(عبداﷲ آتھم نے کبھی نہیں کہا کہ میں نے رجوع کرلیا)
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ تو مرزا صاحب! میرا خیال ہے اُس نے کبھی نہیں کہا کہ: ’’میں نے رُجوع کیا۔‘‘ آپ کہتے ہیں کہ Privately (پوشیدہ) کیا ہوگا۔ اِشتہار کے جوابوں میں کسی میں نہیں کہا اُس نے۔
مرزا ناصر احمد: اُس نے رُجوع کیا اور دلیل یہ ہے کہ جب اس کو یہ کہا گیا کہ: ’’اگر تم نے رُجوع نہیں کیا تو اس کا اعلان کرو‘‘ تو اس طرف وہ آتا نہیں تھا۔ جس شخص نے رُجوع نہیں کیا تھا اور اُس کے پیچھے پڑے ہوئے تھے بانی سلسلۂ احمدیہ کہ اگر تم نے رُجوع نہیں کیا تو اِعلان کرو۔ تو اس نے اعلان نہیں کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اُس نے اعلان کیا، ایک دُوسرے رنگ میں، بالواسطہ، کہ ’’میں رُجوع کرچکا ہوں۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: اس پر مرزا صاحب! وہ جو مرزا صاحب نے آخر میں تقریر میں، وہ جو مباحثہ ان کا تھا ’’جنگ مقدس‘‘ اس میں کہا کہ:
’’آج رات مجھ پر کھلا ہے وہ یہ ہے کہ جب میں نے بہت تضرّع اور اِبتہال سے 1365جنابِ الٰہی میں دُعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں تیرے فیصلے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔ تو اُس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمدا جھوٹ کو اِختیار کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
مرزا ناصر احمد: یہ میں نے پڑھا تھا پہلے۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’۔۔۔۔۔۔ اور عاجز اِنسان کو خدا بتا رہا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
یعنی عیسائی عاجز بندے کو خدا سمجھتے ہیں یسوع کو، کیا آتھم نے اس کے بعد عاجز بندے کو خدا نہیں سمجھا؟
مرزا ناصر احمد: اب یہ اس جگہ ہم پہنچ گئے کہ اِنذاری پیش گوئیاں رُجوع کے ساتھ ٹل تو جاتی ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ اس نے رُجوع کیا یا نہیں؟
جناب یحییٰ بختیار: ہاںجی۔
مرزا ناصر احمد: یہی سوال ہوا ناںجی؟
جناب یحییٰ بختیار: نہیں ، میں کہتا ہوں کہ رُجوع تو آپ کہتے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: وہ میں سمجھ گیا۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ ایک عاجز بندے کو وہ خدا سمجھتا ہے، اس وجہ سے جھوٹا ہے وہ۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، یہ ویسے لمبی بحث ہے۔ میں ایک حوالہ میں پڑھ دیتا ہوں، چھوٹا سا ہے، اس سے بھی روشنی پڑتی ہے اس پر۔
جب وہ پہلا اِنعام ایک ہزار روپے والا دِیا آپ نے، اس اِشتہار کے یہ الفاظ ہیں:
’’اس بات کے تصفیے کے لئے کہ فتح کس کو ہوتی، آیا اہلِ اسلام کو جیسے کہ درحقیقت ہے، یا عیسائیوں کو جیسا کہ وہ ظلم کی راہ سے خیال کرتے ہیں، تو میں ان کی پردہ دری کے لئے مباہلہ کے لئے تیار ہوں اگر دروغ گوئی اور چالاکی سے باز نہ 1366آئیں تو مباہلہ اس طور پر ہوگا کہ ایک تاریخ مقرّر ہوکر ہم فریقین ایک میدان میں حاضر ہوں اور مسٹر عبداللہ آتھم صاحب کھڑے ہوکر تین مرتبہ ان الفاظ کا اِقرار کریں کہ اس پیش گوئی کے عرصہ میں… اسلامی رُعب ایک طرفۃالعین کے لئے بھی میرے دِل پر نہیں آیا اور میں اِسلام اور نبیٔ اسلامa کو ناحق پر سمجھتا رہا اور سمجھتا ہوں اور صداقت کا خیال تک نہیں آیا اور حضرت عیسیٰ کی ابنیت اور اُلوہیت پر یقین رکھتا رہا اور کتابوں اور اس میں یقین جو فرقہ پراٹسٹنٹ کے عیسائی رکھتے ہیں اور اگر میں نے خلافِ واقعہ کیا ہے (یہ جو اُوپر کے الفاظ ہیں) اور حقیقت کو چھپایا ہے تو اے خدائے قادر مجھ پر ایک برس میں عذاب موت نازل کر۔ اس دُعا پر ہم آمین کہیں گے اور اگر دُعا کا ایک سال تک اثر نہ ہوا اور وہ عذاب نازل نہ ہوا جو جھوٹوں پر نازل ہوتا ہے تو ہم ہزار روپیہ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب کو بطور تاوان کے دیں گے۔‘‘
یہ پہلا اِشتہار ہے۔ اب اس میں آپ نے بتایا ہے کہ رُجوع سے کیا مراد ہے جو اُس نے کیا، اور اگر وہ اِنکار کرے تو کس رُجوع کے نہ کرنے کا وہ اقرار کرے اور یہ، وہ یہ ہیں، وہی جو آپ کہہ رہے تھے ناں، عیسائیت:
’’اور وہ یہ اقرار کرے کہ اسلام کا رُعب میرے اُوپر نہیں پڑا اور میں اسلام اور نبیٔ اسلامa کو ناحق پر سمجھتا رہا اور سمجھتا ہوں اور صداقت کا خیال تک نہیں آیا اور حضرت عیسیٰ کی ابنیت اور اُلوہیت پر یقین رکھتا رہا اور رکھتا ہوں۔‘‘
تو یہ ہے رُجوع۔ اس سے وہ اِنکار کر رہا تھا اور یہ وہی الفاظ ہیں جس کا آپ نے ذِکر کیا۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ میں سمجھ گیا کہ یہ تو پھر چیلنج کے بعد چیلنج اور اگر وہ بھی نہ منظور ہوتے تو کہتے ’’پھر میں اور دیتا ہوں۔‘‘ آپ یہ ۔۔۔۔۔۔ پہلے انہوں نے صرف یہ کہا کہ: ’’عیسائی عاجز بندے کو انسان مانتا ہے‘‘ یہ چیلنج دیا اس کو، وہ چیلنج غلط ثابت ہوا۔
1367مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں۔