(عبداﷲ آتھم کی پیش گوئی؟)
جناب یحییٰ بختیار: ہاںجی، وہ میں نے پہلے اس کا ذِکر کیا تھا۔
مرزا ناصر احمد: ہاں۔ یعنی میں نے اکٹھے کئے ہیں، جہاں آگے پیچھے پڑے ہوتے تھے۔ وہ جو آتھم کا مباحثہ ہوا، آتھم کے ساتھ، اس کے متعلق میں بتاچکا ہوں کہ جنڈیالہ کے مسلمانوں کی طرف سے زور دِیا گیا۔ اس کو دُہرانے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’جنگ مقدس‘‘؟
مرزا ناصر احمد: ’’جنگ مقدس‘‘ اس کتاب کا نام ہے۔ پیش گوئی ’’تبلیغ رسالت‘‘ جلد سوئم، صفحہ:۹۶ پر یہ ہے: ’’دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اِختیار کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر (معاف کریں) یعنی پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا اور اس کو سخت ذِلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رُجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے، (خدائے واحد ویگانہ کو)، اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی۔‘‘
(جنگ مقدس ص:۱۸۹، خزائن ج:۶ ص:۲۹۲)
اس میں جو چیز اس وقت کچھ تفصیل سے بتانے والی ہے وہ ہے ’’بشرطیکہ۔‘‘ اُمتِ مسلمہ کا 1357متفقہ یہ فیصلہ ہے، تمام فرقوں اور اس اُمت کا شروع سے لے کر آج تک، کہ جو اِنذاری پیشین گوئیاں جو ہیں وہ مشروط رہتی ہیں۔ ’’مشروط‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اگر جس کے متعلق یہ کہا گیا کہ: ’’تمہاری یہ کیفیت ہے رُوحانی طور پر۔ تمہیں، اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ اِطلاع دی ہے ___ کہنے والا کہتا ہے ___ یہ سزا ملے گی۔‘‘ اس کے ساتھ شرط ہوتی ہے۔ خواہ شرط کا ذِکر ہو یا نہ ہو۔ جیسا کہ مثلاً حضرت یونس علیہ السلام کی اُمت کے لئے ___ قرآن کریم میں اس کا ذِکر ہے ___ ایک پیش گوئی آئی کہ ان پر عذاب نازل ہوگا۔ لیکن ان کے اُوپر وقتِ مقرّرہ کے اندر عذاب نازل نہیں ہوا اور حضرت یونس علیہ السلام یہ سمجھے کہ میری پیش گوئی خداتعالیٰ نے مجھے بتایا تھا اور اس کو وہ کردیا، غلط ثابت ہوگئی۱؎ اور وہاں سے وہ بھاگے۔ وہ لمبا قصہ قرآن کریم میں ہے کہ وہ پھر قرعہ پڑا اور سمندر میں چھلانگ لگائی اور ایک وہیل مچھلی جو کہ بغیر چبائے کے اندر انسان کو نگل جاتی ہے، یا اور جو جانور اس کو مل جائے، وہ اس کے پیٹ میں چلے گئے۔ لیکن قبل اس کے کہ مچھلی کے پیٹ میں اس کے ایسے جسم پر اَثراَنداز ہوتے اور دَم نکلتا، خداتعالیٰ نے ایسا سامان پیدا کیا کہ کنارے پرجاکر مچھلی نے اُلٹی کی اور حضرت یونس علیہ السلام ریت کے اُوپر آگئے۔ وہ لمبا ایک قصہ ہے۔ بہرحال اس قصے سے تو ہمارا اس وقت تعلق نہیں ہے۔ ایک پیش گوئی ہوئی جو ان پر پوری نہیں ہوئی اور خداتعالیٰ نے کہا: قوم نے رُجوع کرلیا تھا، اس کو کیسے سزا مل سکتی تھی۔ یہ تین حوالے میں نے یہ لکھائے۔ اگر کہیں تو میں پڑھ دُوں، ورنہ یہ داخل کروادُوں گا۔ ایک علامہ ابوالفضل صاحب کی ’’رُوح المعانی‘‘ تفسیر کی کتاب ہے۔ اس کے اندر لکھتے ہیں کہ اِنذاری پیش گوئیاں جو ہیں، وہ توبہ اور رُجوع اور صدقہ وخیرات سے ٹل جاتی ہیں۔ دُوسرا حوالہ ہے اِمام فخرالدین رازی کا بڑے مشہور ہیں اور تیسرا حوالہ ہے صاحب ’’رُوح المعانی‘‘ کا، وہ پہلی کتاب کا دُوسرا حوالہ، صاحب ’’رُوح المعانی‘‘ کا دُوسرا حوالہ۔ اگر کہیں تو میں اسی طرح…
جناب یحییٰ بختیار: داخل کروادیں۔
مرزا ناصر احمد: تو میں اُصول یہ بتارہا تھا، اُصول، کہ جو اِنذاری پیش گوئیاں ہیں وہ دُعا 1358کے ساتھ اور توبہ کے ساتھ اور صدقہ کے ساتھ اور خداتعالیٰ کے حضور جھکنے کے ساتھ ٹل جاتی ہیں، اور اس میں کسی کو اِختلاف نہیں، قرآن کریم سے لے کر اس وقت تک یہ پیش گوئی اِنذاری ہے، آتھم کی: ’’اور بشرطیکہ حق کی طرف رُجوع نہ کرے۔‘‘
چنانچہ اس نے رُجوع کیا اور جو معین عرصہ ۱۵مہینے کا تھا، وہ اس کے لئے ٹل گیا۔ لیکن پھر وہ اس میں ایک دلیری پیدا ہوئی۔ کچھ لوگوں نے اس کو اُکسایا۔ اس پر اِتمامِ حجت اتنا واضح ہوا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ معاذاللہ! کذبِ محض ہے۔ تمام قوم یونس ایمان لے آئی۔ سورۃ یونس:۹۸ کے تحت تفصیل تفاسیر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ سیدنا یونس علیہ السلام کی پیش گوئی غلط نہ ہوئی بلکہ اس کی غرض پوری ہوگئی کہ پوری قوم ان پر ایمان لا کر ان کی غلام بن گئی۔ تفصیل کتاب تذکرہ یونس مشمولہ احتساب قادیانیت ج۱۹ ص۳۱۵ سے ۳۴۵ تک دیکھا جاسکتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کہ اس کا وہ اِنکار نہیں کرسکا۔ بانیٔ سلسلۂ احمدیہ نے پہلے اسے یہ چیلنج کیا کہ ’’اگر تم اعلان کردو، اِشتہار دے دو، میں رُجوع نہیں ہوا حق کی طرف اور میری پیش گوئی جو ہے وہ غلط ثابت ہوتی ہے، تو تم پر عذاب نازل ہوجائے گا، میں تمہیں یہ بتاتا ہوں۔ تو اگر تم سمجھتے ہو کہ تم نے رُجوع نہیں کیا تو تم اِشتہار دو اور میں ایک ہزار روپیہ تمہیں اِنعام دُوں گا۔‘‘ جب اس کا اس نے مانا نہیں تو پھر کہا: ’’دو ہزار روپے اِنعام دُوں گا۔‘‘ یہ اس وقت کے روپے ہیں اور پھر اس نے یہ نہیں مانا تو پھر کہا: ’’میں تین ہزار روپے کا اِنعام دُوں گا۔‘‘ پھر اس نے نہیں مانا، یعنی یہ نہیں مانا کہ اعلان کرے کہ: ’’میں نے رُجوع نہیں کیا۔‘‘ ’’میں چار ہزار روپے کا اِنعام دُوں گا۔‘‘ چار دفعہ اِتمامِ حجت کرنے کے بعد آپ نے لکھا کہ: ’’تم نے رُجوع اِلی الحق تو کیا۔ یعنی تم نے جو یہ نبی کریمa کے خلاف۔ جہاں یہ ہے ’’رُجوع اِلی الحق ___ جو بدزبانی کی تھی، تمہارے دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ میں ایک پاک اور مطہر ذات کے خلاف میں نے بات کی ہے اور خداتعالیٰ کے عذاب کی گرفت میں آجاؤں گا۔‘‘ یہ ہے رُجوع۔ یعنی اپنا نہیں بیچ میں دخل کوئی اور ’’چونکہ تم نے جو رُجوع کیا اس کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہو، اب میں تمہیں کہتا ہوں کہ تم عذاب میں مبتلا ہوجاؤگے۔‘‘ اور وہ بڑی لمبی تفصیل ہے اس عذاب کی جس میں وہ مبتلا ہوا اور اس جہان کو اس نے چھوڑا۔ تو اِنذاری پیش گوئی ہے، اِنذاری پیش گوئی ہے۔ رُجوع اِلی الحق اس نے کیا، وہ ٹلی۔ پھر اس نے، اس نے چھپانے کی کوشش کی، اور اِتمامِ حجت ہوا چار دفعہ۔ تب خداتعالیٰ کے عذاب نے اس کو پکڑا اور وہ ہر ایک کے اُوپر عیاں ہے، بہرحال یہ ہمارا وجوب ہے۔
1359تیسری پیش گوئی ہے محمدی بیگم کی۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، اس پر ذرا میں کچھ۔۔۔۔۔۔