب شریعت کی تعریف بھی خود مرزاصاحب یہ کرتے ہیں کہ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ چند امر ونہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب شریعت ہوگیا اور پھر آگے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ وہ اوامر ونواہی نئے ہوں۔ ان کی اس تعریف کی رو سے صاف قرار دیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی وحی کو شرعی وحی سمجھتے ہیں اور جب وہ شرعی وحی ہوئی تو اس پر ایمان لانا اس طرح واجب ہوا جیسا کہ قرآن مجید پر۔ یہ ضرور ہے کہ قرآن مجید کی آیات کا نزول دیگر اولیاء اﷲ پر بھی ہوتا ہے۔ لیکن ان میں سے کسی نے ان کو اپنے اوپر چسپاں نہیں کیا اور نہ ان کو دوسروں پر بطور حجت پیش کیا ہے۔ اس لئے دیگر اولیاء اﷲ کی مثال مرزاصاحب کے مقابلہ میں پیش نہیں کی جاسکتی۔
2229قول نمبر۶ میں صاحب شریعت کے الفاظ مرزاصاحب کی طرف سے فرضی طور پر استعمال نہیں کئے گئے۔ جیسا کہ مدعا علیہ کا ادّعا ہے۔ بلکہ بڑی شدومد سے صاحب شریعت کی تعریف کی جاکر اپنا صاحب شریعت ہونا دکھلایا گیا ہے۔ اس قول کی عبارت پڑھنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہاںصاحب شریعت کے الفاظ فرضی ہیں یا اصلی۔ اس قول کی مزید تائید پھر قول نمبر۱۲ سے ہوتی ہے۔ اس قول کے مرزاصاحب کے دیگر اقوال کے متناقض ہونے کو خود گواہ مدعا علیہ نے بھی مانا ہے اور مرزاصاحب کے دیگر اقوال سے اس نقیض کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ قول بذاتہ کسی شرح کا محتاج نہیں اور اپنا مفہوم آپ ہی بیان کر رہا ہے۔ اس قول میں مرزاصاحب نے اپنی عظمت اور شان دکھلا کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ صاحب شریعت نبی ہیں اور اپنے دعویٰ کے انکار کرنے والوںکو وہ اس بناء پر کافر کہتے ہیں۔ یہ ان کی طرف سے ایک دوسری توجیہ ہے کہ وہ اس شخص کو جو انہیں نہیں مانتا اس بناء پر کافر کہتے ہیں کہ وہ انہیں مفتری سمجھتا ہے اور چونکہ وہ مفتری نہیں ہیں اس لئے وہ کفر اس پر توٹتا ہے۔
مرزاصاحب نے اپنی جماعت کو جو ماہواری چندہ دینے کا حکم دیا ہے اور اس سلسلہ میں ان کی طرف سے جو فرمان شائع ہوا ہے اور جس کا حوالہ اوپر دیاجاچکا ہے اس کے ملاحظہ سے پایا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ حکم اﷲتعالیٰ سے مطلع ہوکر دیا ہے۔ گویا یہ حکم دراصل ان کا حکم نہیں۔ اﷲتعالیٰ کا حکم ہے۔ چنانچہ گواہ مدعا علیہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ یہ ایک ربانی حکم ہے اور اس ربانی حکم کی تعمیل نہ کرنے والے کو مرزاصاحب نے منافق کہا ہے۔ اب اگر مرزاصاحب نے صاف الفاظ میں یہ نہیں کہا کہ وہ مرتد اور ملعون ہے تو اس سے ان کے اس حکم کے نتیجہ پر کہ وہ منافق ہے کوئی اثر نہیں پڑ سکتا۔ کیونکہ منافق کو خداوند تعالیٰ نے کافروں کی ذیل میں شامل کیا ہے۔ بلکہ بہت بڑا کافر کہا ہے۔ اس لئے قاصر کو سوائے اس کے کہ اسے مرتد اور ملعون سمجھا جائے اور کیا کہا جائے گا۔ کیونکہ اس کا بیعت سے خارج ہو جانا بھی مثل ارتداد ہے۔
اگرمرزاصاحب کے باوجود اسے منافق کہنے اور بیعت سے خارج کرنے کے گواہ مدعا علیہ کے نزدیک پھر بھی وہ مسلمان رہتا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ مرزاصاحب کو نبی اﷲ نہیں مانتا۔ 2230کیونکہ نبی کے حکم کی تعمیل عین خدا کی تعمیل ہوتی ہے اور اس کی ناراضگی موجب غضب الٰہی، معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم دیتے وقت مرزاصاحب نے بھی اپنے مرتبے کو پوری طرح مدنظر نہیں رکھا اور اپنی طاقت کے ساتھ خدا کی طاقت کو بھی شامل کرنے کے باوجود قاصر کو صرف یہی سزا دے سکتے ہیں کہ اسے سلسلۂ بیعت سے خارج کر دیا جائے گا۔ حالانکہ خدا نے نبی کی وہ شان بنائی ہے کہ اس کے حکم کی عدم تعمیل تو بجائے ماند، اس کے آگے اونچا بولنے سے بھی تمام اعمال کے ضائع ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے اور عدم تعمیل احکام تو دین ودنیا میں کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ اس سلسلہ میں مدعیہ کی طرف سے یہ درست کہا گیا ہے کہ زکوٰۃ کے متعلق بھی اس قسم کا کوئی شرعی حکم نہیں۔ جس حکم کا حوالہ گواہ مدعا علیہ نے دیا ہے۔ وہ رسول اﷲ ﷺ کے خلیفہ اوّل کا ہے نہ کہ خدا اور اس کے رسول کا، گواہ مدعا علیہ کا اس بارہ میں مرزا صاحب کا حضرت ابوبکرؓ صدیق کے ساتھ مقابلہ کرنا مرزاصاحب کے مرتبہ کی اور تنقیص ظاہر کرتا ہے۔ ایک طرف تو وہ انہیں نبی مانتا ہے اور پھر ان کے احکام کے مقابلہ میں ایک غیر نبی کے احکام پیش کرتا ہے۔ یہ معمہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان لوگوں نے مرزاصاحب کو باوجود نبی ماننے کے ان کی کیا شان سمجھ رکھی ہے۔ کچھ شک نہیں کہ مرزاصاحب کا یہ حکم زکوٰۃ پر مستزاد ہونے کی وجہ سے ایک نیا حکم ہے اور اس بناء پر مرزاصاحب اپنی بیان کردہ تعریف کی رو سے بھی شرعی نبی ہوئے۔ ہر حکم انفاق فی سبیل اﷲ کی ترغیب نہیں۔ بلکہ اﷲتعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں نافذ ہونا بیان کیاگیا ہے اور خود مدعا علیہ کی طرف سے اسے ایک ربانی حکم ہونا مانا گیا ہے اور پھر اس کی سزا بھی محض دنیاوی مقرر نہیں بلکہ قاصر کو منافق قرار دیا جاکر اور مرتد بنایا جا کر اسے عذاب آخرت کا مستوجب قرار دیا گیا ہے۔ تو اس حالت میں کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ یہ کوئی شرعی حکم نہیں۔ بلکہ محض انفاق فی سبیل اﷲ میں ایک ترغیب ہے۔ اگر نبیوں کے احکام کی اس طرح تعبیر کی جانی لگے تو پھر نبی اور رسولوں کے احکام تو بجائے ماند، احکام خداوندی کی بھی کوئی حقیقت نہیں رہتی اور نبوت کا تمام سلسلہ ہی ایک بے معنی سی چیز دکھائی دینے لگتا ہے۔ لہٰذا مرزاصاحب کی ان تحریروں سے جن کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ نتیجہ درست طور پر اخذ کیاگیا ہے کہ وہ 2231صاحب شریعت نبی ہونے کے بھی دعویدار ہیں۔ گو بعد میں انہوں نے اپنے اس دعویٰ میں کامیاب نہ ہونے کی صورت دیکھ کر اس پر زیادہ زور نہیں دیا اور اپنے ان اقوال کی جن سے ان کے صاحب شریعت نبی ہونے کے نتائج اخذ ہوتے مختلف توجیہیں شروع کر دیں۔
اس کے بعد مدعا علیہ کی طرف سے مرزاصاحب کے قیامت، نفخ صور اور حشر احیاء وغیرہ اعتقادات کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ گواہان مدعیہ کی طرف سے ان عقائد کی نسبت جو اعتراضات وارد کئے گئے ہیں وہ درست نہیں۔ کیونکہ مرزاصاحب نے ان عقائد کی نسبت جو کچھ بیان کیا ہے وہ قرآن مجید اور احادیث کی رو سے درست ہے۔ ان عقائد کے متعلق زیادہ تفصیلی بحث کی ضرورت نہیں۔ صرف یہ لکھ دینا کافی ہے کہ اگر مرزاصاحب کو نبی تسلیم نہ کیا جاوے تو پھر تو ان عقائد کے متعلق ان کی رائے ایک ذاتی رائے تصور ہوگی اور اس سے اختلاف کیا جانا ممکن ہو گا اور اگر انہیں نبی تسلیم کر لیا جاوے تو پھر ان کی رائے تعلیم وحی کا نتیجہ شمار ہو کر قابل پابندی ہو گا اور اس صورت میں اس سے ذرا بھر اختلاف نہیں ہوسکے گا۔ بلکہ اختلاف کرنے والا عاصی سمجھا جاوے گا۔ ان کے نبی نہ ہونے کی صورت میں ان کے یہ عقائد امت کے خلاف ہونے کی وجہ سے تحقیق طلب ہوں گے اور ممکن ہے کہ اس صورت میں ان کے خلاف فتویٰ کی صورت بھی بدل جائے۔ مگر ان کے مدعی نبوت ہونے کی حالت میں ان کے یہ عقائد جمہور امت کے عقائد کے خلاف ہونے کے باعث وجوہات تکفیر میں مزید اضافہ کا سبب بن سکیں گے۔
اب ذیل میں توہین انبیاء کے سلسلہ میں مدعیہ کی طرف سے پیش کردہ دلائل کا جو جواب مدعا علیہ کی طرف سے دیاگیا ہے وہ درج کیا جاتا ہے۔ مدعا علیہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ مرزاصاحب نے کسی نبی کی توہین نہیں کی۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ جو شخص اپنے آپ کو جن لوگوں سے مشابہت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں بھی اس پاک گروہ کا ایک فرد ہوں۔ پھر کیونکر ان کی توہین کر سکتا ہے۔ کیونکہ وہ توہین اس کی اپنی توہین ہوگی۔
2232اصول کے لحاظ سے تو یہ بات درست ہے۔ لیکن اس کا فیصلہ مرزاصاحب کے اقوال سے ہوتا ہے۔ گواہان مدعیہ کے بیانات میں اس کی مفصل بحث پائی جاتی ہے۔ اس لئے یہاں اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔
مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ مرزاصاحب کے جن اشعار کو باعث توہین قرار دیا گیا ہے۔ اس سے کوئی توہین پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ مرزاصاحب کے ان اشعار سے مراد یہ ہے کہ جام عرفان الٰہی اور ایقان ہر نبی کو دیا گیا تھا اور خداوند تعالیٰ نے وہ پورے کا پورا مجھے بھی دیا ہے اور کہ میں اپنی معرفت اور عرفان الٰہی میں اور اپنے یقین میں کسی نبی اور رسول سے کم نہیں ہوں اور یہ کمال جو مجھے حاصل ہوا ہے وہ آنحضرت ﷺ کے اتباع سے بطریق وراثت ملا ہے۔
مرزاصاحب پر یہ غلط اتہام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی بھی توہین کی ہے۔ بلکہ آپ کی کتب آنحضرت ﷺ کی تعریف سے پر ہیں۔ جن آیات قرآنیہ کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ مرزاصاحب نے اپنے اوپر چسپاں کی ہیں۔ ان کے متعلق مولوی محمد حسین بٹالوی رئیس طائفہ اہل حدیث نے یہ لکھا ہے کہ مرزاصاحب نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ان آیات کا مورد نزول ومخاطب وہ ہیں بلکہ ان کو کامل یقین اور صاف اقرار ہے کہ قرآن اور پہلی کتابوں میں ان آیات میں مخاطب ومراد وہی انبیاء ہیں جن کی طرف ان میں خطاب ہے اور ان کمالات کے محل وہی حضرات ہیں جن کو خداوند تعالیٰ نے ان کمال کا محل ٹھہرایا ہے۔
لیکن یہ جواب اس وقت کے متعلق ہے جب تک کہ مرزاصاحب نے دعویٰ نبوت نہیں کیا تھا۔ مدعا علیہ کی طرف سے کہاگیا ہے کہ مرزاصاحب پر یہ الزام بھی غلط لگایا گیا ہے کہ انہوں نے عین محمد ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ بلکہ انہوں نے اپنی کتابوں میں صاف طور پر کہا ہے کہ میں ان کا خادم ہوں اور وہ میرے مخدوم ہیں۔ میں ان کا ظل ہوں اور وہ اصل ہیں۔ میں آپ کی خدمت اور آپ کی شاگردی اور آپ کے اتباع میں اس قدر فنا ہوں کہ گویا میرا وجود آپ کے وجود سے بلحاظ روحانیت علیحدہ نہیں ہے اور بزرگان دین نے یہ لکھا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے 2233کامل متبع بہ سبب کمال متابعت انہیں میں جذب ہو جاتے ہیں اور ان کے رنگ میں ایسے رنگین ہوتے ہیں کہ تابع اور متبوع یعنی نبی اور امتی میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ سوائے اوّل آخر ہونے کے، مرزاصاحب نے یہ نہیں کہا کہ میں عین محمد ہوں۔ بلکہ بروزی طور پر فرمایا ہے اور لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی روحانیت نے ایک ایسے شخص کو اپنے لئے منتخب کیا کہ جو خلق، ہمت، ہمدردی، اخلاق میں اس کے مشابہ تھا اور ظاہری طور پر اپنا نام احمد اور محمد اس کو عطاء کیا۔ تایہ سمجھاجاوے کہ گویا اس کا ظہور بعینہ آنحضرت ﷺ کا ظہور تھا۔ لیکن صوفیاء نے اس مقام کو عینیت کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ اس پر بھی مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ اس استدلال کو مدعیہ کے پیش کردہ استدلال کی روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے۔
مدعا علیہ کی طرف سے آگے یہ کہا گیا ہے کہ مرزاصاحب کے اس شعر سے کہ ’’لہ خسف القمر المنیر وان لی‘‘ سے آنحضرت ﷺ کی توہین نہیں نکلتی۔ کیونکہ اگر مرزاصاحب کے لئے چاند اور سورج کا گرہن نشان ہوا تو وہ اس لئے کہ احادیث کی کتب میں سچے مہدی کی علامات میں سے یہ قرار دیا گیا ہے۔ پس یہ نشان بھی آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب ہوگا۔ مگر مدعیہ کا استدلال اس پر نہیں کہ مرزاصاحب نے چاند گرہن کے نشان کو اپنے لئے تجویز کیا ہے۔ بلکہ اس کی طرف سے توہین کا موجب یہ بات سمجھی گئی ہے کہ اس شعر میں رسول اﷲ ﷺ کے معجزہ شق القمر کا استخفاف کیا گیا ہے۔
رسول اﷲ ﷺ کے معجزات کے متعلق مدعیہ کی طرف سے مرزاصاحب کے جن اقوال پر اعتراض کیاگیا ہے۔ اس کا مدعا علیہ کی طرف سے یہ جواب دیا گیا ہے کہ مرزاصاحب نے دوسری کتاب میں جہاں آنحضرت ﷺ کے تین ہزار معجزات بتلائے ہیں۔ وہاں اپنی پیش گوئیاں سو کے قریب لکھی ہیں اور آپ نے اپنے دس لاکھ ایسے نشانات بتلائے ہیں کہ اگر ویسے نشانات آنحضرت ﷺ کے شمار کئے جاویں تو دس (۱۰) ارب سے بھی زیادہ ہوں۔
مدعیہ کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ چونکہ معجزہ خرق عادات ہوتا ہے اور مرزاصاحب نے اپنے نشانات کے متعلق یہ کہا ہے کہ وہ اوّل درجہ کے خرق عادت ہیں۔ اس لئے ان نشانات کو بھی 2234معجزات ہی شمار کیا جائے گا۔ ہر دو فریق کے دلائل اس بارہ میں مسل پر موجود ہیں۔ ان سے نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ صداقت کس میں ہے۔ میں ان سوالات پر اس لئے بھی زیادہ بحث کی ضرورت نہیں سمجھتا کہ یہ سوالات مرزاصاحب کی اپنی ذات کے متعلق ہیں اور امر مابہ النزاع سے ان کا بہت تھوڑا تعلق پایا جاتا ہے۔ اس طرح مدعا علیہ کا یہ ادعا ہے کہ مرزاصاحب نے حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت آدم علیہ السلام کی بھی کوئی توہین نہیں کی۔ اس کے بعد پھر اس کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کے سلسلہ میں یہ دکھلایا گیا ہے کہ مرزاصاحب نے جہاں عیسیٰ علیہ السلام پر اپنی فضیلت بیان کی ہے وہ آنحضرت ﷺ کے متبع اور امتی ہونے کی وجہ سے کی ہے اور علماء خود مانتے چلے آئے ہیں کہ حضرت موسیٰ نے بھی یہ خواہش کی تھی کہ وہ رسول اﷲ ﷺ کی امت میں سے ہوں اور دوسرے شعراء اور صوفیاء کے اقوال سے یہ دکھلایا گیا ہے کہ وہ بھی رسول اﷲ ﷺ کے متبع ہونے کے باعث حضرت عیسیٰ پر اپنی فضیلت ظاہر کرتے آئے ہیں۔ مگر اسے توہین نہیں سمجھا گیا اور اس ضمن میں شیخ محمود حسن صاحبؒ کے چند اشعار جو انہوں نے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہیؒ کے مرثیہ میں لکھے ہیں درج کئے جاکر یہ بحث کی گئی ہے کہ ان اشعار سے انبیاء کی توہین نہیں ہوتی۔ پھر مرزاصاحب کے اشعار سے کیونکر توہین اخذ کی جاتی ہے۔
اس کا جواب سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے دیا ہے کہ جو مدحیہ اشعار ہوں وہ تحقیقی نہیں ہوتے۔ بلکہ بشر کی کلام میں اٹکل کے ہوتے ہیں اور شاعرانہ محاورہ نئی نوع کلام کی تسلیم کیاگیا ہے۔ فرق اس میں یہ ہے کہ جو خدا کی کلام ہوگی تو وہ عقیدہ ہوگا اور تحقیق ہوگی اور وہ کسی طرح اٹکل نہ ہوگی۔ حقیقت حال ہوگی۔ نہ کم نہ بیش۔ بشر انتہائی حقیقت کو نہیں پہنچتا۔ تخمینی لفظ کہتا ہے اور دنیا نے اس کو تسلیم کیا ہے کہ شاعرانہ نوع تعبیر عام اطلاق الفاظ نہیں اور وہ تخمینہ پر عبارت کہہ دیتے ہیں جو آس پاس ہوتی ہے۔ ٹھیک حقیقت نہیں ہوتی اور خود شاعر کی نیت میں اور ضمیر میں منوانا اس کا عالم کو منظور نہیں ہوتا۔
2235جھوٹے اور شاعر میں یہ فرق ہے کہ جھوٹا کوشش کرتا ہے کہ میری کلام کو لوگ سچ مان لیں اور شاعر کی اصلاً یہ کوشش نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ حاضرین بھی میرے اس کلام کو حقیقت پر نہیں سمجھیں گے۔ بلکہ اگر کوئی حقیقت پر سمجھے تو دوسرے وقت وہ اس کی اصلاح کے در پے ہوتا ہے اور ایسے وقائع دنیامیں بہت پیش آچکے ہیں۔ مبالغہ شاعروں کے ہاں ہوتا ہے اور یہ ایک قسم ہے کلام کی جو فنون علمیہ میں درج ہے اور اس مبالغہ کی حقیقت یہ ہے کہ چھوٹی چیزکو بڑا ادا کرنا اور بڑی چیز کو چھوٹا بشرطیکہ نہ اعتقاد ہو اور نہ مخلوق کو منوانا ہو۔ پس اگر کوئی شخص کوئی ایسی چیز کہتا ہے کہ جس سے مغالطہ پڑتا ہے۔ نبوت کے باب میں اور وہ ساری کوشش اس میں خرچ کرتا ہے تو وہ اور جہاں کا ہے اور حضرت شاعر اور جہاں میں۔
چنانچہ مرزاصاحب اپنی کتاب (دافع البلاء ص۲۰، خزائن ج۱۸ ص۲۴۰) پر لکھتے ہیں کہ ’’یہ باتیں شاعرانہ نہیں بلکہ واقعی ہیں۔‘‘ علاوہ ازیں سمجھ میں نہیں آتا کہ مرزاصاحب نے شاعری کا شیوہ کس طرح اختیار فرمایا اور کیوں انہیں اس معاملہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صفات عالیہ سے بطور ظل کے حصہ نہ ملا۔ کیونکہ حضور ﷺ کے متعلق قرآن مجید کی سورۂ یٰسین میں فرمایا گیا ہے کہ ’’وما علمنہ الشعر وما ینبغی لہ‘‘ اور سورۂ شعراء میں شعراء کی مذمت کی جاکر یہ فرمایا گیا ہے کہ ’’الم تر انہم… یفعلون‘‘ اس حکم کے تحت میں تو مرزاصاحب کے نہ صرف وہ اقوال جو اشعار میں درج ہیں بلکہ کوئی قول بھی معتبر نہیں رہتا۔
مدعیہ کے اس اعتراض کے جواب میں کہ ’’مرزاصاحب نے حضرت مسیح کے معجزات کو مسمریزم کی قسم سے کہا ہے۔‘‘ مدعا علیہ کی طرف سے یہ جواب دیا گیا ہے کہ میں حضرت مسیح کے اعجازی خلق کو مانتا ہوں۔ ہاں اس بات کو نہیں مانتا کہ حضرت مسیح نے خداتعالیٰ کی طرح حقیقی طور پر کسی مردہ کو زندہ کیا۔ یا حقیقی طور پر کسی پرندہ کو پیدا کیا۔ کیونکہ اگر حقیقی طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کے مردہ زندہ کرنے یا پرندے پیدا کرنے کو تسلیم کیا جاوے تو اس سے خداتعالیٰ کی خلق اور اس کا احیاء مشتبہ ہو جائے گا اور عمل ترب کے متعلق وہ اپنے ایک الہام کے حوالہ سے یہ لکھتے ہیں کہ 2236یہ عمل الترب ہے۔ جس کی اصل حقیقت کی زمانہ حال کے لوگوں کو کچھ خبر نہیں۔ آپ نے اس عمل کو اپنے لئے اس لئے پسند نہ کیا کہ اس علمی زمانہ میں ایسے معجزات دکھلانے کی ضرورت نہ تھی اور حضرت مسیح کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے اس عمل جسمانی کو یہودیوں کے جسمانی اور پست خیالات کی وجہ سے جو ان کی فطرت میں مرکوز تھے۔ باذن وحکم الٰہی اختیار کیا تھا۔ ورنہ انہیں بھی یہ عمل پسند نہ تھا۔
اس جواب کے متعلق بھی مزید کسی تشریح کی ضرورت نہیں۔ ہر دو فریق کی طرف سے اس بارہ میں جو مواد پیش کیاگیا ہے وہ اوپر دکھلایاجاچکا ہے۔ اس سے ہر دو کے دلائل کا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کے متعلق مرزاصاحب کے جو دیگر اقوال ان کی کتب ’’دافع البلاء اور ضمیمہ انجام آتھم وغیرہ‘‘ سے پیش کئے جاکر یہ دکھلایا گیا ہے کہ ان میں بہت ہی سب وشتم درج ہے۔ ان کی بابت مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ ان میں عیسائی مخاطب ہیں اور ان اقوال میں ان لوگوں کے اعتقادات کے مطابق جو ان کی کتابوں میں درج ہیں۔ انہیں الزامی جواب دئیے گئے ہیں اور فن مناظرہ میں اس قسم کی روش عام طور پر اختیار کی جاتی ہے اور اس کی تائید میں مدعا علیہ کی طرف سے دیگر علماء کے اقوال نقل کئے گئے ہیں۔ مرزاصاحب کے ان اقوال کو اگر سیاق وسباق عبارت سے ملا کر دیکھا جاوے تو مدعا علیہ کا یہ جواب حقیقت سے خالی معلوم نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں ان دشنام آمیز الفاظ کو سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے اپنی شہادت میں بسلسلہ توہین عیسیٰ علیہ السلام بیان نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں موجب ارتداد مرزا صاحب میں اس قسم کی کوئی چیز پیش نہیں کرتا۔ جس میں کہ مجھے نیت سے بحث کرنی پڑے۔ بلکہ میں نے اس چیز کو لیا ہے جسے انہوں نے قرآن کی تفسیر بنایاہے اور اسے حق کہا ہے اور جن چیزوں میں مجھے نیت کی تلاش رہتی وہ میں نے اپنی بحث سے خارج کر دئیے ہیں اور انہیں موجب ارتداد قرار نہیں دیا۔
2237میں نے مرزاصاحب کی نیت پر گرفت نہیں کی زبان پر کی ہے اور نہ ہی وجہ ارتداد میں تعریض کو لیا ہے۔ بلکہ جس ہجو کو انہوں نے قرآن مجید سے مستند کیا اور اسے قرآن مجید کی تفسیر گردانا اور جس ہجو کو اپنی جانب سے حق کہا وہ اسے وجہ ارتداد سمجھتے ہیں اور اس ضمن میں انہوں نے مرزا صاحب کے حسب ذیل اقوال داخل کئے ہیں۔ ’’مگر میرے نزدیک آپ کی یہ حرکات جائے افسوس نہیں۔ کیونکہ آپ تو گالیاں دیتے تھے اور یہودی ہاتھ سے کسر نکال لیا کرتے تھے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵، خزائن ج۱۱ ص۲۸۹)
اور کہا ہے کہ اس سے تعریض اور تصریح دونوں قسم کی توہین ظاہر ہوتی ہے اور یہ کہ ’’عیسائیوں نے آپ کے بہت سے معجزات لکھے ہیں۔ مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے معجزہ نہیں ہوا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۶، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰)
اس سے صریح عیسیٰ علیہ السلام کی توہین ٹپکتی ہے۔ کیونکہ حق بات کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مرزاصاحب کے اپنے فیصلہ کے الفاظ ہیں۔ شاہ صاحب کی یہ رائے عین حق شناسی پر مبنی ہے اور جن اقوال سے انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کا نتیجہ نکالا ہے۔ ان سے واقعی ان کی توہین اخذ ہوتی ہے۔ باقی رہا کسی نبی کا دوسرے نبی سے افضل ہونے کا سوال اس کے متعلق شاہ صاحب کے بیان کے حوالہ سے اوپر جواب دیا جاچکا ہے۔